شما لی امر یکہ کے مقا می با شندوں کی شا عری

(نسیم سید)

شما لی امریکہ کے مقا می باشندوں کے بارے میں سفید النسل اکا بریں و مقتد ریں کا فیصلہ تھا کہ یہ غیر مہذ ب غیر ترقّی یا فتہ نسل دھیرے دھیرے اپنی موت آ پ مر جا ئے گی۔ انکا خیا ل تھا کہ انکی صلا حیت جا نوروںکی ذہنی صلا حیتوں کی
طر ح محدود ہے۔انہیں صرف سد ھا یا جا سکتا ہے۔لیکن ان سے ترقّی یا فتہ معا شرے کے قدم سے قدم ملا کے چلنے کی توقّع نہیں کی جا سکتی۔ اس فیصلہ کی گو نج انیسویں صدی کے وسط تک سنی جا سکتی ہے۔لہذا DIAMOND JENNESS
نے1930 میں اپنی کتا بINDIANS OF CANADA میں لکھا
DOUTLESS ALL THE TRIBES WILL DISAPPEAR, SOME WILL
ENDURE ONLY A FEW YEARS LONGER, OTHRS, LIKE ESKIMO , MAY LAST SEVERAL CENTURIES
ڈائمنڈ جینزکا شما ر اس دور کے معروف مفکریں میں ہو تا تھا۔کچھ اس کی پیشن گو ئی ، اور کچھ سفید النسل مفکّریں کا فطر ی احسا سِ بر تری کہ ایک پو را معا شرہ جو اپنی روا یا ت کی گہری جڑو ں کے سا تھ مو جو د تھاادبی ،سیا سی اور معا شر تی منظر نا مہ سے غا ئب ہو گیا ۔اگر اس دور کے ادیبو ں، مورخو ں ، شا عروں نے انکا کہیں ذکر کیا بھی ہے تو نیچ ،یا بیچا رے غر یب انڈ ین ،جا ہل ،جنگلی کی اصطلا ح کے سا تھ۔لہذا انڈ ین نے بھی ان القاب کو اپنا مقّدر جا ن کسی حد تک انہیں قبو ل کر لیا۔لیکن یہ با لکل ایسا ہی تھا جیسے سرد ہوا کے تھپیڑ ے کھا کھا کے درخت بظا ہر اپنی تما م ہر یا لی سے محر و م ہو جا تے ہیں لیکن زمیں کے اندر ددور دور تک پھیلی ہوئی انکی جڑ یںانہیں مر نے نہیں دیتیںاور اندر سے انہیں سینچتی رہتی ہیں، اگر زمیں میں پھیلی ہو ئی جڑ یں کمزور نہ ہوں تو زرا سا موا فق مو سم پاتے ہی یہی در خت ہرے بھرے اور سر سبز و شا دا ب نظر آنے لگتے ہیں۔ لہذا انیسویں صدی کے وسط تک سیا ست دا نو ں کو یہ اندا زہ ہو گیا کہ مقا می قبا ئل اپنی مو ت آپ مرنے کے بجا ئے اپنی تما م تر رو حا نی ،فکر ی اور مذ ہبی روا یا ت کے سا تھ جو ں کے توں نہ صر ف مو جو د ہیں بلکہ اپنے زندہ ہو نے کا احسا س بھی دلا رہے ہیں تو از راہِ ہمدر دی انہیں مہذّب بنا نے کا فیصلہ کیا اسطرح ا نکی زمینو ں پر ہر طرف اپنے جھنڈے گا ڑ نے کے بعد فا تحین نے مقا می با شندوں کو بقو ل انکے انسا ں بنا نے کی جدو جہد شروع
کی اور مذہبی ادا رے با قا عد ہ طو ر پر حر کت میں آگئے کے عمل سے گزر تے ہوئے گزرے۔ اس کرب کا اندا زہ اس تحریر سے کر ئے۔ ” اس کا ئنا ت کے اصل انسا ن وہ ہیں جنہیں اپنی  ذا ت پر اعتما د ہے۔وہ جنہو ن نے اس منجمد زمین کو اپنی مو جو دگی سے پگھلا کے سر سبز فصلیں اگا ئیں۔برف کے تو دوں کوتو ڑ کے اپنے لکڑی کے نیزو ں سے نیلے پانی کو شکا ر کیا۔ہما رے وہ جد عظیم تھے ۔ لیکن ہم اور ہما رے جد ان کے لئے حقیر ہین جو شا ئد ہما ری زمین پر کسی اورسیا رے سے آئے ہیں۔شا ئد وہ خو د کو چا ند یا سورج کی مخلوق سمجھتے ہیں اور ہمیں ہما رے ہی گھر وں میں اجنبی بنا رہےہیں۔

وہ انہیں کولٹن کہتے تھے جس کے معنے ہین گھنی بھئوں والے Qallunaat
کلونائ زیشن کے بد تریں اثرات اور اس کی تفصیلا ت کی ایک مکمل  دستا ویز ہے ان کا ادب، شا عری اور تقا ریز کا جا ئزہ۔اس جبر سے مقا می با شندے کیسے گزرے اس کی تکالیف ، دکھ ، درد ، بے گھری سب کچھ انکی شا عری میں پوری شدت اور نہایت ہنر مندی سے رقم ہوا ہے ۔ اس دور کی تکلیف دہ حیرت کا اظہا رانہو ں نے جگہ جگہ اپنی شاعری ،خطو ط اور مضا میں کیا ہے

 

Are you one of those white men who forbid the Eskimos to enter thier tent

سفید آ د می
کیا تم ان ہی میں سے ایک نہیں ہو
جس نے اسکیمو ز پر پا بندی لگا دی کہ
وہ اپنے خیمو ں میں نہ جا ئیں
ایک اور نظم میں ایسے ہی احسا سا ت کا اظہا ر بڑی خو بصو ر تی سے کر تی ہے۔
” زمین پیرو ں سے کھینچ کے کہ رہے خو شحا ل کر رہے ہیں”
جنو ب کی سمت سے
شما لی حدو ں سے
چا رو ں طرف سے
اس طر ح دند نا تے ہو ئے
ہما رے گھر و ں میں
کھیتو ں میں
بستیو ں میںوہ گھس رہے ہیں
کہ جیسے سب انکی ملکیّت ہے
فضا ئو ں میںوحشی چیخ بو ٹو ں کی
ان کے
ہر سمت بس گئی ہے
ہوا ئو ں میں ان کی نخو تو ںکی
بسا ند سی اک رچی ہو ئی ہے
وہ دند نا تے ہوئے ہما رے گھرو ن میں گھس کے
ہمیں ہما رے گھرو ں سے بے دخل کر رہے ہیں
زمیں مقدّس ہے
ماں ہے
پا لا ہے اس نے ہم کو
ہما ری ما ں کے بدن کو بوٹوں سے اپنے پا ما ل کر رہے ہیں
زمیں پیروں سے کھینچ کے کہہ رہے ہیں
خو شحا ل کر رہے ہیں!!
احسا سا ت کا ایسا بھر پو ر اظہا ر ۔فطرت سے ایسی ہم آ ہنگی جسکا اظہا ر انکے
Oral liturature, یعنیsongs, chants,and speeches
میں جگہ جگہ ہوا ہے
حیرا ںکر تاہے کہ قبل تا ریخ کی یہ قو م ذہا نت سے کیسی ما لا ما ل تھی۔اس کی وجہ شا ئد یہ ہو کہ اسکیموز کی ز با ں میں شا عری کر نے کے معنے میں جو الفا ظ استعما ل ہو ئے ہیں اسکے معنے سا نس لینا یازند گی کی سا نسیں ہے۔ایک اسکیمو شا عر اسی لئے شا ئد کہتا ہے
Let me breath of it
اور پھر کہتا ہے ۔۔۔میری زبا ن شا عری کے لعا ب سے تر ہے،اگر یہ لعا بِ دہن نہ ہو تو
میر ی ز با ں خشک ہو کے چٹخ جا ئے۔
شا عر Orpingali
اپنی ایک نظم میں شا عری کی تعر یف کر تے ہوئے کہتا ہے۔
میرے گیت میری سا نسیں ہیں
جیسے میرے لئے سا نس لینا ضر و سے ہے
ایسے ہی ان گیتو ں کی تخلیق
میری مجبو ری ہے

جہا ں زمیں ہمیشہ برف سے ڈ ھکی رہتی ہو،ہوا ئوں کا لہجہ ایسا سرد ہو۔زندہ رہنے کے لئے اور پیٹ کی ُآگ بجھا نے کے شد ید مشقّت کر نی پڑ تی ہووہا ں آ با د قوم اظہا ر کی دو لت سےایسی ما لا مال ہو گی ان گیتوں کو پڑھ کے حیرا نی ہو تی ہے۔ طرح طرح کے درختوں،پھولو ں اور لہلہا تی فصلو ں سے سجی سجا ئی زمیں کے نظا رو ں سے گزر تے ہو ئے اگر ہم قطب شما لی کے با رے میں سو چیں بھی تودل کی رگیں منجمد ہو نے لگتی ہیں اور خیا ل آ تا ہے کہ وہا ں رہنے وا لے کیسی بیزا ر زند گی گزا ر تے ہو ن گے۔لیکن فطر ت کے حسن کے متو ا لے اسکیمو ز کے احسا سا ت قد ر تی نظا رو ں سے مسحو ر ہیں۔انہیں اپنے احسا سا ت کے بیا ں پہ نہ صرف یہ کہ کما ل حا صل ہے بلکہ اس بیا ں میں بڑ ی گہرائی ہے،ایک نظم دیکھئے۔

ستا رو ں کا گیت

رو شنی کے سر میں ہم
اپنے گیت گا تے ہیں
آ گ کے پرندے ہیں
آسما ں کی و سعت میں
ہم اڑا ن بھر تے ہیں
رو شنی کے سر میں ہم
اپنے گیت گا تے ہیں
رو شنی کے لہجے میں
ہم صدا ئیں دیتے ہیں
رو ح کے سفر کو ہم
را ستے بنا تے ہیں
اور بھٹکنے والو ں کو
را ستہ د کھا تے ہیں
آگ کے پرندے ہیں
آسما ں کی وسعت میں

ہم اڑا ں بھر تے ہیں۔۔۔۔۔رو شنی کے سر میں ہم اپنے گیت کا تے ہیں
اس کیمو ز کے لئے ابInuitsکی اصطلا ح مستعمل ہے کیونکہ وہ سکیمو لفظ کو اپنی توہیں خیال کرتے ہیں ۔ لیکن مور خیں نے جب اس دور کے حوا لے سے با ت کی ہے جس دور کے انکے گیت ہم تک پہنچے ہیں تو شا ئد اس دور کے
سیا ق وسبا ق کے حوا لے سے انہیں اسکیمو ز ہی لکھا ہے ۔اس لئے انکی شا عری کا تعا رف کرا تے ہو ئے میں نے بھی اکثر اسکیمو لکھا ہے۔۔۔اسکیمو کی شا عری کو سمجھنے کے لئے اس ما حول کا جا ئزہ ضرو ری ہے جس میں انہو ں نے زندگی گزا ری اور گزا ر رہے ہیں۔برف سے ڈھکی ہوئی زمیں کو لکڑ ی کے نیز و ںسے تو ڑ کے مچھلیا ں پکڑ نا ۔ شکا ر کی تلا ش میں ما رے ما رے پھر نا جا نو رو ں کی کھا ل سے لبا س تیا ر کر نا سب کچھ انتہائ مشقت طلب تھا ۔ لیکن ” ہے مشق سخن جا ری چکی کی مشقت بھی ” لگتا ہے جیسے ان ہی کے لئے کہا گیا تھا ۔ سکیموز کے حوالے سے معا لعہ کر تے ہو ئے میں نے جا نا کہ انکی عو رتیں گھنٹو ں کھا ل کے کنا رو ں کو اپنے دا نتو ں سے چبا تی تھیں تا کہ انہیں پتلا کر کے سینے کے قا بل بنا سکیں۔انکا واسطہ مشینو ں سے نہیں بلکہ فطرت سے رہا۔انکی تما متر زندگی فطر ت کی ہمر ہی میںگزر ی۔ برف ، ہوا، پھول،تتلیا ں،با رش، مچھلیا ں ، بارہ سنگھے غر ض انکا چو بیس گھنٹہ کا انہی کا سا تھ رہا۔ وہ جا نورو ن کی کھا ل سے بدن ڈھا نکتے ہیں۔اپنی بھو ک مٹا نے کے لئے انکا شکا ر کر تے ہیںلیکن آ ج کے تر قی یا فتہ انسا ں سے وہ اس لحا ظ سے مختلف دکھا ئی دیتے ہیں کہ وہ اپنے سے کمز و ر جا نور کو مار کے اسکا سر احسا س تفخر کےطور پر اپنے ڈرا ئنگ رو م میں نہیں لٹکا تے بلکہ وہ اپنی شاعر ی میں جا نورو ں کے ممنو ن نظر آتے ہیں ۔ انکا عقیدہ ہے کہ جا نوراپنی زندگی کی قر با نی دے کے انسا ں کو زند گی بخشتے ہیں ۔ وہ اپنی مذ ہبی رسو م میں جا نورو ں کا رو پ دھا ر

کے انہیں خرا جِ عقیدت پتش کر تے نظر آ تے ہیں۔ INUITSجن نظموں کا میں نے ترجمہ کیا ہے ۔یہ نظمیں انکی ان گیتو ں پر منحصر ہے جو سینہ بہ سینہ ، نسل در نسل منتقل ہو تے رہے۔جیسا کہ میں نے اوپر حوا لہ دیا تھا کہ انکے لئے شا عری ایسی ہی ضرو ری ہے جیسے سا نس لینا۔اسکیمو ز کی شا عری کو پڑھ کے دو با توں کا بڑی شدّت سے احسا س ہو تا ہے۔ایک تو یہ کہ زندگی کے تما م تر احسا سا ت ، غصّہ، حیرا نی، محبّت، ہجر، وصل،عورت مردکے جسما نی تعلقا ت،غرض تما م تر جذبا ت کی تر جما نی پر انہیں وہی کما ل حا صل ہے اپنی تحریرو ں اور شا عری میںجیسی اظہار کی گر فت آجکی تر قی یا فتہ زبا نو ں کے دو ر میں نظر آ تی ہے ۔ یو ر پی اقوا م کی آ مد پر اپنی ہی زمینو ن ، اپنے ہی خیمو ں سے بے دخلی کا تجر بہ اور پھر اس تجر بہ سے وا بستہ احسا سا ت کا اظہا رایسا ہی بھر پو ر ہے جیسا بو ز نیہ ، فلسطین، یا عراق کے کسی شا عر یا ادیب کے یہا ں ہمیں آج نظرآتا ہے۔دو سرااحسا س یہ کہ شا عری احسا سا ت کے اظہا ر کا وہ متا ئثر کن وسیلہ اور وہ انتہا ئی پا ور فل ٹول ہے جسکو ہر دور کے انساں میں مقبو لیت اور اہمت حا صل رہی ہے۔قدیم تریںتہذ یبو ں سو میر ، اکا دی کی تحریروں کے جو خزا نے در یا فت ہوئے ہین ان مین بھی شا عری نثری نظم کی صو رت میں مو جو د ہے۔شا عری اور مو سیقی انسا نی فطرت کا ایک اہم جز ہیںیہ اور بات کہ سومیر کی شا عری پر ٹو ٹے پھوٹے الفا ظ میں احسا سا ت و تجر بات کی تصویر کشی کرنے کی کو شش کی گئ ہے لیکن ر اسکیمو ز کی شاعری ، شا عری کی تما م شرا ئط پر پو ری اتر تی ہے ۔میں نے ان کے خیا ل کو اپنے الفا ظ دئے ہیں تا کہ خیا ل کی روح نہ مر نے پا ئے جیسا کہ لفظ بہ لفظ تر جمہ کر نے میں اکثر ہو تا ہے یہ خیا ل دیکھئے۔

روح
۔۔۔۔۔۔۔۔
میری سا تھی
میرے بکھرے دانے چن کے
کتنے پیا ر سے
دانہ دانہ پھر سے
مجھے پرو تی ہے
میرے بدن کے دکھ سکھ سارے
اپنے اوپر ڈھو تی ہے
آنسو میرے ہو تے ہیں
لیکن میری سا تھی
میرے سارے آنسو یہ روتی ہے

یہ تما م گیت کسی ایک فرد کے نا م سے منظرِ عا م پر نہیں آئے بلکہ مختلف قبا ئل کے نا م سے مو سو م ہیں۔
یہ دو گیتBlack Foot کے ہیں ایک اور خیا ل صر ف دو لا ئن میں کسقدر خو بصو ر تی سے بیا ں ہوا ہے۔
اس کا ئنا ت میں اب کو ئی جگہ محفو ظ نہیں
سوا ئے تیرے آ سما ن کے
ان نظمو ں کو پڑ ھتے ہو ئے میںجب ایک نظم ’’اس لڑ کی کا گیت جو پتّھر میں تبد یل ہو گئی تک پہنچی تو اس کی تہہ دار معنو یت نے مجھے حیرا ن کر دیا کہ جس نسا ئ شعور کے ارتقا کو ہم دوسری جنگ عظیم کے بعد پوسٹ ما ڈرن تحریک کے تحت جانچتے ہیں وہ تو اس سے کئ سو سال پہلے ان نظموں میں اپنے تمامتر واضع نقوش کے سا تھ موجود ہے ۔ میں ا ن یو اٹس کے ادب اور خا صکر خواتیں کی شا عری پر جلد ہی ایک کتاب پیش کرونگی جس میں تفصیل سے مدر سری نظام سے لیکے موجودہ نسا ئ شعور تک تفصیلی تجزیہ ایب اوریجنل شا عرات کی تخلیقات کے حوالے سے پیش کرونگی یہ میری ایک چھوٹی سی کا وش ایب اوریجنل کی فو ک شا عری کے حوالے سے ہے ۔
مختلف احسا سا ت اور مختلف تجر با ت کے بھر پو ر اظہا ر کی حا مل چند نظمیں مطا لعہ کے لئے پیش ہیںجنکےخیا ل کو میں نے اپنے الفا ظ میں ڈھا لا ہے ۔ شا عری کے لفظی تراجم ایسے ایسے نظر سے گزرے ہیں میری نظر سے کہ بہت ہی خوبصورت اشعار کا
ستیا نا س ہوتے دیکھا ہے لفظی تراجم میں خیال کی روح مر جاتی ہے ۔ فیض کی غزل ” گلوں مین رنگ بھرے باد نو بہار چلے” کا بھلا کیا تر جمہ ہوگا اور اگر کیا گیا بھی تو اس حسن کا کیسے بیان ہوگا جو اس مصرع میں ہے لہذا میں نے اس شا عری کے لفظی ترجمہ سے گرزیز کیا اور اسکی روح کی اپنے الفاظ کا پیرہن دیا ہے گو اس میں محنت تو ذیا دہ کرنی پڑی لیکن اس شا عری کا اصل روح زندہ رہی مطالعہ کے لئے چند نظمیں اپنی کتاب ” شمالی امریکہ کہ مقامی با شندوں کی شا عری سے پیش ہیں ۔

افسوس
بر ف کے ایک چھوٹے سے سو راخ سے مچھلیا ں پکڑنا !
کسقدر لطف اندوز تھا
بھوک کے لئے
غذا کی بے فکری
کسقدر طما نیت بخش احسا س ہے
مگر ۔۔۔کیا میں خوش تھا؟
نہیں ! مجھے تو اپنے چھو ٹے سے ہک کی فکر کھائے جا تی تھی
جس میں مچھلی پھنستی تھی!
کیا خبر اس میں مچھلی پھنسے نہ پھنسے
میں کبھی پو ری طر ح مطمعن نہیں تھا
میں خو شیو ں کو ہمیشہ نظر اندا ز کر تا رہا
اب برف کی ایک سرد قبر میں پڑے پڑے
میں دھو پ کا انتطا ر کر تا ہوں
سو رج کی ایک کرن میری قبر کو نو ر سے بھر دیتی ہے
الصبح! روشنی کی ایک لہر
مجھے خو شیو ں سے گرما دیتی ہے
افسو س !!
کہ جب سا رے مو سم میرے تھے
میں نے انکی کو ئی وقعت نہیں جا نی
میں نے انکا جشن نہیں منا یا
میں ہمیشہ چھو ٹی چھو ٹی چیز و ںکے لئے فکر مند رہا
اور قدرت کی تما م نعمتیں
زند گی کی سا ری بخششیں
نظر اندا ز کر دیں

Copper Eskimos
(۲) BlackFoot
یہ کیسی آہٹ ہے
کیو ں مجھے ایسا لگ رہا ہے
کہ جیسے گہری خمو شیوں سے نکل کے کو ئی
دبے دبے پا ئوں
میری خلوت میں چل رہا ہے
میرا صنم ہے کہ
یہ خدا ہے؟

(۳) ایک سوال
ما لک کیا تجھے اس با ت سے کبھی اکتا ہٹ نہیں ہو تی
کہ تیرے اور ہما رے در میا ں
ہمیشہ با د لوں کی دھند چھا ئی رہتی ہے؟