جہاں پاک نہیں ہو گا، جتنے مرضی خس کم ہو جائیں

لکھاری کی تصویر
یاسر چٹھہ

جہاں پاک نہیں ہو گا، جتنے مرضی خس کم ہو جائیں

از، یاسر چٹھہ 

“چھوٹے کرداروں اور انسانوں کا ایک اور بڑا مسئلہ ہوتا ہے،” اس نے بند آنکھوں کے پپوٹوں کو بَہ زور سُکیڑتے ہوئے کہا۔

پاس بیٹھے برسوں پرانے دوست نے تنگ آ کر اِس وقت ایک بار پھر پوچھ لیا:

 “خدا کا نام لو، لوگ سمجھنے کے لیے رک نہیں جاتے، آسان بات کیا کرو۔ اپنی کہی کو مقدس کتاب کے کلمے نا سمجھو کہ لوگ پھونکیں گے، پڑھیں گے۔ اب کیا کہنا چاہ رہے ہو؟”

اس نے بند آنکھوں اور سکڑے ہوئے پپوٹے کے اندر آنکھ کے ڈیلوں کو نیم دائرے میں گھماتے ہوئے جواب دیا:

“یار، تینوں وی نئیں پتا لگدا کہ میں کیہ آکھنا چاہناں واں؟ جب ارد گرد سب آپ کو چپ رہنے پر مجبور رکھتے ہوں تو وہ آسان لفظوں میں کیسے بولیں؟ وہ مطلب اور اَن کہیاں، لفظوں کی پوٹلیوں میں باندھ لیتے ہیں؛ وہ الفاظ و معانی کی پوٹلیاں اس بُڑھیا کی طرح باندھ باندھ رکھتے جاتے ہیں، جسے پتا نہیں ہوتا کہ اُس کی پوٹلیوں میں بندھا سامان جانے اس کے اپنے کام بھی آئے گا، یا نہیں۔ لیکن وہ پوٹلیاں کسی آس پر باندھتی جاتی ہے۔”

“چلو جی، تصویروں میں، تمثیلوں میں حکایتوں میں باتیں جوڑتے جاؤ، اور کوئی کام نہیں۔ سیدھی نا کہنا ایک بھی … کر لو فرض کہ سارے تمہاری رمز کشائیوں کی بے گاری میں لگنے کے شوقی ہیں۔ تینوں رب دا واسطہ ای، اُتّے کیہ آکھنا چاہندا سیئں؛ میرا مطلب ہے کہ وہ جو چھوٹے کردار، بڑا مسئلہ، … ہاں کچھ اسی طرح کا تھا۔ باتیں کرتے بھی لگتا ہے کہ تم کتابی جملے لکھ رہے ہوتے ہو… totally hopeless case ہو تم بھی …!”

“ہاں ٹھیک بولتے ہو بھائی، تم تیز رفتار سُپر فور جی جنریشن۔ آپ لوگوں کو سب فٹا فٹ چاہیے۔ نا پھول کھلنے کا انتظار، نا ہنستی آنکھوں اور جُھوٹے ہونٹوں کی مسکراہٹوں کا فرق معلوم، نا چہروں پر لالی آنے کا مشاہدہ، نا جھوٹ میں سچ، اور سچ میں جھوٹ کو تولنے کا سمے … بس سب ہو ہوا جائے، آن کی آن میں؛ یہی چاہیے اور کچھ نہیں۔ جیسے جیتے ہو، ویسے ہی مرتے ہو …”

“بس جی بزرگو، بات نا بتانا، لفظوں کا چرخا کاتتے جانا …،” وقت سے ہم آہنگ اپنے وجود و نفس سے بکھرا دنیا فہم بولا۔

“یار چھوٹے لوگوں کے ساتھ ایک بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی بات کرتے، ان کو بیان کرتے بندے کو خود چھوٹے ہو جانے کا بڑا سا خطرہ رہتا ہے۔ چھوٹے کو بیان کرتے میرے بڑے بڑے دوست چھوٹے ہوتے جاتے ہیں۔ یہ میرا آج کا قلق ہے۔ یہی میرا کل کا رنج تھا۔ کیا یہ میرے آنے والے کل بھی المیہ رہے گا؟”

[موبائل فون کی بیل بجتی ہے۔]

جسے سیدھی بات سننے کی اتنی تڑپ تھی، وہ فون پر باتوں میں مشغول ہو جاتا ہے۔

اب پڑھنے والا کیا کرے گا؟ کیا وہ پڑھنے کے لیے رکا تھا؟

نا تمام تمامیہ … ۔

About یاسرچٹھہ 240 Articles
اسلام آباد میں ایک کالج کے شعبۂِ انگریزی سے منسلک ہیں۔ بین الاقوامی شاعری کو اردو کےقالب میں ڈھالنے سے تھوڑا شغف ہے۔ "بائیں" اور "دائیں"، ہر دو ہاتھوں اور آنکھوں سے لکھنے اور دیکھنے کا کام لے لیتے ہیں۔ اپنے ارد گرد برپا ہونے والے تماشائے اہلِ کرم اور رُلتے ہوئے سماج و معاشرت کے مردودوں کی حالت دیکھ کر محض ہونٹ نہیں بھینچتے بَل کہ لفظوں کے ہاتھ پیٹتے ہیں۔