سوشل سائنس کی نفسیات اور نفسیات کی نفسیاتی سائنس 

Naseer Ahmed
نصیر احمد

سوشل سائنس کی نفسیات اور نفسیات کی نفسیاتی سائنس 

از، نصیر احمد 

نو جوان لوگوں میں یہ بہت رجحان ہے کہ مشکل مگر ضروری کام چھوڑ کر کیک واک سی اختیار کرتے ہیں تو اس انتخاب کے حق میں بڑی مدلل گفتگو کرتے ہیں۔

برسوں سے کہہ رہے ہیں کہ بیٹا سائنس پڑھو لیکن تم لوگوں نے اپنی ہی کی۔ تقریباً سبھی کے سب آرٹس، ہیومینی ٹیز اور نفسیات جیسی جعلی سائنسز پڑھ رہے ہو۔

نفسیات کب سے جعلی سائنس ہوئی؟

ارے جس کا سیمپل ہی اتنا بڑا ہو کہ تجربہ کنڈکٹ ہی نہ کیا جا سکتا ہو اور چھوٹے سیمپلوں کے ہر دفعہ نتائج ہی مختلف آئیں، وہ سائنس کہاں ہو سکتی ہے۔ بس تکا ٹھیک بیٹھ گیا تو تیر ہو گیا۔ وہ بھی کم ہی ہوتا ہے۔زیادہ تر مذہبیوں کی طرح جعلی ماہرین تُکّوں کے تیر ہونے پر آپس میں سازش ہی کر لیتے ہیں کہ اب کچھ بھی کرو، ہم نے کہہ دیا تو کہہ دیا۔

اور یہ دوائیں؟

کوئی ٹھیک ہوتا دیکھا ہے کبھی؟

آپ کہتے رہیں، دنیا تو مانتی ہے۔ وہ تو سوشل سائنسز بھی کہتی ہے۔

دنیا زبر دستی کر رہی ناں۔ یہ سیمپل والا ایشو تو ادھر بھی ہے۔

 زبر دستی توآپ بھی تو کر رہے ہیں۔ اب ہمیں نیچرل سائنسز اچھی نہیں لگتیں تو ہم وہی کریں گے جو ہمیں اچھا لگتا ہے۔

وہ تو ٹھیک ہے مگر لگتا یہی ہے کہ تم لوگوں کو گپّیں ہانکنا ہی اچھا لگتا ہے۔

ھاھا، اب تو ہو گئی ناں غلطی۔ ہم سائنس دانوں سے شادیاں کر لیں گے۔ شاید کچھ سبسٹانس قائم رہے۔

ارے نہیں،یہ ظلم نہ کرنا، ان بے چاروں کی سائنسی صلاحیتوں کو ضرر پہنچے گا۔

ہمیں نہ فائدہ پہنچے، سائنس سلامت رہے۔

تو سائنس پڑھ کر خود کو فائدہ پہنچاتے ناں۔ اب تم لوگ جس طرح کے علوم حاصل کر رہے ہو، یہ کالے جادو کے جدید نام ہیں؛ اور ان کو پڑھ کر زیادہ سے زیادہ فرد ڈرامے باز ہی بن سکتا ہے، اور گلیسرین کے عطا کردہ جعلی آنسووں کے سیلاب میں علم تو غرق ہو جائے گا۔

ویسے آپ نے کیا پڑھا تھا؟

میڈیا اور پڑھایا بھی حاضرات کے ایسے ماہرین نے جن کے قدموں میں دنیا پڑی ہے۔

تو پھر جاپ الٹا کیوں ہو گیا؟

ھاھا، نہیں جادو کو فاش کرنا شروع ہو گئے تھے، پھر جادوگر کہاں اپنی منڈلی میں بیٹھنے دیتے۔

جذبات پر ایک بات یاد آئی جو ہم کافی عرصے سے پوچھنا چاہ رہے ہیں۔ یہ آپ لوگ جذبات کو ریپرِیس کیوں کرتے رہتے ہیں؟ ذرا جذباتی گفتگو کیا ہوئی؟ یا آپ نالاں ہو جاتے ہیں، یا ہنسی اڑانے لگتے ہیں؟

ارے نہیں، یہ تم لوگوں کی تفہیم کی خامی ہے۔ یہ ادھر ملکۂِ جذبات تشریف فرما ہیں۔ ان سے پوچھ لو، کبھی ان کے مبالغوں کو لے کر ان کا دل دکھایا ہو۔

تو ابھی اور کیا کر رہے ہیں؟

 ارے نہیں۔ہم تو بس توازن اور تناسب کی بات کرتے ہیں، اور جذبات کو حقائق سے متعلق دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ اور جذبات کے ارد گرد فریب کاری بھی ہمیں نہیں بھاتی۔ اور غم کے جذبات کے ارد گرد ہمارا رسپانس یہی ہوتا ہے کہ درماں کی کوئی سبیل کریں اگر ہم سے کچھ ہو سکے۔

یہ تو آپ سمجھتے ہیں۔ لیکن ہمارا اندازہ ہے کہ ہم نوجوان لوگ جذبات کی تکریم زیادہ کرتے ہیں۔

لیکن اگر جذبات فاشزم یا کسی بھی قسم کی دھونس دھاندلی کا اوزار بن جائیں؟ خود دیکھ لو، پاپولسٹوں کے جلسوں کون پگلایا ہوتا ہے؟ وہ بوڑھے سرغنے جو اب نو جوان نہیں رہے مگر نو جوان ہونے کی اداکاری کرتے ہیں۔ اور وہ نوجوان جو جذباتیت کی روک تھام کے لیے تیار نہیں ہیں۔

یہ تو ہے لیکن ہم بھی غلط نہیں کہہ رہے۔ آپ کا مسئلہ تو ہے۔

اب یہ تو گپ شپ ہو گئی ناں۔ اور اسی گپ شپ کی سہولت کے لیے تم لوگ سائنسز نہیں پڑھ رہے۔

نہیں اگلی دفعہ ہم آپ کو ثبوت دیں گے۔

پھر انسانی غلطی کا مارجن رکھتے ہوئے سیمپل بنائیے گا۔ ایک مسلسل پیٹَرن ہوا تو ہم جذباتی طور پر تھوڑا ذہین ہونے کی کوشش کریں گے۔