پیغام آفاقی کا ناول ’’مکان‘‘: سیاہ فام قوم کی اذیت ناک تاریخ

نسیم سید

مکان صرف ایک نا ول نہیں ہے ۔ یہ بچھڑی ہو ئی تہذہب ،گرزرے ہو ئے وقت کی کہانی بھی نہیں ہے ، یہ حسن و عشق کی ما جرا خیز داستان بھی نہیں ۔یہ جسم یا جنس کے خلوت افروز جذبات انگیز بھیدوں بھرے اوراق بھی نہیں ہیں ۔
پھر کیا ہے ؟
مکان کو پڑھ کے میں نے سو چا ۔ میرے اندر بہت سی آ وازیں اپنی اپنی بات کہہ رہی تھیں paigham-aafaqiمگر سب سے صا ف اور وا ضع ایک آواز تھی ۔
“دراصل یہ گلوب پر کھینچی ہو ئی لکیروں کو مٹا کے ایک مکا ن جیسا بنا دینے کے بعد اس میں مو جودہونٹ سی لینے والی خا موش غلام گر دشوں ۔سا زشی بیٹھکوں ، طا قت کی پر پیچ دستار سروں پر سجا ئے مکان کی ہر آہٹ پر نظر رکھنے اور اپنی مٹھی میں جکڑ لینے والےہما رے اطراف چلتے پھر تے کرداروں کی روداد ہے ۔اوراس روداد کے انہی کرداروں سے ٹکراجا نے والی صدیوں کی کم ہمت ، مجبورآواز کے یا وجود کے اپنے آ پ کو جوڑنے بٹورنے اٹھ کھڑے ہو نے اور منوانے کی داستان ہے ۔ “مکا ن ” دراصل ٹوٹی ہمتوں کو جوڑنے کا فکری وجدان بھی ہے اور تخلیقی منشور بھی اور وہ گر بھی جو راکھ میں دبکی آگ ڈھونڈنکا لتا ہے اور اسے پھر شعلے میں تبدیل کر دیتا ہے ۔ اس گرُ کو مصنف نے ” نیرا ” کا نام دیا ہے اور اس منشو ر کو ” مکا ن ” کا ۔

بلراج ورما ؔ صا حب نے گو ایک بہت گہری بات کی ایک جملہ میں ” مکان ” کے حوالے سے کہ”نیرا ایک لڑکی نہیں بلکہ ہندوستان کی وہ اقلیت ہے جو اکثریت سے بر سر پیکار ہے -” میں اس بات کو آ گے بڑھا نا چا ہونگی۔ میں سمجھتی ہو ں کہ مکا ن صرف ہندوستا ن کی
اقلیت کے اکثر یت سے بر سر پیکا ر ہو نے کی دا ستا ن نہیں ہے بلکہ دنیا کے ہر اس بظا ہر کمزور لیکن ـکسی چٹان سے ذیادہ مضبوط انسان کی دا ستا ن ہے جو طا قت سے بر سر پیکا ر ہے ۔ اگر اسکو دنیا کے نقشے پر کھینچی ہو ئ لکیروں کو مٹا کے دیکھا جا ئے تو یہ ایک بہت بڑے کینوس پربنا ئی ہو ئی تصویر ہے ۔

” مکا ن “صد یوں کی بو سیدہ ہڈ یوں میں اتر ے ہو ئے گھن کا کا وہ ایکسرے ہے جوصرف مر ض کی تشخیص نہیں کر تا بلکہ علا ج بھی بتا تا ہے ۔پیغام آ فا قی کی آ فا قی فکر سما ج اور سما جی شعور کی نبا ض ہے ۔ وہ ما ئو زے تنگ کے اس قول کی روشنا ئی میں اپنا قلم ڈبو کے فکر ی پیکر ترا شتے ہیں کہ ” ادیب و دانشور اس ہراول دستے کے سپا ہی ہیں جو قلم سے لڑتے ہیں “ان کا گہرا مشا ہدہ ، بے پناہ حسا سیت اور آفا قی شعور ہر بے ایمانی ، ہر چا لا کی ، ہر جبر کو آئینہ دکھا تا چلا جا تا ہے ۔مکا ن ؔ کی دا ستا ن کو اگر ھم بین الا قوامی تنا ظر میں دیکھیں تو اسےدس ہزار سال قبل کے شما لی امریکہ کے مقامی با شندوں کی اس دا ستا ن سے بھی جڑا پا ئیں گے جس میں اس زمیں یا اس مکا ن کے اصل وارثو ں کی مجبوری اور جدو جہدکی تفصیلا رقم ہیں کہ کس طر ح سفید النسل نے انہیں انکے گھروں سے بے دخل کر کے انکی زمیں یعنی ان کے مکا ن پر قبضہ کر لیا ۔ یہا ں میں پیغام آ فا قی کے نا ول کی ابتدا ئی سطور کو ٹ کرنا چا ہو نگی ” یہ ایک سنگین مسئلہ تھا نیرا کا مکا ن خطرے میں تھا ۔ اور اس کا کرا یہ دار اس سے اس کا یہ مکا ن چھین لینا چاہتا تھا “شما لی امریکہ کے حقیقی واثو ں کا مسئلہ بھی” سنگین ” تھا کہ با ہر سے آ نے والے انکی زمین انکا مکان چھین کے انہیں وہان سے بے دخل کر رہے تھے ۔ تا ریخ کے اورق گواہ ہیں کہ :
ABORIGINAL ARE THE PEOPLE WHO ALREADY LIVED IN AMERICA THROUGHT ALASKA AND CANADA ABOUT 10,000 YEARS AGO WHEN THE EUROPEANS ARRIVED
ان حقیقی با شندوں کے بارے میں اس دور کے معروف تنقید نگار ڈا ئمنڈ جیمز ؔ نے فیصلہ دیا تھا کہ ” یہ جنگلی کچھ ہی عر صہ میں اپنی مو ت آ پ مر جا ئیں گے ” لیکن وقت پر اپنی راس ڈال کے رکھنے والے ان قبا ئل کے ادیبو ں اور شا عروں نے پیغام آ فا قی کی نیرا ؔ کی طرح ہا ر ما ننے سے انکا ر کر دیا اورجبر کے سا منے صبر سے ڈٹے رہے ۔ اپنے ہو نے کی گواہی اور جدو جہد کے طویل دورانیہ کے بعد اس کے جشن کے وقت اس دو ر کا ایک شا عر( یا پیغام آ فاقی کی نیرا) ڈا ئمنڈ جیمز اور اس جیسے تما فیصلہ سنا نے والے جا بروں کی آ نکھو ں میں آ نکھیں ڈال کےطنز سے پو چھتا ہے” کیا تم وہی سفید فام نہیں ہو جس نے ہمیں ہمارے خیموں سے بے دخل کر دیا تھا

” اسی طر ح ” مکا ن ” اس سیا ہ فام قوم کے اپنے دور غلا می سے نجا ت کی اذیت نا ک تاریخ و تفصیل بھی ہے جنہوں نے خود کو برا بر کا انسا ن منوانے کی جدوجہدمیں برسہا برس گزار دئے لیکن ہا ر نہیں ما نی یہ وہ تھے جن کو اس کی اجا زت نہیں تھی کہ وہ کسی سفید النسل کے علا قےمیں قدم بھی رکھ سکیں ہے ۔ پیغام آ فا قی کے نا ول کا مر کزی کر دار نیرا ؔ ہو یا افریقن امریکن عورت روزا پارکس ؔ ( Rosa Parks) دونوں کی اپنے سچ کو منوا نے کی ضد اور اس سے جڑی بے مثال ذہنی اور جسمانی مشقت ، تھکن ، ٹو ٹنے اور ٹو ٹ ٹو ٹ کے جڑنے کی دا ستان تقریباً ایک ہے۔ روزا کا واقعہ 1955 کا ہے وہ ایک دن اپنے کام سے گھر واپسی کے وقت بس میں سوار ہو ئ ، بس میں آ گے کی دس سیٹوں پر سفید امریکن کے لئے مخصوص ہو تی تھیں اور افریقن امریکی پیچھے کی سیٹ پر بیٹھتے تھے ۔روزا حسب دستور پیچھے کی سیٹ پر بیٹھ گئی آ گے کی دس سیٹیں اسوقت تک بھر چکی تھیں تب اسی وقت ایک امریکن بس میں سوارہوا اور پچھلی سیٹ پر چا ر افریقی جو روزا سمیت بیٹھے تھے انہیں بس کے ڈرائیور نے سیٹ خالی کر نے کا حکم دیا ۔ سب اٹھ گئے لیکن روزا نے اٹھنے سے انکا ر کر دیا اس جرم پر روزا کو گرفتا ر کر لیا گیا اور اسے سزا سنا دی گئی روزا نے ہار نہیں ما نی اس نے ہا ئی کورٹ میں اپیل کر دی اور ‘”Jim Crow Laws” جیسے سخت قانوں کو چیلنج کردیا ۔ روزا کی بے مثال جنگ اور اس کی جرائت نے ایک تحریک کی شکل اختیار کر لی اس طویل جدو جہد کی شکل میں آج امریکہ کا وہ وائٹ ہا ئوس جس کے لئے یہ سو چنا بھی گنا ہ جیسا ہو گا کہ کو ئی سیاہ فام اس میں قدم رکھے گا اوبا ما کے قدم چوم رہا ہے ۔مجھے مکا ن کو پڑھتے ہوئے روزاؔ بے اختیار یا د آ گئی ۔ کیا نیرا ؔ وہی روح ، وہی اپنے سچ کا یقین وہی طا قت کے قوانین کے سا منے ڈٹ جا نے کی لا پرواہ ضد نہیں ؟ انسان کی اندر پو شیدہ ہمتوں اور صلا حیتوں کی لا زوال دا ستا نو ں کے ہر صفحے سے ” مکا ن ” کے اوراق جڑے ہو ئے ہیں ۔۔اس دور کی روزا ؔ اور” مکا ن” کی نیرا ؔ ایسے کردارہیں جو سیلا ب حیات کے 300x300منجدھار سے الجھتے ہی نہیں بلکہ طو فا نی مو جو ں پرراس ڈال کے انکا رخ مو ڑ دیتے ہیں ۔ مکان ؔ گزشتہ سے لیکے مو جو دہ دور تک کے انسانی مسا ئل اور انسے نبرد آ زما ئی کا وہ منشور ہے جو انسان کو زندگی کرنے کا ڈھنگ دیتا ہے ۔ پیغام آ فا قی ایک ایسی مضطرب روح کا نام ہے جو وقت کی ، صدا ئین کر تی ، بین کر تی ، جگا تی آ وازوں پر خود بھی لبیک کہتی ہے اور قلم کے سر فروشو ں کو بھی صدا دیتی اور جھنجھوڑتی ہے ۔ وہ جا نتے ہیں کہ اعلی تصور حیا ت اور سما جی نصب العین کے بغیر کو ئی قوم ترقی نہیں کر سکتی ۔ مکا ن ؔ کی دا ستان ایک تصویر کے دو رخ ہیں ۔ اس میں تمام وہ تصویریں بھی ان جا بروں کی ہیں جو کمزورں کے نرخرے پر
پا ئوں دھرے اسے اپنا حق سمجھ رہی ہیں اور اس ہمت کی تصویر بھی جو انہیں دھتکا رنااور سدھارنا جا نتی ہے یعنی یہ صرف ایک نا ول نہیں ہے بلکہ یہ نشان دہی ہے ان سنگین مسائل کی کہ سما ج کی منفی قدروں کو کن اسباب سے کن وجو ہا ت سے تقو یت ملتی ہے اور کیوں کو ئی معاشرہ نفسیاتی ، اخلا قی ، تہذیبی اور سیا سی اعتبا ر سے دیوالیہ ہو تا ہے اس سنگین مسئلہ کو کن اداروں کی سرپرستی سے احکا م ملا ہے ۔ پیغام آ فا قی نے انتہا ئ ذہا نت او سہو لت سے اسے کسی وعض کی شکل دینے کے بجا ئے کبھی نیرا کی خو د کلا می کی ذریعہ کبھی مختلف کر داروں کے مکا لموںٖ کے ذریعہ بڑے فلسفیا نہ اندا ز میں نہ صرف نشا ندھی کی ہے بلکہ اسے زور آ ور کی پیٹھ پر سواری کر نے کا نسخئہ کیمیا بھی بنا دیا ہے ۔ یہ آ ج کے بین الا قوامی اضطراب کے پس منظر میں پھیلتی اور سکڑ تی سرحدوں کی دستا ویز بھی ہے اور گر بھی وہ جو دینا کی ہر اقلیت کے لئے اتنا ہی اھم ہے جتنا ہندوستان کی اقلیت کے لئے ۔ یہی سبب ہے کہ میں نے اسکو گلو ب پر کھینچی ہو ئی لکیروں کو مٹا ایک بہت بڑے کینوس پر پھیلا دیکھا پوری دنیا کی وہ اقلیت جو اکثریت سے بر سر پیکا ر ہے اس کی کہا نی بہت قدیم بھی ہے اور مو جو دہ دور تک ہمارے اطراف مو جو د بھی ۔اس صورت حال کا پیغام آفاقی نے بغور مطا لعہ کیا ہے انکی قوت مشا ہدہ، تخلیقی بصیرت اور زندگی سے گہرا ربط وہی ہے جسے معروف تنقید نگار افسانہ نگار اور نا ول نگا ر جنا ب حمید شاہد نے ” اچھے فنکا ر کے تخلیقی حواص خمسہ ” قرار دیا ہے

” حمید شاہد کہتے ہیں ” ایک حقیقی فنکا ر اپنے با طن میں کا ئنا ت کی سی وسعت لئے ہو تا ہے ۔وہ لفظ کی بھیڑ میں مو جزن معنی کے طلسم اور بہتے دھا روں پر قدرت رکھتا ہے ۔اسے معلوم ہو تا ہے کہ لطف تا ثیر ، گہرائ، گیرائی اور تعبیر کی تکثیر ایک جملے کی تقدیر کیسے بن سکتے ہیں ۔ وہ زندگی کو دیکھتا ہے اور زندگی کے جو ہر کو بھی ۔ وہ کا ئنا ت پر نظر رکھتا ہے اور ابدیت کے کنگروں کو چھونے کا بھی حوصلہ مند ہو تا ہے ۔ وہ اپنے اندر الفاظ، سو چوں ، اندیشوں ، جذبوں کو سنبھا ل کر رکھنے اور اپنے تخلیقی وجود کا حصہ بنا لینے کی للک اور قرینہ رکھتا ہے” پیغام آ فا قی کی تخلیق مکان ؔ –بھی اپنے لطف تا ثیر ،گہرائی ، گیرائ ، فکری آفا قیت اور اظہار کی ندرت میں ان کے تخلیقی حواص ِ خمسہ کی رعنا ئ کی مظہر ہے ۔پیغام آ فا قی نے اپنے نا ول کو ” مکا ن ” کا نام بہت سو چ سمجھ کے دیا ۔ہر فرد کی زندگی ایک مکا ن جیسی ہے اور کو ئ نہ کو ئی سنگیں مسئلہ اس مکا ن جیسی زندگی کو گھر کر نے تک کسی کما ر ؔ ( نیرا ؔ کا کرایہ دار جو نیرا کو اس کے گھر سے بے دخل کرنے کے لئے ہر حد سے گزرجا تا ہے ) کا سامنا ہے ۔ یہ نا ول مکا ن جیسی زندگی کو گھر کر نے کے ہنر بتا تا ہے اس کو پڑھتے ہو ئے اپنے اندر مسمار ہو تا وجود ، ٹو ٹتی ہمتیں ، سیلن کھا تی سو چیں کسی نئ جو ن میں بدلتی جا تی ہیں اور اپنے اندر ایک نئی کا ئنا ت کی دھمک محسوس کر تی ہیں ۔

ا س نئی کا ئنا ت کا وجود زندگی کر نے کے اس فلسفے کا مر ہون منت ہے جو ” مکان ” کا عطا کر دہ ہے ۔”تم اس کے قدمون تلے آ ئو تو یہ تمہیں کچل دے گی، تم اس کی پیٹھ پر بیٹھ جا ئو تو زندگی تم کو بلندیوں کی سیر کرائے گی “زندگی میں ہم سے قدم قدم پر ٹکرا تے تما م کے تمام کر دار اس نا ول میں اپنی اصل شنا خت اور چہرے کے ساتھ مو جو د ہیں ۔ان کرداروں کی شخصیت کسی تصوراتی دنیا کی نہیں ہے بلکہ ہماری حقیقی دنیا کی ہے ۔ نا ول کا مر کزی کردار ایک لڑکی نیرا ؔؔہے ۔پیغام آ فا قی نے اس کی کو ئی ضرورت نہیں محسوس کی کہ نیرا کے حسن کی تفصیلا ت میں جا کے قاری کو متوجہ کر تے بلکہ انہوں نے اس پہلو سے بالکل پہلو تہی کی اور اہمیت اس لڑکی کے وجود میں مو جود اس چنگاری کو دی جو مخا لف ہو ا ئوں کے جھکڑ کے سا منے دھیرے دھیرے شعلہ بن کے انکے اطراف پھیل جا تی ہے ۔نا ول کے مر کزی کردار کے لئے ایک لڑکی کا انتخا ب بھی یقینا ً مصنف کا سو چا سمجھا فیصلہ ہے ۔ عورت بر سہا برس سے ” کمزور” کے لیبل کے تحت زندگی گزار رہی ہے ۔ چتا پر زندہ جل جا نے والی ، قرآن سے بیاہ دی جا نے والی ، تا وان میں دے دی جانے والی ۔ نن بنا کے گر جا ئو ں میں حنو ط کر دی جا نے لا تعداد عورتیں جو ذاتی اور سما جی حقو ق سے طر ح طر ح سے دھتکا ری جا تی رہی ہیں پیغام آ فا قی اس عورت کے تشخص کو پہچا نتے بھی ہیں اور اسکی پہچا ن بہت بھر پور طریقے سے دنیا سے بھی کرا تے ہیں وہ اپنی تا بنا ک فکر کو نیرا کی سو چ میں ڈھا ل کے عورت کے وجود کو اپنی شناخت کا وجدان عطا کر تے ہیں ۔
” اس کا کو ئی سر پرست نہیں ہے ، کوئی اس کی حفا ظت کرنے والا ، اس کے لئے سو ‘‘چنے والا نہیں ہے

” سو چنے کے دوران اس نے محسوس کیا کہ اس کے دما غ کے ریشے از سر نو مرتب ہو رہے ہیں جیسے کو ئ اس سے ہو لے ہو لے کہہ رہا ہو ۔ یہاں قدم قدم پر رہزن گھات میں بیٹھے ہیں ۔یہاں معا ہدہ بنا نے والے ایک ایک لفظ کے ہزاروں ہزاروں روپے لیتے ہیں ، اس شہر میں تم بھروسو ں کی سڑک پر چل رہی ہو ”
نیرا ؔ کو جن چا لا کیوں کا سامنا ہے مردانے معاشرے میں مصنف نے ان کو ننگا کرنے میں کو ئی رعا یت نہیں بر تی بلکہ مردانہ معاشرے کی گھنا ئونی سا زشوں کی وکا لت وہ ایک مرد ( پولیس انسپکٹر نیّر ) سے ہی کرواتے ہیں ۔
“آ پ دیکھئے تو ۔۔ رفتہ رفتہ تھا نے اور کو رٹ بھگا تے بھگا تے اور قدم قدم پر اسمارٹ نس
کے استعمال کا مو قع دیتے دیتے اس کے پرس کے پیسے او ر آ نکھوںکی جھجک سب چھین لوں گا اور پھر وہ دن آ ئیں گے کہ ہماری ہر چو ٹ کو وہ اپنی دونوں ٹا نگوں کے بیچ روکے گی۔اسےپتہ بھی نہیں چلے گا کہ وہ وہاں جا رہی ہے اور ان لو گوں سے مدد لے رہی ہے جہاں ھم چا ہتے ہیں ۔ھم ایک طرف سے اسے دبا ئیں گے اور دوسری طرف سے اسے پچکا ریں گےاور سہارا دینگے وہ ہماری آ غوش میں ہمیں سے پوری یکسو ئی اور دلجوئ سے جنگ میں مشغول نظر آ ئے گی اوراس خو ش گما نی میں مبتلا رہے گی کہ وہ بہت بہا دری سے لڑ رہی ہے ۔اور پھر ھم اس کو سرا ہتے ہو ئے اس کو مقدمہ لڑنے کے لئے سکے بھی دینگے اور دوسروں سے بھی دلوائیں گے ۔تب اسے پتہ چلے گا کہ وہ جنگ لڑتے لڑتے کہاں پہنچ چکی ہے ۔اور پھر وہ خاموشی سے ایکدن یہ محسوس کر لے گی کہ یہ جنگ اس کا پیشہ بن چکا ہے ۔ اس پیشے کی دنیا میں وہ مشہور و مقبول ہو چکی ہے ۔وہ جان جا ئے گی کہ اب یہ جنگ اس کو اسوقت تک لڑنی ہے جب تک اس کے جسم میں کشش کی ایک کرن بھی باقی ہے ”

ایک ایک جملے میں ہزارہزار چا لا کیوں کو سمیٹتے ہوئے کس طرح کو زے میں گویا دریا دکھا دیا ہے مصنف نے ۔ مجھے بے اختیار کچھ یاد آ گیا ۔ ٹو رنٹو کے ایک شا عر نے ایک نیرا جیسی یہاں کے شا عرہ کے لئے ایک بیان دیا تھا ” فلا ں ( ایک بڑے شا عر ) کہہ رہے تھے مجھ سے کہ سا لی کو اپنی جانگ کے نیچے لے آئو ۔ دیکھو کیسے اپنی ساری اکڑ بھول کے تمہارے اشا روں پر نا چتی ہے ” تجربات عوتوں کے ہیں ان عورتوں کے جو سوچنے بولنے اور اپنے ہو نے کا حق اپنے نام محفوظ رکھتی ہیں اور کسی زورآ ور کے جا ل اور جھا نسے میں نہیں آ تیں ۔ لیکن پیغام آ فا قی وہ مصنف ہیں جو مرد ہو تے ہو ئے بھی ان بیانات کو رقم کر تے ہوئے اپنے قلم کو لکنت نہیں کھا نے دیتے ۔جو خو د پو لیس کے محکمہ میں ایک اھم عہدے پر فا ئز ہو نے کے با وجود اس محکمے کی بد عنوانیو ں پر انگلی دھردھر کے ان کی تفصیلا ت دکھا تے ہیں ۔پیغام آ فاقی کا تخلیقی وجددان
4- Paigham Aafaqiجھو ٹ کو جھوٹ ، بد عنوانی کو بد عنونی خرد برد کو خرد برد کہنے کا فو لا دی حو صلہ رکھتا ہے انکا قلم ہر سچ کو بلا کسی تفریق کےتصویر کرتا چلا جا تا ہے ۔ ہمارا سما جی نظا م دو طبقات میں بٹا ہوا ہے ۔ ایک طبقہ وہ ہے جو لو ٹ رہا ہے اور دوسرا وہ جو لٹ رہا ہے ۔آ ج پو ری نو ع انسانی سرمایہ دارون اور محنت کشوں ، آجروں اور اجیروں ، مظلو موں اور ظا لموں ، کمزوروں اور
طا قت وروں میں تقسیم ہو چکی ہے ۔طا قت وروں کےبچھا ئے ہو ئے جال اور سجا ئے ہو ئے یہ استحصال کے منا ظر سا نپ کی طرح اپنا پھن اٹھا ئے کھڑے ہیں ہمارے اطراف ۔ زندگی کی مادّی ،روحانی اور تخلیقی صلا حیتوں کے انمول خزانے پر بیٹھے یہ سا نپوں کے آلہ کاراور مددگار ہر مذہب کے ” ملا ” سیا سی رہنما اور انکے دستر خوان کے نمک حلا ل ہیں ۔اس وقت پوری دنیا کو کن مشکلا ت کا سا منا ہے وہ جا نتے ہیں اور یہ بھی جا نتے ہیں کہ خو د کو اپنا پر سہ دینے کے بجا ئے کچھ کرنا ہے ۔ اس جان کا ری کی بے چینی اور اس بے چینی کا حل ان کا نا ول ” مکان ” ہے ۔

پیغام آ فاقی جا نتے ہیں کہ ایسے میں فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے ہر ادیب ہر شا عر اور ہر فنکا ر کو بیک وقت کئی محا ذوں پر اپنی جنگ لڑنی ہے اور اپنے فن کو بلا تفریق وامتیاز سچ کا فرض ادا کرنے جرائت عطا کر نی ہے ۔حقیقی مسا ئل کی نشا ندہی کر نی ہے ۔اس حشر انگیز اور اضطرابی دور میں کو ئی تخلیق کار اپنی تخلیقی ذمہ داریوں کو کیسے پورا کرے ۔ لہذا وہ ” مکان ” کی فکر کے وسیع تر افق کے پس منظر میں مسائل کی نشاندھی بھی کر تے ہیں اور مر کزی کردار نیرا ؔ کے ذریعہ ایک عام انسان کی ہمت کو مہمیز بھی ۔ پیغام آ فا قی نے نا ول کے مختلف کرد اروں کے مکا لموں کے ذریعہ دکھا یا ہے کہ کوئی ادیب کس طر ح ادب کا فلسفیانہ منطقیانہ اوروہ سما جی تصور با قی رکھے جس میں ہم ارسطو کے منطق کی گونج سنتے ہیں اور جسے کے ھم ادیب تر جمان بھی ہیں اور نقیب بھی ۔ مکا نؔ اعلی تصور حیات اور سما جی نصب العین کا خا کہ بھی ہے اور دستو ر بھی یہ سما ج کی منفی قدروں کو بڑی کا ری ضرب لگا تا ہے اور وہ تمام کردار جو ان منفی قدروں کی پشت پنا ہی کر تے ہیں ایک ایک کر کے بے نقاب کرتا چلا جا تا ۔جس کی ایک بھر پور مثال الو ک ؔ کا کر دار ہے ۔

ڈاکٹر مو لا بخش ؔ نے نا ول کے پیش لفظ میں ا لو ک ؔ کو پیغام آ فا قی کا ہمزاد قرار دیا ہے ۔ اور بجا طور پر قرار دیا ہے کہ ا لوک ؔکی سو چ او ر اس کے کر دار میں پیغام آ فا قی کی اپنی ذات اور ا نکے عہدے کی جھلکیا ں صا ف دکھا ئی دیتی ہیں لہذا وہ لا شعوری طور پر بھی اس کو انسا نی فطرت سے ما ورا کو ئی تصوراتی کردار بنا کے پیش کر سکتے تھے ۔ لیکن انہوں نے اس کر دار کے کمزور ( یا فطری کہہ لہجئے ) پہلو سے صرف نظر نہیں کیا اور پورا سچ لکھنے سے اپنے قلم کو نہیں روکا ۔

پیغا م آ فاقی کی تخلیقی بصیرت ، کر دار شنا سی ، مجموعی حسیت اور زندگی کو ذاتی نقطئہ نظر کےعلا وہ کا ئنا تی نقطئہ نظر سے دیکھنے کی صلا حیت نے ” مکان ” میں انسان کو انسان سے متعارف کرایا ہے اس انسان کو جو بے پنا ہ صلا حیتوں کا ما لک ہے وہ انسان نیرا کے روپ میں اعلان کرتا ہے

” میں حقیقت کو تسلیم کر نے نہیں حقیقت کو بدلنے نکلی ہوں ”
ناول کے طویل مکالمے اورنیرا کی طویل خود کلا می ممکن ہے کچھ صاحبان نقد کے لئے قابل قبول نہ ہوں لیکن اگر ایک بار ان کی گہرائ میں اتر کے ان کے سا تھ جم کے بیٹھ جائے قا ری تو فکر کے نئے دریچے کھلنے لگتے ہیں ۔ دراصل اس نا ول کو پڑھتے ہو ئے اندازہ ہو تا ہے کہ پیغام آ فاقی اس فکر کے قا ئل ہیں کہ کو ئ رائے رکھنے کا مطلب یہ ہےکہ اسے پوری قوت سے پیش کردیا جا ئے ۔ انکی وہ رائے یا وہ عقیدہ کیا ہے جو وہ مکان کے صفحات میں پوری سچا ئ سے پیش کررہے ہیں ؟

وہ رائے یا عقیدہ یہ ہے کہ وہ انسانوں کے درمیان ظالم اور مظلوم کے علا وہ کسی تفریق کو نہیں ما نتے ۔ ظالم کے خوف کو وہ مظلوم کی جھو ٹی سی ما چس کی ڈبیا سے کیسا تیلی تیلی جلا کے راکھ کر تے ہیں دیکھئے ۔ نیرا ایک ما چس کی ایک ڈبیا خریدتی ہے ایک پارک میں ایک اونچی چٹان کے نیچے ایک چھو ٹے سے پتھر پر بیٹھ جا تی ہے ۔ وہ ما چس کی ڈبیا کھولتی ہے اور ایک ایک تیلی کر کے جلا تی ہے اس خوف کے نام کہ اگر میں نے کمار سے جھگڑا کیا تو میری پڑھا ئی خراب ہو جا ئے گی آج اس خوف کو جلا کے فنا کررہی ہوں اس خوف کے نام کہ لو گ مجھے تھانے اور کچہری جا تے دیکھ کے کیا کہیں گے ۔ تیسری ، چو تھی پا نچویں تیلی جلا تی ہے اور اپنے اندر کے خوف کے جلا جلا کے پھینکتی جا تی ہے ” پو لیس اسٹیشن سے لگی امیدوں کے نام ” کمار کے نام ، راکیش کے نام ، غنڈوں کے نام غرض وہ ہر خوف کو ما چس کی چند تیلیوں سے جلا کے راکھ کر دیتی ہے ۔ ان جلتی ہوئ تیلیوں میں اس نے آ خری تیلی جلا تے ہوئے کہا ” یہ آ خری تیلی——– ان تیلیوں کے نام — کہ میں رشتوں کے اس شمشان گھاٹ تک کو یاد نہیں رکھنا چا ہتی ” اس نا ول کو پڑھتے ہوئے میں نیرا کی اسی ما چس کی تیلی سے ایک شمع روشن کرنا چا ہون گی ” مکان ” کے نام اور پیغام آ فا قی کے تخلیق منشور اور فکر ی وجدان کے نام “

1 Comment

  1. محترمہ نسیم سید صاحبہ
    السلام علیکم
    اگر اپ پیغام افاقی پر لکھا ہوا اپنا مضمون مجھے ارسال کر دیں تو میں ممنوں ہونگا
    ڈاکٹر خان اصف

Comments are closed.