لکھنے والوں کی بابت کچھ نہ کہنے کی باتیں

ایک روزن لکھاری
اصغر بشیر، صاحب تحریر

لکھنے والوں کی بابت کچھ نہ کہنے کی باتیں
(اصغر بشیر)

آپ بادشاہ ہیں میں مزدور ہوں۔ آپ کے دم سے میری تحریریں زندہ ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ آپ تک چند الفاظ پہنچانے کے لیے ہمیں محنت و مشقت کی چکی سے گزرنا پڑتا ہے۔ تخلیقی عمل کی کئی شرائط کو پورا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے مختلف مراحل کی تکمیل میں مغز ماری کرنا پڑتی ہے۔ اس کشٹ میں بہت سی چیزوں کو مد نظر رکھنا پڑتا ہے۔ سانچے بنانے پڑتے ہیں پھر ان سانچوں میں لفظوں کی بھرتی کرنا پڑتی ہے پھر کہیں جا کر ایک خاکہ تیار ہوتا ہے۔ ابھی محنت ختم نہیں ہوئی۔ خاکہ کمزور ہوتا ہے، کہیں الفاظ بڑھانے پڑتے ہیں تو کہیں ان کو گھٹا کر وزن پورا کیا جاتا ہے۔ پھر ان کو پکنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ان سانچوں کو دیکھنا پڑتا ہے کہ کہیں کسر تو نہیں رہ گئی۔ الفاظ کہیں کمزور تو نہیں ہیں۔ معنی کا ربط ٹھیک ہے۔ آواز اور ردھم میں آہنگ موجود ہے۔ ان سب کے بعد پھر کہیں جا کر جامع تحریر تیار ہوتی ہے۔

لکھنے والوں کی بابت کچھ نہ کہنے کی باتیں

ہم سمیریوں کے جانشین ہیں۔ ان روایات کو زندہ رکھنے کے لیے کوشش کرتے ہیں جن کا آغاز تین ہزار سال قبل مسیح میں میسوپوٹیمیا میں ہوا تھا۔ ہم اپنے عہد کی وجہ سے مجبور ہوتے ہیں۔ ہمارے سامنے صرف حال میں موجود قاری نہیں ہوتے بلکہ وقت کی لہروں اور جہتوں میں موجود کوئی بھی پڑھ سکتا ہے۔ ہمیں تحریر کو اس قابل کرنا پڑتا ہے کہ اگر مستقبل میں بھی کوئی پڑھے تو نظر انداز نہ کر دے بلکہ اس کے ساتھ جڑ جائے۔ ہمارا کام مشکل ہے۔
میری تحریروں کا راز کوئی ہما شما کا پرندہ نہیں ہے۔ میوز پہلے پہل نزول کرتی ہو گی۔ میرے ساتھ ایسا امر واقع نہیں ہوا۔ میں سوچتا ہوں کہ چامسکی نے جو انسانی زبان کے دماغ میں عمل کی وضاحت دی ہے۔ میری ودیعت کی وضاحت کر سکتی ہے۔ چامسکی کا مہارت اور کارکردگی کا نظریہ یہ بتاتا ہے کہ ایک مصنف کے پاس وہی مہارت ہوتی ہے جوایک کار ڈرائیور کے پاس ہوتی ہے۔ ایک کار ڈرائیور کے لیے لازمی نہیں ہے کہ وہ گاڑی کو چلاتے وقت اپنی تمام معلومات کو استعمال کرے بلکہ وہ معلومات کا صرف وہی حصہ استعمال کرتا ہے جن کا استعمال ضروری ہوتا ہے۔

اسی طرح ہمارے ذہن میں زبان کے اصول اور الفاظ کا ذخیرہ موجود ہوتا ہے۔ صرف وہی حصہ استعمال کرتے ہیں جن کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس عمل میں دماغ کا لاشعوری حصہ کارفرما ہوتا ہے۔ ہم اپنے علم سے زیادہ کارکردگی دکھاتے ہیں۔ اکثر یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنا فوکس کھو بیٹھتے ہیں ، ہم بھول جاتے ہیں کہ ہم کس کے لیے لکھ رہے ہیں اورکیا لکھتے ہیں۔ اس لیے ہماری تحریر اپنا اصل مقصد و مدعا کھو بیٹھتی ہے۔
ایک مصنف کی جس طرح نشوونما ہوتی ہے یہ تحریر کے انداز اور اس کی فکر پر اثرانداز ہوتی ہے۔ ہم نے بچپن میں علامہ اقبال کی شاعری پڑھی، ہماری کلاس میں شاعر مشرق کی تصویر لگی ہوتی تھی، ڈارک بیک گراؤنڈ میں ہاتھ میں قلم پکڑے وہ کچھ سوچ رہے ہوتے تھے۔ ہم ساری عمر یہی سوچتے رہے کہ بڑے لکھاری اسی طرح بڑے لکھاری بنتے ہونگے۔ تنہائی میں قیمتی لکڑی سے بنے وزنی میز پر آرام دہ کرسی سے ٹیک لگائے سوچتے ہوئے لکھتے ہونگے اور کمال کی تحریریں پیش کرتے ہونگے۔

لیکن اب خود لکھنے بیٹھے تو پتہ چلا کہ تحریر کا عمل اپنے اندر جہان رکھتا ہے۔ یہ ایک سائنس اور فن ہے۔ سائنس اس لیے ہے کہ یہ عمل چند اصولوں کے زیر اثر چلتا ہے۔ فن اس لیے کہ بار بار کی مشق سے اس میں مہارت حاصل کی جاتی ہے۔اس کو سیکھا جا سکتا ہے۔ اس کو سکھایا جا سکتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ تکلم میں سامع درستی کر دیتا ہے لیکن تحریر میں یہ کام ایک فرد کو خود کرنا پڑتا ہے اور یہ کام کوئی اور نہیں کر سکتا۔