وہ فلسفہ چاہیے جو لوگوں کو ساتھ بٹھائے

Tariq Ahmed Siddiqui aik Rozan
طارق احمد صدیقی، صاحبِ مضمون

وہ فلسفہ چاہیے جو لوگوں کو ساتھ بٹھائے

از، طارق احمد صدیقی

وحدتِ ادیان کا تصور انسانوں کے مل جل کر رہنے کے لیے ہی پیش کیا گیا تھا۔ لیکن آپ دیکھیں گے کہ اردو میں بَہ کثرت وحدتِ ادیان کے فلسفہ کی مذمت کی گئی ہے اور اس کو فتنہ کہا گیا ہے۔ جب تک یہ خیال انسانوں کے ذہنوں میں باقی ہے کہ ایک خاص عقیدہ کو ماننے والے ہی مرنے کے بعد نجات کے مستحق ہوں گے، تب تک انسانوں کا مل جل کر ساتھ رہنا ممکن نہیں ہو سکتا۔

مل جل کر ساتھ رہنے میں باہمی میل ملاقات ہی نہیں بل کہ نکاح جیسے تعلقات بھی آتے ہیں۔ مذہبی عقیدہ کا مسئلہ اتنا نازک ہوتا ہے کہ ایک ہی مذہب کے اندر جو ذیلی فرقے ہوتے ہیں وہ آپس میں نکاح تو دور، سلام کلام تک حرام سمجھتے ہیں۔ ظاہر ہے، وحدتِ ادیان کا تصور اس قسم کے سطحی دُروں اور بین المذہبی اختلافات کو دور کرتا ہے اور انسانوں کا انسانیت کی بنیاد پر ہر قسم کے جائز تعلق کو تسلیم کرتا ہے۔

اگر لوگ ایک دوسرے کو بد عقیدہ سمجھتے رہیں تو ان کے باہمی تعلقات کبھی استوار اور گہرے نہیں ہو سکتے۔ گہری دوستی تو جبھی ممکن ہے کہ ہم اپنے دوست کے مذہبی عقیدے کو بھی اسی نظر سے دیکھیں جس نظر سے اپنے مذہبی عقیدے کو دیکھتے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ وہ نظر کیسی ہو؟ اور کیا ایسی نظر کی تشکیل عقلی بنیادوں پر ممکن بھی ہے؟

اگر جواب نفی میں ہے تو ساتھ مل جل کر رہنا بھی ممکن نہیں کیوں کہ ایک مختلفُ المذاہب معاشرے میں لوگ ایک دوسرے کو بد عقیدہ سمجھتے رہیں، ان کے تمام قسم کے پرب تیوہاروں میں شریک نہ ہوں، انہیں مبارک باد نہ پیش کریں، اور صرف عقیدہ کی وجہ سے ان کی بعد موت نجات کو تسلیم نہ کریں، اتنا نہیں، ان کی نجات کے لیے دعوتی سرگرمیاں بھی انجام دیتے رہیں، یعنی الٹی سیدھی دلیلوں کے ذریعے انہیں اپنے مذہب میں داخل کرتے رہیں تو ظاہر ہے کہ ایسے معاشرے میں انسانوں کے ما بین گہرے بین المذہبی روابط اور رفاقتیں ممکن نہیں۔

جب ہم مذہبی اعتبار سے کسی کو گُم راہ اور بد عقیدہ سمجھتے ہیں تو اس کے دل میں اپنے لیے بے پناہ نفرت پیدا کر دیتے ہیں، پھر اس سے کسی قسم کے خِیر کی توقع ہمیں نہیں کرنی چاہیے۔

دور کیوں جائیے، اگر مجھے کوئی دینی اعتبار سے گم راہ اور بدعقیدہ سمجھے تو میں اس سے محبت کیسے کر سکتا ہوں؟ یہ محض کہنے کی بات ہے کہ سخت سے سخت مذہبی اختلاف کے با وجود لوگ دوست رہ سکتے ہیں۔ عملی طور پر یہ ایک نا ممکن بات ہے کیوں کہ سخت ترین مذہبی اختلاف صرف ایک اصولی و نظری بات نہیں، بل کہ یہ عملی طور پر سخت ترین تنازعات کی شکل میں ظاہر ہو کر رہتا ہے۔

جیسا عقیدہ آپ رکھیں گے اسی کے اعتبار سے آپ کا عمل بھی ہو گا۔ اگر آپ کا یہ عقیدہ ہو کہ سارے مذاہب غلط، صرف میرا مذہب صحیح، تو آپ کا عمل یہ ہو گا کہ آپ سارے مذاہب کے لوگوں کو اپنے مذہب کی طرف بلائیں۔ پھر دیگر مذاہب کے لوگ بھی یہی کرنے پر مجبور ہوں گے۔ اور اس طرح ہر شخص اپنے مذہب کو اچھا اور دوسروں کے مذہب کو برا ثابت کرنے کے چکر میں پڑا رہے گا۔

اس صورتِ حال کو اور اس کے برے اثرات کو آپ سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس پر بَہ خُوبی دیکھ سکتے ہیں۔ یہ مت سمجھیے کہ یہ کوئی نیا مسئلہ ہے اور آج ہی پیدا ہوا ہے۔

ہندوستان کی یہ حالت بہت طویل عرصے سے ہے اور انگریزوں کے آنے کے بعد مختلف مذاہب کے علماء ایک دوسرے سے جس طرح مناظرہ کرتے اور جھگڑتے تھے اس کی نہایت قبیح رُوداد کو اپ اُس دور کے اردو رسائل و جرائد میں آج بھی دیکھ سکتے ہیں۔ یہ پوری ایک تاریخی صورتِ حال رہی ہے اور اس مسئلے کو اس کی تاریخ کے ساتھ آپ نہیں دیکھیں گے تو مسائل بہت بڑھ جائیں گے۔

غرض، دنیا کو آج وحدتِ ادیان کے فلسفہ کی سب سے زیادہ ضرورت ہے؛ بل کہ میرا تو خیال ہے کہ ایسا کوئی فلسفہ لایا جائے جو دنیا کے ہر مذہبی اور غیرمذہبی، مادی اور روحانی عقیدے کی عقلی بنیاد پر ایسا تجزیہ اور ایسی تحلیل پیش کرے کہ ساتھ مل جل کر رہنے کی کوئی سبیل نکل آئے۔