اےمسلمانو!گالیاں دیناکار ثواب ہرگز نہیں

 

(ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

گالی گلوچ معاشرہ کے لیے ایک بڑی خطرناک برائی ہے ، بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ معمولی معمولی ، ناگوار کاموں کی وجہ سے گالی گلوچ پر اتر آتے ہیں ۔ گالی دینا ان کی بری عادت ہوتی ہے اوراسی عادت میں اتنی دور تک چلے جاتے ہیں کہ بعض اوقات انتہائی فحش گالیاں ان کی زبان سے اور منھ سے نکلتی ہیں، لیکن ان کو احساس تک نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عادت والا کام بڑی آسانی اور سہولت کے ساتھ ایسے لوگوں سے صادر ہوتا ہے، اس کے لیے کسی تکلف کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ یہ گالیاں ایسے لوگ اس لیے دیتے ہیں کہ اپنی انا کی تسکین کے ساتھ اپنے خیال میں دوسرے لوگوں کی مرمت اور علاج بھی اس گالی میں سمجھتے ہیں۔ اگر گالی دینے والے کو جواب نہ ملے تو گالی دینے والا اس کو اپنی برتری سمجھتا ہے اوراس کے نفس اورانا کو سکون حاصل ہو جاتا ہے۔ ایسے لوگ دوسروں کو گالیاں ان کو تکلیف اور ایذا پہنچانے کے لیے دیتے ہیں۔ بعض لوگ دوسروں کوایذا کی خاطرگالیاں تو نہیں دیتے، لیکن ان کی عادت کچھ ایسی بن گئی ہوتی ہے کہ گویا گالی ان کی غذا ہے، بات بات میں اور عام گپ شپ میں ہر ایک کو گالی دے کر پکارتے ہیں، یہ بھی بری عادت ہے۔ کیوں کہ اسلامی تعلیمات کا تعلق تو خوش اخلاقی کے ساتھ ہے۔ خوش اخلاقی کے کام تو بہت ہیں، جن سے پتہ چلتا ہے کہ انسان با اخلاق اور خوش اخلاق ہے، لیکن خوش اخلاقی کا سب سے بڑا تعلق منھ ، زبان او رگفت گو کے ساتھ ہے۔ انسان اپنی زبان کھولتا ہے تو فوراً دوسروں کوپتہ چل جاتا ہے کہ خوش اخلاق ہے یا نہیں؟ بعض لوگوں کے بارے میں پتہ نہیں چلتا کہ منھ پھٹ ہے یا نہیں؟ جب کبھی کوئی موقع بن جائے تو اس وقت پتہ چلتا ہے،مثلاً کسی بات پر غصہ آیا تو پھر گفتگو سے پتہ چلتا ہے۔

انسان کو چاہیے کہ منھ اور زبان کو کنٹرول میں رکھے۔ حضور صلی الله علیہ وسلم کی زبان سے ہر حالت میں حق اور سچ بات نکلتی تھی، حضور صلی الله علیہ وسلم کے ورثاء اور خواص کو بھی اپنی زبان کنٹرول میں کرنی چاہیے، کبھی انسان مغلوب الحال ہوجاتا ہے، لیکن عقل اور ہوش باقی ہوتا ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ جب کبھی کوئی اپنے سے کمتر پر غصہ کی حالت میں اس کو برا بھلا کہتا ہے اگر اسی حالت میں غصہ کرنے والے کے سامنے اس سے کوئی بڑا علم وفضل والا یا عہدے والا آجائے تو فوراً اس کا غصہ کا فور ہوجاتا ہے ، معلوم ہوا کہ عقل ہوشیار ہے۔ تمام آفات کا تعلق زبان کے ساتھ ہے۔ بڑے بڑے جرائم کی ابتدا زبانی تکرار اورمعمولی گالی گلوچ سے ہوتی ہے ۔

گالی کیا ہے؟ غصہ کی حالت میں یا بغیر غصہ کے کسی کو کوئی ایسی نامناسب بات کہہ دینا، جس کو تقریباً سب لوگ پسند نہیں کرتے۔ مثلاً کسی کو براہ راست برے قول یا فعل کی طرف منسوب کرنا یا کسی کے متعلقین میں سے کسی کے بارے میں غلط بات کہہ دینا۔ مثلاً کسی کے ماں باپ یا بیوی کو برا بھلا کہنا۔

عام طور پر حیوانات کے نام کے ساتھ گالیاں ایجاد ہوئی ہیں، مثلاً کتا، گدھا، بیل اور گیدڑ وغیرہ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض انسانوں کی اندر کی صفات مسخ ہو جاتی ہیں، صحیح انسانی صفات اور اخلاق کی بجائے ان میں حیوانی صفات پرورش پا لیتی ہیں۔ یعنی اس کے اندر درندگی اور زہریلا پن پیدا ہو جاتا ہے، پھر معاشرے میں جو کردار ادا کرتا ہے ، اس میں درندگی اور زہریلا پن ہوتا ہے، بظاہر انسان ہوتا ہے، اندر سے سانپ بچھو یا کوئی درندہ ہوتا ہے۔ اگر اندر سے اس بگڑے ہوئے انسان کو برا بھلا کہاجائے تو یہ بھی برداشت نہیں کرتا۔ حیوانات میں ہر نوع کی فطری اور نوعی اوصاف اور صفات ہوتی ہیں، کسی حیوان کی نوعی صفات میں سے کسی انسان کے لیے کوئی صفت ثابت کرنا یا اس کے ساتھ پکارنا گالی بن جاتا ہے۔

گالی دینے والا تو اپنے تیئں اپنی برتری ثابت کرتا ہے، اپنی انا کو تسکین دیتا ہے، بہت سے لوگ اس زعم میں مبتلا ہوتے ہیں کہ میں بڑا زور آور ہوں، کسی کو گالی دے دوں تو اس کی کیا مجال کہ جواب دے ، لوگ اس سے دب یا ڈر جاتے ہیں ، پھر اس کے سامنے کوئی بولتا نہیں۔ گالی دینے والے کو سوچنا چاہیے کہ گالی کے اثرات کیا ہیں؟ کبھی تو جس کو گالی دی جاتی ہے وہ طیش میں آکر کسی قسم کی جوابی کارروائی کرسکتا ہے یا پھر کسی موقع کی تلاش میں رہتا ہے، گالی دینے والا اپنے دشمن زیادہ کر دیتا ہے، خود کو معاشرہ میں بد اخلاقی کے نام سے متعارف کروا دیتا ہے ۔ لوگوں کی نظر میں اس کی حیثیت گر جاتی ہے ۔ خاص کر بڑے بڑے عہدے والوں اور صاحب حیثیت لوگوں کو بہت محتاط رہنا چاہیے۔ مثلاً استاذ ، والدین، مرشد اور علمائے کرام وغیرہ ہر گز کسی کو گالی نہ دیں، نہ سامنے اور نہ پیٹھ پیچھے۔ بعض لوگ کسی کو سامنے گالی نہیں دے سکتے، جن کو گالی دینا ہو وہ چلا جائے یا خود دور چلا جائے تو گالیاں بکنا شروع کر دیتا ہے ، یہ بھی گناہ ہے۔ ضروری نہیں کہ جس کو گالی دے رہا ہے وہ سن بھی رہا ہو او رلوگ تو سن رہے ہیں کہ فلاں کو گالیاں دے رہا ہے ۔ بعض اوقات سننے والے اس بندے کو اطلاع کر دیتے ہیں جس کو گالیاں دی تھیں۔ اس کو جب پتہ چلتا ہے تو انتقامی کارروائی پر اتر آتا ہے۔

الحاصل، گالی کسی بھی حالت میں نہیں دینی چاہیے، کیوں کہ اس کے اثرات کسی بھی وقت ظاہر ہو سکتے ہیں۔ اگر کسی وجہ سے اثرات ظاہر نہ ہونے پائیں تو گناہ والی حیثیت تو کبھی بھی ختم نہیں ہوتی، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ مسلمان کو گالی دینا فسق یعنی گناہ ہے۔

بڑے لوگوں کی حیثیت تو بہت جلد مجروح ہوجاتی ہے۔ بڑے لوگوں کا معاشرہ میں ایک نام ہوتا ہے ، لوگوں کے دلوں میں قدر ومنزلت ہوتی ہے لیکن گالی دینے کے ساتھ اس کی حیثیت دھڑام سے نیچے آگر تی ہے۔ لوگوں کی نظروں میں گر جاتا ہے ۔ اگر گالی دینے والا صرف یہ سوچے کہ میری گالیوں سے خود میری حیثیت مجروح ہوتی ہے، لوگوں کی نظروں میں گر رہا ہوں تو شاید اس کے علاج کے لیے یہی کافی ہے۔ الله کا ارشاد ہے: ﴿فاصبر ان وعدالله حق ولا یستخفنک الذین لا یوقنون﴾․

ترجمہ: سو آپ صبر کیجیے، بے شک الله تعالیٰ کاو عدہ سچا ہے اور بد یقین لوگ آپ کو خفیف نہ کرنے پاویں۔

یستخفنک خفت سے ہے ، خفت کا معنی ہیں: ہلکا او رسبک ہونا۔ جو آدمی طیش میں آجائے اس کو بھی خفیف کہتے ہیں او رجس میں وقار ہو اس کو ثقیل کہتے ہیں۔

علامہ زمخشری رحمہ الله علیہ فرماتے ہیں : ”ولا یحملنک علی الخفة والقلق جزعا بما یقولون ویفعلون“ یعنی یہ بد یقین لوگ اپنے قول اور فعل کے ساتھ آپ کو خفت اور قلق کی طرف نہ لے جائیں۔

میں اس آیت کے بارے میں سوچتا ہوں تو ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ کفار اوراغیار یعنی بدیقین لوگ اپنے قولی اور فعلی ایذا کے ساتھ حضور صلی الله علیہ وسلم کو طیش میں لانے کی کوشش کرتے تھے۔ تاکہ طیش میں آکر آپ ان کوزبان سے کچھ نہ کچھ نامناسب جملہ کہیں، جس سے آپ کی عالی شان مجروح ہو جائے، کفار کی کوشش یہی تھی کہ آپ کی بلند وبالا شان کسی نہ کسی طرح مجروح ہو جائے ۔ الله تعالیٰ نے پہلے سے آپ کی عالی شان کے دفاع کے لیے آپ کو مطلع کر دیا کہ کہیں ایسا نہ ہو آپ طیش میں آکر بے برداشت ہو جائیں اورکوئی نامناسب بات یا جملہ آپ کی زبان پر آجائے تو اس کی وجہ سے آپ کی شان گو یا باوجود ثقیل اور باوقار ہونے کے خفیف اور سبک ہو جائے گی۔ حالاں کہ آپ رفیع الشان ہیں۔ خفیف اور ہلکی باتوں سے ثقیل اور باوقاری آدمی خفیف اورسبک ہو جاتا ہے۔ اس سے معلوم ہواکہ حضور صلی الله علیہ وسلم کی طرح مبلغین اور مصلحین کو بھی اس بات کا بہت اہتمام کرناچاہیے کہ کہیں زبان پر نامناسب جملے یا گالی وغیرہ نہ آئے ، ورنہ شان گھٹ جائے گی۔ خاص کر علماء کرام کو بہت احتیاط کرنی چاہیے کیوں کہ اب انبیائے کرام اوررسول نہیں آتے ، یہی علماء ان کے نائب اور قائم مقام اور لوگوں کے راہ نما ہیں، اپنی زبان کو کنٹرول میں رکھیں، کفار اوراغیار ان کو غصہ میں لانے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کو اپنی زبان اور قلم شائستہ رکھنا ہو گا، کسی کو گالی نہ دیں، برا بھلا نہ کہیں ، نہ زبان سے اور نہ قلم سے ۔ کیوں کہ بڑے او رباوقار لوگوں کو ایسی باتیں زیب نہیں دیتیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس طرح ان کا وقار گھٹ جاتا ہے، حالاں کہ ان کو وقار میں رہنا چاہیے۔

بعض لوگ بعض مخصوص افراد کو چھیڑنے او رچڑانے کے لیے کوئی لفظ استعمال کرتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ آدمی فوراً غلیظ غلیظ گالیاں بکنا شروع کر دیتا ہے۔ ہم نے کئی ایسے افراد کو دیکھا ہے۔ اس کا گناہ ایک طرف، اگر گالیاں بکنے والے کو گناہ ملتا ہے تو دوسری طرف ان کو بھی بڑا گناہ ملتا ہے جو اس گناہ پرا بھارتے ہیں ۔ جب کسی کو چڑا کر اس کو گالیاں بکنے کا موقع دیتے ہیں تو سننے والے اس کی غلیظ گالیوں سے محظوظ ہوتے ہیں، یہ کوئی اچھا کام نہیں۔ اکوڑہ خٹک بازار میں ایک لنگڑا تھا، اس کو ایک مخصوص لفظ کے ساتھ لوگ چھیڑتے، پھر وہ جو غلیظ اور فحش گالیاں دیتا، ایسی گالیاں میں نے زندگی بھر نہیں سنیں۔ اس میں کوئی مبالغہ نہیں ، یوں لگتا تھا کہ اس کا ذہنی توازن مکمل درست نہ تھا، لیکن مکمل پاگل بھی نہیں تھا۔

بے شمار گھروں میں گالی گلوچ کا عام استعمال ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ کہ گھر کا سربراہ تو کسی سے ڈرتا نہیں ، نہ خوف نہ ملامت ہے اس لیے بڑے دھڑلے سے ماتحتوں کو گالیاں دیتا ہے ۔ عموماً بچوں کو معمولی معمولی غلطیوں پر گالیاں دینے سے گھر کے ماحول پر بڑے برے اثرات پڑتے ہیں۔ گھر کے بچے ایسی گالیاں سیکھ کر بہن بھائی معمولی معمولی باتوں اور رنجشوں پر ان کو دہراتے ہیں ۔ تجربہ ہو چکاہے جو گالی گھر کا سربراہ تکیہ کلام کے طور پر استعمال کرتا ہے ، اس کے زیر تربیت افراد بھی وہی گالی دیتے ہیں پھروہی بچے یہ گالی باہر دوسرے بچوں کو معمولی معمولی خفگیوں پر دیتے ہیں ۔ اس طرح گالیاں گھر سے نکل کر باہر معاشرہ میں پھیل جاتی ہیں ۔ باہر سے پھر اور بچے ان گالیوں کو اپنے گھروں کی طرف منتقل کردیتے ہیں، جن میں گالیوں کا رواج نہیں ہوتا۔ بہت سے والدین کو شکایت ہوتی ہے کہ ہمارے گھروں میں یہ گالیاں کہاں سے آگئیں؟ ان بچوں نے یہ گالیاں کہاں سے سیکھیں؟ یہ نہیں سوچتے کہ ان گالیوں کی ابتدا خود ہم نے کی۔

گالیاں دینے والا یہ سوچے کہ اگر گالی دینے سے ایک طرف اس کی انا کی تسکین ہے تو دوسری طرف خود اس کی حیثیت بھی گرادیتی ہے۔ لوگوں کی نظروں سے گر کر انتہائی حقیر بن جاتا ہے۔ لہٰذا گالیاں دینا خود اپنے آپ کو ذلیل کرنا ہے۔ اس طرح یہ بھی سوچیں کہ گالیاں دینے والے کی معاشرہ میں عزت نہیں ہوتی، بلکہ بدنام ہو جاتا ہے۔ حالاں کہ کوئی بھی نہیں چاہتا کہ اس کی عزت معاشرہ میں گر جائے۔ ہمت سے کام لے کر خود کو زبردستی گالیوں سے روکنا ہو گا۔ عموماً نیک لوگ گالیاں نہیں دیتے۔ اس لیے کہ ان کی زبان ہر وقت نیک باتوں اور ذکر وتلاوت میں مشغول ہوتی ہے۔ ایسی پاک زبان کو پلید نہیں کرتے۔ گالیوں سے بچاؤ کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ذکر کرے اور ہر موقع کی مسنون دعا پڑھے اور خود یہ فیصلہ کرے کہ آئندہ کسی کو گالی دی تو اتنی رقم صدقہ کروں گا۔ اس کے ساتھ نفس کی اصلاح ہوتی ہے او رجس گناہ میں مبتلا ہے اس سے چھٹکارا بھی ملے گا۔