سکول میں ایک دن (آخری قسط)

سکول میں ایک دن (آخری قسط) سکول میں ایک دن

سکول میں ایک دن (آخری قسط)

از، نصیر احمد

پچھلی قسطوں میں ہم نے کچھ یاد داشتوں اور کچھ قوت تخیل کی مدد سے ہم نے اپنے اور ساتھ کے لوگوں کے تعلیمی تجربات تعمیر کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان تجربات اور زندگی میں پیش آ نے دوسرے تجربات کی رہنمائی سے ہم تعلیم کے سلسلے کو سمجھنے کی کوشش کریں گے

سب سے پہلے ہمارے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ ریاست اور شہریوں کوکاروبار حیات چلانے کے لیے کس قسم کے شہری درکار ہیں؟ اگر معتقدین، مداحین اور مقلدین درکار ہیں تو ان کی کمی ہمارے ہاں نہیں ہے۔ ان کی کثیر تعداد میں موجودی کے نتائج کیا ہیں؟ نتائج ہمارے سامنے موجود ہیں۔ انسانی ترقی کی عالمی فہرست میں ہمارا ایک سو چھیالیسواں نمبر ہے۔ یہ فہرست بتاتی ہے کہ معتقد، مداح اور مقلد انسانی ترقی کے سلسلے میں کچھ خاص مددگار ثابت نہیں ہوئے۔ دلی سے پالم کو فریدوں اور جمشید سے بڑی حکمرانی قرار دینے والے مبالغہ گو جھوٹ کو سچ تو بنا سکتے ہیں لیکن نہ حقائق تسلیم کر سکتے ہیں اور نہ انسانی ترقی کے حوالے سے حقائق تشکیل دے سکتے ہیں۔

پاکستان کےآغاز سے ہی بلوائی  آ دھمکے۔ لالچ کو جوش انتقام سے اور جوش انتقام کو مذہب سے منسلک کر کے اپنے ہم وطنوں کو بے وطن اور جلا وطن کرتے رہے۔ ان کو کوئی احتساب نہیں ہوا اور احتساب کی عدم موجودی تو وحشت بڑھاتی رہتی ہے۔اور یہ بلوائی مختلف نعروں کے زیر اثر ہماری تاریخ کے مختلف ادوار میں موجود رہے، اب بھی موجود ہیں۔ جب سڑکوں پہ نکلتے ہیں، تو پھر نقصانات ہوتے ہیں، اور اب تو ان بلوائیوں ک روکنے کی ریاست میں سکت ہی ختم ہوتی جارہی ہے۔

عالمی شرح تعلیم میں ہم 159 نمبر پہ آتے ہیں۔ لوٹ مار کی فہرست میں بلوائیوں کا پہلا نمبر ہو سکتا ہے لیکن تعلیم کے سلسلے میں بلوائیوں کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا۔ جہاں حلوہ اور بلوہ ہوتے ہیں وہاں تعلیم تو سسکتی اور تڑپتی ہی ہے۔

لاشیں درکار ہیں ،لاشیں۔اور ہم جانتے ہیں لاشیں کوئی مسئلہ نہیں حل کر سکتی لیکن لاشوں سے والہانہ عقیدت ہے کیونکہ لاشوں سے خودی بلند ہوتی ہے اور خودی کی بلندی سے اقتدار، دولت اور طاقت کے دروازے کھلتے ہیں۔ اس لیے لاشیں گرتی رہتی ہیں اور بکتی رہتی ہیں۔

پھر ہم نے نسل پرستوں کی افزائش کی۔ رنگ و نسل کے حوالے سے پنجابی،بلوچی، مہاجر، سندھی، بنگالی ، بہاری ، پشتون ظلم کرتے رہے اور سہتے رہے۔ اسی دوران ملک دو لخت ہو گیا لیکن نسل پرستی کو قرار نہ آیا۔ عالمی سازشوں کا برقعہ اوڑھ کر نسل پرستی کی طاقت بڑھتی گئی اور شہریت سمٹتی گئی۔ دنیا کے خطرناک ترین ملکوں میں ہم 9 نمبر پہ ہیں۔ ظاہر ہے نسل پرستی انسانی برتری کو تشدد کے ذریعے ثابت کرتی ہے اور جہاں تشدد عام ہو، وہاں امن نہیں ہو سکتا۔ اور جہاں امن نہیں ہو سکتا وہاں تعلیم اور انسانی ترقی کی ترویج بھی نہیں ہو سکتی۔

ہمارا کیس تو ایسا ہی ہے۔لیکن نسل پرستی سے دست بردار ہونے کے لیے ہم ابھی تک تیار نہیں۔ اس کے بعد ہمیں جیالوں کی طلب ہوئی۔یہ چئیرمین ماؤ کا تحفہ ہے۔جیالے آمریتوں سے بڑی بہادری سے نبرد آزما ہوئے لیکن جیالے بھی معتقد اور مداح تھے۔ جب بھی حکومت ان کے پاس آئی، ان کے پاس بھی کسی مسئلے کا حل نہیں تھا۔

بنگلہ دیش میں شہریوں کے قتل پر جیالے خاموش ہی رہے۔ اور مسائل کے حل کے لیے ان کے پاس جذباتی نعرہ بازی کے سوا کچھ نہیں تھا۔ عالمی معیار کی ایک اور فہرست کے مطابق ہمارا ملک پسماندگی سے عشق میں مبتلا ہے اور پس ماندگی کے سوا کچھ اور کرنے کے لیے تیار نہیں۔یہ جیالے جن سے ہمیں بھی بہت انس ہے فلک شگاف نعروں سے فلک پیمائی کے معجزوں میں مصروف ہو گئے لیکن جیسے ہمارے سکول میں کہتے تھے کہ مڑی تڑی، جکڑ بمبو سے جڑی ٹانگوں کے ساتھ پولس کے ساتھ مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ اب ہمارے پاس بلوائی، نسل پرست، جیالے مو جود ہیں اور ترقی صرف ایک نعرہ ہے، ایک خواب ہے، اب ان سے ملاقات کرتے ہیں جنھوں نے الفاظ کو بے معنی کر دیا۔

بلوائیوں، نسل پرستوں اور جیالوں کے بارے میں ہم مختصر سی گفتگو تو کر ہی چکے ہیں۔ اختصار پہ پی اکتفا کجیے کہ ہم برسوں سے اپنے ذاتی صفحے پہ کچھ نہ کچھ بکتے رہتے ہیں اور آپ نے کبھی بات بڑھانے کی کوشش نہیں کی تو ہمیں کیا پڑی ہے اس مختصر سی زندگی کو ان طوالتوں کی نذر کر دیں جن سے کسی کو دل چسپی ہی نہیں ہے

۔ویسے بھی آپ لوگوں کو صدیوں سے قطروں میں قلزم دیکھنے کی عادت ہے اور اس میں آپ اس قدر محو ہو جاتے ہیں کہ آتش بازی میں سیکڑوں جل مرتے ہیں اور آپ جو تھا جل گیا کہہ کے مالک حقیقی کی ثنا خوانی میں مصروف ہو جاتے ہیں کہ قادر کے ہاتھ میں ڈور ہے اور کسی کا کچھ زور نہیں چلتا۔

لو جی دیکھیں، ہم تو آپ سے خواہ نخواہ ہی روٹھ گئے۔ اتنی مصروف زندگی اور تسپر ہم جیسے جاہلوں کی واہی تباہی لیکن انسان ایسے ہوتے ہیں جیسے کہ یہ ہمارے مجاہدین جن کی ریاست اور شہریوں کو اشد ضرورت ہے۔ یہ بھی عجیب لوگ ہیں، آئین، قانون، انسانی ہمدردی او زندگی میں جو کچھ بھی اچھا ہے اسے پامال کر کے بھی پر ملال نہیں ہیں کہ فردوس کا ان سے وعدہ ہے اور انھیں فردوس میں جانے کی بیتابی ہے۔ اور ان کے خواب بھی کچھ عجیب سے ہیں کہ یہ موضع کھوتھیاں(چکوال میں ایک موضع) کے آس پاس قسطنطنیہ کو فتح کرنا چاپتے ہیں۔

ارے بھائی قسطنطنیہ آج کل استنبول کہلاتا ہے اور آپ ہی جیسی ایک مذہبی جماعت کے زیر نگین ہے اور ترقی کرتے کرتے کچھ گڑبڑا سا بھی گیا ہے۔ وہ آپ کو وہیں کفار کا جاسوس قرار دے کر جہنم رسید کرنے کے درپے ہو جائیں گے اور کہیں گے ہر وہ دل جس میں کفار کی محبت ہے، ایک قسطننیہ ہےجس کو مفتوح کرنا ایمان کی شرط اول ہے اور آپ بوکھلا سے جائیں گے۔ کفار کا تو ذکر ہی نہیں ہوا اور ان کی بیخ کنی کی جارہی ہے۔ اور جب کبھی مٹی گارے میں الجھے، پتھر توڑتے کفار نظر آجاتے ہیں تو ان پر کوئی بہتان باندھ کر ان کو کسی نہ کسی بھٹی میں جھونک دیتے ہیں کہ آگ ہی کفار کا ٹھکانہ ہے۔

دکھ کی بات یہ ہے کہ ہر جگہ آپ کو ایسے قادران مطلق مل جاتے ہیں جن پر انسانیت کے معیاروں کا جو بھی اطلاق کریں ، اس پر پورے نہیں اتر پاتے۔ فلیچر کے مطابق انسان ہو نے کے لیے خود آگاہی، ماضی ، حال اور مستقبل کا احساس، اپنے آپ پر قابو، دوسروں سے ناتے جوڑنے کی اہلیت، دوسروں کے بارے میں فکرمندی، ابلاغ اور تلاش کی خواہش بنیادی شرائط ہیں۔ اور لاک فرماتے ہیں ایک فرد کی تعریف یہ ہے کہ ایک سوچتا ذہین وجود جو تفکر وتدبر کا حامل ہو اور اپنا ادراک رکھتا کہ وہ زمان و مکاں کی ہزارہا ہمہ جہتی میں ایک سوچنے والا وجود ہے۔

جنرل ضیا جنھیں ضیا لکھتے وقت ایسے محسوس ہوتا ہے کہ بحر ظلمات میں کسی نے ہاتھ باندھ کر پھینک دیا ہے اور ساتھ ہی حکم دیا ہے کہ بحر ظلمات میں اب گھوڑے دوڑا دو۔ خیر ظلمات کے ان دیوتا کے زمانے سے ہی ان مجاہدین کو سیاسی طاقت، معاشی قوت، تعلیم،کاروبار، روزگار، سماجی اثرو رسوخ، عالمی تعلقات یعنی زندگی کے ہر شعبے پر تصرف حاصل ہے۔ خود آگاہی کا یہ عالم ہے کہ ان کے فیصلوں کے نتائج غربت، جہالت، پس ماندگی، بدحالی ا خلاقی زوال، عالمی بدنامی، تنگ دلی، تنگ نظری کے صورت میں روز رونما ہوتے ہیں لیکن ہر روز وہ اپنے فیصلوں اور سماجی برائیوں کے درمیان تعلق کا انکار کرتے ہیں۔

صاحب، طالبان جیسے درندوں کی حمایت غلط فیصلہ تھا جس کے نتیجے میں نامرادی اور قتل وغارت کے سوا کچھ بھی ہاتھ نہیں آیا۔ جواب آتا ہے کہ وہی تو گناہوں کی اس دلدل میں روشنی کا مینار ہیں۔ وہی تو ہمارے دوست ہیں، ان کو تنہا نہیں کر سکتے۔ ماضی، حال اور مستقبل کا ان کا احساس یہی ہے کہ ماضی شاندار تھا، حال خراب ہے اور مستقبل شاندار ہو گا۔ شاندار ماضی کے لیے ساتھ آٹھ صدیاں پھلانگ کر سلیمان اعظم کے دربار میں ڈیرا ڈال لیتے ہیں اور اٹھنے کا نام ہی نہیں لیتے۔ اتھے ای بہساں، نہ جنگھ ہلاساں نہ بانہہ کہ میں تو پائے تخت کے نیچے براجمان ہوں اور ایسا کون ہے جو مجھے اٹھائے۔

صاحب چھاپے والی مشین بن گئی ہے۔ اب کتابیں چھاپیں گے۔ اچھا ، میری بلا سے ذرا دیکھو تو عالم پناہ کے چہرے پر کتنا جلال ہے اور تعلیل میزان، صرف بہائی، حیرت الفقہ کے ساتھ ساتھ ہٹلر کی آپ بیتی اور ضرب کلیم ضرور چھپوانا۔

یہی معیار ہے اور لکھا ہوا اس کی تائید اور تفسیر کرے۔ اس کے علاوہ سب کچھ سازش ہے جس کا عالم پناہ خوب جواب دے رہے ہیں۔ ذرا دیکھو تو سہی اس غیر ملکی قاصد کا چہرہ کیسے پسینے میں گھلا ہے۔ مرد مومن کی نگاہ کی حدت کی یہ کفار نہیں تاب لا سکتے۔

اور مغربی ثقافت کی ساری زنجیریں جوش یقین سے کاٹ دو ۔ اور واپس آکر مجھے رپورٹ دو۔ صاحب اکیسویں صدی ہے، اور ہم لوگ زمانے سے پچھڑ گئے ہیں۔ کروڑوں غریب، بیمار، تنگ دست اور جاہل ہیں۔ ارے دیکھو کیسے عالم پناہ نے ابراہیم پاشا کی گردن تن سے جدا کردی ہے اور صفویوں کی بولتی بند کر دی ہے۔

یہ مخلوق جس کا تم ذکر کرتے ہو، یہ اخلاقی برتری کے پرچار کے لیے بہت ضروری ہے لیکن دنیا وہ میدان ہے جس میں ہم اشہب زمانہ کو ایڑ لگاتے ہیں، اور یہ اسپ تازی روندے جانے والوں کی پرواہ کرنے لگے ،تو تھم ہی جائے۔

اپنے آپ پر وہ قابو ہے کہ محفل میں تشریف لاتے ہیں تو پہلے گجریا پہ لڑکھڑاتے ہیں، پھر ڈگریا پہ ڈگمگاتے ہیں اور پھر کمریا لچکاتےہیں اور بے گناہوں کی موت کا پیغام سناتے ہیں۔معصوم لوگوں کے قتل کے سوا کچھ نہیں کیا اور جس بات پر لوگ شرمندہ ہوتے ہیں، یہ اس پہ اتراتے ہیں۔

اور ناتے جوڑنے کی صلاحیت۔ ہم نے جو فرمایا ہے وہ مستند ہے کیونکہ ہم نے فرمایا ہے۔ ارے یہ کٹھ ملا کہاں سے پکڑ لے آئے ہو۔ یہاں تو ہر لحظہ بات ختم ہو جاتی ہے۔ شروعات کیسے ہو۔ کچھ دیر برداشت کر لو، دنیا ہے ہر طرح کے لوگوں سے ملنا پڑتا ہے۔ مگر یہ جو کہہ رہا ہے، اسے برداشت کیسے کریں؟ کرنا پڑتا ہے، ہزاروں شیدائی ہیں، بات نہ سنی تو ہنگامہ ہو جائے گا۔

چلو سنو، ہمیں بھی سناؤ لیکن بات نبھے گی نہیں اور کل تم یہی کہو گے کہ اس سے بات شروع کیسے کریں۔ اور یہ شیدائی کہاں سے آئے؟ یہ راز جاننے کے لیے کچھ سوچنا، دیکھنا، سمجھنا، جاننا پڑے گا۔ اس کو طاقت دے رہے ہو، یہ تو تمھاری گردن ہی تن سے جدا کر دے گا، اور تعلیم سے متعلق تمھاری یہ فہرست دھری کی دھری رہ جائے گی۔ یہ تعلق توڑ دو۔ اس کا کوئی بھی دوست نہیں ہے کیونکہ یہ کسی کا بھی دوست نہیں ہے۔ کتنی بار سمجھایا ہے ایسوں سے مت ملا کرو۔

اور دوسروں کے بارے میں فکر مندی کا یہ عالم ہے کہ دوزخ کو ایندھن فراہم کرنے کی فکر تو ہے لیکن ایندھن کے ساتھ کیا گذرتی ہے اس کے بارے میں دردمندی، غم گساری اور انسان دوستی کے حوالے سے سارے جذبات نحمدہ و نصلی کہہ کر معطل کر دیے ہیں۔

اور تلاش صرف شہریوں کی شکل میں اہداف کی ہے اور غیر ملکیوں کے بنائے ہو ئے ہتھیاروں کی ہے۔ جسے جنت مل چکی ہو، اس کی تو تلاش ختم ہو ہی جاتی ہے۔ جنت کے نشے میں مخمور اٹھلاتے چلے جاتے ہیں اور کوئی نشہ خراب کر رہا ہو اسے گالیاں بھی دیتے جاتے ہیں۔

اور ابلاغ کا مطلب اپنے جرائم کے متعلق مسلسل خاموشی ہے اور جو لوگ تعمیل نہیں کر پاتے ، ان کی مسلسل توہین میں مصروف شور وغوغا کرتے رہتے ہیں۔ اور سوچتا ہوا ذہین وجود۔ آپ بھی نا۔ وہ مسخری کرتے ہیں کہ ہنسنے کی بجائے رونا آجاتا ہے۔

لیکن انسانیت کی تعریف کے ارد گرد یہ جو تفاوتیں ہیں ان کا کیا حل کریں؟ با دلم مہربان شو۔ ہم کیوں کسی کی انسانیت کے بارے میں فیصلہ دیں؟ کیوں کسی فریم ورک یا کسوٹی پر دوسروں کی انسانیت جانچنے کی کو شش کریں؟ انسانیت کی تعریفوں اور انسانوں کے اعمال کو کسی فلسفی کے نکتہ نظر کے حوالے سے جانچنا آپ کو تنگ دلی کی مسافتوں کا عادی بنا سکتا ہے؟ اس لیے تعریف و تعارف کو وسیع سے وسیع تر کرنا پڑے گا تب شاید آپ کو دوسروں کے کھودے ہوئے گڑھے نظر آ جائیں۔ وہ کیسے؟

ایک تعریف یہ بھی تو ہے کہ ہومو سیپئین نوع کا ہر رکن انسان کہلاتا ہے۔ تو یہ تھے ہمارے مجاہدین جن کی انسانیت برقرار رکھنے کے لیے اخلاقیات کے پیمانے نظر انداز کرنے پڑے۔ اور ہمارا نصاب ہمیں اس قسم کے مجاہدین بنانا چاہتا تھا۔ اس سے بڑی زیادتی ہم لوگوں کے ساتھ کیا ہو سکتی تھی۔

دیر تو ہو گئی ہے اور گھر بھی دور ہوتا جا رہا ہے مگر ہمارے ذہن میں ہے کہ ان مختلف ذہنیتوں کے مختصر سے خاکے آپ لوگوں کی خدمت میں پیش کرتے آگے بڑھیں کیونکہ ان ذہنیتوں کے حامل افراد کے پاس ملکی تعلیمی پالیسی کے حوالے سے مختلف ادوار میں اقتدار اور اثر رسوخ رہا ہے۔ اور جو ذرائع اور اسباب مفادات کی افزائش کرتے ہیں، مفاد پسند ان ذرائع اور اسباب کی افزائش کرتے ہیں۔ہمارا خیال ہے کہ زیادہ تر یہی ہوتا ہے۔

کبھی کبھی کوئی دوربین اور درد مند اپنے مفادات کو نظر انداز کر کے معاشرے کی تعمیر میں مصروف ہو جاتا ہے اور کبھی کبھی حالات اس طرح ہو جاتے ہیں کہ ہر کسی کو اپنے مفادات کی ترجیحات بدلنا پڑتی ہیں تا کہ معاشروں کی تعمیر و ترقی کے زریعے بقا کے حل تلاش کیے جا سکیں ہیں اور ڈائنوں کو بھی بہت سارے گھر چھوڑنے پڑتے ہیں۔ اس طرح کے درد مند ہمارے انقلابی، اشتراکی اور ترقی پسند بھی تھے۔ ان کی دور بینی سے تو ہم متفق نہیں ہیں کیونکہ وہ لنکا پہ لنکا ڈھاتے گئے مگر جو راکھشس گھر کے بھیدی تھے، ان پہ ان کی نظر ہی نہیں پڑی۔ بالکل ہماری طرح ستاروں سے آگے جہانوں کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں اور گلی میں کھدے ہوئے کھڈوں پہ نظر ہی نہیں پڑتی۔

یہ فراعنہ سے لیکر استعماریوں اور سامراجیوں کی زیادتیوں کی ہر تفصیل پہ طویل تقاریر کرتے تھے لیکن جو فغفور اور خاقان ان سے تعاون کرتے تھے، ان پر ہر وقت مدح و منقبت کی گل پاشی کرتے تھے۔ لینن، سٹالن، ماؤ، پولپوٹ، انور خواجہ اور ان جیسے آمروں کے مظالم پر تنقید تو تصور ہی نہیں کی جا سکتی تھی، اپنے ساتھی کارکنوں میں بھی یہ خطا، غلطی اور لغزش دیکھنے کا بھی حوصلہ نہیں رکھتے تھے۔ مارکس اور اینگلز تو جیسے خداوند تھے جن کے پاس ہر مسئلے کا حل موجود تھے۔

جس طرح ہمارے مجاہدین ایک شریعت کامل کے نام پر مسلسل ظلم و ستم کیے جاتے ہیں اسی طرح ان کے پاس بھی ایک اصلی اور وڈی ہیر موجود تھی جس کی ہر رونمائی کے بعد یہ معلوم ہوتا تھا کہ یہ تو دھوکہ ہے، چلیں اور ظلم ڈھاتے ہیں تاکہ شریعت حقیقی کی راہ پہ گامزن ہوں۔ ہمارے ملک میں تو ابھی تک دانش وری، صحافت، تعلیم پر ان دو قسم کے مجاہدین کا قبضہ ہے اوریہ ہر وقت آپس میں جھگڑتے رہتے ہیں اور اپنے اپنے انقلاب کے منتظر رہتے ہیں اور سمے کی دھارا بہتی رہتی ہے اور اس دھارا میں یہ کاٹھ کباڑ کوڑا کرکٹ پھینکتے رہتے ہیں۔

لیکن ہماری نظر میں ہمارے ہاں مجاہدین سے یہ اشتراکی اور ترقی پسند لاکھ درجے بہتر ہیں کہ ہم لوگوں کو ان کی حکومت کرنے کی صلاحیت سے نقصان اٹھانے کا بہت زیادہ موقع نہیں ملا ۔ یہ غربا کی بہتری کے لیے آواز اٹھاتے تھے، مزدوروں کے حقوق ان کے لیے اہم تھے، صنفی برابری کے قائل تھے، اور حکومتی استبداد کے خلاف ایک فلک شگاف آواز بھی تھے۔

ہماری نظر میں ان کے تمام تر تعصبات کے باوجود سبط حسن، علی عباس جلالپوری، فیض احمد فیض جیسی شخصیات تعلیم و تربیت کے حوالے سے ایک نکتہ نظر رکھتے تھے ،جو بہرحال جدید تھا۔ کم از کم معاشی اور سائنسی علوم کی ایک اہمیت تو تھی۔ لیکن یہ پڑھے لکھے لوگ بھی تعلیم پر توجہ دینے کی بجائے منتخب حکومتیں گرانے میں مصروف ہو گئے۔ تنگ دستی ، بدحالی اور ظلم و ستم کا حل ان کے پاس یہی تھا کہ خوفناک نظریات کے نشے میں گم یہ اقتدار پر قبضہ کر لیں اور اپنی شریعت نافذ کر دیں۔

۔لیکن ان کی شریعت جہاں کہیں نافذ تھی، وہاں کے باشندوں کے لیے نتائج بہت ہی دہشت ناک تھے۔ پالیسیوں پر کیا بحث کرنی، مقتولین کی گنتی ہی لاکھوں کروڑوں تک پہنچ جاتی ہے اور ان کی حکومت کا تصور ہی جان حزیں کو وقف آلام کر دیتا ہے۔ ان کی حکومت کا ماڈل ہی خطرناک ہے، ایک آمر یا آمروں کا ایک ٹولہ جن کے مفادات کے لیے انسانی حقوق اور اخلاقیات معطل کرنا ایک نظریاتی فریضہ ہے۔ یہی تو غلامی ہوتی ہے۔ان کے ہاں بھی اختلاف رائے کا حل تشدد کے خوف میں مبتلا سناٹا ہے۔ بلوہ اور لاشیں اقتدار تک رسائی کا ایک ذریعہ ہے اور اقتدار تک رسائی کے بعد افسر شاہی کے ذریعے بڑے پیمانے پر قتل و غارت اور ان کے جو ارجن تھے انھیں تو ظلم و ستم پر کوئی ملال ہی نہیں ہوتا تھا۔

اب ارجن کا ذکر آیا تو ہر دلعزیز صوفیائے کرام کا بھی تذکرہ ہو جائے کہ جیسے کہتے ہیں کہ روز میثاق سے ہی ظالموں کے دوست ہیں۔ ہم نے بھی انھیں پاکستان میں آمریت کے ساتھ اور جمہوریت کی مخالفت کرتے ہی دیکھا ہے۔ اخباروں میں ان کا بڑا چرچا ہے، اور جہاں بھی ان کی ازلی دانش جلوہ فرما ہوتی ہے، وہیں منتحب حکومتوں کے جنازے کے لاؤڈ سپیکروں پہ اعلانات کیے جاتے ہیں۔ان کا فاشزم، اشتراکیت ، سلطانی اور آمریت کے ساتھ ایک فطری اتحاد ہے کہ فرد کی تذلیل میں ان سب کی طاقت پوشیدہ ہے۔

لو جی سوویت یونین ٹوٹ گیا۔ تاریخ کا خاتمہ ہو گیا۔ اور سرمایہ داری فاشزم ، نازی ازم اور اشتراکیت کے نسخوں سے لیس فلاح و شہریت قتل کرنے کے درپے ہے اورصارفوں پر مبنی ایک دنیا تخلیق کرنے میں مصروف ہے۔ نجکاری کا عروج ہے اور نگرانی کا زوال۔ ہم پہ بھی باقیات سے آلودہ جمہوریت انعام کی گئی ہے جس کا پتا ہی نہیں چلتا کہ ہے کہ نہیں ہے۔ آپ کو چندو اور ملک(جرائم کے حوالے سے ایک ہندی فلم کے کردار، فلم کا نام یاد نہیں) کی دنیا میں خوش آمدید کہتے ہیں۔

بوریوں میں لاشیں آنے لگیں۔ وقت پر بھتہ جو نہیں پہنچا۔ ٹھیکوں میں غبن ہو نے لگے، حساب میں خورد برد ہونے لگی۔ ہر چیز، ہر سوچ، ہر عمل کا محور و مرکز پیسہ ہے اور پیسے کا مرکز خود غرضی ہے۔ اور خودغرضی کا مرکز انسانوں سے نفرت ہے۔ انسانوں سے نفرت کی بہت ساری راہوں کے تو پہلے ہی مسافر ہیں، اب ایک اور راہ دریافت ہوئی ہے۔

یہ ظاہر داری کا زمانہ ہے جس میں باطن ایک خالی برتن ہے ۔انسان کیا ہے؟ پیسہ چھینتی ہوئی ایک بلا جس کی بدصورتی چھپانے کے لیے وہ نقش کاری کی گئی ہے کہ اصل شکل تک رسائی ہی نہیں ہوتی۔ تیز رفتاری اتنی ہے کہ سب سانچوں، کھانچوں اور ڈھانچوں پر بنے ہوئے نقش و نگار ہی دیکھ سکتے ہیں۔ دربانوں کی طویل قطاریں ہیں اور عالم پناہ تک رسائی بھی نہیں۔ اور زنجیر عدل پر تو عالم پناہ کے درباریوں نے ہی ہلہ بول دیا ہے۔

یہ مسٹر فراڈیے کے عروج کے دن ہیں۔ یہ دہلی سے جائداد ہتھیا کر لکھنو میں اس جائداد کے چھپانے کے دن ہیں۔ دونوں دبستان مسلسل رابطے میں ہیں لیکن جائیداد کیا ہوئی، اس کے بارے میں دونوں کو ہی خبر ہی نہیں ہے۔ مسجدوں میں بم پھٹتے ہیں، جا بجا مدرسے کھل گئے ہیں اور مدرسوں میں بم بنتے ہیں۔ دنیا کی بقا ہو رہی ہے۔ اسلام کی خدمت بھی ہو رہی ہے۔ اور جمہوریت کمپنی کا مال بیچ رہی ہے۔

تیل چاہیے تیل؟ مشرق وسطٰی کے کسی ملک پر حملہ کردو۔ تیل مل جائے گئے۔ کچھ مر جائیں گے، خانہ جنگی شروع ہو جائی گی اور مر جائیں گے۔ ہمیں کیا، ہم تو تیل کے کنستر اٹھائے پیا کے دیس سدھار جائیں گے۔ حساب مانگنے والے جادو سے بنی ہوئی چیزوں کے اسیر ہو گئے ہیں۔

ان سے اب کیا ڈرنا۔؟ ہماری تعلیم کا کیا بنا؟ ہماری تعلیم پر بلوائی ، نسل پرستوں، جیالے، انقلابی، اولیا، ، مجاہدین، موالیوں، دہشت گردوں اور فراڈیوں کا اختیار ہے۔یہ سب بگاڑ اور نفرت کی تعلیم ہے۔ اس تعلیم کے زیر اثر ہم لوگ بگڑتے رہے اور بگاڑتے رہے۔ کچھ بھی بنا نہ پائے۔ نفرت اور بگاڑ کے یہ سب نالے اک ندی کی طرف رواں دواں ہیں۔

اور یہ ندی تباہی اور بربادی کی ندی ہے، اس سے محفوظ رہا جا سکتا ہے اگر نظام تعلیم میں جمہوریت شہریت ،انسانی حقوق، معاشی ترقی اور سماجی بہتری ،سائنسی علوم اور مہارتوں کے ارد گرد ترتیب دیا جائے۔