تفہیم اظہار کے پیرائے سے زیادہ اہم ہے

Naseer Ahmed
نصیر احمد

تفہیم اظہار کے پیرائے سے زیادہ اہم ہے

از، نصیر احمد

گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل
غالب

بات میں تفہیم ہو تو کچھ فرق نہیں پڑتا مشکل ہے کہ آسان۔ مشکل ہو لیکن صرف لفاظی اور اصطلاحات کی پیچیدگی میں مبتلا ہو تو بے کار ہے اور آسان ہو مگر گری پڑی ہو تب بھی بے کار ہی ہے۔ بات کا حسن تفہیم ہی ہے۔ اور تفہیم کو آسان گوئی یا مشکل گوئی کے لیے قربان کر نا حماقت ہی ہوتی ہے۔

آسان گوئی کا کیس ہے کہ آسان بات ہو، عام لوگوں کو سمجھ آئے۔ سمجھ آئے گی تب ہی عمل کریں گے۔ وہ جیسے فلم میں ہے کہ میرے سامنے انگریزی مت جھاڑو، اپنی بولی میں بات کرو، جمین (زمین) سے جڑا ہوا آدمی ہوں۔ تو یہ سہولت لوگوں کو فراہم کرنی چاپیے۔
یہ کیس تین نظریاتی نظاموں نے شدو مد سے پیش کیا۔ اشتراکیوں، فاشسٹوں اور موجودہ زمانے کی اجارہ دار کمپنیوں نے۔

اور نتیجہ یہ ہوا، آسان ہوتے ہوتے بات بہت بگڑ گئی کیونکہ بات میں آسانی تو رہی مگر بات سے تفہیم غائب ہونا شروع ہو گئی۔ ڈاکٹر گوبلز کا وہ سہل سا پروپینگڈا جو نفرت انگیز نعرہ بازی کا مسکن بن گیا، لوگوں کے دل لبھانے لگا۔ مسئلہ یہ تھا آسان گوئی کے پیچھے کچھ احساس برتری موجود ہوتا ہے کہ عام لوگ پیچیدگیوں سے آشنا نہیں ہوتے۔ ان  کے لیے بس مختصر سے نعرے کافی ہوتے ہیں۔ ان کے لیے وہی طریقہ اظہار اختیار کیا جائے کہ ان کے دماغوں پر کم زور پڑے۔

آسان گوئی برتری کی اس نفسیات کا آسانی سے شکار ہو جاتی ہے اور گفتگو کا معیار گرنا شروع ہو جاتا ہے۔ نعروں سے، کتابچوں سے، اشتہاروں سے بات شروع ہوتی ہے اور آسان باش، ہوشیار باش کے مرحلے طے کرنے لگتی ہے۔ بڑے عرصے بعد سمجھ آتی ہے، آسان تو ہوتی ہے لیکن سچی نہیں ہوتی۔ اور لوگ نادم ہونے لگتے ہیں کہ کیوں کسی جھوٹی بات کے لیے اتنی سفاکی کی۔ اتنی مشکل اور پیچیدہ زندگی کو صرف چند نعروں سے سمجھنے کی خطا کیوں کی۔

کمپنیوں نے بھی آسان گوئی کی بڑی وکالت کی۔ مزدور لوگ ہیں، زندگی کی تفہیم کے لیے کہاں سر مارتے رہیں گے۔ ان کے لیے سرخیوں اور تصویروں پر مبنی مصالحے دار زرد اخبار ہی کافی ہیں۔ لیکن آہستہ آہستہ گفتگو میں نفرت شامل ہوتی گئی۔ زمین سے جڑے ہوئے لوگوں کی حمایت کی آڑ میں ان کی صلاحیتوں کا قتل شروع ہو گیا۔ جھوٹی خبروں کا عروج ہونا شروع ہو گیا۔ آسان گوئی جوشیلے سے چچھوروں کی افزائش میں مصروف ہو گئی۔ زمین سے تعلق کے نام پر اقلیتوں اور پردیسیوں کے خلاف قانون بننے لگے۔ آسان گوئی کے نام پر تعصب میں اضافہ ہونے لگا۔ جذباتیت کو ایک طوفان سا آ گیا اور بات فہم، خرد، عقل، تجربے، دلیل، ثبوت اور شواہد سے دور ہوتی گئی۔

شاید سہل پسندی کا اخلاقی گراوٹ سے کوئی ناتا بھی ہے۔ کچھ نفسیات دان کہتے بھی ہیں کہ انسان کی تعمیر میں غور و فکر سے فرار کی خرابی موجود ہے۔ اس لیے معاملات کی تفہیم کے لیے انسانوں پر پیچیدگی گراں گزرتی ہے۔ اسی لیے ایک بنا بنایا تصور حیات جو جذبات کی تسکین کا سامان میسر کرنے کا وعدہ ہی کردے، مقبول ہو جاتا ہے۔ فلسفے سے زیادہ عقیدہ مرغوب ہے۔ تصویر بنانے سے زیادہ گھر میں مشہور مصوروں کے شاہکار کی موجودگی پسند ہے۔ تعمیر سے زیادہ تخریب اچھی لگتی ہے۔

لیکن انسانوں میں ہی مشکل پسندی موجود ہوتی ہے۔ کسی ایجاد، تخلیق، دریافت، عقدے، معمے،کٹھن راستے اور دشوار گزار منزل کے لیے انسان ہی تو پوری پوری زندگیاں بتا دیتے ہیں۔

ہمارا خیال ہے کہ انسانی نفسیات کا تعلیم و تربیت پر بہت انحصار ہوتا ہے۔ تعلیم و تربیت ہی تعمیر کی خوبی یا خرابی کا تعین کرتے ہیں۔
اور بات میں تفہیم کی موجودگی کے لیے تعلیم و تربیت میں تفہیم کی موجودگی بہت ضروری ہے۔ اور تفہیم کبھی کبھی آسان لگتی ہے اور کبھی ہوتی بھی ہے لیکن زیادہ تر سلسلوں، ناتوں، رشتوں کا ایک بہت ہی پیچیدہ سلسلہ ہے جس کے لیے سہولتوں سے کچھ نہ کچھ دوری اختیار کرنی پڑتی ہے۔ خاص طور پر بڑی تصویر کے لیے تو بہت سی پیچیدگیاں سہنی پڑتی ہیں۔ ایک وسیع اور بہتر منظر کے لیے ایک اونچی اٹاری تو درکار ہوتی ہے۔ اور کبھی کسی کو اونچی اٹاری میسر ہو جائے، اس کے لیے گری پڑی چھچھوری کرنا اتنا سہل نہیں رہتا۔


مزید ملاحظہ کیجیے: کاملیت پرست ریاستیں اور ان کی عدالتوں کی خر مستیاں

نصیر احمد کی ایک روزن پر شائع شدہ دیگر تحریریں


تعلیم و تربیت میں سائنس، ریاضی، معاشرتی علوم کے ساتھ ساتھ بہتر طرز پر سوچنے کے طریقے بھی سکھانا ضروری ہو جاتا ہے۔ اور سکھانے والوں کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ سیکھنا جتنا آسان وہ کر سکیں کر دیں مگر آسانی کے لیے تفہیم کو قربان نہ کریں۔

بیسویں صدی کی دوسری اور تیسری دھائی میں آسان پسندی اور عوامی قربت کے نام پر کاملیت پرستی کا فروغ ہو رہا تھا اور جیسے کہتے ہیں کافی ہٹ جا رہا تھا لیکن اسی زمانے میں لوگ تفہیم پر بھی کام کر رہے تھے اور مشکل موضوعات، مشکل اسالیب، پیچیدگیوں اور دشواریوں کے باوجود یہ عام سے لوگ بہت سی جمہوری فلاحی ریاستیں قائم کرنے میں کامیاب بھی ہو گئے کیونکہ ان کا فوکس سہولت کی بجائے تفہیم پر تھا۔

لوگوں کی صلاحیتوں پر اعتبار شاید ایک بہتر پالیسی ہے۔ انھیں یہ اعتماد میسر ہو جائے تو وہ تفہیم کا بھی معیار بہتر بنا دیتے ہیں۔
اور جب حکومتی سطح پر یہ اعتبار کم ہونا شروع ہوا تو فلاحی ریاستیں غائب ہونا شروع ہو گئیں۔ آسان گوئی کا فروغ بھی ہوا لیکن آسان گوئی کے ساتھ جو احساس برتری کی نفسیات ہے، اس نے اپنے نتائج ظاہر کرنا شروع کر دیے۔ اور یہ نتائج آمریت میں اضافے اور آمریت کی جمہوریت کو ناکام بنانے کی کامیاب ہوتی سازشوں کی صورت میں سامنے آ رہے ہیں۔

آسان سے پیرائے میں زمین سے گہرے تعلق کے لیے جذبات ابھارتے دل فریب نعرے جب سامنے آئیں تو ان نعروں میں تفہیم کی موجودگی یا غیاب پر ضرور توجہ دیں کہ اس سب سے آپ کا اور آپ کے بچوں کا مستقبل منسلک ہے۔

ایک قوم، ایک ملک، ایک راہ نما۔

بظاہر یہ آسان سی بات احسن لگتی ہے، جھومنے کا بھی دل کرتا ہے۔ لیکن جو یہ نعرہ لگائے اس سے ان سب باتوں کی تفصیل مانگیں۔ تفہیم کے لیے یہ تکلیف اٹھائیں، شاید اس تکلیف کے نتیجے میں آپ انسانیت کی بھلائی کے لیے کوئی بہت ہی اچھا فیصلہ کر سکیں۔