بولڈر کا بہادر بُو : ایک امریکی کتے کا خاکہ

بولڈر کا بہادر بُو

بولڈر کا بہادر بُو : ایک امریکی کتے کا خاکہ

از، ڈاکٹر شیراز دستی

بولڈر کا بہادر بُو امریکہ کے نو کروڑ کتوں میں سے ایک  ہے۔ اس کے مالک میرے بڑے اچھے دوست ہیں۔ مسٹر بُو کی شخصیت سے متاثر ہو کر ہم نے اُن سے وعدہ کیا تھا کہ جب بھی فرصت ملی ہم اس مہان کتے کی شان میں ایک مضمون لکھیں گے۔ یہ مضمون بس اُسی وعدے کی تکمیل ہے۔ لہٰذا اسے بس ہماری مہذب دنیا کے ارتقاء کے اہیک عظیم الشان ثبوت پر ایک عام سا مضمون ہی سمجھا جائے۔

مسٹر بُو امریکہ کے مہنگے ترین شہر بولڈر کے ایک مہنگے ترین علاقے کے ایک مہنگے ترین گھر میں ہماری دنیا کا بہترین لائف سٹائل جی رہا ہے۔ بولڈر کے شُرَفاء میں بُو کی اتنی عزت ہے کہ آج تک کسی نے بھی اسے مسٹر بُو کے علاوہ کسی اور نام سے نہیں پکارا۔ مسٹر بُو کے طور طریقے من بھاونے ہیں، اور رویے مہذبانہ ہیں۔ ان کے شب و روز کا معمول قابلِ رَشک ہے۔

صبح ہوتی ہے تو مسٹر بُو کو چڑیاں پیار بھرے نغمے سنا کر جگاتی ہیں۔ کارٹون نیٹ ورک  کےچوہے ہنسا بہلا کر ناشتہ کراتے ہیں۔ مالکن شیمپو کر کے گرم پانی سے نہلاتی ہے۔ مالک اس کے فربہ بدن کو خشک کر کے کنگھی کرتا ہے۔ مالکوں کی عدم موجودگی میں “بے بی سٹر” یعنی “بچہ بہلانی”  آ کے اُسے عذابِ تنہائی سے بچاتی ہے۔

مسٹر بُو صُبح شام واک کرتا ہے۔ کھانا کھانے سے پہلے یوگا کرتا ہے۔ ہفتے میں تین دن سوئمنگ کرنے جاتا ہے۔ چار دن ڈاگ پارک جاتا ہے۔ ہر روز دو مرتبہ [صبح جاگنے کے بعد اور شام کو سوتے وقت] اپنے مالک کا بوسہ لیتا ہے۔ چار مرتبہ [صبح جاگنے کے بعد، مالک کے کام پر روانگی کے وقت، اس کی واپسی پر اور شام  کو سوتے وقت] اپنے مالک کو ہَگ (hug) کرتا ہے۔ مسٹر بُو ہفتے میں ایک مرتبہ ہائیکنگ کرتا ہے۔ 0.2 مرتبہ ہوائی سفر کرتا ہے۔ 0.04 مرتبہ کشتی رانی کرتا ہے۔ ہمیشہ گاڑی کی اگلی سیٹ پر بیٹھتا ہے۔ ہوٹل میں ٹھہرنا پڑے تو الگ کمرا بُک کراتا ہے۔

مسٹر بُو سترہ قسم کے کھیل کھیلتا ہے۔ جن میں سے نو کھیل ایسے ہیں جن میں اس کی ٹریننگ مکمل ہو چکی ہے، جب کہ چار کی کلاسیں ابھی چل رہی ہیں۔ اس کا پسندیدہ مشغلہ ہمسایوں کے کتے کے سامنے انہی کے درختوں سے گلہریاں شکار کرنا ہے۔

مرے دوست کا یہ بہادر کتا ہر ماہ ایک سو ڈالر پاکٹ مَنی خرچ کرتا  ہے۔ اس رقم کا ایک بڑا حصہ فلمیں دیکھنے اور پینٹنگز خریدنے پر خرچ ہوتا ہے۔ مسٹر بُو نے اب تک کوئی ایک ہزار فلمیں دیکھی ہیں۔ امریکہ کے تمام بڑے شہروں کے تمام بڑے میوزیم دیکھے ہوئے ہیں۔ یورپ کے سبھی مونومنٹ دیکھے ہیں۔ افریقہ میں سفاری ٹوؤرز لیے ہوئے ہیں۔ چین کے چوزے، اٹلی کے پیٹسے pizzas، فرانس کے کروئساں، دِلّی کے تِکے  کھائے ہوئے ہیں۔ اس کے کمرے میں آج کئی بڑے آرٹسٹوں کی ریپلیکا پینٹنگز کے علاوہ پکاسو کی ایک اوریجنل پینٹنگ بھی لگی ہوئی ہے جو اسے اس کی مالکن نے اس کی پچھلی سال گِرہ پر دی تھی۔

نازوں میں پلے مسٹر بُو نے ایک بار مجھ  سے اظہارِ دوستی کرتے ہوئے لاڈ ہی لاڈ میں مرے ہاتھ کو ہلکا سا کاٹ دیا۔ مجھے غصہ آیا تو میں نے بھی اُونچی  آواز میں دو، چار سرائیکی گالیاں دے دیں۔

تاہم مجھے اپنی قیامت خیز غلطی کا احساس تب ہوا جب مسٹر بُو اٹھ کر دور جا بیٹھے اور اس کے  مالک میرے پاس۔ انہوں نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انتہائی بے بسی سے کہا:

“By shouting at him, you’ve hurt Mr. Boo. He’s traumatized. I would have called police if you weren’t a friend and from another country. He’s brave. He will come out of it. But don’t repeat your mistake, please!

میں انہیں بتانا چاہتا تھا کہ مسٹر بُو کا مجھ سے دور جا بیٹھنا، اس کا مجھ سے ناراضی کا اظہار تھا۔ وہ ٹراما میں نہیں ہو سکتا کیوں کہ وہ ایک بہت ہی بہادر کتا ہے۔ میں نے اسے کبھی بھی پاکستانی کتوں کی طرح دم دبا کر چلتے نہیں دیکھا تھا۔ مسٹر بُو نہ ٹھنڈے پانی سے ڈرتا ہے، نہ گرم سے۔ نہ چلتی گاڑیوں کے پیچھے دوڑتا ہے نہ رکی ہوئی سے مرعوب ہوتا ہے۔ کبھی ذرا سا جو بادل گَرجے تو اُسے ایسی رعب والی ڈانٹ بھونکتا ہے کہ بادل کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں۔


مزید دیکھیے: 1۔ سیاسی سہ پہرنامہ یا خبرنامہ

بتا آرٹیفیشل انٹیلیجنس تیری رضا کیا ہے؟

بولڈر شہر اور تُم: آخر کہاں ہو تُم؟


اتفاق سے میرے ایک دوست اللہ دِتہ کے بیٹے کو بھی اُس کے گھر اور محلے والے پیار (یا شاید نفرت) سے “بُو” کہتے ہیں (محلے کے لڑکوں نے اس کے پست قد سے انسپائر ہو کر اب کچھ عرصے سے اسے “مٹر بُو” کہنا شروع کر دیا ہے)۔  یہ راجن پور کے ایک چھوٹے سے گاؤں کے ایک کچے کمرے کے گھر میں رہتا ہے۔ مٹر بُو ہفتے میں اوسطاً تین مرتبہ گٹر میں گرتا ہے۔ چھے مرتبہ بھوکا سوتا ہے۔ سترہ مرتبہ مٹی چباتے ہوئے پکڑا جاتا ہے۔ چار دن بغیر شلوار کے اور تین دن بغیر قمیص کے گزارتا ہے۔ ایک سو سترہ مرتبہ چیخ چیخ کر اور ایک سو انتالیس مرتبہ سسک سسک کر روتا ہے۔

ذرا سا بھی بادل گرج پڑے تو مٹر بُو کا مثانہ چھلک پڑتا ہے!