لوگ خود کشی کیوں کرتے ہیں؟

Naseer Ahmed
نصیر احمد

لوگ خود کشی کیوں کرتے ہیں؟

از، نصیر احمد

کوئی اٹھارہ انیس سال پہلے خود کشی کے بارے میں یوں لکھا تھا۔

ایک معاشرہ شناس کے مطابق خود کشی کا رجحان ان لوگوں میں زیادہ ہوتا جو روز مرہ معاشرتی زندگی میں مناسب طریقے سے شامل نہیں ہوتے۔ ہجوم سے علیحدگی انھیں تنہا کر دیتی ہے اور موت ہی تنہائی سے نجات کا وسیلہ دکھائی دینے لگتی ہے۔

خود کشی کی زیادہ تر وجوہات معاشی ہوتی ہیں۔ خود کو اور اپنے متعلقین کو ایک پُر آسائش زندگی کی فراہمی کے فریضے میں نا کامی انسان کی زندگی کو ایک احساسِ شکست سے آشنا کر دیتی ہے جو زندگی کے خاتمے کی وکالت کرنے لگتا ہے۔

روزگار سے محرومی آدمی کو ان خطرناک عقیدوں سے بھی منسلک کر دیتی ہے جو موت کو ایک آئندہ بہتر زندگی کے حصول سے وابستہ کر دیتے ہیں۔ یہ عقیدے کبھی مذہب کا، کبھی قوم پرستی کا بھیس بھرتے ہیں تو کبھی نسلی برتری اور بقاء کا رُوپ دھارتے ہیں۔

خود کشی کے جذباتی اسباب بھی ہوتے ہین۔ شدید احساس ذلت، اپنے پسندیدہ آدمی سے محرومی اور جنسی محرومی بھی زندگی ختم کرنے کا باعث بنتے ہیں۔

یہ بات ابھی زیرِ بحث ہے کہ خود کشی کیا ایک بہادرانہ یا بزدلانہ فعل ہے۔

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ خود کشی کرنے والے زندگی کا مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں رکھتے، اور موت میں پناہ کے متلاشی ہوتے ہیں۔


متعلقہ تحریر:

سشانت سنگھ اور نجی زندگی کا سراب  از، سید کاشف رضا


بعض لوگوں کا خیال ہے زندگی جیسی نعمت سے دست بردار ہونا بڑے ہی دل گردے کی بات ہے۔ ورنہ آدمی کی یہی فطرت ہے کہ وہ زندہ رہنے کو ہر بات پر ترجیح دیتا ہے۔

خود کشی کی روک تھام کے لیے یہ ضروری ہے کہ لوگوں کو اس قدر معاشی آسانی ضرور میسر ہو کہ وہ غربت کے ہاتھوں مجبور کر سفینۂِ حیات سے کود کر موت کے سمندر میں غرق نہ ہو جائیں۔

علاوہ ازیں ہمارے معاشرتی نظام اس قدر ظالمانہ نہ ہوں کہ لوگ عزم و ارادہ اپنے ذہنوں سے بے د خل کرتے ہوئے احساس بے بسی سے دو چار ہو کر سانس کی ڈور کاٹ ڈالیں۔

شہروں میں جس قدر کچّی آبادیاں کم ہوں گی، اسی قدر خود کشی کے واقعات بھی شاذ و نادر ہوں گے۔ رسوم و رواج ایک سخی کی طرح ہونے چاہییں جو خوشیاں بانٹنا ایک مقدس فریضہ سمجھتا ہو۔ ایسی ثقافت جو معمولی جھگڑوں پر جان کی قربانی مانگے اس میں تبدیلی کی شدید ضرورت ہوتی ہے۔

سب سے قاتل لمحہ وہ ہوتا ہے جب فرد یہ سمجھنے لگتا ہے کہ ساری ڈیوڑھیوں پر اسے دھتکارنے کے لیے دربان کھڑے ہیں۔ ہر افق اسے کنار فلک کا سیہ ترین گوشہ دکھتا ہے یا اسے سارے معبدوں کے چراغ گُل ہوتے نظر آتے ہیں۔ یہاں تک نوبت نہ پہنچے تو بہتر ہے۔

ہر فرد کی پرورش اس انداز میں کی جائے کہ وہ امید کا دامن نہ چھوڑے۔ ایک دو در بند ہونے پر وہ خزانے کی جستجو  سے بے نیاز نہ ہو۔ کیوں کہ ایک فرد کا آتم ہَتیا کرنا پورے سماج کی ناکامی ہوتی ہے۔

خود کشی کے دیگر نفسیاتی اسباب بھی بنیادی حیثیت کے حامل ہوتے ہیں۔ کبھی ذہن اتنا منتشر ہو جاتا ہے کہ آدمی کو کوئی راہ نہیں سوجھتی تو آدمی اپنی دماغی ابتری سے نجات حاصل کرنے کے موت سے ہم کنار ہونے کی سعی کرنے لگتا ہے۔

کبھی بار کہسارِ غم اٹھائے نہیں اٹھتا تو اپنا قصہ تمام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

تو یہ تھیں یونی ورسٹی کے زمانے میں خود کشی پر سوچی کچی پکی باتیں۔

انھی دنوں میں جدید افادہ پسند پیٹر سنگر کی ایک افادی اخلاقیات کے موضوع پر کتاب بھی پڑھی۔ بعد میں انھی کے ایک آرٹیکل (اب یاد نہیں آ رہا) میں خود کشی کے بارے میں ان کا مؤقف پڑھا۔

وہ کچھ یوں تھا کہ فرد کو خود کشی سے باز رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔ لیکن اگر وہ زندگی سے بالکل ہی مایوس ہو جائے تو خود کشی کرنے میں اس کی مدد کی جائے، ورنہ کوئی الٹی سیدھی کوشش کرے گا جس کے نتیجے میں ہاتھ پاؤں تڑوا بیٹھے گا اور مایوسی کے ساتھ معذوری بھی سہتا رہے گا۔

پیٹر  سنگر کا شدید تکلیف کی حالت میں لوگوں کا زندگی کا سلسلہ توڑنے کے بارے میں بھی ایک مؤقف ہے کہ فرد اور اس کے رشتے داروں کو اس بات کا حق حاصل ہونا چاہیے کہ جب زندگی اپنے معنی ہی کھو بیٹھے تو درد کے دورانیے میں اضافے کا کوئی مقصد نہیں اور اس بے سبب اذیت سے نجات ہی بہتر ہے۔ لیکن وہ کسی عارضے کی انتہائی شکلوں کے بارے میں یہ مؤقف رکھتے ہیں۔

ان کی کتاب میں پریکٹیکل اَیتِھکس میں یوں درج ہے:

بیٹی رولن کی ماں جب نا قابلِ علاج ہو گئی تو اس نے اپنی دختر کو یہ کہا۔ میں نے ایک شان دار جیون بِتایا ہے، لیکن اب اس کا انت قریب ہے۔ یا اس کا خاتمہ ہو جانا چاہیے۔ میں مرنے سے نہیں ڈرتی۔ لیکن اس مرض سے خوف زدہ ہوں۔

اس بیماری نے میرا کیا حال کر دیا ہے؟ اب تو گھڑی بھر چین میسر نہیں۔ تکلیف و تعفن کے سوا کچھ نہیں رہا۔ اب تو وہ کیمیو تھراپی بھی نہیں کریں گے۔ کوئی علاج ہو ہی نہیں سکتا۔

تو میرے ساتھ کیا ہو گا؟ مجھے پتا ہے کہ کیا ہوتا ہے۔ میں دھیرے دھیرے مر جاؤں گی۔ میں ایسے مرنا نہیں چاہتی۔ اگر میں رفتہ رفتہ ختم ہوں تو کسی کو کیا ملے گا؟ کس کا فائدہ ہو گا؟

اگر میرے بچوں کو کچھ نفع ہوتا ہے تو میں تیار ہوں، لیکن بیٹی یہ بات تمھارے بھلے کی تو نہیں۔ آہستہ آہستہ مرنا پھر سمجھ داری کی بات نہیں۔ بے مقصد ہے۔ جیون بھر میں نے کوئی بے ثمر کام نہیں کیا۔ مجھے کبھی اچھا نہیں لگا۔ مجھے زندگی کی ڈور کاٹنی پڑے گی، میں یہی کروں گی۔

اس طرح کی اپیلوں کے نتیجے میں کچھ ملکوں میں ایک محدود پیمانے پر انتہائی تکلیف کے کیسز میں امدادی مَرگ کے حق میں قوانین بھی پاس ہوئے۔

ہٹلر کی تیسری بادشاہی میں بہت سارے معذوروں اور پاگلوں کو قتل کر دیا گیا تھا۔ جو اس طرح کی امدادی مَرگ کے مخالف ہیں وہ اس خطرے کی توجہ دلاتے ہیں کہ اگر زندگی کا خاتمہ قانونی بن گیا تو ایک سلسلہ شروع ہو جائے گا جو اسی طرح کے اعمال پر ختم ہو گا جو ہٹلر اوراس کے غنڈوں نے معذوروں اور پاگلوں کے خلاف کیے۔

اور حامی یہ کہتے تھے کہ عقل ہے، تہذیب ہے، قوانین ہیں، جمہوریت ہے، نگرانی ہے، ہم اب وحشی نہیں رہے، اس معاملے پر خوب غور و فکر کر کے ان نتائج پر پہنچیں گے، جو فرد اور معاشرے کے لیے بہتر ہیں۔

لیکن موجودہ زمانے میں پاپولِزم کے عروج اور فاشزم کے فروغ کے بعد یہ اعتماد کچھ بناوٹی سا ہی لگتا ہے۔

اب کرونا کی اس وباء کے دوران یہ بات عیاں ہو گئی کہ عقل کے بَہ غیر حکومت مل سکتی ہے، اور تہذیب کو پامال کیا جا سکتا ہے اور قوانین کے خلاف معاشرتی اتفاقِ رائے بھی قائم کیا جا سکتا ہے، اور جمہوریت کی موجودگی میں جمہوریت کے ذریعے جمہوریت کو ختم بھی کیا جا سکتا ہے اور نگرانی ناکارہ بنائی جا سکتی ہے؛ اور ڈیجیٹل وحشیوں پر بھی بات چیت ہو رہی ہے اور غور و فکر سے نجات  دلاتا غوغا تو نا کام ہوتا ہی نہیں۔

اس صورت میں امدادی خود کشی یا امدادی موت جیسے معاملے کو پھسلتی ڈھلوان سے پھسل کر کسی اتھاہ اندھیرے میں گرنے سے روکا نہیں جا سکتا۔

اس لیے خود کشی کے واقعات میں کمی لانے کی کوششیں ہی کرتے رہنا چاہیے اور خود کشی کے نام پر کوئی ایسی گنجائش پیدا نہ کی جائے جس کا بد ترین قسم کا استحصال کیا جا سکے۔