جب حضرت شام پاس ہو تو رات کیسے آئے

ابو بکر

جب حضرت شام پاس ہو تو رات کیسے آئے

از، ابو بکر

شام کے وقت بیٹھنے کے لیے

سب سے اچھی جگہ ہے مے خانہ

میں نے زبیر فیصل عباسی سے اس شعر کی تشریح چاہی تو فرمانے لگے آج شام میری طرف آئیے، امریکہ سے حضرت شامؔ آئے ہیں۔ خدا آفتابِ امریکہ کا آپ نگہبان ہو۔

حضرت شامؔ پنجابی شاعر ہیں۔ خود تو ہیوسٹن  Houston میں مقیم ہیں مگر متحدہ پنجاب کی اس مٹی کو آنکھوں کا سرمہ بنائے پھرتے ہیں جو بارڈر کی خاردار تاروں کے نیچے سے سرک کر دوبارہ ایک ہوگئی ہے۔

بھائی شامؔ سے مل کر احساس ہوا کہ فریدؔ اور نانکؔ کی روایت کا ایک بھی پیرو کار جب تک دنیا میں کہیں موجود ہے پنجاب کی داستان ختم نہ ہو گی۔ عباسی صاحب سے ان کی دعا سلام دور طالب علمی سے ہے، کل یہ حضرات اکیس سال بعد دوبارہ مل رہے تھے۔

بار ہا مجھے یہ خیال آیا کہ ان کی آخری ملاقات کے وقت میں پہلی جماعت میں پڑھتا تھا اور کچھ ایسی قابلِ ذکرشے بھی نہ تھا۔ شامؔ بھائی سے یہ میری اولین ملاقات تھی لیکن میرے کئی لنگوٹیوں کے لنگوٹیے نکلے۔ اَز خود بے تکلفی پیدا ہو گئی، سبحان اللہ۔

اس ایوان میں مل بیٹھے جہاں کے لوگ نہیں سوتے نہ کبھی وہ کھڑکی بند ہوتی ہے۔ پس ذرا دیر گزری تھی کہ مدیرِ ایک روزن بھائی یاسر چٹھہ تشریف لائے۔ شامؔ بھائی صدرِ محفل تھے۔ میرے اور ان کے سوا باقی احباب نرے مسلمان اور وہ بھی شامی۔ بار بار صفوں میں الجھ جاتے۔

شام بھائی نے پنجابی کلام سنانا شروع کیا تو محفل ہمہ تن گوش ہوئی۔ آپ منفرد لہجے کے پُراثر شاعر ہیں۔ امریکہ میں پنجابی زبان و ادب پر گفتگو ہوئی۔ بھارتی و پاکستانی پنجاب کے سماج کا لسانی موازنہ ہوا۔

شام صاحب نے اپنا نانا جان جناب شاکرؔ کا دیوان بھی مرتب کیا ہے جس میں لگ بھگ پانچ ہزار اردو اشعار شامل ہیں۔ اس سے کئی غزلیات عطا ہوئیں جو بلا شُبہ یاد گار ہیں۔ حالیہ ادب اور ہم عصر نابغوں پر باتیں ہوئیں۔


مزید دیکھیے:  یہ استاد دامن ہے، ریڈیو لاہور، یا ریڈیو جالندھر نہیں  از، ملک تنویر احمد


شام بھائی علم موسیقی سے با قاعدہ واقف ہیں۔ ہارمونیم جسے شہ باجا بھی کہتے ہیں، کے ماہر ہیں۔ ہماری نیاز مندی سے کماحقہ آگاہ نہ تھے ورنہ ساتھ لاتے پر جب ہمارے اشتیاق پر گانے لگے تو خالی فضا میں ہی سماں باندھ دیا۔ سبحان اللہ کثیرا۔

اختتام قریب آیا تو سنگت ریسٹورنٹ جی الیون مرکز، اسلام آباد سے پالک پنیر منگوائی گئی۔ بھائی یہ لوگ بہت اچھے کھانے بناتے ہیں آپ سب پر بھی آزمائش واجب ہے اور اس کے لیے ایسی کسی فقید المثال محفل کا انعقاد بھی ضروری نہیں۔ آپ اکیلے ہوں اور کچھ زیادہ بھوک بھی نہ لگی ہو تو بلا وجہ بھی یہاں سے منگوا سکتے ہیں۔

(جون ایلیا کی ایک غزل، حضرت شامؔ کی زبانی)

شام کے وقت بیٹھنے کے لیےسب سے اچھی جگہ ہے میخانہمیں نے عباسی صاحب سے اس شعر کی تشریح چاہی تو فرمانے لگے آج شام میری طرف آئیے، امریکہ سے حضرت شامؔ آئے ہیں۔ خدا آفتابِ امریکہ کا آپ نگہبان ہو؛ حضرت شامؔ پنجابی شاعر ہیں۔ خود تو یوسٹن میں مقیم ہیں مگر متحدہ پنجاب کی اس مٹی کو آنکھوں کا سرمہ بنائے پھرتے ہیں جو بارڈر کی خاردار تاروں کے نیچے سے سرک کر دوبارہ ایک ہوگئی ہے۔ بھائی شامؔ سے مل کر احساس ہوا کہ فریدؔ اور نانکؔ کی روایت کا ایک بھی پیروکار جب تک دنیا میں کہیں موجود ہے پنجاب کی داستان ختم نہ ہوگی۔ عباسی صاحب سے ان کی دعا سلام دور طالبعلمی سے ہے،کل یہ حضرات اکیس سال بعد دوبارہ مل رہے تھے۔بارہا مجھے یہ خیال آیا کہ ان کی آخری ملاقات کے وقت میں پہلی جماعت میں پڑھتا تھا اور کچھ ایسی قابلِ ذکرشے بھی نہ تھا۔ شامؔ بھائی سے یہ میری اولین ملاقات تھی لیکن میرے کئی لنگوٹیوں کے لنگوٹیے نکلے۔ ازخود بے تکلفی پیدا ہوگئی، سبحان اللہ۔ اس ایوان میں مل بیٹھے جہاں کے لوگ نہیں سوتے نہ کبھی وہ کھڑکی بند ہوتی ہے۔ پس ذرا دیر گزری تھی کہ مدیرِ ایک روزن بھائی یاسر چٹھہ تشریف لائے۔ شامؔ بھائی صدرِ محفل تھے۔ میرے اور ان کے سوا باقی احباب نرے مسلمان اور وہ بھی شامی۔ بار بار صفوں میں الجھ جاتے۔شام بھائی نے پنجابی کلام سنانا شروع کیا تو محفل ہمہ تن گوش ہوئی۔ آپ منفرد لہجے کے پراثر شاعر ہیں۔ امریکہ میں پنجابی زبان و ادب پر گفتگو ہوئی۔ بھارتی و پاکستانی پنجاب کے سماج کا لسانی موازنہ ہوا۔ شام صاحب نے اپنا نانا جان جناب شاکرؔ کا دیوان بھی مرتب کیا ہے جس میں لگ بھگ پانچ ہزار اردو اشعار شامل ہیں۔ اس سے کئی غزلیات عطا ہوئیں جو بلاشبہ یادگار ہیں۔ حالیہ ادب اور ہم عصر نابغوں پر باتیں ہوئیں۔ شام بھائی علم موسیقی سے باقاعدہ واقف ہیں۔ ہارمونیم جسے شہ باجا بھی کہتے ہیں، کے ماہر ہیں۔ ہماری نیاز مندی سے کماحقہ آگاہ نہ تھے ورنہ ساتھ لاتے پر جب ہمارے اشتیاق پر گانے لگے تو خالی فضا میں ہی سماں باندھ دیا۔ سبحان اللہ کثیرا۔ ( جون ایلیا کی ایک غزل، حضرت شامؔ کی زبانی)

Posted by Abu Bakr on Wednesday, 23 January 2019