اگر اپنے بیٹے کو تم نے اُسامہ کہا!

Author: Muhammad Hameed Shahid

(محمد حمید شاہد)

 

ہزارے کا مہمان کیا بولتا/نظم|جاوید انور

اگر اپنے بیٹے کو تم نے اسامہ کہا تو پجامہ تمھارا اُترجائے گا، لوگ کہتے رہے ، اور ہریرہ کے پوتے کو عبدالغنی نے اسامہ کہا اور کہتا رہا، اہل یورپ کی پروا نہ کی!۔
یہ عبدالغنی بھی عجیب آدمی ہے ، مجھے یاد ہے جب کرانچی کے لوگوں سے اس کو جھجک تھی، اگر آپ گورے نہیں ہیں تو کچھ بھی نہیں ہیں، وہ انگریز کے آسنوں میں، اسی ٹھنٹھنے سے ، اسی کی زباں بولتا تھا مگر ایک دن اس کی بیوی نے (جو میم تھی اور جس کو کرانچی سے اس نے ڈرایا ہوا تھا) اسے عاق دے دی  وہ اُردو کے پیروں میں گڑ گڑ گڑایا
سو عبدالغنی نے ہریرہ کے پوتے کے ختنے کرائے تو سرکار کے کاغذوں میں اسامہ لکھایا،بتایا کہ اب اس کی بیوی،جو پہلی نہیں ہے ،کراں چی کے رستے ہزارے سے آئی ہے ، پائے پکائے گی، ایمان والو! جہازوں سے اترو تو کاروں میں پرچم ہرے لہلہاؤ
کئی سال عبدالغنی نے اسامہ کو نفلوں کی بھاجی کھلائی پکوڑوں کے بیسن میں تعویذ گھولے ، پراٹھوں کے آٹے میں زم زم کا پانی ملایا، کرانچی کے رستے ہزارے سے آئی ہوئی نیک پروین شائستہ عبدالغنی نے اور عبدالغنی اور شائستہ عبدالغنی کے مصلوں سے پھونکوں کا نور مسلسل
کئی سال بعد
ہزارے سے مہمان آیا
اسامہ نے عبدالغنی کو جگایا، بتایا، ہزارے سے مہمان آیا
ہزارے سے پیغام لایا
اسامہ کے ہاتھوں میں چابی تھی گاڑی کی، ماتھے پہ چشمہ تھا، ہونٹوں پہ بوسہ ہوائی ہزارے کے مہمان کے واسطے ، جس کی دھوتی میں سکتہ قیامت کا تھا اور اسامہ کی گاڑی کی خلوت میں جلوت
لبالب چھلکتی ہوئی چھاتیوں کی شہادت حرارت ہے ایمان کی، اپنے عبدالغنی اور کرانچی کے رستے ہزارے سے آئی ہوئی نیک پروین شائستہ عبدالغنی کے فرشتوں نے بھی ایسا سوچا نہیں تھا
ہزارے کا مہمان کیا بولتا
————————
جاوید انور بیسویں صدی کے ربع آخر کے نظم نگاروں میں ایک نمایاں نام ہے ۔ میں اس کی ایک بہ ظاہر نٹ کھٹ نظم کو یاد کرنا چاہ رہا ہوں مگر میرا دل اپنے اس خوب صورت نظم نگار اور بہت عزیز دوست کو یاد کر کے دُکھ سے بھر گیا ہے ۔ اس نے ادھر ادھر بہت ہنگامہ بپا کیا اور دیار غیر میں جابسا تھا پھر ایک روز اس کا ای میل آیا وہ میرے پاس آرہا تھا ، مجھے اور دوسرے دوستوں سے ملنے ۔ وہ ایک طویل سفر کرکے میرے گھرآیا ، اس کی فرمائش پر میں نے شہر بھر کے نظم نگاروں کو ناشتے پر بلالیا، افتخار عارف،یاسمین حمید،علی محمد فرشی،نصیر احمد ناصر، جلیل عالی،سعید احمد، پروین طاہر، خلیق الرحمن،غرض کون تھا کہ وہاں موجود نہ تھا، نظم نشست خوب جمی، اسکے ہاتھوں میں نظموں کا پلندہ تھا، سب سے آخر میں وہ ایک ایک کرکے تازہ کلام سناتا گیا ۔ کہنے کو تو ناشتے پر تقریب تھی، شام ڈھلے تک وہی ناشتہ اورتازہ نظمیں چلتی رہیں ۔ پھر وہ لاہور چلا گیا اور اچانک خبر آئی کہ وہاں جاکرمر گیا تھا۔ کہنے والے کہتے ہیں ،وہ دل کاہر کہا مانتا رہا مگر یہ دل بہت بے وفا نکلا، اس کی دھڑکنیں دغا دے گئی تھیں۔ یہاں جو نظم میں یاد کرنے جا رہا ہوں ، اس پر’’حاشیہ‘‘ میں بہت زور دار بحث چلی تھی ۔ جی، نظم ہے ’’ ہزارے کا مہمان کیا بولتا!‘‘۔ میں نے اس نظم کو نٹ کھٹ کہا ، مگر واقعہ یہ ہے کہ یہ اپنی گہری ساخت میں ہمارے تہذیبی وجود کو بہت سنجیدگی سے کچوکے لگاتی ہے ۔
دیکھیے ، عین آغاز میں ہی نظم کے دوالفاظ اسامہ اور پجامہ ہماری توجہ کھینچ لیتے ہیں۔انہیں اپنے تناظر میں ہی سمجھنا ہوگا۔ہزارے کے شہر ایبٹ آباد کے آباد کے ایک محلے کے اندر، اسامہ کے قتل کاڈرامہ بالکل ویسا ہی ہے جیسا کہ نائن الیون کا ڈرامہ، عراق کے کیمیائی مہلک ہتھیاروں کا ڈرامہ ، جس پر نہ تب یقین آتا تھا نہ اب آتا ہے ۔ جب امریکہ بہادر، اپنے لکھے ہوئے اسکرپٹ کے مطابق،اس جنگ کو، کہ جو اب دہشت گردی کے خلاف جنگ قرار دینے کے لیے وہ سارے وسائل اورلگ بھگ بھگ سارے میڈیا، اور تیسری دنیا کے کرپٹ حکمرانوں کو استعمال کر رہاہے ، ایک زمانے میں جہاد تھا ۔ یہی دہشت گرد تب مجاہد تھے اوراس وقت اسی سامراجی قوت سے کمک پانے والا اسامہ امریکہ کو عزیز تھا۔ یہ سوال الگ ہے کہ اسامہ تب امریکہ کا آدمی تھا یا امریکہ اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے شاطرانہ چال چلتااس کی پشت پرآ کھڑا ہواتھا ،کچھ بھی تھا دونوں ایک تھے ۔ لگ بھگ اسی زمانی عرصے میں مائیں اپنے بچوں کے نام اسامہ رکھنے لگی تھیں ۔ نظم کا اسامہ ذرا بعد کے عرصہ میں پیدا ہوا ہے ۔ کب؟ اس کاتعین بھی نظم کا متن کر رہا ہے ۔
’’اگر اپنے بیٹے کو تم نے اسامہ کہاتو پجامہ تمہارا اتر جائے
گا،لوگ کہتے رہے ، اورہریرہ کے پوتے کو عبدالغنی نے
اسامہ کہااور کہتا رہا، اہل یورپ کہ پروا نہ کی!‘‘
جب نظم پر بات چل رہی تھی تو یہ بھی نشان زد ہوا تھا کہ وہ پائجامہ ، جو نظم میں “پجامہ ” ہو گیا ہے ، ہزارے کا نہیں بلکہ کراچی والوں کا ہے ، وہاں کی ثقافتی فضا کی عطا ، خالص اردو والوں کا لہجہ، تو گویا یہ نظم کامکالمہ جو عین آغاز میں آگیا ہے اور واقعات بھی، کراچی کے اندر وقوع پذیر ہو رہے ہیں۔ بس اتنی ہی مناسبت ہے کہ ہزارے میں امریکی دراندازوں کے ہاتھوں قتل ہونے کی خبر کا مواد ہو جانے والے محصور اسامہ ہے ، جب کہ “ہزارے کا مہمان کیا بولتا” میں ہریرہ کے پوتا اسامہ ، نظم کے آخر تک پہنچتے پہنچتے کچھ اس طرح کا اسامہ ہو جاتا ہے
’’اسامہ کے ہاتھوں میں چابی تھی گاڑی کی، ماتھے پہ
چشمہ تھا ، ہونٹوں پہ بوسہ ہوائی ہزارے کے
مہمان کے واسطے ، جس کی دھوتی میں سکتہ قیامت کا تھااور
اسامہ کی گاڑی کی خلوت میں جلوت۔ ۔ ۔ ۔ !‘‘
نظم کے اس چلن پر بات ہونی چاہیے ، جس میں اسامہ اپنی بدلی ہوئی شباہت کے ساتھ موجود ہے ، وہ نہیں جو ہزارے میں مارا گیا، بلکہ وہ جوتہذیبی تصادم میں اپنی کچلی ہوئی شناخت کے ساتھ موجود ہے ۔’’ پجامہ‘‘ والی بات تو واضح ہو گئی ، ہزارے سے آنے والے مہمان کی دھوتی کا کیا کریں۔ اگر اسے کمر میں بندھا دیکھیں تو ہزارے سے آنے والا ہزارے کا نہیں رہتا اور اس دھوتی کو مہمان کے کندھے پر رکھ لیں تو اس میں سے قیامت کا سکتہ کافور ہو جاتا ہے ۔ یہ خلوت میں جلوتکا کیا قصہ ہے ؟، لبالب چھلکتی ہوئی چھاتیوں کی شہادت کی حرارت ہو یا وہ بات جو شائستہ عبدالغنی کے فرشتوں نے سوچی تک نہ تھی کیا تھی؟۔ آخر ہزارے کا مہمان کیوں گنگ ہوگیا تھا؟؟ اس سے پہلے اسامہ کے ختنوں سے لے کرعبدالغنی اور شائستہ عبدالغنی کے مصلوں سے پھونکوں کے نور مسلسل تک ، بہت سے علاقے ایسے ہیں جن پر بات کیے بغیر نظم کی تفہیم ممکن نہیں ہے ۔
نظم خارجی ساخت میں جتنی رواں دواں ہے ، ایک لطف کے چھینٹے اڑاتی ہوئی ،اتنی اپنے ڈیپ اسٹریکچر میں سادہ نہیں ہے ، اس کے معنیاتی نظام سے آگہی کے لیے ، اسے ٹھہر ٹھہر کر اور رک رک کر پڑھنا پڑتا ہے اور اپنے تصور میں بھی اپنے متن کے اندر سے برآمدکرتی تصویری ٹکڑوں کو ادل بدل کر دیکھا پڑتا ہے ۔ پھر یہ کہ اس نظم کی سطروں کا قرینہ بھی اور طرح کا ہے ، ہر سطر وہاں نہیں رکتی جہاں بات کا ایک ٹکڑا رکتا ہے بلکہ وہ اگلی سطر کے وسط تک چلا جاتا ہے ۔ کہہ لیجئے یہاں قرینہ لگ بھگ نثر کا ہے مگر جوں ہی ایک بند مکمل ہوتا ہے ، بات کا ایک حصہ بھی مکمل ہو جاتا ہے ۔
مجھے تو یہ نظم اس لیے بھی معنی کی سطح پر، اسلوب کی سطح پر اور اپنے مزاج کے اعتبار سے پسند آئی کہ اس میں معنی، اسلوب اور آہنگ ایک دوسرے کے ساتھ گندھ کر چلتے ہیں ، کھیتے ہوئے نہیں چلتے اورجمالیاتی دھارے کو اچھال کرایک فضا بنا لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔
’’سو عبدالغنی نے ہریرہ کے پوتے کے ختنے کرائے تو سرکار کے کاغذوں میں اسامہ لکھایا،بتایاکہ اب اس کی بیوی، جو پہلی نہیں ہے ، کراں چی کے رستے ہزارے سے آئی ہے ، پائے پکائے گی ،ایمان والو !جہازوں سے اترو تو کاروں میں پرچم پرے لہلہاؤ!
کئی سال عبدالغنی نے اسامہ کو نفلوں کی بھاجی کھلائی پکوڑوں کے بیسن میں تعویذ گھولے ،پراٹھوں کے آٹے میں زم زم کا پانی ملایا،۔ ۔ ۔‘‘
ظاہر ہے نظم کے ان علاقوں کو چھوئے بغیر بات کو کیوں کر مکمل سمجھا جا سکتا ہے ۔ ہیئت اور اسلوب کے حوالے سے یوں ہے کہ اس نظم کوجو غور سے دیکھتے ہیں تو یہ محض تصویریا پورٹریٹ نہیں رہتی’’کیری کیچر‘‘ہو جاتی ہے ۔ جی، اگر کیری کیچر لفظ کی کہانی سے ہم آگاہ ہیں تواس نظم کی ہیئت کا معاملہ جود بہ خود آئینہ ہو جائے گا۔ کیری کیچرکے بارے میں صاف صاف کہا جاتا ہے کہ یہ فرضی نہیں ہوتا ۔ گویا جس کا وجود ہی نہیں ہے اس کا کارٹون تو بنا یا جاسکتا ہے کیری کیچر نہیں۔ یہ اس کا ہی بنے گا جوہماری زندگی کا حصہ ہے ، زندہ /موجود ہے ، جو سامنے آئے تو ہمارے لیے اجنبی نہیں ہوتا۔ ادھر ہماری نظر کیری کیچر پر پڑتی ہے ادھر ہم کہہ اٹھتے ہیں ،لو ہم نے پہچان لیاکہ یہ تو فلاں ہے ۔ کیری کیچر تصویری یا ادبی پیش کش کا ایسا فن ہے ،جس میں موضوع سے متعلق امور کو جان بوجھ کر یا تو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے یا پھر اس میں سے بہت لازم حصے منہا کرکے مشابہت میں ایک عجب کو نمایاں کیا جاتا ہے ۔ چہرے کا حاشیہ گول ہے اسے اوپر نیچے کھینچ کر لمبوترا کردیا ، آنکھیں بڑی بڑی ہیں انہیں کوڈا سا بنا لیا ۔ ناک ستواں ہے اسے ستون کی طرح اٹھا دیا ، سر چھوٹا ہو گیا جسم بڑا ۔ بدن گینڈا سا ، گردن غائب اورسرمکھی کا۔ اچھااس میں فن کاری یہ ہے کہ محبوب ترین یا مقبول صورت کی مضحک جہت خلق کر لی جاتی ہے ، یوں کہ، اس میں کچھ غلط بیانی، کچھ شرارت، کچھ اضافہ اور بہت کچھ کا منہااور مسخ ہونااچھنبے کی بات نہیں رہتا ۔ تاہم یہ ہر حال میں اصل کی جھلک دے جاتا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں آپ کہہ سکتے ہیں ایک ایسی تصویرہے جومبالغے کی چنچل لکیروں سے انتہائی سہولت سے بنا لی جاتی ہے ۔
جاوید انور کی نظم بھی مبالغے کی چنچل لکیروں سے انتہائی سہولت سے بنائی ہو ئی لگتی ہے ، اپنی ہیئت میں کیری کیچر۔ کہانی ہماری اپنی زندگی کی ہے ، مواد انتہائی اہم اور سنجیدہ ہے مگر اس سے جو صورت حال کا چہرہ بنتا ہے وہ اپنے حاشیے میں نہیں رہتا۔ نظم کے سب کردار، ہریرہ،عبدالغنی،عبدالغنی کی انگریزبیوی،عبدالغنی کی دوسری بیوی،اسامہ، ہزارے کا مہمان ایسے ہیں جن میں سے کسی کی من و عن تصویر نظم کا حصہ نہیں ہوئی۔ ایک کی کہانی بڑھا چڑھا کر بیان ہوئی ہے تو دوسرے کے فسانے سے کچھ منہا ہو گیا ہے ۔ کھلندڑے اسلوب میں لبالب چھلکتی چھاتیوں کی شہادت سے ایمان کی حرارت پانے تک،اسی میں “قیامت کے سکتے ” اور اسامہ کے “ہوائی بوسے ” کو بھی شامل کرلیں۔ یاد رہے کیری کیچرکالفظ جس اصل سے جڑا ہوا ہے اس میں لادنے ، بلکہ کچھ زیادہ ہی لاد لینے کے معنی بھی داخل ہیں۔ جب رومیوں نے گال پر قبضہ کر لیا تھا تو انہوں نے گال باشندوں کوکلچراورتہذیب کی نعمتیں “عطا فرماتے ” ہوئے ، بدلے میں بہت کچھ سے اپنے چھکڑے میں بھر لیا تھا۔ یوں ہتھیا کرسب کچھ اپنے چھکڑوں میں لاد لینے کو گال باشندوں نے  کاروس کہا تھاجس کے ایک معنی ویگن یا کارٹ اورگاڑی کے ہیں جو لاطینی میں بھی کاروس ہوئے ، یعنی گالین طرز کا چھکڑا۔ اسی سے کیری کیچر ہوا، تو یوں ہے کہ اس چھکڑے میں بہت کچھ ان سے لے کر بھر لیا جاتا ہے جنہیں تہذیب سکھائی جا رہی ہوتی ہے ۔
جاوید انور کی نظم کا اسلوب یوں کیری کیچرکی مثل ہے کہ اس نظم کے کردارپہلے اپنا آپ اس آقاکے چھکڑے میں لادتے ہیں جو انہیں تہذیب سکھا رہا تھا۔ نظم کی وہ لائن نگاہ میں رہے جس میں عبدالغنی انگریز کی زبان بولتا اور وہاں کی میم کی تہذیب کا انعام پاتا ہے ۔ وہی جس نے اسے عاق دے دی تھی۔
صاحب ، یہاں عاق کا لفظ آیا تو کہتا چلوں کہ اگرچہ اردو میں “عاق کرنا” مستعمل ہے ، اور یہ بھی کہ عاق مذکر ہے جسے یہاں مؤنث باندھ لیا گیا ہے تو اس کا جواز خود نظم کا مزاج ہے ۔ شاعر نے جس کمال حکمت اور تخلیقی اپج سے طلاق کے مونث لفظ کی جگہ عاق کا مذکر لفظ رکھ کر معنی کا دھارا پلٹ کر رکھ دیا ہے اس کی داد دی جانی چاہیئے ۔ میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ شاعر کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ تخلیقی وفور میں چاہے توگرامر اورلغت کا ناس مار کر رکھ دے ، شرط یہ ہے کہ وہ شاعری بنے ۔ اب رہا  پیروں میں گڑ گڑ گڑایا تو اس با میں بھی کہنا ہے کہ جو بات گڑ گڑ گڑایا سے بنی ہے ،گڑ گڑایا سے کیوں کر بنتی ؟ یہ وزن کی مجبوری نہیں گڑ گڑائے چلے جانے کی تصویر بنانے کا تقاضا تھا ۔
یہاں نظم کی جمالیات کی صرف دوتین جہتیں نشان زد کرنا چاہوں گا ۔
( 1)۔ خیال/نقطہ نظر کی جمالیات،
( 2)۔ بصری جمالیات ،اور
(3)۔صوتی آہنگ کی جمالیات
مجھے اجازت دیجئے کہ پہلی جہت پر بات کرنے کے لیے میں آپ کی توجہ اپنی کیری کیچر والی بات کی طرف مبذول کروا سکوں، اسے پھر سے بیان نہیں کروں گا بس اتنی گزارش ہے کہ اُسے ذہن میں تازہ رکھیں اور اس میں یہ اضافہ فرمالیں کہ کیری کیچر بنانے والاآرٹسٹ جب ایک نقطہ نظر سے فن پارہ بنا رہا ہوتا ہے تو لکیریں بال برابر سے بھی کم فرق سے بدلتی چلی جاتی ہیں ۔ یہ اتنا معمولی فرق بھی اس باب میں بہت بڑا فرق ہوتاہے ۔ شاید میں اپنی بات ڈھنگ سے نہیں کہہ پایا ، جو مجھے کہنا ہے اس کی چند صورتیں بیان کر دیتا ہوں۔ کیری کیچر اس لیے بنایا جارہا ہے کہ
1۔ کسی مقبول شخصیت کی توہین مقصود ہے
2۔ کسی گروہ کی خوابیدہ عصبیت کو بیدار کرناہے
3۔ اس گروہ کواعصابی طور پر تھکانا ہے
4۔ یہ محبوب/محبوبہ کا کیری کیچر ہے اور اسے بطور تحفہ دینا ہے
5۔ اس فرد کا مضحکہ اڑانا ہے ،
6۔ محض تفنن طبع کے لیے ، کسی کی دل آزاری مقصود ہے نہ اس سے محبت کا اظہار۔ ۔ ۔ وغیرہ وغیرہ
یوں آپ کئی صورتیں خود تصور میں لا سکتے ہیں اور آپ محسوس کریں گے کہ ہر بار ایک ہی چہرے کی لکیریوں میں خفیف سا ارتعاش پیدا ہوتا ہے اور جہاں وہ لکیریں پہلے سے موجود ہوتی ہیں ان کے قریب ہی کہیں اپنی نشست کا ازسر نو تعین کرتی ہیں ۔ یہیں سے اس فن پارے کی جمالیات کو اخذ کیا جا سکتا ہے تاہم اس باب میں کچھ شرائط ہیں ۔ مثلاً اس میں سچ کتنا ہے ، اس لیے کہ سچ بہ جائے خود جمالیاتی مظہر ہے ۔ اس میں تخلیقی تجربہ کتنا خالص ہے ، کہ تخلیقی تجربہ تخلیق کار کے اندر کا سچ فن پارے کا حصہ بنا دیتا ہے اس کے آگے بھی میں وغیرہ وغیرہ لکھنا چاہوں گا ۔
اب آئیے ، اسی آئینے میں نظم کی جمالیات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اچھا وہ جو راشد نے اپنی نظم کواپنے کرداروں کی زبان کہا تھا، تو یوں ہے کہ جاوید انور کی یہ نظم اس کی پیروی نہیں کرتی، نظم کا بیانیہ ان کرداروں کی زبان نہیں ہے ، اس لیے کہ یہ نظم ان کرداروں کے نقطہ نظر کو بیان ہی نہیں کر رہی۔ یہ شاعر کی اپنی زبان بھی نہیں ہے کہ شاعر یہاں اپنے نقطہ نظر کو سامنے لانے کی بہ جائے ایسے گروہ کے نقطہ نظر کو سامنے لا رہا ہے جو نظم سے باہر ہے ، مگر نظم کی صورت حال سے جڑا ہوا ہے ۔ شاعر نے نظم کے عین آغازہی میں اس جانب بلیغ اشارہ(اس کے بیان کنندہ کی طرف سے) متن کا حصہ بنا دیاہے ۔ اسی فضا میں ایک فرد، اردو والابھی ہے ، مگر ایسا اردو والا ،جو بہ قول کسے اردوئے معلٰی نہیں ، اردوئے محلہ بولتا ہے اور اسی کے فکری چلن کی نمائندگی کرتا ہے ۔ اسی پس منظرمیں نظم کو پڑھیے اور پڑھتے جائیے ، نظم کی فکری جمالیات کھلتی چلی جائیں گی۔ اب اس کا کھلندڑا اسلوب ، طنز میں گندھ کرایک ٹریجیڈی سے جڑ گیا ہے ۔ ایسی ٹریجیڈی، جونظم کے بیان کنندہ کیلئے ایک سطح پر حظ اٹھانے کا ذریعہ بھی ہے ۔ جی آغاز سے لے کر، کراں چی کے لوگوں سے جھجک، اردو کے پیروں میں گڑگڑگڑایا کی لفظیات سے معنوی توسیع کرتا ہزارے سے آئے ہوئے مہمان کے گنگ ہونے تک۔ اورہاں، اسی تناظرمیں نظم کی فکری جمالیات کا علاقہ بھی متشکل ہوتا چلا جاتا ہے ۔
جاوید انور کی نظم کی بصری جمالیات کے لیے میں آپ کی توجہ فیض کی ایک نظم کی طرف چاہوں گا ۔ اگرچہ میں نئی نظم اور فیض کے آگے ایک سوالیہ نشان لگاتا ہوں، بڑا سا سوالیہ نشان، مگر یہاں فوری طور پر میرے ذہن میں جو مثال آئی وہ اس ترقی پسند رومانوی شاعرکی اس نظم سے ہے جو اس نے مصدق حکومت کے گرنے کے بعد پولیس کے ہاتھوں ایرانی طلبا کی شہادت پر لکھی تھی ۔ فیض کا کہنا تھا:
’’ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
یہ کون سخی ہیں جن کے لہو کی اشرفیاں
چھن چھن،چھن چھن
دھرتی کے پیہم پیاسے
کشکول میں ڈھلتی جاتی ہیں
کشکول کو بھر جاتی ہیں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘‘
یہاں’’ چھن‘‘ ایک بار نہیں دوجوڑوں کی صورت میں چار بار آیا ہے ، جو بہتے ہوئے خون کو صوتی آہنگ دے رہا ہے ، اور یہی صوتی آہنگ بصری پیکر میں ڈھل کر اپنی جمالیات کیسے مرتب کرتا ہے ،اسے بھی یہاں دیکھا جاسکتا ہے ۔ اچھا، یہ جو اشرفی ہے ، آپ اعتراض کرسکتے ہیں، یہ تو دھات کا سکہ ہے ۔ بہتا ہوا لہو، مائع کے قطرے ؛ یہ دھات کا سکہ کیسے ہو گیا ؟ قطرے کی صورت اشرفی کی طرح چپٹی نہیں ہوتی مگر فیض نے اسے اشرفی بنا کر دکھا دیا تو ہم نے اس لیے مان لیا کہ ایسا دکھا دینا شاعر کا حق ہوتا ہے ۔ اچھا لغت کو بیچ میں لاکرایک اور رُخ سے دیکھتے ہیں۔ چھن تپتے ہوئے توے پر قطرہ گرنے کی آواز ہے ، طوائف کے گھنگھرو بھی چھن چھن بجتے ہیں۔ محبوبہ کی کلائی میں جو چوڑیاں ہیں وہ بھی چھن کرتی ہیں آپ لفظوں سے ہو بہ ہو کتنی آوازیں بنا پائیں گے ؟ مگر شاعر بناتا ہے ۔ فیض نے پہلے تو لہوکے گرم گرم قطروں کو اشرفیاں بنایا پھراسے کشکول میں نہ صرف گراتے ہوئے دکھایا، کشکول میں ڈھلتے ہوئے بھی دکھا دیا۔ ارے صاحب شاعر کچھ بھی کر سکتا ہے ۔ اشرافی چپٹے رخ پڑتی تو اور آواز ہوتی اور کھڑے رخ ایک اورآوازسناتی مگر فیض نے اسے چھن سے ڈھال دیا۔ ہم دیکھ رہے ہیں اور لہو کی اشرفی چھن سے ڈھل رہی ہے یہ ہے بصری پیکر کی جمالیات۔ میری انہی معروضات کے آئینے میں ہزارے کا مہمان کیا بولتا کو پڑھیں گے توہمارے سامنے کچھ بصری پیکر بھی بنیں گے ۔ میں تو  اسی ٹھنٹھنے سے  میں بھی اسی پیکرکو دیکھ رہا ہوں۔ وہ لفظ کراں چی ہو یا گڑگڑگڑایااسی صوتی آہنگ کو گرفت میں لینے کے کامیاب حیلے ہیں ۔
اچھا ،اگر کوئی اس سارے قرینے کو غزل کی روایت کے آئینے میں دیکھے گا تو الجھتا ہی چلا جائے گا۔اسے نئی نظم والے تخلیقی تجربے سے جوڑ کر ہی سمجھنا ہوگا۔ میں جس نظم کی بات کر رہا ہوں وہ ستر کی دہائی کے بعد سے اب تک کے زمانی عرصہ کے لکھنے والوں کی ہے ، تو یوں ہے کہ جاوید انور نے اس نسل کے نظم نگاروں سے مختلف بات نہیں کی ہے ۔ اس عہد کے نظم نگاروں نے جس نئی جمالیات کو مرتب کیا ہے ، اس میں خوابیدہ لفظ جاگ اٹھے ہیں ، لغت میں پڑے لفظ ویسے نہیں رہے جیسے وہ وہاں ، ایک معنی اور ایک صوت کے ساتھ پڑے ہوئے تھے ۔ جی ، اس باب میں بھی مجھے مثالیں دینا ہوں گی ۔ لیجئے میں اپنے گم صم رہنے والے نظم نگار دوست انوار فطرت کی ایک نظم شہر نامرد سے خطاب کا ایک ٹکڑا درج کر رہا ہوں
’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تمہاری رانوں کے درمیانوں
میں کچھ نہیں ہے
تمہارے عنصر فساد میں ہیں‘‘
کہہ لیجئے کہ یہاں”درمیانوں”نہیں”درمیان” ہوتا تو زبان نہ بگڑتی ۔ مگر نظم نگار نے زبان کو بگڑ جانے دیا اور نظم کی جمالیات کو بچا لیا ۔ ایک اور نظم کے عنوان کو وہ سیدھا سیدھا لکھ سکتا تھا” سمندرا” مگر اس نے لغت کا کہا نہ مانا اورلکھا:”سمندراااااااااا” ۔نظم کے اندر بھی یہ لفظ جہاں جہاں آیا ہے اسی قرینے سے آیا ہے ۔نصیر احمد ناصر کی کتاب”عرابچی سو گیا ہے ” آئی، تو میں نے اچھے اچھوں کو “عرابچی” کے معنی پوچھتے پایا ،مگر اس سوئے ہوئے لفظ کو اس نظم نگار نے انگڑائی لے کر جاگنے پر مجبور کیا اور اس سے نئی نظم کا تو سیعی علاقہ دریافت کیا ۔ اچھا نصیر احمد ناصرہی کی ایک اور نظم”پسپائی” کا ایک ٹکڑا دیکھیئے :
“۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ان کو خبر ہے
ہم اپنی تھل تھل کرتی آنکھیں
گہرائی اور پایابی کے بیچ کہیں
دکھ کی ازلی دلدل میں پھینک آئے ہیں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔”
اب اگر آپ کہیں کہ آنکھیں کیسے تھل تھل کر سکتی ہیں کہ آنسو اوپر تیر رہے ہوتے ہیں، پھسل رہے ہوتے ہیں جب کہ تھل تھل تو وہ وجود کرتا ہے جوزیادہ رطوبت کی وجہ سے پھسپھسا ، تھلتھلا اور پچپچا ہو جائے ۔ یوں جیسے موٹاپے سے بڑھے ہوئے پیٹ کانرم نرم گوشت ہوتا ہے ۔ یا گارے میں پانی کی مقدار بڑھ جائے تووہ تھل تھل کرنے لگتا ہے ۔ آپ صرف اتنی لائن” ہم اپنی تھل تھل کرتی آنکھیں”پڑھ کر آنکنا چاہیں گے تواس “تھل تھل” سے کوئی جمالیاتی تصویر نہ بنے گی مگر جب آپ “دکھ کی ازلی دلدل میں پھینک آئے ہیں” تک پہنچتے ہیں،دلدل آنکھ اور آنسوؤں سے ایک عجب جمال کا دھارا پھوٹ نکلتا ہے ۔
علی محمد فرشی کے ہاں یہ تجربے باقاعدہ ایک نظام بناتے ہیں مثلاً وہ اپنی نظم “اساس۔ ” میں لکھتے ہیں ۔
“۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اپنے آغاز کے خواب کی نرم بانہوں میں وہ بے خبر تھا
خطرناک گہرائیوں کے نشاں سے
نہنگ زماں سے
اچانک جھماکا ہوا
اور ووووہ ہ ہ ہ
اپنی گردن تلک اس کے جبڑوں میں تھا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔”
آپ لغت اٹھا کر دیکھتے ہیں اس میں “وہ” یوں لکھا ہوا ملتا ہے مگر نظم میں یہ لفظ اضافوں کے ساتھ کچھ کا کچھ ہو کر نئی جمالیات اُجال رہا ہے ۔ نظم “پکٹو گرام” تو دو،دو لکیروں کے تین جوڑوں میں ہی مکمل ہو کر انسان کے مصلوب ہونے کا قصہ کہہ دیتی ہے ۔ ڈاکٹر ابرار احمد ہو یا رفیق سندیلوی سب کے ہاں آپ کو اس نئی جمالیات کی روشن تصویریں ملیں گی ۔ انہیں غزل کی روایت سے ماپیں گے یا لغت کی لاٹھی سے آنکیں گے توبات آگے نہیں بڑھے گی اور سب کچھ چکنا چورہو جائے گا ۔ جاوید انورکے “گڑگڑگڑایا “کو بھی اسی روایت میں دیکھیں گے تو اس کی جمالیات بھی لطف دے گی ۔
ایک بار پھر وہی کیری کیچر(“مسخانا نہیں” ، کہ مشتاق یوسفی کی وضع کردہ اصطلاح کیری کیچر کے مفہوم کوہی مسخارہی ہے) ،کہ اس آئینے میں پوری نظم محض چند لکیریں بن جانے والے کرداروں سمیت جھلک دینے لگی ہے ،اپنے ہمواراسلوب کے ساتھ۔ “اسامہ” ،” پجامہ”،”انگریز کے آسنوں” ، “ٹھنٹھنے “، “گڑگڑگڑگڑایا”، “عاق دے دی”، “ختنے کرائے “، “کراں چی”، “لہلہاؤ”، نفلوں کی بھاجی”،”پھونکوں کا نور مسلسل”،”عبد الغنی کو جگایا”، “ہوائی بوسہ”،”دھوتی میں قیامت کا سکتہ”،” گاڑی کی جلوت میں خلوت”،” لبالب چھلکتی چھاتیاں”، حتی کہ وہ نظارہ جسے دیکھنے کا خیال عبدالغنی کی دوسری بیوی کے فرشتوں کو بھی نہ تھا، سب ایسی لکیروں کے عکس ہیں جو محض مزاحیہ نہیں ہیں ، گرتے چلے جانے پر شدید طنزاورگہرے معنی ساتھ لے کرچلے ہیں ، محض لکیریں ہوجانے والے کردار ہریرہ کو آخر میں اُبھارتے ہوئے ۔ اسی سے نظم کی جمالیات مرتب ہوئی ہے :
1۔میرا دھیان نظم کی سطروں کے خطابیہ انداز کی طرف جاتا رہا ہے ۔”اگر اپنے بیٹے تو تم نے ہریرہ کہا تو پجامہ تمہارا اتر جائے گا”اس لائن کے پہلے حصہ میں مناعی اور دوسرے میں تنبیہہ ہے جس نے ایک ڈرامہ سا پیداکر دیاہے ۔ مناعی اور تنبیہہ کا جواز متن سے باہر بپا ڈرامے سے اخذ کیا جا رہاہے ۔
2۔”لوگ کہتے رہے اور ہریرہ کے پوتے کو عبدالغنی نے اسامہ کہا اور کہتا رہا” کتھا کے اسلوب میں ڈرامے کی کیفیت کا تسلسل ، مناعی کے مقابلے میں ارادے اور عمل کا استقلال ۔ اس جانب اشارہ کہ اس استقلال کا سبب شخصی نہیں نسلی مزاج کی ودیعت ہے ۔ یہ اشارہ”ہریرہ”کے نام نے کردیا ہے ۔
3۔”اہل یورپ کی پروا نہ کی!۔”۔ ۔ ۔ اہل یورپ، ہریرہ ، عبد الغنی ،اسامہ کے ذریعے بنیادی تنازع کے خال و خد مکمل ہوتے ہیں۔ جس کی روشنی میں ہی نظم اپنا معنیاتی نظام وضع کرتی ہے ۔ کتھا والے اسلوب میں۔ یہاں بھی ڈرامے والی کیفیت ختم نہیں ہوتی۔
4۔ “یہ عبد الغنی بھی عجب آدمی ہے ” سے کتھا، کا آہنگ غالب ہوتا ہے ۔ تاہم ڈرامائی کیفیت ساتھ رہتی ہے ۔
5۔ وہ کٹ کرکے بیک فلیش تیکنیک کو آزماتا ہے “مجھے یاد ہے جب ۔ ۔ ۔” اسی بند میں خطابیہ بھی آتا ہے اگرچہ اس میں طنطنہ ہے مگروہ تحتی ہے ۔
6۔ “اگر آپ گورے نہیں ہیں تو کچھ بھی نہیں ہیں”، عبدالغنی کے رویے کے تضادات پورے طرح کھل کر سامنے آگئے ہیں، میم، دھتکارا جانا ،اردو کے پیروں میں پڑنا وغیرہ وغیرہ ۔ یہاں گریز کے تحرک(“مگر ایک دن اس کی بیوی۔ ۔ ۔” ) اورطنطنے کے غیاب کی وساطت سے رواں کتھا سے متن میں لہریں پیدا کی گئی ہیں ۔
7۔”سوعبدالغنی نے اسامہ کے پوتے کے ختنے کرائے ۔ ۔ ۔” سے لے کر” پھونکوں کا نور مسلسل” تک کا بیانیہ کتھا کا ہے مگر اس میں خطابیہ ( ایمان والو! جہازوں سے اترو۔ ۔ ۔ ) جذبے میں ابھار پیدا کرتا ہے ۔ ردعمل کا تسلسل اور سماجی و ثقافتی تناؤ کے مقابل رہنے کا حیلہ عارضی نہیں ہے ۔ مذہبی اور ثقافتی مظاہر سے جڑنے کا حیلہ، اندر کی طلب بن کر ظاہر نہیں ہوتا بلکہ ایک ردعمل اور آڑ بن کر آتا ہے اس کشاکش نے بیانیہ میں پیدا ہونے والے مدوجذر کو جاری رکھا ہوا ہے۔
8۔”کئی سال بعد۔ ۔ ۔ ۔ / ہزارے سے مہمان آیاِ” تو بیانیے کے اندر کا مدجذر پوری طرح باہر بھی پلٹا کھاتا ہے ، باقاعدہ ہلچل مچ گئی ہے “اسامہ نے عبدالغنی کو جگایا” سے لے کر”اسامہ کی گاڑی کی خلوت میں جلوت” یہاں تک آتے آتے مذہبی سماجیات کی علامتیں مات کھا چکی ہیں اورآزاد جنسی اورآسائش پرست سماج سے جڑے اشارے غالب رہتے ہیں ۔ تاہم ہزارے اور یورپ کے درمیان اس سارے تنازع کو کراچی اور کراچی والے ایسے بیان کندہ کے آئینے میں دیکھنا لازم ہو جاتا ہے جو پجامہ ، کراں چی، اردو، ختنے ، لہلہاؤ، نفلوں کی بھاجی، قیامت کے سکتے والی دھوتی وغیرہ جیسے لفظوں کو اپنی زبان میں ضم کر چکا ہو۔ ان لفظوں نے بھی بیانیہ میں خفی و جلی لہریں پیدا کی ہیں۔
9۔”لبالب چھلکتی ہوئی چھاتیوں کی شہادت حرارت ہے ایمان کی” تک پہنچتے پہنچتے ڈرامہ بظاہر اپنے انجام کو پہنچتا ہے ۔ مذہبی جذبہ کوجنسی ابھار نے پچھاڑ دیاہے۔ عبدالغنی کا ردعمل یہاں اس کے باطن سے کٹا ہوا ہے مگر شائستہ عبدالغنی جو اخلاص سے ایسا نہیں چاہتی تھی، اس کا رد عمل اس کے وجود سے جڑا ہوا ہے تاہم دونوں کو ایک ہی لائن میں بہت سہولت سے برت لیا گیا ہے ۔ یہاں بھی قاری بیانیہ کی لہروں کو اسی شدت سے محسوس کر سکتاہے ۔
ان نقاط کو سامنے رکھیں توہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جس کی زبان سے بیانیہ متشکل ہوا ہے اسے حظ نفس عزیز ہے ، شاعرنے اپنی تخلیقی قوت سے کام لے کراس کا حظ نفس پچھاڑ کر شعری متن ڈھال لیا اوراس متن کو معنی کی گہرائی بھی دے دی۔ یہاں حقیقی واردات اور بیان واقعہ کے درمیان کا فصل شاعرنے انتہائی مہارت سے پاٹا ہے ۔ ایک واقعہ کی دوسرے واقعہ کے زمانی عرصہ میں جست سے متن میں معنویت کی ذیلی لہریں جاری ہوئی ہیں۔ سارا مخاطبہ ایک آواز کا شاخسانہ ہے اور مخاطب بھی پردہ غیاب میں ہیں تاہم دوسرے شخص یا شخصوں کی آوازوں کو تصرف میں لایاگیاہے ۔ پورا بیانیہ عالم سکون سے برگشتہ ہے لہذا جذبے کا تحرک متن کے اوپر (بیان کے ساتھ) اور متن کے اندر(بیانیے کے ساتھ) جاری رہتا ہے ۔ اور اسی عمل نے محاکاتی بیانیہ کو شعری دھج دے دی ہے ۔ واقعاتی رخنے موجود ہیں مگر مواد کی ترسیل فوری ہے ، تاہم لطف یہ ہے کہ ترسیل لکنت کا شکار نہیں ہوتی ایک واقعہ سے دوسرے واقعہ کے درمیان معنی خیز وقفے یا سکوتیے اس کا امکان پیدا کرتے ہیں کہ نظم اپنی قرآت کی تکمیل کے بعد دریافت کے عمل سے جڑ جائے ۔ یہ دریافت کا عمل شاعر کے سریح الحس تخیل کی دین ہے ۔ میں نے نظم نگار کو اس پورے تخلیقی عمل میں لسانی سطح پراوراسلوب کی سطح پر مخصوص پس منظر کی عوامی زبان کی رنگ پچکاری سے اپنی نظم کی جمالیات جن رنگوں سے وضح کرتے پایا، انہیں بیان کر دیا ہے ۔

2 Comments

  1. اچھی نظم ہے. اپنی گہرائی میں شناخت کے المیہ کی معنویت پورے زور کے ساتھ نظر آتی ہے. میں مگر دھوتی میں سکتہ کی ترکیب کے سکتے میں ہوں. یہ شعر میں سکتہ پڑتے تو دیکھا تھا دھوتی میں سکتہ کیا ہوتا ہے؟ کیا مہمان کی مبینہ نامردی کی طرف اشارہ ہے؟ جس سے قاری ہی نہیں خود شاعر کا بھی کچھ لینا دینا نہیں. اور ہاں پیارے شاعر کھیت لہلہاتے اور پرچم لہراتے ہیں
    وزن کی مجبوری شاعر سے کیا کیا کراتی ہے!

Comments are closed.