افواہ سازوں کے سہولت کار کون ہوتے ہیں؟

ایک روزن لکھاری
نصرت جاوید، صاحب مضمون

افواہ سازوں کے سہولت کار کون ہوتے ہیں

(نصرت جاوید)

اتوار کی دوپہر سے مجھے سمارٹ فون کے ذریعے ایک ”پیغام“ ملنا شروع ہوگیا۔ مجھے یقین ہے کہ آپ میں سے بے شمار لوگوں کو بھی ایک ”اطلاع“ اسی پیغام کے ذریعہ ملی ہوگی۔دعویٰ اس پیغام میں یہ تھا کہ ”سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی“ میں فوجی دستوں نے اسلام آباد کی اہم عمارتوں کا کنٹرول سنبھال لیاہے کیونکہ پیر کے روز پانامہ کیس کا فیصلہ سنا دیا جائے گا۔ کوئی بھی لفظ کہے بغیر اس پیغام کے ذریعے ہمیں گویا نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ سے فراغت کے لئے ذہنی طورپر تیار کردیا گیا تھا۔
مجھ ایسے گھامڑ لوگوں کو اگرچہ مزید سمجھانے کے لئے یہ ”اضافی اطلاع“ بھی دی گئی کہ جمعہ کے روز عمران خان صاحب کے ساتھ ہوئی ملاقات میں آرمی چیف نے تحریک انصاف کے قائد کو ممکنہ فیصلے کے بارے میں آگاہ کردیا تھا۔ان سے مگر یہ ”وعدہ“ بھی لیا گیا کہ وہ اس فیصلے کے آجانے تک اس کے بارے میں کوئی بات کرنے سے گریز کریں گے۔ سمارٹ فونز اور ان کی بدولت ٹویٹر اور Whats Appجیسے ”ابلاغ کے ذرائع“ متعارف ہونے کے بعد سے قطعی بے بنیاد اور فوری طور پر غیر منطقی نظر آنے والی “Breaking News”ایک وباء کی صورت پھیل رہی ہیں۔امریکا جیسے انتہائی ترقی یافتہ ملک میں ان کی وجہ سے جو ہیجان اور افراتفری کا ماحول بنا وہ ٹرمپ ایسے مسخرے کو اس ملک کا صدر بنانے کا باعث ہوا۔ اس کے وائٹ ہاﺅس پہنچ جانے کے بعد بھی لیکن Fake News کا سلسلہ رک نہیں پایا۔
امریکا،جس نے دنیا کو انٹرنیٹ دیا اور اس کے ذریعے سماجی رابطوں کی مختلف Apps متعارف کروائیں،اب فیس بک اور ٹویٹر کے ذریعے پھیلائے ہیجان سے سراسیمہ اور پریشان ہوگیا ہے۔ہم پاکستانی تو ویسے ہی یاوہ گوئی کے عادی ہیں۔بات فقط سوشل میڈیا تک محدود رہے تو شاید اتنی پریشانی نہ ہو۔میرا دماغ حقیقتاََ اس وقت چکرا گیا جب خود کو ”سفارت کار ابنِ سفارت کار“ کہلوانے والے وزارتِ خارجہ کے ایک سابق افسر ٹیلی وژن کے ایک شو میں اتوار کی شام نمودار ہوئے۔ اس شو کی اینکر سے گفتگو کرتے ہوئے ظفر ہلالی صاحب نے فارسی زدہ مدراسی اُردو میں اس پیغام کا ذکر بھی کردیا جو مجھے اتوار کی دوپہر سے وصول ہو رہا تھا۔ان کے فرمودات سوشل میڈیا پر Viralہوگئے۔رات گہری ہوجانے کے بعد بھی میرے خاموش کئے فون میں سرسراہٹ ہوتی رہی۔اپنی طوالت سے یہ سرسراہٹ مجھے جگا کر فون دیکھنے کو مجبور کر دیتی، جرمنی، انگلستان اور سپین سے چند جاننے والوں کے ٹیلی فون تھے۔ مجھ”باخبر“صحافی سے وہ اس افواہ کی تصدیق چاہ رہے تھے کہ فوجی دستوں نے اسلام آباد کی اہم سرکاری عمارتوں کا کنٹرول سنبھال لیا ہے یا نہیں۔جھلاہٹ میں ان سب کو یاد دلانے پر مجبور ہو گیا کہ اگست 2014 میں عمران خان اور طاہر القادری نے باہم مل کر اسلام آباد میں جو دھرنا دیا تھا اس کے بعد سے اس شہر کی تمام اہم سرکاری عمارتوں اور غیر ملکی سفارت خانوں کی حفاظت کے لئے فوجی اور نیم فوجی دستے ہمہ وقت تعینات رہتے ہیں۔
مارشل لاء ویسے بھی پیشگی اطلاع دے کر نہیں لگایا جاتا۔یہ زلزلے کی طرح کسی بھی وقت”اچانک“ آجاتا ہے۔اس کا نفاذ ضروری سمجھا جائے تو سپریم کورٹ کی ہدایات کا بھی انتظار نہیں کیا جاتا۔چند لوگوں کو جھلاہٹ میں یہ اطلاع بھی دی کہ اگر فوجی دستوں نے اسلام آباد کی اہم سرکاری عمارتوں کا کنٹرول سنبھال بھی لیا ہے تو میں اس ضمن میں تصدیق کر لینے کے بعد بھی اپنے بستر میں سونے کو ترجیح دوں گا۔پیر کی صبح سپریم کورٹ نے اگر نواز شریف کو نااہل قرار دے کر اپنے گھر بھیج دیا تو بھی میرے معموملات میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔ منیر نیازی کی طرح ”لاکھوں ملتے دیکھے ہیں“۔ ایک اور وزیر اعظم بھی سپریم کورٹ کے ہاتھوں فارغ ہوگیا تو میں ہرگز حیران نہیں ہوں گا۔ پیر کی صبح اُٹھ کر افواہوں کی وجہ سے غارت ہوئی اپنی نیند کے بارے میں فکر مندی سے غور کرنا شروع کیا تو احساس ہوا کہ افراتفری کا ماحول کوئی نئی ٹیکنالوجی نہیں بناتی۔

کسی ملک کی اشرافیہ کے درمیان زیادہ سے زیادہ قوت واختیارحاصل کرنے کے لئے جھگڑے ہوتے ہیں جو افواہ سازوں کے اصل سہولت کار ہوتے ہیں۔ 1857ءکے غدر یا جنگِ آزادی سے چند ماہ پہلے ان دنوں کے مغربی اور شمالی ہندوستان کے متعدد قصبوں اور دیہات میں ایک عجیب وضع کی روٹیاں بٹنا شروع ہوگئی تھیں۔ ان روٹیوں کو انتہائی پریشان کن پیغام سمجھا گیا۔دلّی کی جامع مسجد کی بیرونی دیوار پر ہاتھ سے لکھے پوسٹر چسپاں ہو جایا کرتے تھے۔ان پوسٹروں کے ذریعے ”اطلاع“ یہ دی جاتی کہ ان دنوں کے شاہ ایران نے بہادر شاہ ظفر کو ”مضبوط“ بنانے کے لئے اپنی فوج کو دلّی روانہ کردیا ہے۔روٹیوں اور پوسٹروں سے قبل کہانیاں یہ بھی مشہور تھیں کہ انگریزی استعمار کے ہندو اور مسلمان فوجیوں نے وہ کارتوس دانتوں سے توڑ کر اپنی بندوقوں میں ڈالنے سے انکار کردیا ہے جنہیں مبینہ طورپر گائے یا خنزیر کی چربی میں لپیٹا گیا تھا۔بغاوت کے جذبات ابالتے ان پیغامات نے بالآخر وہ دن دکھائے جب اسد اللہ خان غالب اپنی کوٹھڑی میں محصور ہوئے دوستوں کو خطوط لکھ کر بتاتے کہ ”ہائے دلّی، وائے دلّی،بھاڑ میں گئی دلّی“۔ آج کے پاکستان میں عجیب وضع کی روٹیاں نہیں Whats App پیغامات پھیلتے ہیں۔”اندر کی خبر“رکھنے کے دعوے دار عقل کل بنے اینکر خواتین وحضرات کاایک ہجوم بھی ہے۔شام سات بجے سے رات 12بجے تک وہ ہمیں”کچھ ہونے والا ہے“کے لئے تیار کرتے رہتے ہیں۔مسلسل ہیجان پھیلاتے ان ”ذرائع“کا توڑ سوشل یا ریگولر میڈیا کا گلا گھونٹ دینا ہرگز نہیں ہے۔ہماری ہر نوع کی اشرافیہ کو باہم بیٹھ کر انتہائی خلوص اور ایمان داری سے یہ طے کرنا ہوگا کہ قوت واختیار کی ”روٹی“ میں اشرافیہ کے کس گروہ کا کتنا حصہ ہونا چاہیے۔یہ طے ہوجائے تو افواہ سازی کے سارے کارخانے بند ہوجائیں گے۔4 اپریل 2016ء سے پانامہ کا قصہ چل رہا ہے۔سپریم کورٹ نے روزانہ کی بنیاد پر کئی ہفتے اس قضیے سے متعلق فریقین کو بھی تفصیلی طورپر سن لیا ہے۔یہ بات بالکل درست ہے کہ سپریم کورٹ کے عزت مآب ججوں کے سامنے دلائل اور دستاویزات کے جو انبار لگائے گئے ہیں ان کا بغور جائزہ لینے کے بعد قوانین کی حدود اور روایات میں محدود رہ کر ہی کوئی فیصلہ صادر کرنا ہوگا۔اس فیصلے کو لکھنے کے لئے وقت اور احتیاط اس لئے بھی درکار ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آجانے کے بعد اپیل کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔اس پر من وعن عمل کرنا پڑتا ہے۔
توہینِ عدالت کا ایک قانون بھی مگر اپنی جگہ موجودہے۔مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ اس قانون پر توجہ کیوں نہیں دی جارہی۔حکومت،خواہ مخواہ کتنی ہی نااہل اور کمزور کیوں نہ ہو،ہمیشہ چند اختیارات کی حامل ہوتی ہے۔آج کے ”بہادر شاہ ظفر“ ان اختیارات کو استعمال کرنے کی سکت سے محروم ہوچکے ہیں تو استعفیٰ دے کر گھرجائیں۔اس کے بعد پنجابی والا جو ”چن چڑھنا“ہے اسے بھی دیکھ لیں گے۔ کم از کم مسلسل خلفشار وہیجان سے تو نجات مل جائے گی۔

(بشکریہ:روزنامہ نوائے وقت )