ایک متحرک قومی جدت طرازی کی پالیسی

Dr Atta-ur-Rehman
ڈاکٹر عطاءالرحمن،صاحبِ مضمون

ایک متحرک قومی جدت طرازی کی پالیسی

از، ڈاکٹر عطاء الرحمن

پاکستان کی آبادی لگ بھگ 22 کروڑ افراد پر مشتمل ہے جن میں دس کروڑ افراد بیس سال سے کم عمر کےہیں۔ نوجوانوں کی اتنی بڑی تعداد کی موجودگی ہمیں سماجی واقتصادی ترقی کے لیے ایک منفرد موقع فراہم کرتی ہے کیونکہ مغرب کے اکثر ممالک میں نوجوانوں کی تعداد کم سےکم تر ہوتی جارہی ہے۔ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے ہمیں ایک متحرک جدت طرازی کی پالیسی مرتب کرنی چاہیے جو کہ تمام قومی ترقیاتی منصوبوں کامرکزی محرک ہو اورنتیجے میں قومی خودانحصاری تخلیق پا سکے۔

یہ پالیسی اس قدر قوی اور جامع ہو کہ قومی سطح پر عمل درآمد کی بدولت لفظ پاکستان جدت طرازی کے مترادف بن جائےاور ایسا ملک بن کر ابھر کر سامنے آئے جس کےاپنی آبادی کےتناسب سےسب سے زیادہ تعداد کے بین الاقوامی پیٹنٹ تجارتی بنیادوں پر دستیاب ہوں اور ہمارےاپنےنوجوانوں کی نئی نئی ایجادات مارکیٹ میں ہو اور برآمد ہو۔ ایسی صورتحال قائم کرنے کے لیے ملک بھرکی تمام وزارتوں کےمنصوبوں کو قومی جدت طراز پالیسی کےساتھ مضبوطی سےمنسلک کرنا ہوگا۔

اس کےلیے سب سے اہم یہ ہے کہ تعلیم کےمختلف شعبوںمیں بنیادی اصلاحات اس زاویے سے کی جائیں کہ طلبا کو رٹا لگا کر سیکھنے کے بجائے مسائل کا مہارت کے ساتھ حل تلاش کرنے پر زور دیا جائے۔ اس جدت طراز پالیسی کی پائیدار ترقی کو یقینی بنانا چاہیے، اور صرف اقتصادی مسابقت پرمرکوز نہیں ہونا چاہیے بلکہ سماجی انصاف اور ماحولیاتی تحفظ کو بھی یقینی بنانا چاہیے۔

سائنس، ٹیکنالوجی اور جدت طرازی کی صلاحیت کو بروئے کار لانے کے لئےسب سے اہم عنصر اور قومی ترقی کا ستون ایک پُربصیرت وزیراعظم کی موجودگی ہے جو کہ عہد حاضر کے تقاضوں کے مطابق ایک مضبوط علم پرمبنی معیشت کی ترقی میں سائنس ٹیکنالوجی اور جدت طرازی کے اہم کردار کو سمجھنے کی صلاحیت کا حامل ہو۔

لہٰذا ایسے وزیراعظم کی قیادت میں، تمام وزارتیں اور ادارے ایک مضبوط علم پرمبنی معیشت قائم کرنے کے لیے متحد ہو کر اور مربوط انداز میں کام کریں اور موجودہ کمزور زراعت پرمبنی معیشت سے منتقل ہوکر درمیانے اور اعلیٰ درجے کی ٹیکنالوجی کی مصنوعات کی تیاری اور برآمد پر توجہ مرکوز کریں۔

اس طرح کی مربوط حکمت عملی شاندار نتائج کے ساتھ کوریا کےجنرل پارک چنگ ہی، چین کے ڈینگ زیاؤ پنگ، سنگاپور کے لی کوان یو اور ملائیشیا کے مہاتیر محمد نے اپنائی۔ افسوس کہ موجودہ حکومت نے 2016ء میں اعلٰی تعلیم کا ترقیاتی بجٹ 22 ارب سے کم کر کے صرف تقریباً 8 ارب کر دیا ہے جو اس قوم کے ساتھ ایک بھیانک مذاق ہے۔

پاکستان کے لیے مختلف شعبوں میں مثلاً انجینئرنگ کے سامان کمپیوٹر سائنس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی ،معدنی پیداوار،بائیوٹیکنالوجی مصنوعات، دوا سازی، توانائی اور دیگر شعبوں میں ساز و سامان کی تیاری کے وسیع مواقع موجود ہیں۔ ان شعبوں کی پہلے ہی ایک دوراندیش پروگرام کے تحت نشاندہی کی جاچکی جو کہ میری نگرانی میں تیار کیا گیا جس کے نتیجے میں ایک 320 صفحاتی مسودہ اگست 2007ء میں کابینہ کی جانب سے منظور بھی کرلیا گیا تھا۔ اب ہمیں تمام وزارتوں کومتحرک کرنےکی ضرورت ہے تاکہ اس مسودہ کے تحت 5، 10 اور 15 سال کےاہداف پر عمل درآمد کیا جا سکے۔

مضبوط قومی تعلیمی ادارے اور بہترین کارکردگی کے مراکز ایک متحرک قومی جدت کی پالیسی کے نفاذکےلیےدوسرےاہم ستون کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اعلیٰ معیارکی تعلیم ایسے شہری پیدا کرتی ہے جو معاشرے میں جدت طرازی اور اعلیٰ ٹیکنالوجی کی صنعتی پیداوار کے علمبردار ثابت ہوتے ہیں۔

کوریا کا صنعتی انقلاب تعلیم کی سطح پر ایسی ہی اصلاحات پر مبنی تھا جس کے تحت بین الاقوامی سطح کےسائنس اور ٹیکنالوجی کے ادارے مثلاً کوریا انسٹیٹیوٹ برائے سائنس و ٹیکنالوجی کوریا ایڈوانسڈ انسٹیٹیوٹ برائے سائنس وٹیکنالوجی اور سیول نیشنل جامعہ قائم کیے گئے۔ چین نے 1978ء سے دنیا کی سب سے بہترین جامعات میں اپنے ہونہار طالب علموں کو بھیجنا شروع کردیا تھا اور اب ہرسال پی ایچ ڈی اور پوسٹ ڈاکٹریٹ کی تربیت کےلیے پانچ لاکھ سے زائد طلباء بھیج رہا ہے۔

اس کا اندازہ ایسے لگایا جا سکتا ہے کہ صرف 2016 ء میں 420000، سے زائد چینی طلباء دیگر جامعات اور عمدہ کارکردگی کے تحقیقی مراکز سے تربیت حاصل کرکے واپس چین آئے ہیں اور چین کی معیشت کو چار چاند لگانے میں مصروف ہیں۔

اس کے برعکس پاکستان میں ہم ہرسال بیرون ملک ایک ہزار طالب علموں کو بھی بھیجنے کے قابل نہیں ہیں۔ اعلیٰ معیار کے سائنسدانوں اور انجینئروں کی ایک بڑی تعداد یعنی کم ازکم 3000 سائنسدان فی دس لاکھ  آبادی کی ضرورت ہیں۔ اس حساب سے پاکستان میں کل 660000، سائنس دان اورانجینئر ہونے چاہئیں جبکہ ملک بھر میں اس وقت صرف 30000، سائنسدان اور انجینئر ہیں۔

جدت طرازی کی ثقافت کوفروغ دینے کے لئےتیسرا اہم ستون سرکاری امدادہے۔ پاکستان میں سائنس اور ٹیکنالوجی کا ترقیاتی بجٹ2 ارب روپےسےبھی کم ہے. اس وقت ہم سائنسی اعلی تعلیم کےمقابلےمیں بسوں کےمنصوبوں پر 100 گنا زیادہ خرچ کر رہے ہیں۔ یہ افسوس کا مقام ہے اور سمجھ سےباہر ہے۔ اس وقت ترقی کےنقطہ نظرسےایک بڑی تبدیلی اورحکمت عملی کی ضرورت ہے۔ تعلیم و سائنس میں بنیادی تحقیق کی سہولت ابتدائی مراحل سے لے کر تجارتی بنیادوں پر مصنوعات کی تیاری تک فنڈز کی فراہمی انتہائی اہم ہے۔

اس کے علاوہ ایک متحرک پالیسی نافذ کرنے کےلیے ہماری جی ڈی پی کا کم از کم 6-5٪ حصہ تعلیم کے لیے اور کم سےکم 3 فیصد سائنس کےلئےمختص کرنا بھی ضروری ہے۔

چوتھا اہم ستون حکومتی پالیسیاں ہیں۔ مناسب پالیسیاں ہر شعبے میں ترقی کے لئے بہت اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ 2001ء میں جب میں وفاقی وزیر برائے سائنس اور ٹیکنالوجی ( بشمول انفارمیشن ٹیکنالوجی) تھا تب میں نےIT کی صنعت کوفروغ دینےکے لیے  15 سال کے ٹیکس کی چھٹی اور بڑی تعداد میں اقدامات کیے تھے۔ جس کے نتیجے میں آئی ٹی کی خدمات میں سو گنا اضافہ ہوا اور ان کی برآمدات 2001ء میں 30 لاکھ ڈالر سالانہ سے بڑھ کر اس وقت تقریبا 3 ارب ڈالر ب سالانہ تک جا پہنچی ہیں۔

دارصل ہماری حکومتوں کو یہ سمجھنےکی شدید ضرورت ہے کہ ا یسا سازگار ماحول پیدا کیا جائے کہ ہماری کمپنیاں مغربی کمپنیوں سے مقابلہ کرسکیں۔ باقی  آئی ٹی نجی شعبہ خود کر لے گا۔ گزشتہ 15 سالوں کےدوران کے کاروبارکی شاندار توسیع اس قسم کے اقدام کی پر زور وضاحت کرتی ہے۔ اسی طرح موبائل ٹیلی فون کی پاکستان بھر میں دھماکہ خیز ترقی و توسیع کی واضح مثال موجود ہے۔

بحیثیت وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی میں نے ایک فون کمپنی کوایک مضبوط مد مقابل کےطور پر متعارف کرایا ،اور موبائل فون پر کالز وصول کرنے والے افراد کے لیے کال وصولی پر رقم کی ادائیگی کو ختم کر دیا۔ ان اقدامات کے بعد پاکستان بھر میں موبائل ٹیلی فون اس تیزی سے پھیلے کہ اس کا اندازہ ایسے لگایا جا سکتا ہے کہ 2001ء میں موبائل فون کے صارفین کی تعداد صرف تین لاکھ سے بڑھ کر اب 15 کروڑ سے زائد تک جا پہنچی ہے۔

اسی طرح میں نے بحیثیت چیئرمین اعلیٰ تعلیمی کمیشن، اعلٰی تعلیم کی ترقی کے لئے جس پالیسی پر عمل درآمد کیا، بھارت میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دیں اور نتیجتاً 22 جولائی 2006ء کو بھارتی وزیر اعظم کو ایچ ای سی (H.E.C.) کےاقدامت کی تفصیلی رپورٹ ان کو پیش کی گئی (جس کی خبر اگلے ہی دن ہندوستان ٹائمز میں شائع ہوئی)۔

جب میں وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی تھا اس وقت پاکستان میں نیشنل آئی سی ٹی آر اینڈڈی فنڈ منظور کیا گیا تھا ( جسے اب “Ignite” ” چنگاری “کانام دیا گیا ہے)، اب پورےملک میں یہی اہم قومی ادارہ ہے جو جدت طرازی اور تحقیق کو تجارتی سطح تک پہنچانے کےماحولیاتی نظام کوفروغ دینےکے لئے وقف ہے۔

اس ادارے کا اصل مقصد پاکستان میں چوتھے صنعتی انقلاب سے منسلک صنعتی ٹیکنالوجی پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے نئی تحقیق کے لیے فنڈز کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے تاکہ پاکستان علم پرمبنی معیشت کاایک مضبوط کھلاڑی بن جائے۔ ان میں کثیر مواد، مکمل انٹرنیٹ،کلاؤڈ / سائبرکی حفاظت، روبوٹکس ،D 3/ 4Dپرنٹنگ، نیوروٹیکنالوجی (neurotechnology) اورجسم میں برقی اشیاء کی متبادل پیوند کاریاں بھی شامل ہیں۔ یہی نہیں بلکہ یہ کمپنی ملک بھرمیں نئی کمپنیاں قائم کرنے کے لئے (incubation centers) کی سہولت کا سلسلہ قائم کر رہی ہے۔ جس کی بدولت ملکی ماحولیاتی نظام تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں اثر انداز ہوگا۔ اس کا تازہ ترین اقدام کیمیائی اورحیاتیاتی سائنس کےبین الاقوامی مرکز کے زیر سایہ جامعہ کراچی کےاندرایک مرکز کا قیام ہے۔

قومی جدت طراز پالیسی کاایک اہم پہلو یہ بھی ہونا چاہیے کہ ترقی کے عمل میں ہر طبقہ شامل ہوتاکہ دولت چند ہاتھوں میں نہ رہے اور امیر لوگ امیر ترین نہ ہوتے جائیں جبکہ باقی ملک غربت سے دوچار رہے۔ کالجوں اور جامعات سے فارغ التحصیل نوجوانوں کو نوکریاں تلاش کرنے کی بجائے اپنی کمپنیاں قائم کرنے کے مواقع دینے چاہئیں تاکہ وہ دوسرو ں کو نوکری دے سکیں۔

بشکریہ: روزنامہ جنگ