جب ایک عورت کہتی ہے، عورت ہوں نا

جب ایک عورت کہتی ہے، عورت ہوں نا

از، زاہد مسعود

گارشیا مارکیز نے کہا تھا کہ ادب زندگی کے ساتھ آپ کے رشتے کی روداد کا بیان ہے۔ مگر کیا آپ ایک زندگی کے لاتعداد لمحوں کی روداد کو کہاں تک اپنے بیان میں سمو سکتے ہیں؟ یہی سوال عہد بہ عہد اور پرسن ٹو پرسن تخلیق ادب کا جواز ہے۔ جو لکھنے والا اپنی زندگی کے کسی ایک پہلو سے وابستہ حصے کو رقم کر دیتا ہے اور پھر اس روئیداد کو اپنے ہم مزاج اور چند ہم عصروں کے ساتھ شیئر کر لیتا ہے۔ وہ اگر اس پر قناعت نہ کرے تو عظیم انسان ہے۔ کجا وہ لکھنے والا جو زندگی کے بے شمار رنگوں کو اپنے جیون سے کشید کرے اور ان رنگوں کو دیکھنے والی تمام آنکھوں کے لیے جاذب نظر بنا دے۔

عارفہ شہزاد کی نظموں کی کتاب عورت ہوں نا جب میں نے دیکھی تو مجھے بھی یہی شبہ ہوا کہ اس میں عارفہ نے ’’فیمنسٹ‘‘ ہونے کی کوشش کی ہو گی اور اب وہ عہد حاضرکی چند ’’شی گویرا‘‘ ٹائپ فیمنسٹ عورتوں کی محبوب شاعرہ قرار پائے گی اس کے ساتھ ہی مجھے انیس ناگیؔ یاد آئے جنہوں نے مجھے ایک بار پوچھا تھا کہ کسی ایسی ’’فیمنسٹ‘‘ عورت کے بارے میں مجھے بتاؤ جو خوبصورت رہی ہو۔ میں نے فٹ سے فریال گوہر کا نام لے دیا میرے جواب پر وہ تھوڑی دیر کے لیے لاجواب تو ہوئے اور پھر اپنی پوری توانائی کے ساتھ کہا کہ وہ اندر سے بد صورت ہو گی۔

جب میں نے عارفہ شہزاد کی نظموں کو پڑھنا شروع کیا تو مجھے اس کے دیئے ہوئے اس نام سے اختلاف ہونے لگا۔ یہ قطعاً صرف عورتوں کے بارے میں شاعری نہیں ہاں آپ اس کو ایک عورت انسان کے محسوسات کہہ سکتے ہیں۔ مگر یہ وہ عورت ہرگز نہیں جس سے مرد حضرات عشق و محبت کی باتیں کریں یا وہ خود اپنے عورت ہونے پر ناز کرتے ہوئے exploitation کی مرتکب ہو۔
عارفہ شہزاد کی نظموں میں وہ سب کچھ ہے جو آج کے انسان کو درپیش ہے۔ عصری شعور کے حوالے سے یہ نظمیں ایک باخبر حساس شاعرہ کی جرأت مندانہ شعری ٹریٹمنٹ ہے۔ عارفہ ایک پڑھی لکھی اور باخبر فرد ہے اور اس کو شاعری کے بنیادی تقاضوں کا علم ہے۔ وہ content اور کرافٹ کے خوبصورت تناسب کو پہچانتی ہے اور تمام issues کو تخلیقی انداز میں بیان کرنے کا سلیقہ رکھتی ہے۔

اس کا تعلق ہمارے عہد کے ان شعراء سے ہے جنہیں ہمارے شعری ورثے میں موجود اظہار کے خوبصورت انداز پر ناز ہے ۔ اس کے علاوہ وہ ہمارے شعری نظام کی اصالت اور افادیت کا پورا یقین رکھتی ہے۔ اسی لیے اس کا اسلوب منفرد ہونے کے باوجود ہوا میں معلق نہیں۔ وہ اپنے محسوسات کو پوری معنویت کے ساتھ شیئر کرتی ہے۔ عارفہ کے ہاں آج کے فرد چاہے وہ مرد ہو یا عورت کی حسیات پوری توانائی کے ساتھ موجود ہیں۔
سب جاننا چاہتے
میری کہانی
مگر مجھے یہاں لا کر رکھنے والا
میری
تعارفی تختی لگانا ہی بھول گیا ہے

ایسی نظمیں اور ایسی شاعری اپنا جواز رکھتی ہے۔ عارفہ شہزاد نے اپنی نظموں میں جو اس کتاب میں شامل ہیں کمال عجز بیانی کا مظاہرہ کیا ہے۔ انہوں نے نپے تلے لفظوں میں بات مکمل کی ہے اور زائد لفظوں کو برتنے سے گریز کرنے کا ہنر تیز چابکدستی سے آزمایا ہے۔ میں انہیں خوبصورت نظم گو شاعرہ کہوں گا کہ وہ اس انبوہ سے بالکل الگ ہیں جو نظم کو آسان سمجھ کر کہنے کے سکول آف تھاٹ سے تعلق رکھتا ہے۔

نظم کہنے والے کو شعری تقاضوں پر مکمل عبور ہونا چاہیے تا کہ وہ تخلیقی شعری حسن مجروح نہ ہونے دے۔ ان کی نظمیں انہونی، ان بوجھی پہیلی، تو پھر یوں ہوا کہ ،مجھے دھکیلو، پروائی ہوں، زمین آسمان سے ملتی ہے یا نہیں، ٹیوب روز، اذن گویائی، میرا حصہ، سرراہ، کہانی کی اڑان، ابھی کب ہجر آیاہے، خوش آمدید۔ معاصراردو نظموں کے حوالے سے قابل ذکر ہیں۔جبکہ ان کی نظمیں تازہ لہو کی دھاریں، ڈیموکریسی کال، عصری شعور کے حوالے سے نمائندہ نظمیں قرار دی جا سکتی ہیں۔

فہمیدہ کو نہیں بتانا فہمیدہ ریاض کے حوالے سے، اس کی نظمیں ،(نسرین انجم بھٹی کے حوالے سے) اور پرسہ(جاوید انور مرحوم کے حوالے سے)نہ پرف اپنے قبیلے کے بڑے لوگوں کو خراج تحسین ہے بلکہ نئی نظم کے حوالے سے ان کے بنائے گئے راستے پر آگے قدم بڑھانے کی کامیاب کوشش ہے۔

عورت ہوں نا کی نظموں نے عارفہ شہزاد کو ایک مکمل شاعرہ کا روپ دیا ہے۔ ان کو پڑھنے والے اب ان کو ’’میں عورت ہوں نا‘‘ کے بیان سے ذرا آگے نکل کے جانیں گے اور ان کو محض عورت اور اورینٹل کالج کی ایک تدریس کا رکن کے درجے سے کہیں بلند حیثیت میں دیکھیں گے کہ ان نظموں نے ان کا اس عہد کے انسانوں کے ساتھ ازلی رشتہ مضبوط تر کر دیا ہے۔