وہ شربت فروش بھلا انسان

علی ارقم
علی ارقم

وہ شربت فروش بھلا انسان

(علی ارقم)

کالج سے فارغ ہوکر دفتر جانے کے لئے میں سڑک پر آیا تو چائے پینے کا خیال آیا لیکن گرمی اور حبس دیکھ کر چائے کے بجائے گُڑ کا شربت پینے کا موڈ بن گی ا،اور میں روڈ پر کھڑی شربت کی ریڑھی کی طرف بڑھ گیا۔

شربت والا جو کہ ساٹھ کے پیٹے میں ہے، لیکن بہت ہی مُتحرک ہے، اور سیاسی حالات پر گُفتگو کا شوقین۔ مجھے اپنی ریڑھی کے پاس ہی دوست کی دکان پر آتا جاتا دیکھتا رہتا ہے، سو واقفیت بھی ہوگئی ہے۔

صبح صبح تھی تو رش بھی نہیں تھا، پاس کی اکثر دکانیں بند تھیں، اور کچھ فاصلے پر میونسپلٹی کی خواتین خاکروب صفائی میں مصروف تھیں ۔اُس نے جُوسر کےجگ میں برف ڈالتے ہوئے کہا:

پھر کیا ہُوا کل جو انہوں نے عدالت میں رپورٹ پیش کرنی تھی؟

میں نے کہا:

‘جی رپورٹ جمع ہوگئی ہے۔ اب دونوں فریق دلائل دے رہے ہیں، اور پھر شاید معاملہ ٹرائل کورٹ میں چلا جائے.’

اُس نے کہا:

‘اجی ہونا کُچھ نہیں ہے۔ آپ بھی جانتے ہیں …  یہ جے آئی ٹیوں وغیرہ والا کام، انہوں نے اگر کرنا ہی تھا تو اس پر جے آئی ٹی بناتے کہ پاکستان دو لخت کس نے کیا، اور لیاقت علی خان قتل سے لے کر بے نظیر بھٹو قتل تک، اور زرداری کی کرپشن سے بلدیہ فیکٹری فائر کے واقعات تک۔’

اسی دوران اس نے جاکر جنریٹر کو کک لگائی، جُوسر بلینڈر چلایا، اور شربت بنا کر مجھےگلاس پکڑادیا، اور مجھ سے پچّیس روپے بھی وصول کر لیے۔

پھراسی جگ سے پلاسٹک کی ایک تھیلی اُٹھا کربھری، اُس میں اسٹرا لگایا، پھر دوسری تھیلی بھری اور اس میں بھی اسٹرا لگا کر پھر ان دو خاکروب خواتین کوآواز دی۔ انہیں تھیلیاں پکڑائیں، اور سامنے دکان کے بند شٹر کے آگے تھلی پر بیٹھ جانے کا کہا۔

مُجھے اس کی یہ حرکت بری لگی کہ اُس نےشاید کراہت کے باعث انہیں گلاس میں شربت نہ دیا، اور مذہبی امتیاز برتنے کےحوالے سے ساری بات میرے ذہن میں آئی۔ اس سے قبل کے میں اس سے کچھ کہتا، وہ میرے چہرے کے تاثرات سے جانے کیا سمجھا، لیکن اُس نے خود سے ہی بات شروع کردی:

‘بے چاری صفائی کرتی رہتی ہیں، کچرا اُٹھا رہی ہوتی ہیں، پھر دیکھو نا کتنی گرمی ہے، اس لیے میں یہ کام کرکے فارغ ہوتی ہیں تو میں ان کو دو گلاس شربت پلا دیتا ہوں۔

اُس کی یہ بات سُن کر میرا ابتدائی ناپسندیدگی کا تاثر بدل گی۔ دل ہی دل میں سوچا کہ یہ تو ایک عام شربت والا ہے۔ اس کا یہ اقدام عمومی سماجی تاثر کے زیر اثر بھی ہے، کہ ہمارے ہاں اس طرح کے امتیاز کی جڑیں کافی گہری ہوچکی ہیں۔

صفائی کرنے والی خاکروب خواتین کو عام گلاس میں شربت نہ دینا شاید اس کی کاروباری مجبوری بھی ہے، کہ اس کے گاہکوں کی اکثریت بھی تو ایسے ہی خیالات سے متاثر ہے، اور یہ ڈر ہے کہ ایسا کوئی گاہک بُرا نا مان جائے۔

وہاں سے چلنے لگا تو خیالات ایک ندی کی صورت ذہن میں چلنے لگے۔ بظاہر چھوٹے چھوٹے واقعات کس قدر خیالات کے بیج دار درختوں جیسی فطرت رکھتے ہیں اور ایک بیج کے اندر کتنے اور درخت…۔

آس پاس کی موجودات سے اٹی اور شہری زندگی سے بھری دنیا کی موجودگی میں بھی میری نظریں کسی خلا میں معلق تھیں۔ میری نظریں خلا میں جھانک رہی تھیں کہ اب تو انسانی ہمدردی کا جذبہ بھی مذہب، فرقہ، یا قومیت دیکھ کر جاگتا ہے۔ اور انسانی حقوق، کس قدر خوشنما خیالیہ ہیں، کنتے  پُر وقار صوتی تاثر کو اپنے چہرے پر سجائے ہوئے ہیں۔

خیالات کے چل پڑے سلسلے میں ایک ضمنی خیال اور آیا۔… لیکن…  یہ انسانی حقوق تو اب محض ایک ہتھیار اور گالی بن کر رہ گئےہیں، نہ کہ کوئی اعلیٰ انسانی قدر: ہمارے ہمسائے کو ان کی پامالی بلوچستان میں نظر آتی ہے، تو ہمیں صرف کشمیر میں۔ کاش ہمیں اپنی دونوں آنکھیں استعمال کرنا آتی ہوں!

اسی طرح بڑی بڑی سپر طاقتوں کو صرف دوسری طاقت ہی انسانی حقوق کی گنہگار دِکھتی ہے۔ خیر بات سمیٹتے ہیں۔: صرف انسان ہی معاشروں، ملکوں اور طاقتوں کے ہاتھوں رسوا اور بے قدر ہیں؛ سماجی، معاشرتی اور ملکی مفادات کے درجات البتہ بلند ہیں۔

جوس والا انہی سماجی و  معاشرتی تضادات کے اندر ایک بھلے دل والا انسان ہے؛ شکر ہے یہ کسی آلائش سے تو پاک ہے!