فکشن اور فلم کے مختلف ‘ٹھگز آف ہندوستان’

Khizer Hayat
خضرحیات

فکشن اور فلم کے مختلف ‘ٹھگز آف ہندوستان’

از، خضر حیات

پچھلے دنوں بالی ووڈ میں یش راج فلمز کے بینر تلے بننے والی عامر خان اور امیتابھ بچن کی فلم ‘ٹھگز آف ہندوستان’ کا خاصہ چرچا رہا۔ فلم کا ٹریلر جاری ہونے سے پہلے مجھ سمیت اکثر لوگ توقع کر رہے تھے کہ فلم برصغیر کے ان ٹھگوں کو پردۂِ اسکرین پر دکھائے گی جنہوں نے انیسویں صدی کی پہلی تین دہائیوں میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے انتظام و انصرام کے بندوبست میں گہری نقب لگا رکھی تھی۔

مگر جب فلم ریلیز ہوئی تو اندازہ ہوا کہ فکشن میں بیان کیے گئے ٹھگز اور فلم میں دکھائے جانے والے ٹھگز میں خاصا فرق ہے۔ در اصل جس دن اس نام سے فلم بنانے کا اعلان ہوا تو ہمیں یہ لگ رہا تھا کہ اصلی والے ٹھگز کا ہی فلم میں ذکر ہو گا مگر فلم ریلیز ہونے کے بعد ایک عام شکایت جو فلم کے حوالے سے سامنے آئی وہ یہ ہے کہ اس میں اصلی ٹھگز آف ہندوستان کو نظرانداز کرتے ہوئے نئی طرز کے ٹھگز دکھائے گئے ہیں۔ اب صورت حال یہ ہے کہ کتابوں میں بیان کیے گئے ہندوستانی ٹھگ اور طرح کے ہیں اور بالی ووڈ فلم والے ٹھگ اور طرح کے ہیں۔

فکشن کے مطابق ان ٹھگوں کی زیادہ تر کار روائیاں زمینی راستوں پر ہوتی تھیں اور ان کا اپنا ہی بنایا ہوا ایک مربوط اور منظم نظام قائم تھا۔ انہیں عام لوگوں سے الگ پہچاننا مشکل ہی نہیں بل کہ ناممکن تھا۔ سال کے زیادہ تر مہینے یہ لوگ اپنے گھروں میں عام سی زندگی گزارتے تھے اور پھر مخصوص دنوں میں گھروں سے نکل کر اپنا ‘کام’ سر انجام دیتے تھے۔

یہ لوگ اس قدر خطرناک تھے کہ انگریزوں کو ان سے نمٹنے کے لیے الگ سے ایک محکمہ بنانا پڑا جو بعد میں ترقی کرتے کرتے انٹیلی جنس بیورو کا ادارہ بنا۔ میجر جنرل ہینری سلیمن وہ آدمی تھا جس نے برصغیر سے ٹھگوں کا صفایا کر دیا۔ یہ اور اس طرح کی دیگر تفصیلات ہمیں 1839ء میں شائع ہونے والی کتاب ‘کنفیشنز آف اے ٹھگ’ میں ملتی ہیں جس کے مصنف پولیس سپرنٹنڈنٹ فلپ میڈوز ٹیلر تھے۔ یہ کتاب ایک مشہور ٹھگ امیر علی خان کا اعترافی بیان ہے جسے پویس سپرنٹنڈنٹ نے سنا اور بعد میں یہ ناول کی صورت میں چھپ کر بہت مشہور ہوا۔


مزید دیکھیے:  فکشن، مقامی فلم، معاشرہ اور تصور وقت  از، فرخ ندیم

معاشرہ سازی میں پاکستانی سینما کا کردار   از، عرفان احمد عرفی


ٹھگز آف ہندوستان کا تذکرہ اردو ناولز میں میں نے صرف دو جگہ پڑھا ہے۔ معروف نقاد اور ناول نگار شمس الرحمٰن فاروقی نے اپنے شہرۂِ آفاق ناول ‘کئی چاند تھے سرِ آسماں’ میں ان ٹھگوں کو موضوعِ بحث بنایا ہے اور دوسرا مرزا اطہر بیگ نے 2006ء میں شائع ہونے والے اپنے پہلے ناول ‘غلام باغ’ میں ٹھگوں کے حوالے سے بات کی ہے۔

دونوں ناولز میں ٹھگوں کا جو نقشہ بیان ہوا ہے وہ ہو بہ ہُو فلپ میڈوز ٹیلر کے بیان کردہ ٹھگوں جیسا ہے۔ اب اگر کسی کے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ دونوں طرح کے ٹھگوں میں سے اصلی والے کون سے تھے تو میرے خیال میں تو فکشن والے ٹھگ ہی زیادہ اصلی لگتے ہیں کیونکہ ان ٹھگوں کو بیان کرنے والے لوگ بہرحال فلم بنانے والوں سے زیادہ معتبر اور پڑھے لکھے ہیں۔

فکشن میں بیان کیے گئے ٹھگوں کی نفسیات کس طرح کی تھی۔ اس بارے میں مرزا اطہر بیگ اپنے ناول ‘غلام باغ’ میں ایک جگہ ٹھگوں کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں؛

* “(ب) انسانی ضمیر کی قوت کی صداقت کیا ہے۔ کیا یہ کوئی آفاقی عمل ہے۔ مذہب سے اس کا رشتہ کیا ہے۔” (صفحہ 433)

ابنِ طُفیل کے ناولٹ یا اساطیری بیان میں یہ مقدمہ پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ضمیر یا شعُور ایک آفاقی عمل ہے جس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ پیدائشی طور پر انسان کے اندر موجود ہوتا ہے اور ایک بچہ جس نے جنگلوں میں پرورش پائی ہے، جسے کسی مذہب کا نہیں پتہ، جس کے پاس کوئی آسمانی صحیفہ نہیں پہنچا اور جسے کوئی تعلیم بھی نہیں دی گئی وہ بھی مظاہرِ قدرت پر غوروخوض کرتا ہے اور اچھائی اور برائی کا مطلب سمجھتا ہے۔ یعنی ابنِ طفیل یہ مقدمہ قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ضمیر یا شعور کا کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ضمیر یا شعور کی آواز ایک فطری عمل ہے جسے مرزا اطہر بیگ اپنے ناول غلام باغ میں آفاقی عمل کہہ رہے ہیں۔

(کچھ لوگ اسی مقدمے کی بنیاد پر یہ دلیل بھی پیش کرتے ہیں کہ مذہب ایک انتہائی فطری عمل ہے۔ جن چیزوں کی تعلیم مذہب دیتا ہے وہ انسانی فطرت میں شامل ہوتی ہیں۔)

اب مرزا صاحب اس جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ اگر یہ آفاقی عمل ہے تو لازمی طور پہ ہر قاتل کو اپنے ضمیر کے سامنے جوابدہ ہونا چاہیے۔ مگر ٹھگوں کی صورت میں ہم دیکھتے ہیں کہ انہیں ضمیر کی آواز بھی نہیں روکتی اور نہ انہیں کوئی پچھتاوا ہوتا ہے۔ ناول نگار یہ سوال اٹھانا چاہ رہا ہے کہ پھر وہ کیسا عمل ہے جو ٹھگ ذہنوں کی تربیت کرتا ہے۔ یہ وہ عمل ہے جو ٹھگ ذہنوں سے ضمیر یا شعور کی آفاقی آواز ختم کر دیتا ہے اور ہندو مسلمان اکٹھے ہو کر جے بھوانی بولتے ہوئے بے گناہ انسانوں کو قتل کرتے جاتے ہیں اور انہیں کوئی ملامت ہی نہیں ہوتی۔

اس قتل و غارت گری میں ایسے مسلمان بھی شامل ہیں جو شریعت پر سختی سے پابند ہیں اور ایسے ہندو بھی اس گروہ کا حصہ ہیں جو ہندو مذہب پر کاربند ہیں۔ لہٰذا مرزا صاحب شاید اس جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ ضمیر یا شعور ایک آفاقی عمل نہیں ہے۔ مذاہب اور معاشرے کی تعلیمات ہی ہمارے اندر ضمیر کی خاص آواز پیدا کر رہی ہوتی ہیں۔ اگر ضمیر ایک آفاقی عمل ہوتا تو پوری دنیا کے انسان ایک ہی طرح کا ضمیر رکھتے۔

پھر جس طرح مذہب کی تعلیم کا عمل ہے اسی طرح ٹھگی کی تعلیم کا بھی اپنا مختلف عمل ہے۔ جس طرح مذہبی تعلیم ایک خاص طرح کا ضمیر پیدا کرتی ہے اسی طرح ٹھگی کیلئے تیار کیا جانے والا ذہن بھی ایک خاص طرح کے ضمیر کو پیدا کرتا جاتا ہے جس کے نتیجے میں ایک ٹھگ کو کئی لوگ قتل کرکے بھی ضمیر کے کسی قسم کے بوجھ سے دوچار نہیں ہونا پڑتا۔

ضمیر کیا ہے؟ یہ نفسیات کا موضوع ہے مگر ضمیر کا مذہب کے ساتھ کیا تعلق ہے مرزا صاحب نے اسے فلسفے کا موضوع بناتے ہوئے اس پر بات کی ہے۔

ناول کے اسی صفحہ پر مرزا صاحب لکھتے ہیں؛

* “(ج) کیا یہ ہو سکتا ہے کہ ٹھگی اصل میں ایک الگ مذہب ہو۔ ایک طرح کا ٹھگ مَت اور اس کے پیروکار اصل میں دکھاوے کے ہندو یا مسلمان ہوں۔” (صفحہ 433)

فلمیں اگر چہ یہ حق رکھتی ہیں کہ وہ تاریخی واقعات کو قدرے گلیمرائز کرکے اور ان میں رد و بدل کرکے پیش کر سکتی ہیں مگر کہانی کو فلمی لباس پہنانے اور حقائق چھپانے یا توڑ مروڑ کر پیش کرنے میں اچھا خاصا فرق ہوتا ہے۔

فلم اگر چہ 150 کروڑ تک کا بزنس کرنے میں کامیاب ہوئی ہے مگر اس میں سب سے بڑی خامی یہی ہے کہ اصلی ٹھگز آف ہندوستان کو اس میں بہت کم دکھایا گیا ہے اور یہیں ہمیں فکشن اور فلم کے میڈیمز میں فرق نظر آتا ہے۔ صرف ایک سیکوئنس میں عامر خان کو اصلی ٹھگ کے روپ میں ٹھگی کی کارروائی مخصوص انداز میں سرانجام دیتے ہوئے دکھایا گیا ہے اور پھر فلم کسی اور ہی طرف نکل جاتی ہے۔

اگر فلم میں دکھائے جانے والے ٹھگوں کا رنگ روپ فکشن میں بیان کردہ ٹھگوں سے ملتا جلتا نظر آتا تو فلم زیادہ لوگوں کی دل چسپی حاصل کر سکتی تھی۔