ہندی اردو پٹی کی بیماری : گفتگو میں انگریزی لفظ ڈالنے کا چسکا

ایک روزن لکھاری
عزہ معین

ہندی اردو پٹی کی بیماری : گفتگو میں انگریزی لفظ ڈالنے کا چسکا

عزہ معین : سنبھل، بھارت

ہندی سے اردو ترجمہ

ماحولیاتی آلودگی آج سب سے بڑا مسئلہ بن گئی ہے ہر شعبہ میں، ہر کلاس وطبقہ کے لوگ اپنے اپنے حساب سے اس کی فکر کرنے میں مگن ہیں، مگر اس لئے کہ نہ انجام پتہ نہ اسکیم  ترکیب کی خبر بس فکر کر رہے ہیں۔ پورے دل سے اپنی تمام تر طاقت سے اس کی فکر کی جارہی ہے اس مسئلہ سے نبرد آزمائی کی ترکیبیں ہو رہی ہیں۔ لیکن عمل کی بات آتے ہی سب دائیں بائیں ہو لیتے ہیں۔

میرے ایک گہرے دوست بڑے مفکر شاعر ہیں۔ اکثر پان کی دوکان پر فکر کرتے پائے جاتے ہیں. ان سے ماحولیاتی آلودگی کی بات چھیڑی تو ایک دم میں وہ مبصر ہوگئے، مٹیالے آسمان کی طرف منھ اٹھا کر سگریٹ کا دھواں چھوڑتے ہوئے بولے: ‘کس آلودگی کی بات کر رہی ہیں محترمہ سیاسی آلودگی، روائتی آلودگی، معاشرت آلودگی، ہسٹوریکل آلودگی، جغرافیائی آلودگی، ادبی آلودگی، لٹریریی آلودگی، تصوراتی آلودگی یا پھر انسانی آلودگی؛ یہاں تو ہر شعبہ پر آلودگی ہی آلودگی پھیلی ہے۔

غنیمت یہ تھی کہ ان کو ماحولیاتی آلودگی کے علاوہ اتنے ہی نام یاد تھے ورنہ وہ اس معاملے کو ہندی، انگریزی،اردو ، سائنس اور ریاضی جیسے مضامین کی آلودگی سے بھی منسلک کر دیتے۔ تو ہم کو ‘کھسکو پروگرام ‘کے علاوہ اور کوئی راستہ ہی نہیں سوجھتا۔ میں نے کھانستے ہوئے اسے سمجھانا چاہا ‘بھائی آج یعنی موجودہ عہد میں سب سے بڑی پریشانی ماحولیاتی ہوائی آلودگی کو لے کر ہو رہی ہے۔ کلیگ میں اگر کچھ انتشاری اذہان ہیں تو ان میں سے اسے بھی آتنک وادیوں کا بھائی ہی سمجھنا ہوگا۔ ‘

اب وہ دوست شاعر ‘گردگونڈوی ‘ہوائی آلودگی کا احساس کرتے ہوئے گویا ہوئے ‘کچھ سنائی نہیں دیا ان آتی جاتی گاڑیوں کی وجہ سے .بہت شور ہو رہا ہے ‘ پھر کچھ سوچتے ہوئے کہنے لگے ‘مگر اس آلودگی نے شور پید اکرکے اچھا ہی کیا ہے بے، مطلب کی چیزیں سنائی نہیں پڑتی ہیں یا پھر سنائی دیتی ہیں تو اپنے کام کی باتیں یا پھر اپنے اندر کی آواز، اپنی روح کی آواز، اپنے ضمیر کی آواز۔ بہتوں کے پاس ضمیر بھی نہیں ہوتا . تب انھیں صرف کھوکھلی آوازیں  ہی سنائی پڑتی ہیں جن کے دم پر اہسے لوگ گال بجانا شروع کر دیتے ہیں اور سبھی کی ناک میں دم کرنا اپبا شغل سمجھتے ہیں۔’

ہم نے شوخی بھرے لہجہ میں دریافت کیا ‘بھائی میرے کہیں تمھارا اشارہ دلی والے ‘آپ ‘ صاحب کی طرف تو نہیں ہے’ ۔ گرد گونڈوی ہنستے ہوئے فرمانے لگے’ ارے محترمہ ان کی کیا بات کروں وہ تو کھیج علوم کے خود ساختہ آلودگی پروفیسر استاد ہیں۔’

ہمیں محسوس ہوا ہم نے بات کو ‘آڈ ، ایون’ سمت میں موڑ دیا ہے۔ سیاست پر بات کرنے میں ہم ہندوستانیوں سے کوئی جیت نہیں سکتا ہے۔ اپنے یہاں دور گاؤں میں رہنے والا کم پڑھا لکھا آدمی بھی سیاست پر گھنٹوں چرچا کرنے میں ماہر ہے اس سے کوئی علم سیاست کا  سند یافتہ عالم بحث کرکے دیکھ لے۔ ہمارا دعوی ہے کہ شرطیہ ہار جائیگا۔ جہاں تک ہم گرد گونڈوی کو جانتے تھے وہ سیاسی بحثوں میں محلہ کی نہج پر غیر انعام یافتہ چیمپین ہیں۔ ان سے اس معاملے میں ٹکرانا بھی ویسا ہی تھا جیسے تمام دبشوں اقر روک تھام کی تدابیر کے باوجود ملک میں بدعنوانی کی آلودگی پھیلانے والے اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتے ہیں۔ یہ بدعنوانی بھی تو ایک قسم کی آلودگی ہی ہے۔

صاف ہندوستان مشن کو ٹھینگے پر رکھنے والے آپ کو گلی گلی میں مل جائیں گے۔ ہمسائی کا فرض ہوتا ہے کہ اپنا کچرا آپ کے دروازے پر پھینکنا، اور تو اور آج ملک کی تمام ندیاں آلودہ ہیں۔ سبھی کو “نمامی گنگے” جیسی تدبیر کی ضرورت ہے۔ جب تک ہم اپنی سوچ نہیں تبدیل کرتے حالات اہسے ہی رہیں گے۔ کسی وقت میں ہمارے ملک کے آچاریہ، رشی ،منی علم کی حصول یابی کے لئے دھیان لگانے گھنے جنگلوں میں جاتے تھے۔ آج گھنے جنگلوں کی ہی حفاظتی تدابیر پر کسی کا دھیان نہیں ہے تو ماحول کیسے پاک ہو۔ ہم نے بات آگے بڑھائی اور کہا، ‘میرے خیال سے تو یہ بڑھتی آبادی ہی ساری آلودگیوں کی بنیادی وجہ ہے۔’

  :گرد گونڈوی اس مرتبہ ہماری بات سے متفق نظر آئے۔ گویا ہوئے
‘بے تحاشا بڑھتی آبادی کے چلتے سکون تو آج کے وقت میں قبرستان تک میں نہیں ہے۔ پھر زندگی میں کہاں سے آئے ۔’

ہم نے ان سے تھوڑا اور اونچا بولنے کا اشارہ کیا تو وہ کہنے لگے۔ ‘اگر سب کی سنی جانے لگے تو کوئی کام ہو ہی نہیں سکتا اس واسطے سمجھدار لوگ سنتے ہی نہیں ہیں۔ اپنے دل کی کرتے ہیں۔ عوام کا کام تو صدیوں سے شور مچانا رہا ہے۔ سمجھداری اسی میں ہے کہ آپ اپنے کانوں میں روئی ٹھونس لیں۔ باہر کی کوئی آواز اندر نہیں آئےگی۔’

ہم بھی کچھ زیادہ ہی پالیشیونائے ہوئے تھے سو بات مزید آگے بڑھانے کے لئے کہا،’میری سمجھ میں تو ترقی کی راہ پر چلتے تمام کاروباروں کی بہتات ہی مسئلہ کی اصل جڑ ہے۔’

گرد گونڈوی نے پان کی پیک سڑک پر انڈیلتے ہوئے آس پاس کے اصل ماحول پر سرسری نگاہ ڈالی، پھر مطمئن ہوتے ہوئے، ہندی میں انگریزی کا تڑکا لگاتے ہوئے بولے ‘ فکر ناٹ! پالیوشن کا فیوچر ہنڈریڈ پرسینٹ سیف ہے۔ این جی اوز جٹے پڑے ہیں۔ انھیں گورنمنٹ کی ہیلپ الگ سے ہے۔ چاروں طرف پالیوشن کنٹرول کے نام پر ورک کرنے والے انسٹیٹیوشنس کی باڑھ آئی ہوئی ہے۔’

ہندی اردو پٹی کا یہ خاص عارضہ ہے کہ جب بھی یہاں کے آدمی کو سامنے والے پر امپریشن جمانا ہوتا ہے وہ فوراً انگریزی کی آغوش میں پناہ لے لیتا ہے۔ میں نے ٹوکا تب کہیں جاکر اصل حالت میں آئے۔ اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہنے لگے ‘آپ سوچتی ہوں گی کہ کسی بھی طرح کی باڑھ آنے سے تباہی آتی ہے۔ جی نہیں، آپ پھر سے غور کیجئے گا یہ وہ باڑھ ہے جس میں الٹے کتنے سارے خاندان آباد ہوجاتے ہیں،’ دولت کی بارش ہوتی ہے۔ کاغذ پر پودے بوئے جاتے ہیں، سوکھے میں بھی کشتیاں چلائی جاتی ہیں۔’

گرد گونڈوی کے منھ کی چمنی دھواندھار لیکچر اگل رہی تھی۔ میرے صبر کا باندھ بھی ٹوٹ رہا تھا۔ میں نے سلام کیا اور وہاں سے وداع لی، کیونکہ ان کے سینے کی جلن اور آنکھوں کے طوفان کی آلودگی کا پارہ میرے دماغ کی اوزون سطح پر اب ایک بڑا چھید بنانے ہی والا تھا۔