عورت اور معاشرتی بے حسی

Iftikhar Ahmed aik Rozan writer
افتخار احمد، صاحبِ مضمون

عورت اور معاشرتی بے حسی

افتخار احمد

کسی بھی معاشرے کی ترقی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہاں بسنے والی خواتین کو کیا حقوق حاصل ہیں اور ان حقوق کے دفاع کے لیے ریاستی ادارے کس حد تک جانے کو تیار ہوتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ویسے تو خواتین کو دی جانے والی عزت کے بڑے چرچے ہوتے ہیں لیکن اصلیت اس کے بالکل برعکس ہے۔

اگر آپ خواتین کے بارے میں ہمارے معاشرے کے عمومی رویے کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں تو زیادہ محنت کی ضرورت نہیں ہے بس ہمارے ملک میں قائم بہت سے متوازی عدالتوں کے فیصلے ہی دیکھ لیجیے۔ نام چاہے پنچایت ہو یا جرگہ، ان متوازی عدالتوں کے فیصلے ہمیشہ مردوں کی کئی گئی غلطیوں یا گناہوں کی سزا عورتوں سے وصول کرتے ہیں۔

ایسی ہی ایک متوازی عدالت ملتان کے نواحی علاقہ مظفر آباد میں بھی لگائی گئی، جہاں ایک نوجوان نے جب ایک لڑکی کو زیادتی کا نشانہ بنایا تو پنچایت نے سزا کے طور پر ملزم کی بہن سے زیادتی کرنے کا فیصلہ سنا دیا۔ ایک نوجوان لڑکی کی زندگی اس لیے تباہ کر دی گئی کہ اس کے بھائی نے ایک اور لڑکی کی زندگی تباہ کی تھی۔ جنگل کے قانون میں تو شاید اس طرح کے فیصلے چل جاتے ہوں لیکن ایک جمہوری ملک میں ایسا عمل سر انجام دینا نہایت ہی شرمناک عمل ہے۔

لیکن ایسا پہلا مرتبہ نہیں ہوا، ماضی میں بھی پنچایتوں کے حکم پر خواتین کی عصمت تار تار کی جاتی رہی ہے۔ اگر آج سے دس سال قبل مختاراں مائی کے کیس میں ہی عدالتیں مجرمان کو سزا دے دیتیں تو شاید ایسی متوازی عدالتوں میں فیصلہ سنانے والوں کو کوئی خوف ہوتا۔ اگر مظفر گڑھ کی اس پنچا یت کے شرکاء کو سخت سزا ہوئی ہوتی جنہوں نے ایک 40 سا لہ عورت کو اس کے بھائی کے غیر اخلاقی تعلقا ت کی وجہ سے گینگ ریپ کی سزا سنائی تھی تو شاید آج حالات مختلف ہوتے۔

لیکن چونکہ وہ چالیس سالہ عورت ریپ کروانے کے بعد مزید کوئی کارروائی نہیں کرنا چاہتی تھی اس لئے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بھی اپنی آنکھیں بند کر لیں اور پنچایت کے شرکاء کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا۔

اگر مظفر گڑھ کے پنچایتی ریپ کے بدلے ریپ کرنے کی سزا تجویز کرنے کے بعد جیل کی ہوا کھا رہے ہوتے تو کیا گجرا ت کے ایک گاؤں میں ایک شا دی شدہ عورت کو پنچایت ریپ کی سزا سنا تی؟ اس عورت کے باپ پر ایک کم عمر بچی کے ریپ کا الز ام تھا، گاؤں کی پنچایت نے فیصلہ دیا کہ باپ کے جرم کی سزا اس کی بیٹی کو دی جائے۔

متا ثرہ خا تو ن کا خا وند ملک سے با ہر تھا جبکہ وہ اپنے ما ں با پ کے گھر رہتی تھی، پنچایت کے فیصلے پرزیادتی کا نشانہ بننے کے بعد شاید وہ جانتی تھی کہ اس کا شوہر اسے قبول نہیں کرے گا، اسی لئے اس نے خود کو آگ لگا کر اپنی زندگی ختم کر لی یا پھر شاید وہ خود ہی سے یہ سوچ کر نظریں نہ ملا پائی کہ اس دنیا میں نہ اس کے جذبات کی کوئی حیثیت ہے اور نہ ہی اس کا جسم اس کی ملکیت۔

وہ اس دنیا اور اپنے خاندان کے لیے بس ایک جذبات سے عاری کھلونا ہے، جس کے ساتھ وہ جب چاہیں، جیسے چاہیں کھیل لیں۔ یہ خبر بھی دیگر خبروں کی طرح چند دن اخبارات کی زینت بنی رہی اور پھر آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل۔

سوال یہ ہے کہ عدالتی نظام کی موجودگی میں قائم کیے جانے والے اس متوازی نظام کو کیونکر اب تک برداشت کیا جاتا رہا ہے؟ معمولی نوعیت کے چھوٹے موٹے مسائل کو تو یقینا علاقہ کی سطح پر حل کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے لیکن قتل، زیادتی اور اس طرح کے دیگر سنگین جرائم کے حل کے لیے پنچایت یا جرگہ کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔

جب ان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے تو پھر ان کے خلاف کوئی خاطر خواہ کارروائی عمل میں نہ لانے کی کیا وجہ ہے؟ کیا وجہ ہے کہ ایسے واقعات کے میڈیا میں رپورٹ ہونے کے بعد ہی انتظامی مشینری حرکت میں لائی جاتی ہے اور جونہی میڈیا کی توجہ کسی اور جانب ہوتی ہے، تب پھر سے ریاستی ادارے گہری نیند میں چلے جاتے ہیں۔

موجودہ کیس میں بھی میڈیا میں خبر آنے کے بعد سے لے کر اب تک بہت سے افسران متاثرہ خاندان کے گھر جا کر انہیں انصاف فراہم کرنے کا یقین دلا چکے ہیں۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف خود بھی پنچایت کے حکم پر زیادتی کا نشانہ بننے والی بچی کے گھر گئے تھے۔ یقیناََ و زیر اعلیٰ پنجاب نے اس بات پر بھی غور کیا ہوگا کہ اگر ان کے صوبائی محکمے اپنا کام درست انداز میں سرانجام دے رہے ہوتے تو شاید انہیں اس بچی کے گھر جانے کی ضرورت پیش نہ آتی۔

وزیر اعلیٰ نے شاید کچھ پولیس افسران کو بھی معطل کر کے اپنے غم و غصے کا اظہار کرنے کی کوشش کی ہے لیکن یہ حربہ اب کچھ زیادہ کارآمد دکھائی نہیں دیتا۔ پولیس افسران کو غفلت کی بنیاد پر معطل کر دینے سے مسائل حل نہیں ہو سکتے کیونکہ وزیر اعلیٰ وقتاََ فوقتاََمختلف محکمے کے لوگوں کو معطل کرتے رہتے ہیں اور شاید اب سرکاری محکموں میں کام کرنے والے اسے بھی پنجاب میں ملازمت کرنے کے حصے سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔

اس کیس میں متاثرہ لڑکی کی ماں نے پنچایت کے خلاف ایف آئی آر کے اندراج کے لیے تقریباََ چھ دن تک انتظار کیا اور پھر جب پولیس نے اس واقعہ کی ایف آئی آر درج کر ہی لی تو یقیناََ صلح کے لئے دباؤ بھی ڈالا گیا ہوگا۔ تب ہی تو سرکار کی مدعیت میں درج کی جانے والی تیسری ایف آئی آر سے پہلے دونوں فریقین کو صلح کے لئے عدالت لے کر جایا گیا۔

یہ بات غور طلب ہے کہ ریپ جیسے فوجداری مقدمے میں جس کا جرم ثابت ہونے پر موت کی سزا بھی سنائی جا سکتی ہے پولیس کی نظر میں ایک ایسا کیس ہے جس میں فریقین آپس میں صلح کر سکتے ہیں۔ پولیس کا یہی رویہ ہے جو ان پنچایتوں اور جرگوں کو اتنا طاقتور بنا دیتا ہے کہ وہ ایسے فیصلے کرتے ہیں جو معصوم لوگوں کی زندگیوں کو تباہ کر دیتے ہیں۔

اس کیس کے حوالے سے بہت سی جذباتی باتیں لکھی جا سکتی ہیں ۔۔۔مگر ایک عورت کے حوالےسے اس معاشرے میں جذباتی گفتگو لکھنا دوغلے پن سے زیادہ کچھ نہیں۔ کیونکہ عورت کے جذبات اور احساسات کی اس بے حس معاشرے میں کوئی اہمیت نہیں۔ وہ جذبات سے عاری ایک ایسا ڈھانچہ سمجھی جاتی ہے ،جسے مرد کے گناہوں کا کفارہ ہر حال میں ادا کرنا ہے۔

بشکریہ: روزنامہ جنگ

About افتخار احمد 9 Articles
افتخار احمد ملک کے معروف اور سینئر صحافی ہیں۔ ان دنوں جنگ اور جیو گروپ سے وابستہ ہیں۔ صحافت کے ساتھ مظاہر فطرت، پہاڑوں، درختوں، پودوں اور ان پر کھلنے والے پھولوں سے محبت کے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔ ماحولیات کو نا صرف مستقبل بلکہ حال کا بھی انتہائی اہم معاملہ سمجھتے ہیں۔ زندگی کو زندگی کی طرح جیتے ہیں۔