عالمی دن برائے آٹزم آگاہی

عالمی دن برائے آٹزم آگاہی

عالمی دن برائے آٹزم آگاہی

از،  فریحہ کاشف

آج 2 اپریل ہے، دنیا بھر میں اس دن کو عالمی دن برائے آٹزم آگاہی کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یکم  نومبر 2007 کو پہلی مرتبہ اقوام متحدہ میں اس بات کی سفارش کی گئی کے ہر سال آٹزم کا عالمی دن منایا جانا چاہیے۔ چنانچہ 18 دسمبر 2007 کو ایک ریزولیشن پاس کی گئی کہ ہر سال 2 اپریل کو آٹزم کی آگاہی کا عالمی دن منایا جائے گا۔ اور 2  اپریل ء2008 کو پہلی مرتبہ آٹزم آگاہی کا عالمی دن منایا گیا۔ ہر سال اس دن کو منانے کا مقصد آٹزم یا خود تسکینی کی کیفیت میں مبتلا افراد کی انوکھی اور مختلف صلاحیتوں کا تسلیم کیا جانا ھے، اور ان افراد کو زندگی بھر درپیش مشکلات کے متعلق معاشرے کے عام افراد کو آگاہی فراہم کی جائےتاکہ ان افراد کی ضروریات اوران کو درپیش مشکلات کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے اور ان کو ہر ممکنہ مدد فراہم کی جا سکے۔

خود تسکینی یا آٹزم کے بارے میں دنیا بھر میں آگاہی پھیلانے کے لیے اس کو عالمی دن کے طور پر منانے کا فائدہ کتنا ہوا؟ اس کی ایک گواہ تو میں بھی ہوں. میرے دو بیٹے زندگی بھر رہنےوالی خود تسکینی  یا آٹزم کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ میرا بڑا بیٹا محمد امان کاشف جو کہ اب تیرہ برس کا ہے خود تسکینی کی شدید کیفیت میں مبتلا ہےاور مرگی کا بھی مریض ہے۔ اس کی پیدائش کے وقت مجھے آٹزم کے بارے میں بالکل آگاہی نہیں تھی۔ کیوں کہ آج سے تیرہ سال پہلے ساہیوال جیسے شہر میں رہتے ہوئے جو کہ صحت اور تعلیم جیسی بنیادی سہولیات کی حوالے سے کافی پسماندہ تھا (اگر چہ صورتحال اب بھی کافی بہتر نہیں ہے) آٹزم کی تشخیص اور اس کے بارے میں مکمل راہنمائی ملنا ناممکن تھا۔ لیکن پھر بھی جہاں تک ممکن ہو سکا میں نے اپنے بچے کے علاج کے لیے کافی  بھاگ دوڑ کی یہاں تک کہ اس ضمن میں نیم حکیم اور تعویز دھاگے کرنے والے بزرگوں کی بھی کافی خدمات حاصل کی گئیں۔ لیکن سب بے سود، جس کی وجہ سے میرے بیٹے کی زندگی کے وہ قیمتی سال ضائع ہوگئے جن میں اگر اس کو بروقت مدد فراہم کی جاتی تو اس کی زندگی کافی بہتر ہو سکتی تھی۔

لیکن 2010 میں جب میرا چھوٹا بیٹا محمد ارحم کاشف پیدا ہوا اور تین سال کی عمر کو پہنچنے تک اس میں بھی آٹزم کی علامات ظاہر ہونے لگی تو اس وقت تک آٹزم کے بارے میں آگاہی کافی حد تک عام ہو چکی تھی اور ہر سال آٹزم کے بارے میں آگاہی کا عالمی دن بھی منایا جاتا تھا۔ جس کی وجہ سے مجھ جیسی ماں کو کافی فائدہ ہوا، انٹرنیٹ پر مسلسل ریسرچ کرنے کی وجہ سے مجھے آٹزم یا خود تسکینی کی کیفیت کی ابتدائی علامات کے بارے میں کافی معلومات مل چکی تھی، جو کہ بچے میں اس کی پیدائش کے دو سے ڈھائی سال بعد ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں میں نے ان میں سے کچھ علامات اپنے چھوٹے بیٹے ارحم میں نوٹس کرنا شروع کیں۔ محمد ارحم کاشف جوکہ دو سال تک بظاہر ایک تندرست اور ہوشیار بچہ تھا۔ اور وہ اپنی اعصابی نشونما کے تمام مراحل مناسب عمر میں طے کر رہا تھا۔ پھر اچانک سے ارحم  میں، میں نے کچھ غیر معمولی تبدیلیاں محسوس کیں، جیسا کےاپنے بہن بھائیوں سے بالکل الگ رہنا، نظر ملا کر بات نہ کرنا، بلاوجہ بہت زیادہ رونا یا بہت زیادہ ہنسنا، نیند کا پریشان کن حد تک کم ہو جانا میرے خیال میں ارحم سارا دن میں صرف دو گھنٹے سوتا تھا جس کی وجہ سےاس کی طبیعت میں بہت زیادہ چڑچڑا پن آ گیا تھا، اس نے کھانا پینا بھی چھوڑ دیا تھا، وہ مختلف چیزوں کو قطار میں لگاتا اور گھنٹوں ان کو دیکھتا رہتا اور ان میں مگن رہتا، وہ دن بدن اپنی دنیا میں اتنا زیادہ گم ہوتا جا رہا تھا کہ اس کو اگر کہیں چوٹ  لگ جاتی تو اس کو اس بات کا بھی احساس نہ ہوتا، یہ سب کچھ میرے لیے بہت زیادہ تکلیف دہ تھا۔

ان علامات کی وجہ سے مجھے کافی حد تک یقین ہو گیا تھا کہ ارحم خود تسکینی کی کیفیت میں مبتلا ہے لیکن دل ماننے کو تیار نہ تھا امان کے بعد اب ارحم بھی کسی ذہنی معذوری کا شکار ہے۔ ساری دنیا کے غم اور تکالیف ایک طرف اور اولاد کا غم اور اس کی تکلیف ایک طرف خدا کبھی دشمن کو بھی یہ غم نہ دکھائے۔ یقین مانیں یہ درد صرف وہی سمجھ سکتا ہے جو ان حالات سے گزرتا ہے۔ میرے جسے والدین جو کہ اس تیسری دنیا کے رہائشی ہیں جہاں نارمل بچوں کے لیے بھی بنیادی سہولیات میسر نہیں ہیں وہاں خصوصی بچوں کے ساتھ زندگی گزارنا ایک امتحان سے کم نہیں، پہلے تو والدین کو  آگاہی ہی نہیں مل پاتی، کہ ان کا بچہ کس تکلیف میں مبتلا ہے اور نہ اس بات کی رہنمائی کہ وہ کیسے اس کی زندگی میں بہتری لا سکتے ہیں، اور ہمارے اس معاشرے کا ایک بڑا المیہ یہ بھی ہے، کے بچہ اگر کسی ذہنی یا جسمانی معذوری کے ساتھ ہے تو قصور وار والدین کو اور بالخصوص ماں کو ٹھہرایا جاتا ہے، بات بے بات لوگوں کے طعنے، الزام تراشی، حقارت آمیز نظریں والدین کی تکلیف میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔

کچھ بدبخت لوگ تو ایسے بچوں کو اللہ کی طرف سے والدین کو دنیا میں ہی مل جانے والی سزا قرار دے دیتے ہیں، اس سب کے باوجود اگر ان خصوصی بچوں کے والدین ان کی علاج معالجے کی کوشش کرتے ہیں تو ایک طرف علاج غیرمعیاری اور انتہائی مہنگا علاج اور دوسری طرف یہ سننے کو ملتا ہے کہ، نہ کرو یہ سب پیسے کا ضیاع ہے، اس نے کون سا ٹھیک ہوجانا، مجھے بھی کچھ ایسے ہی مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ اور میرے نزدیک اس ساری  تکلیف دہ صورت حال کی بنیادی وجہ تعلیم اور آگاہی کی کمی ہے کیونکہ تعلیم یافتہ معاشروں میں صورتحال اس سے کافی بہتر ہے۔ اور مجھے بھی جس چیز سے سب سے زیادہ فائدہ ہوا وہ اپنے بچے کی بیماری کے بارے میں مکمّل طور پر آگاھی حاصل کرنا تھا، جس کی وجہ سےبروقت میرے چھوٹےبیٹے میں آٹزم کی تشخیص ممکن ہو سکی اور میں ساہیوال چھوڑ کر لاہور منتقل ہوگئی جہاں میں نے اس کی بیہیویئر تھراپی شروع کروا دی جس کی وجہ سے وہ اب میرے بڑے بیٹے کی نسبت کافی بہتر زندگی گزار رہا ہے۔

آٹزم یا خود تسکینی کیا ہے؟

آٹزم یا خود تسکینی ایک بیماری نہیں بلکہ زندگی بھر رہنےوالی ایک  ایسی کیفیت ہے جس میں مبتلا افراد اپنی ہی دنیا میں مگن رہتے ہیں۔ ان میں دشواری کے تین شعبے مشترک ہوتے ہیں۔

  1. بات چیت کرنے کے لیے زبان سمجھنے اور استعمال کرنے میں دشواری
  2. لوگوں کے ساتھ سماجی میل جول اور تعلقات استوار کرنے میں دشواری
  3. کسی بھی ایک عمل کو بار بار دہرانا اور اس سے تسکین حاصل کرنا.

یوں تو خود تسکینی والے تمام افراد میں یہ تینوں دشواریاں مشترک ہوتی ہیں۔ مگر ان کا اثر مختلف افراد پر مختلف ہوتا ہے۔ کچھ افراد تو خود تسکینی کی کیفیت کے ساتھ اپنی روزمرہ زندگی کے کام خوش اسلوبی سے سرانجام دیتے ہیں، کسی حد تک اپنی بات سمجھا لیتے ہیں اور دوسروں کی سمجھ بھی لیتے ہیں۔ جبکہ زیادہ تر افراد نہ تو دوسروں کی بات سمجھ پاتے ہیں اور نہ اپنی بات سمجھا پاتے ہیں بلکہ اپنی روزمرہ زندگی کےچھوٹے چھوٹے کاموں کو سرانجام دینے کے  لیے ہمیشہ دوسروں پر منحصر رہتے ہیں۔

آٹزم یا خود تسکینی کے متعلق کچھ حقائق

امریکا کے بیماریوں کی روک تھام کے ادارے کا 2016 میں کیے جانے والے ایک سروے کے مطابق امریکہ کے ہر 68  بچوں میں سے ایک بچہ آٹزم میں مبتلا ہے۔ اس میں 42 لڑکوں میں سے ایک لڑکا اور 189 لڑکیوں میں سے ایک لڑکی خود تسکینی کی کیفیت میں مبتلا ہے۔ خود تسکینی یا آٹزم میں مبتلا افراد میں سے ایک تہائی افراد عمر بھر بات چیت کرنے کی صلاحیت سے محروم رہتے ہیں۔ خود تسکینی کی کیفیت میں مبتلا شخص کو عام افراد سے زیادہ پیار اور توجہ کی ضرورت  ہوتی ہے اور جتنا جلدی اس بات کو قبول کر لیا جائے خود تسکینی کی کیفیت میں مبتلا بچے کی ساری زندگی اسی کیفیت کے ساتھ گزرے گی، اور اس کی اس حالت کا ذمہ دار ‏‏نا تو وہ خود ہے اور نہ ہیی کوئی اور اتنا ہی بہتر ہے۔

آٹزم یا خود تسکینی کے اسباب

آٹزم کا سبب ابھی تک نامعلوم ہے۔ البتہ یہ پیدائش سے قبل، دورانے حمل اور پیدائش کےفورا بعد میں ہونے والے دماغی ارتقا کے سبب ہو سکتا ہے۔ آٹزم موروثی بھی ہو سکتا ہے

اگر آپ کا بچہ خود تسکینی یا آٹزم کی کیفیت میں مبتلا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ خراب والدین ہیں۔ آٹزم کسی شخص کی پرورش، اس کے سماجی حالات کے ذریعے پیدا نہیں ہوتی اور نہ ہی اس میں خود تسکینی کی کیفیت میں مبتلا شخص کی کوئی غلطی ہوتی ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ بچوں میں ہو رہی ہیں۔ لڑکیوں کی نسبت لڑکوں میں اس کی تشخیص زیادہ ہے۔

آٹزم یا خود تسکینی کی علامات!

آٹزم یا خود تسکینی کی علامات بچے کی زندگی کے ابتدائی تین سالوں میں ظاھر ھونے لگتی ھیں۔

آٹزم کی چند علامات درج ذیل ہیں۔

  1. سماجی میل جول اور رابطے کی مہارت میں اپنے ہم عمر بچوں سے کم ہونا. نظر سے نظر ملا کر بات نہ کر پانا.
  2. اپنے ارد گرد کے ماحول میں  دلچسبی نہ لینااپنی ہم عمر بچوں یا اپنے سے بڑے بہن بھائیوں کے ساتھ نہ کھیلنا٬ اکیلے رہنے کو ترجیح دینا٬کھلونوں کا درست استعمال نہ کرنا٬
  3. خطرےکا احساس نہ ہونا،
  4. کھانے پینے اور سونے میں غیر معمولی رویہ ہونا.
  5. ایک ہی لفظ کو باربار بولنا٬یا جسم کو ایک ہی طرح سے بار بار حرکت دینا٬پیروں کی انگلیوں پر چلنا
  6. مختلف چیزوں کو ایک قطار میں رکھنا
  7. جذبات سے عاری ہونا٬اپنے والدین اور اجنبیوں میں فرق نہ کر پانا۔
  8. روز مرہ زندگی کے کاموں میں چھوٹے سے بدلاؤ کو بھی برداشت نہ کر پانا.
  9. بلاوجہ بہت زیادہ رونا یا چیخنا۔
  10. حواس خمسہ کے متعلق حساسیت کا انتہائی زیادہ یا انتہائی کم ہونا۔
  11. بول کر یا بولے بغیر مثلا اشاروں کی مدد سے اپنی بات نہ بتا پانا٬انگلی کی مدد سے کسی مخصوص سمت یا کسی مخصوص شے کی طرف اشارہ     نہ کر پانا۔ وغیرہ

آٹزم یا خود تسکینی کا علاج

بدقسمتی سے ابھی تک آٹزم کا کوئی مخصوص علاج دریافت نہیں ہو سکا،  کےجس کے استعمال سے یہ کہا جا سکے کہ آٹزم ایک مکمل طور پر قابل علاج کیفیت  ہے۔

آٹزم میں مبتلا ہر فرد دوسرے سے مختلف ہوتا ہے لہذا ان افراد کی بہتری ان کے علاج ان کی تعلیم اور بحالی کے پروگراموں میں سے کسی ایک کو حتمی اور بہترین نہیں کہا جا سکتا، کیونکہ ہر فرد اپنی ذات میں دوسرے سے منفرد ہوتا ہے۔  اس کی خاص ضروریات اور مخصوص مسائل کو مد نظر رکھ کر اس کی بحالی کا پروگرام ترتیب دینا چاہیے۔ ان میں سمعی تربیت، وٹامن سے علاج، زبان دانی کی تربیت، موسیقی سے علاج، جسمانی تربیت، روزمرہ زندگی کی مہارتیں، رویہ کی درستگی، جیسے مختلف تربیتی پروگراموں سے مدد لی جا سکتی ہے۔

آٹزم یا خود تسکینی میں مبتلا فرد کو مدد فراہم کرنے کے چند طریقے:

  1. آٹزم میں مبتلا فرد سے گفتگو شروع کرنے سے پہلے اس کی توجہ اپنی طرف مبذول کروائیں

کیونکہ ایسے افراد کو اعضاءکی حرکات، چہرے کے اتارچڑھاؤ، یا آواز کے لہجے کو سمجھنے اور استعمال کرنے میں دشواری ہو سکتی ہے۔

  1. صاف صاف بولیں، اور اپنے جملے مختصر رکھیں، اس سطح کی زبان استعمال کریں جس کو وہ شخص آسانی سے سمجھ سکتا ہو۔
  2. خفیہ معنوں والی بلاواسطہ زبان استعمال نہ کریں۔ کیونکہ ایسے افراد فکروں کو لغوی معنی میں لے سکتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں متعلقات فعل، مزاح اور محاوروں کو سمجھنے میں دشواری ہو سکتی ہے۔
  3. آٹزم میں مبتلا افراد کو سوالات کا فوری طور پر جواب دینا دشوار معلوم ہوسکتا ہے۔ لہذا آپ نے جو کچھ بھی پوچھا ہے اس کا جواب دینے کے لیے ایسے افراد کو تھوڑا وقت دیں۔
  4. آٹزم میں مبتلا افراد کو دوسرے لوگوں کے جذبات پسند اور دلچسپیوں کو سمجھنا دشوار معلوم ہو سکتا ہے, لہذا اپنے احساسات کو واضح کرنے کی کوشش کریں۔
  5. دوسرے لوگوں کے ساتھ ہم آہنگی اختیار کرنے کے خواہ تو ہو سکتے ہیں، لیکن دوسروں کے ساتھ تعلق استوار کرنا اور دوست بنانا دشوار معلوم ہوسکتا ہے۔ لہذا ایسے افراد کو معاشرتی ہم آہنگی کی اہلیتوں کو فروغ دینے میں مدد کریں
  6. آٹزم میں مبتلا افراد کے لیے کسی بھی طرح کا بدلاؤ دشوار ہو سکتا ہے. لہذا ایسے افراد کو تبدیلی کے بارے میں پہلے سے بتا کر تیار کریں۔ نیز ان کی روزمرہ زندگی میں آہستہ آہستہ تبدیلیاں لائیں تاکہ وہ ان تبدیلیوں کو آسانی سے قبول کر سکیں۔
  7. آٹزم میں مبتلا افراد کو معاشرتی اصولوں کی واقفیت نہیں ہوتی ہے لہذا معاشرتی طور پر قابل قبول انداز میں اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار کرنے میں دشواری کا سامنا ہوسکتا ہے جیسا کہانہیں ایک مخصوص دلچسپی میں مزا آتا ہے لیکن اس کے نتائج سے واقف نہیں ہوتے ہیں، مثال کے طور پر آٹزم میں مبتلا بچے کو شیشے کی ٹوٹنے کی آواز بہت پسند ہے، لیکن اس کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ کسی بھی عام جگہ پر شیشے کا توڑنا غیر محفوظ یا ناقابل قبول ہے اور اس سے کسی  دوسرے شخص کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ لہذا ایک محفوظ ماحول میں انہیں اپنی پسندیدہ سرگرمی انجام دینے کے مواقع فراہم کریں۔
  8. اگر آٹزم میں مبتلا فرد کسی بھی وجہ سے پریشان حال ہے تو ایسی پرسکون جگہ تلاش کریں جہاں اس کو اطمینان حاصل ہو سکے،
  9. آٹزم میں مبتلا افراد کی حواس سے متعلق حساسیت انتہائی کم یا زیادہ ہو سکتی ہے لہذا جہاں بھی ممکن ہو ان کو متبادل فراہم کریں مثال کے طور پر اگر ایسے فرد کو تیز آواز پسند نہیں ہے تو ایسی جگہوں پر جاتے وقت جہاں بہت زیادہ شور ہوتا ہے انہیں کان میں لگانے کے لیے ائرفون دےدیں۔
  10. آٹزم میں مبتلا افراد میں دیکھ کر سیکھنے کی صلاحیت سن کر سیکھنے کی صلاحیت سے زیادہ ہوتی ہے لہذا ایسے فرد کا دن بھر کے روزمرہ کاموں کا تصویری خاکہ بنائیں، جس کی مدد سے وہ اپنے روزمرہ کام  بغیر کسی کی مدد کے بہتر طور پر سر انجام دے سکتے ہیں۔

عالمی دن برائے آٹزم آگاہی

آج 2اپریل ہے، دنیا بھر میں اس دن کو عالمی دن برائے آٹزم آگاہی کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یکم  نومبر 2007 کو پہلی مرتبہ اقوام متحدہ میں اس بات کی سفارش کی گئی کے ہر سال آٹزم کا عالمی دن منایا جانا چاہیے۔ چنانچہ 18 دسمبر 2007 کو ایک ریزولیشن پاس کی گئی کہ ہر سال 2 اپریل کو آٹزم کی آگاہی کا عالمی دن منایا جائے گا۔ اور 2  اپریل ء2008 کو پہلی مرتبہ آٹزم آگاہی کا عالمی دن منایا گیا۔ ہر سال اس دن کو منانے کا مقصد آٹزم یا خود تسکینی کی کیفیت میں مبتلا افراد کی انوکھی اور مختلف صلاحیتوں کا تسلیم کیا جانا ھے، اور ان افراد کو زندگی بھر درپیش مشکلات کے متعلق معاشرے کے عام افراد کو آگاہی فراہم کی جائےتاکہ ان افراد کی ضروریات اوران کو درپیش مشکلات کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے اور ان کو ہر ممکنہ مدد فراہم کی جا سکے۔

خود تسکینی یا آٹزم کے بارے میں دنیا بھر میں آگاہی پھیلانے کے لیے اس کو عالمی دن کے طور پر منانے کا فائدہ کتنا ہوا؟ اس کی ایک گواہ تو میں بھی ہوں. میرے دو بیٹے زندگی بھر رہنےوالی خود تسکینی  یا آٹزم کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ میرا بڑا بیٹا محمد امان کاشف جو کہ اب تیرہ برس کا ہے خود تسکینی کی شدید کیفیت میں مبتلا ہےاور مرگی کا بھی مریض ہے۔ اس کی پیدائش کے وقت مجھے آٹزم کے بارے میں بالکل آگاہی نہیں تھی۔  کیوں کہ آج سے تیرہ سال پہلے ساہیوال جیسے شہر میں رہتے ہوئے جو کہ صحت اور تعلیم جیسی بنیادی سہولیات کی حوالے سے کافی پسماندہ تھا( اگر چہ صورتحال اب بھی کافی بہتر نہیں ہے) آٹزم کی تشخیص اور اس کے بارے میں مکمل راہنمائی ملنا ناممکن تھا۔ لیکن پھر بھی جہاں تک ممکن ہو سکا میں نے اپنے بچے کے علاج کے لیے کافی  بھاگ دوڑ کی یہاں تک کہ اس ضمن میں نیم حکیم اور تعویز دھاگے کرنے والے بزرگوں کی بھی کافی خدمات حاصل کی گئیں۔ لیکن سب بے سود، جس کی وجہ سے میرے بیٹے کی زندگی کے وہ قیمتی سال ضائع ہوگئے جن میں اگر اس کو بروقت مدد فراہم کی جاتی تو اس کی زندگی کافی بہتر ہو سکتی تھی۔ لیکن 2010 میں جب میرا چھوٹا بیٹا محمد ارحم کاشف پیدا ہوا اور تین سال کی عمر کو پہنچنے تک اس میں بھی آٹزم کی علامات ظاہر ہونے لگی تو اس وقت تک آٹزم کے بارے میں آگاہی کافی حد تک عام ہو چکی تھی اور ہر سال آٹزم کے بارے میں آگاہی کا عالمی دن بھی منایا جاتا تھا۔ جس کی وجہ سے مجھ جیسی

ماں کو کافی فائدہ ہوا، انٹرنیٹ پر مسلسل ریسرچ کرنے کی وجہ سے مجھے آٹزم یا خود تسکینی کی کیفیت کی ابتدائی علامات کے بارے میں کافی معلومات مل چکی تھی، جو کہ بچے میں اس کی پیدائش کے دو سے ڈھائی سال بعد ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں میں نے ان میں سے کچھ علامات اپنے چھوٹے بیٹے ارحم میں نوٹس کرنا شروع کیں۔ محمد ارحم کاشف جوکہ دو سال تک بظاہر ایک تندرست اور ہوشیار بچہ تھا۔ اور وہ اپنی اعصابی نشونما کے تمام مراحل مناسب عمر میں طے کر رہا تھا۔ پھر اچانک سے ارحم  میں، میں نے کچھ غیر معمولی تبدیلیاں محسوس کیں، جیسا کےاپنے بہن بھائیوں سے بالکل الگ رہنا، نظر ملا کر بات نہ کرنا، بلاوجہ بہت زیادہ رونا یا بہت زیادہ ہنسنا، نیند کا پریشان کن حد تک کم ہو جانا میرے خیال میں ارحم سارا دن میں صرف دو گھنٹے سوتا تھا جس کی وجہ سےاس کی طبیعت میں بہت زیادہ چڑچڑا پن آ گیا تھا، اس نے کھانا پینا بھی چھوڑ دیا تھا، وہ مختلف چیزوں کو قطار میں لگاتا اور گھنٹوں ان کو دیکھتا رہتا اور ان میں مگن رہتا، وہ دن بدن اپنی دنیا میں اتنا زیادہ گم ہوتا جا رہا تھا کہ اس کو اگر کہیں چوٹ  لگ جاتی تو اس کو اس بات کا بھی احساس نہ ہوتا، یہ سب کچھ میرے لیے بہت زیادہ تکلیف دہ تھا۔

ان علامات کی وجہ سے مجھے کافی حد تک یقین ہو گیا تھا کہ ارحم خود تسکینی کی کیفیت میں مبتلا ہے لیکن دل ماننے کو تیار نہ تھا امان کے بعد اب ارحم بھی کسی ذہنی معذوری کا شکار ہے۔ ساری دنیا کے غم اور تکالیف ایک طرف اور اولاد کا غم اور اس کی تکلیف ایک طرف خدا کبھی دشمن کو بھی یہ غم نہ دکھائے۔ یقین مانیں یہ درد صرف وہی سمجھ سکتا ہے جو ان حالات سے گزرتا ہے۔ میرے جسے والدین جو کہ اس تیسری دنیا کے رہائشی ہیں جہاں نارمل بچوں کے لیے بھی بنیادی سہولیات میسر نہیں ہیں وہاں خصوصی بچوں کے ساتھ زندگی گزارنا ایک امتحان سے کم نہیں، پہلے تو والدین کو  آگاہی ہی نہیں مل پاتی، کہ ان کا بچہ کس تکلیف میں مبتلا ہے اور نہ اس بات کی رہنمائی کہ وہ کیسے اس کی زندگی میں بہتری لا سکتے ہیں، اور ہمارے اس معاشرے کا ایک بڑا المیہ یہ بھی ہے، کے بچہ اگر کسی ذہنی یا جسمانی معذوری کے ساتھ ہے تو قصور وار والدین کو اور بالخصوص ماں کو ٹھہرایا جاتا ہے، بات بے بات لوگوں کے طعنے، الزام تراشی، حقارت آمیز نظریں والدین کی تکلیف میں اضافے کا باعث بنتے ہیں، کچھ بدبخت لوگ تو ایسے بچوں کو اللہ کی طرف سے والدین کو دنیا میں ہی مل جانے والی سزا قرار دے دیتے ہیں، اس سب کے باوجود اگر ان خصوصی بچوں کے والدین ان کی علاج معالجے کی کوشش کرتے ہیں تو ایک طرف علاج غیرمعیاری اور انتہائی مہنگا علاج اور دوسری طرف یہ سننے کو ملتا ہے کہ، نہ کرو یہ سب پیسے کا ضیاع ہے، اس نے کون سا ٹھیک ہوجانا۔

مجھے بھی کچھ ایسے ہی مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ اور میرے نزدیک اس ساری  تکلیف دہ صورتحال کی بنیادی وجہ تعلیم اور آگاہی کی کمی ہے کیونکہ تعلیم یافتہ معاشروں میں صورتحال اس سے کافی بہتر ہے۔ اور مجھے بھی جس چیز سے سب سے زیادہ فائدہ ہوا وہ اپنے بچے کی بیماری کے بارے میں مکمّل طور پر آگاھی حاصل کرنا تھا، جس کی وجہ سےبروقت میرے چھوٹےبیٹے میں آٹزم کی تشخیص ممکن ہو سکی اور میں ساہیوال چھوڑ کر لاہور منتقل ہوگئی جہاں میں نے اس کی بیہیویئر تھراپی شروع کروا دی جس کی وجہ سے وہ اب میرے بڑے بیٹے کی نسبت کافی بہتر زندگی گزار رہا ہے۔

آٹزم یا خود تسکینی کیا ہے؟

آٹزم یا خود تسکینی ایک بیماری نہیں بلکہ زندگی بھر رہنےوالی ایک  ایسی کیفیت ہے جس میں مبتلا افراد اپنی ہی دنیا میں مگن رہتے ہیں۔ ان میں دشواری کے تین شعبے مشترک ہوتے ہیں۔

  1. بات چیت کرنے کے لیے زبان سمجھنے اور استعمال کرنے میں دشواری
  2. لوگوں کے ساتھ سماجی میل جول اور تعلقات استوار کرنے میں دشواری
  3. کسی بھی ایک عمل کو بار بار دہرانا اور اس سے تسکین حاصل کرنا.

یوں تو خود تسکینی والے تمام افراد میں یہ تینوں دشواریاں مشترک ہوتی ہیں۔ مگر ان کا اثر مختلف افراد پر مختلف ہوتا ہے۔ کچھ افراد تو خود تسکینی کی کیفیت کے ساتھ اپنی روزمرہ زندگی کے کام خوش اسلوبی سے سرانجام دیتے ہیں، کسی حد تک اپنی بات سمجھا لیتے ہیں اور دوسروں کی سمجھ بھی لیتے ہیں۔ جبکہ زیادہ تر افراد نہ تو دوسروں  کی بات سمجھ پاتے ہیں اور نہ اپنی بات سمجھا پاتے ہیں بلکہ اپنی روزمرہ زندگی کےچھوٹے چھوٹے کاموں کو سرانجام دینے کے لیے ہمیشہ دوسروں پر منحصر رہتے ہیں۔

آٹزم یا خود تسکینی کے متعلق کچھ حقائق

امریکا کے بیماریوں کی روک تھام کے ادارے کا 2016 میں کیے جانے والے ایک سروے کے مطابق امریکہ کے ہر 68  بچوں میں سے ایک بچہ آٹزم میں مبتلا ہے۔ اس میں 42 لڑکوں میں سے ایک لڑکا اور 189 لڑکیوں میں سے ایک لڑکی خود تسکینی کی کیفیت میں مبتلا ہے۔ خود تسکینی یا آٹزم میں مبتلا افراد میں سے ایک تہائی افراد عمر بھر بات چیت کرنے کی صلاحیت سے محروم رہتے ہیں۔ خود تسکینی کی کیفیت میں مبتلا شخص کو عام افراد سے زیادہ پیار اور توجہ کی ضرورت  ہوتی ہے اور جتنا جلدی اس بات کو قبول کر لیا جائے خود تسکینی کی کیفیت میں مبتلا بچے کی ساری زندگی اسی کیفیت کے ساتھ گزرے گی، اور اس کی اس حالت کا ذمہ دار ‏‏نا تو وہ خود ہے اور نہ ہیی کوئی اور اتنا ہی بہتر ہے۔

آٹزم یا خود تسکینی کے اسباب

آٹزم کا سبب ابھی تک نامعلوم ہے۔ البتہ یہ پیدائش سے قبل، دورانے حمل اور پیدائش کےفورا بعد میں ہونے والے دماغی ارتقا کے سبب ہو سکتا ہے۔ آٹزم موروثی بھی ہو سکتا ہے

اگر آپ کا بچہ خود تسکینی یا آٹزم کی کیفیت میں مبتلا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ خراب والدین ہیں۔ آٹزم کسی شخص کی پرورش، اس کے سماجی حالات کے ذریعے پیدا نہیں ہوتی اور نہ ہی اس میں خود تسکینی کی کیفیت میں مبتلا شخص کی کوئی غلطی ہوتی ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ بچوں میں ہو رہی ہیں۔ لڑکیوں کی نسبت لڑکوں میں اس کی تشخیص زیادہ ہے۔

آٹزم یا خود تسکینی کی علامات!

آٹزم یا خود تسکینی کی علامات بچے کی زندگی کے ابتدائی تین سالوں میں ظاھر ھونے لگتی ھیں۔

آٹزم کی چند علامات درج ذیل ہیں۔

  1. سماجی میل جول اور رابطے کی مہارت میں اپنے ہم عمر بچوں سے کم ہونا. نظر سے نظر ملا کر بات نہ کر پانا.
  2. اپنے ارد گرد کے ماحول میں  دلچسبی نہ لینااپنی ہم عمر بچوں یا اپنے سے بڑے بہن بھائیوں کے ساتھ نہ کھیلنا٬اکیلے رہنے کو ترجیح دینا٬کھلونوں کا درست استعمال نہ کرنا٬
  3. خطرےکا احساس نہ ہونا،
  4. کھانے پینے اور سونے میں غیر معمولی رویہ ہونا.
  5. ایک ہی لفظ کو باربار بولنا٬یا جسم کو ایک ہی طرح سے بار بار حرکت دینا٬پیروں کی انگلیوں پر چلنا
  6. مختلف چیزوں کو ایک قطار میں رکھنا
  7. جذبات سے عاری ہونا٬ اپنے والدین اور اجنبیوں میں فرق نہ کر پانا۔
  8. روز مرہ زندگی کے کاموں میں چھوٹے سے بدلاؤ کو بھی برداشت نہ کر پانا.
  9. بلاوجہ بہت زیادہ رونا یا چیخنا۔
  10. حواس خمسہ کے متعلق حساسیت کا انتہائی زیادہ یا انتہائی کم ہونا۔
  11. بول کر یا بولے بغیر مثلا اشاروں کی مدد سے اپنی بات نہ بتا پانا٬انگلی کی مدد سے کسی مخصوص سمت یا کسی مخصوص شے کی طرف اشارہ  نہ کر پانا۔ وغیرہ

آٹزم یا خود تسکینی کا علاج

بدقسمتی سے ابھی تک آٹزم کا کوئی مخصوص علاج دریافت نہیں ہو سکا،  کےجس کے استعمال سے یہ کہا جا سکے کہ آٹزم ایک مکمل طور پر قابل علاج کیفیت  ہے۔

آٹزم میں مبتلا ہر فرد دوسرے سے مختلف ہوتا ہے لہذا ان افراد کی بہتری ان کے علاج ان کی تعلیم اور بحالی کے پروگراموں میں سے کسی ایک کو حتمی اور بہترین نہیں کہا جا سکتا، کیونکہ ہر فرد اپنی ذات میں دوسرے سے منفرد ہوتا ہے۔  اس کی خاص ضروریات اور مخصوص مسائل کو مد نظر رکھ کر اس کی بحالی کا پروگرام ترتیب دینا چاہیے۔ ان میں سمعی تربیت، وٹامن سے علاج، زبان دانی کی تربیت، موسیقی سے علاج، جسمانی تربیت، روزمرہ زندگی کی مہارتیں، رویہ کی درستگی، جیسے مختلف تربیتی پروگراموں سے مدد لی جا سکتی ہے۔

آٹزم یاخود تسکینی میں مبتلا فرد کو مدد فراہم کرنے کے چند طریقے:

  1. آٹزم میں مبتلا فرد سے گفتگو شروع کرنے سے پہلے اس کی توجہ اپنی طرف مبذول کروائیں

کیونکہ ایسے افراد کو اعضاءکی حرکات، چہرے کے اتارچڑھاؤ، یا آواز کے لہجے کو سمجھنے اور استعمال کرنے میں دشواری ہو سکتی ہے۔

  1. صاف صاف بولیں، اور اپنے جملے مختصر رکھیں، اس سطح کی زبان استعمال کریں جس کو وہ شخص آسانی سے سمجھ سکتا ہو۔
  2. خفیہ معنوں والی بلاواسطہ زبان استعمال نہ کریں۔ کیونکہ ایسے افراد فکروں کو لغوی معنی میں لے سکتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں متعلقات فعل، مزاح اور محاوروں کو سمجھنے میں دشواری ہو سکتی ہے۔
  3. آٹزم میں مبتلا افراد کو سوالات کا فوری طور پر جواب دینا دشوار معلوم ہوسکتا ہے۔ لہذا آپ نے جو کچھ بھی پوچھا ہے اس کا جواب دینے کے لیے ایسے افراد کو تھوڑا وقت دیں۔
  4. آٹزم میں مبتلا افراد کو دوسرے لوگوں کے جذبات پسند اور دلچسپیوں کو سمجھنا دشوار معلوم ہو سکتا ہے, لہذا اپنے احساسات کو واضح کرنے کی کوشش کریں۔
  5. دوسرے لوگوں کے ساتھ ہم آہنگی اختیار کرنے کے خواہ تو ہو سکتے ہیں، لیکن دوسروں کے ساتھ تعلق استوار کرنا اور دوست بنانا دشوار معلوم ہوسکتا ہے۔ لہذا ایسے افراد کو معاشرتی ہم آہنگی کی اہلیتوں کو فروغ دینے میں مدد کریں
  6. آٹزم میں مبتلا افراد کے لیے کسی بھی طرح کا بدلاؤ دشوار ہو سکتا ہے. لہذا ایسے افراد کو تبدیلی کے بارے میں پہلے سے بتا کر تیار کریں۔ نیز ان کی روزمرہ زندگی میں آہستہ آہستہ تبدیلیاں لائیں تاکہ وہ ان تبدیلیوں کو آسانی سے قبول کر سکیں۔
  7. آٹزم میں مبتلا افراد کو معاشرتی اصولوں کی واقفیت نہیں ہوتی ہے لہذا معاشرتی طور پر قابل قبول انداز میں اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار کرنے میں دشواری کا سامنا ہوسکتا ہے جیسا کہانہیں ایک مخصوص دلچسپی میں مزا آتا ہے لیکن اس کے نتائج سے واقف نہیں ہوتے ہیں، مثال کے طور پر آٹزم میں مبتلا بچے کو شیشے کی ٹوٹنے کی آواز بہت پسند ہے، لیکن اس کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ کسی بھی عام جگہ پر شیشے کا توڑنا غیر محفوظ یا ناقابل قبول ہے اور اس سے کسی  دوسرے شخص کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ لہذا ایک محفوظ ماحول میں انہیں اپنی پسندیدہ سرگرمی انجام دینے کے مواقع فراہم کریں۔
  8. اگر آٹزم میں مبتلا فرد کسی بھی وجہ سے پریشان حال ہے تو ایسی پرسکون جگہ تلاش کریں جہاں اس کو اطمینان حاصل ہو سکے،
  9. آٹزم میں مبتلا افراد کی حواس سے متعلق حساسیت انتہائی کم یا زیادہ ہو سکتی ہے لہذا جہاں بھی ممکن ہو ان کو متبادل فراہم کریں مثال کے طور پر اگر ایسے فرد کو تیز آواز پسند نہیں ہے تو ایسی جگہوں پر جاتے وقت جہاں بہت زیادہ شور ہوتا ہے انہیں کان میں لگانے کے لیے ائرفون دےدیں۔
  10. آٹزم میں مبتلا افراد میں دیکھ کر سیکھنے کی صلاحیت سن کر سیکھنے کی صلاحیت سے زیادہ ہوتی ہے لہذا ایسے فرد کا دن بھر کے روزمرہ کاموں کا تصویری خاکہ بنائیں، جس کی مدد سے وہ اپنے روزمرہ کام  بغیر کسی کی مدد کے بہتر طور پر سر انجام دے سکتے ہیں۔