لڑکا نہیں، قتل کی خلش سہلانے اور قتل کا جواز دینے والے قاتل ہیں

لکھاری کی تصویر
یاسر چٹھہ

 لڑکا نہیں، قتل کی خلش سہلانے اور قتل کا جواز دینے والے قاتل ہیں

از، یاسر چٹھہ

معاشرے اور سماج جرم کے خلاف بھدے پن کا احساس اور خلش کی ڈھال بنا کر جرم و بد حرکتی deviant behaviour کو کم سے کم کرتے رہتے ہیں۔

قانون کا نفاذ، تعزیر و سزا، جرم بے زاری کے متوازی ریاستی و انتظامی سطح کی ڈھال ہوتی ہیں۔

معاشرتی قدری و اخلاقی نظام، اور انتظامی و ریاستی تعزیر و سزا مل کر ہم آہنگی سے کام کرتے ہیں۔ معاشرے کو کسی طرح زندگی افروز اور ایک طرح کے مسلسل اور متحرک توازن میں رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ہمارا معاشرہ اور سماج انسانی قتل جیسے اپنے نوع کے ہی خود کُش قسم کے جرم پر کیا رویہ اپناتا ہے، یہ کسی بھی معاشرت کا حتمی امتحان اور آزمائش ہے۔

انسانی بچہ پیدائش سے پہلے فرد کم، پوری انسانیت کا استعارہ اور مستقبل کا نشان زیادہ ہوتا ہے۔ پیدائش کے بعد بھی وہ جب تک جسم و شعور کی بہتر استطاعت نہیں حاصل کر پاتا، اس وقت تک وہ معاشرت و انسانیت کی اجتماعی سپرد داری میں ہوتا ہے۔

کل بہاول پور کے کالج میں ایک استاد قتل ہوتا ہے۔ جیتے جی وہ البتہ ایک فرد تھے، مرنے کے بعد لیکن وہ کُل انسانیت کا جسد ہیں۔ انہیں قتل بھی ایک ایسے فرد نے کیا جو ابھی ابھی طفلانہ برسوں سے پار کے سالوں میں آیا ہے۔ اب و نو جوان ہے۔

کیا اسی لڑکے نے قتل کیا؟ چلیے بات صاف اور راست کرتے ہیں ہیں کہ اس نے چھری کے وار کیے۔ وہ کلہاڑی بھی چلا سکتا تھا۔ وہ گولی بھی چلا سکتا تھا۔ وہ گلا بھی گھونٹ سکتا تھا۔ اس نے قتل کرنا تھا، وہ کوئی بھی آلۂِ قتل برت سکتا تھا۔ دھیرج بات کر رہا ہوں، اس سست روی سے آپ، اے قاری، بوجھلتا کے احساس تلے دبے جا رہے ہوں گے۔ درخواست کرتا ہوں کہ کچھ دیر اور دھیرج رکھیے۔

سُنیے!

اس لڑکے نے قتل کیا۔ لیکن وہ لڑکا قاتل نہیں۔ آپ سوچتے ہوں گے کہ کیا بے سر و پا اور دیوانگی بڑ ہے۔ جی، یہ تضاد نہیں۔ دھیرج کہنے والے، دھیرج کی سننے والے تیزی سے کم ہوتے جا رہے ہیں۔ جب ہی تو ہماری ثقافت و معاشرت تیز رفتاری کے اضطرار میں اپنے آپ سے کٹتی جا رہی ہے۔ اپنے آپ کو کاٹتی جا رہی ہے۔ اور مجال ہے کہ جو اسے کچھ ملال بھی ہو!

قتل اس بچگانی اور جوانی کی سرحد پر کھڑے لڑکے نے نہیں کیا۔ وہ قتل کا محض آلہ ہے۔ ان پروفیسر کے قاتل ہم سب ہیں۔

ان پروفیسر صاحب کے قاتل ہم سب وہ لوگ ہیں جو قتلوں کو جواز دیتے ہیں۔ جنہوں نے اس انسانیت بے زار فعل کے ساتھ منسلک خود انسانیت کے اندر ہی موجود خلش کو اپنے بودے جوازوں سے سہلا سہلا کر ختم کر دیا ہے۔ آج ہماری خلش کسی کے بیٹھنے، اٹھنے، پہننے اور نعروں پر زیادہ مرتکز ہے۔

ہم قتل کی خلش کو سلا دینے والے سب قاتل ہیں۔ قتل کے جواز دینے والے کسی نا کسی طور پر شریکِ قتل ہیں۔ وہ اس انسانیت بے زاری کی کلہاڑی کا دستہ ہیں، وہ اس چھری کی ہتھی ہیں جو سماج و معاشرت میں قاتل کی خلش کو سہلاتے ہیں۔

آئیں سب زبان-گھڑی پہنیں، خود کو ذہن-کوٹھڑی میں ڈالیں، کچھ اپنے دُرون میں جھانکیں۔ اپنی انسانیت جگائیں، شاید۔ صرف ہتھ کڑی ہماری سزا نہیں ہو سکتی۔

 

About یاسرچٹھہ 240 Articles
اسلام آباد میں ایک کالج کے شعبۂِ انگریزی سے منسلک ہیں۔ بین الاقوامی شاعری کو اردو کےقالب میں ڈھالنے سے تھوڑا شغف ہے۔ "بائیں" اور "دائیں"، ہر دو ہاتھوں اور آنکھوں سے لکھنے اور دیکھنے کا کام لے لیتے ہیں۔ اپنے ارد گرد برپا ہونے والے تماشائے اہلِ کرم اور رُلتے ہوئے سماج و معاشرت کے مردودوں کی حالت دیکھ کر محض ہونٹ نہیں بھینچتے بَل کہ لفظوں کے ہاتھ پیٹتے ہیں۔