پشاور کی گلیاں اور جنسی تشدد کا رجحان

پشاور کی گلیاں اور جنسی تشدد کا رجحان

پشاور کی گلیاں اور جنسی تشدد کا رجحان

از، عابد علی

جب پاکستان میں پسمانده طبقے کی مشکلات دیکھتے ہیں تو یہ شعر یاد آ جاتا ہے:

چھوڑ یہ بات ملے زخم کہاں سے

اے زندگی اتنا بتا، کتنا سفر باقی ہے

اب بھی بہت سارے لوگ زندگی کے سفر سے تنگ آگئے ہیں اور اپنے دن گزار رہے ہیں۔ اکثر سننے میں آیا ہے کہ اسلام سے پہلے عرب کے لوگ جاہل تھے۔ مگر جب میں آج کے پاکستان کو دیکھتے ہیں تو ہمارا معاشره عرب سے زیاده گنوار لگتا ہے۔ عربوں کے جاھل معاشره میں حضرت خدیجہ (رضی اللہ تعالٰی عنھا) تجارت کرتی تھی اور ہمارے نبی ﷺ کے لیے رشتہ بیجھا تھا۔ وه بیٹیوں کو زنده دفن کرتے تھے مگر آج کے معاشرے میں زیادتی کرکے مار دیتے ہیں۔ قبروں سے انسانوں کی لاشیں نکال کر کھاتے ہیں اور لاشوں سے جنسی تسکین حاصل کرتے ہیں۔

اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف جو بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے متعلق ہے۔ ایک غیر سرکاری اداره ” ساحل” کے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں روزانہ ٩ بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے کیسسز رپورٹ ہوتے ہیں۔ اسی اداره کی رپورٹ کے مطابق ٢٠١٧ کے پہلے ۶ مہینوں میں پورے پاکستان سے بچوں سے  زیادتی کے ١٧۶۴ کیسز رجسٹر ہوئے۔ ان میں سے ٨۵ % بچوں کی عمر ۴ سے ٨ سال کے درمیان ہیں۔

جنسی تشدد اور پشاور

٢٠١٧ کی مردم شماری کے مطابق پشاور کی آبادی 1,970,042 ہے اور پاکستان میں آبادی کے لحاظ سے چھٹے نمبر پر آتا ہے۔ افغان جہاد سے پہلے اسے پھولوں کا شہر کہا جاتا تھا مگر افغان جہاد کے بعد پشاور میں پھولوں کی جگہ بارود اور رباب کی جگہ کلاشنکوف نے لے لی۔ جہاں پہلے پھولوں میں بیٹھ کر رباب کے سروں کے ساتھ گانے گائے جاتے تھے وہاں اب چرس اور سگریٹ کی بو آتی ہے۔ اب ایسے معاشرے میں درندے ہی پیدا ہوں گے کوئی افلاطون یا سقراط تو پیدا نہیں ہوگا۔

ان ہی درنده صفت انسانوں کے ہاتھ پشاور میں روزانہ سینکڑوں بچے جنسی تشدد کا نشانہ بنتے ہیں۔ ان درندوں میں زیاده تر بس ڈرائیور، کنڈکٹر، ھوٹل مالکان اور چرس افہیم بیچنے والے ہوتے ہیں۔ ان کا نشانہ بننے والے بچے اکثر محنت مزدوری کے لیے پشاور آئے ہوئے ہوتے ہیں

نامی ادارے نے پشاور میں مرد بچوں کے (Vision Resource Center Abbotobad) جو ان درندوں کے ہاتھ چڑھ جاتے ہیں۔ ویژن ریسورس سینٹر ایبٹ آباد نے جنسی زیادتی پر ایک ریسرچ کی جس کے مطابق پشاور میں اس کام کے باقاعده اڈے موجود ہیں۔ ان اڈوں میں حاجی کیمپ اور لاہوری اڈه سرفہرست ہیں۔

اسی ریسرچ کے مطابق حاجی کیمپ میں ١٢٠ بچوں سے انٹرویو لیا گیا اور ان میں ١٠٩ کے ساتھ جنسی زیادتی ہوئی تھی۔ باقی ١١ رات کے لیے اپنے گھروں کو جایا کرتے ہیں اس لیے محفوظ تھے۔ ان میں سے زیاده تر پیسے دے کر، کچھ رات گزارنے کی جگہ کی خاطر ان بچوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتے ہیں۔

اسی طرح پشاور کا ہر اڈه اور گلی ان جیسے کاموں کے لیے استعمال ہوتا ہیں۔ نامی ایک ادارے نے پشاور میں بچوں کے ساتھ جنسی تشدد پر ایک ڈاکومینٹری بنائی (Hiddden Stories) ھیڈن سٹوریز ہے جس میں یہ دکھایا گیا ہے کہ یہ بچے کیوں اور کیسے ان درندوں کے ہاتھوں میں چلے جاتے ہیں۔

ان میں زیاده تر بچے غربت کی وجہ سے شہروں کا رخ کرتے ہیں، بعض گھروں سے بھاگ کر آتے ہیں۔ اس فلم میں دکھایا گیا ہے کہ بس ڈرائیور اپنے ساتھ خوب صورت لڑکے کو کنڈکٹر رکھتا ہے اور اسے کنڈکٹری کے ساتھ ساتھ دوسرے کام کا بھی معاوضہ دیا جاتا ہے اور اس کام میں وه کوئی شرم محسوس نہیں کرتے۔

رات کے وقت ان اڈوں پر باقاعده طور پر بولیاں لگائی جاتی ہے کہ جو جتنا زیاده دے گا، لڑکا اس کے ساتھ رات گزارے گا  یہی لوگ ان معصوم بچوں کو اپبی گرفت میں رکھنے کے لیے ان کو نشے کا عادی بنا لیتے ہیں اور جب ان بچوں کے پاس نشے کا سامان ختم ہوجاتا ہے تو یہ  نشہ لیبے کے لیے خود کو بھیچ دیتے ہیں۔

ان لوگوں کی محفوظ ٹھکانوں میں پشاور کے سنیما گھر بھی شامل ہیں۔ انہیں سنیما گھروں میں یہی لوگ پورن فلمیں دیکھنے جاتے ہیں اور اپنے ساتھ ان گلیوں میں پھرتے بےگھر بچوں کو پیسہ یا نشہ کا لالچ دے لے جاتے ہیں اور جنسی تسکین کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

یہ صرف پشاور کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ پورے پاکستان کا مسئلہ ہے۔ اور اس کو حل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ بچے قوم کی مستقبل ہوتے ہیں اور اگر ہم نے ان بچوں کو اس گندگی سے نہیں بچایا تو کل کو یہی بچے انے والی نسلوں کے لیے خطره بن سکتے ہیں

کیسے ختم کیا جائے

اس کو ختم کرنے کی ذمہ داری ایک تو حکومت کی ہے اور اس سے بھی اھم ذمہ داری میری اور آپ مطلب عوام کی ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ جتنے بھی ایکٹ ہیں آئین میں بچوں کے حقوق کے حوالے سے، ان کا اطلاق کرے۔ تعلیم کو عام کرے تاکہ کوئی بچہ تعلیم سے نہ ره پائے۔ زیاده سے زیاده ملازمت کے مواقع فراہم کرے۔ نصاب میں جنسی تشدد کے حوالے سے مضمون شامل کئے جائے وغیره وغیره۔

مگر اصل ذمہ داری ہماری ہے کہ ہم اپنے بچوں کو کس طرح ان لوگوں سے بچائیں۔ سب سے پہلے تو اسے تعلیم سے آراستہ کریں، کم از کم میٹرک تک۔ سبسے اہم بات یہ کہ اپنے بچوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھیں تاکہ وه آپ سے ڈریں نہ اور اپنی رائے دے سکیں کہ ان کو کیا کیا مشکلات ہیں۔ اس بات کا بھی حیال رکھنا چاہیے کہ اپنے بچوں کو مزدوری پر بھیجنے سے پہلے اس بات کا اطمینان کیا جائے کہ وه جگہ رہنے کے لائق ہے یا نہیں۔ اور آخری بات ایسے لوگ جو ان معصوم بچوں کو نشانہ بناتے ہیں، معاشرے کے سامنے لانا چاہیے تاکہ دوسری دفعہ کوئی اس کا نشانہ نہ بنے۔