سیرل المیڈا کو پڑھتا کون تھا؟ اس لیے، بس، وغیرہ، لیکن…

Yasser Chattha, the writer

سیرل المیڈا کو پڑھتا کون تھا؟ اس لیے، بس، وغیرہ، لیکن…

از، یاسر چٹھہ

چند دن پہلے راقم نے ڈان گروپ کے ہیرَلڈ Herald میگزین کو unsubscribe کر دیا تھا۔ مقصد کوئی زیادہ شوخ اور رنگین نہیں تھا۔

مسئلہ یہ بھی نہیں تھا کہ میاں انار سلطان، زینی پرنس، یا گُل خانی ذوق، شوق اور “کھچم کھچائی” کا فشار بلند ہو گیا تھا۔

بَل کہ ذہن میں یہ آیا کہ خواہ مخواہ پیسے کیوں خرچتا رہوں۔

پیسے کچھ کے لیے سرمایۂ جان و دل ہوتے ہیں۔ دل کے بہلانے کا خیالِ محض ہوتے ہیں۔ ہم ایسوں، سُود و زیاں کی مختلف کرنسیوں میں سوچنے اور کام کرنے والوں کے لیے بہ زُعمِ خود کچھ اچھا کرنے کے لیے، کچھ پسندیدہ راہوں پر فی سبیلی کے لیے ہاتھ کا مَیل ہوتے ہیں۔

مسئلہ یہ تھا کہ بالکل وہی جو ٹی وی پر ہے، جو اخبار پر ہے، وہ ہر جا ہے۔ یعنی! صرف جلوۂِ دانشِ قومی فرہنگ، اور رقصِ جِہل و کذب و چُنیدہ رِیا کاری

آج صبح ٹویٹر کھولا ہے تو سامنے یہ ٹویٹ تھی۔

سیرل المیڈا کو پڑھتا کون تھا؟

سِیرل نے وجہ نہیں بتائی۔

ویسے وجہ بتانا ضروری بھی کیا تھا۔

وجہ بتا دیتے تو کہانی میں وہ اثر کب رہتا جو اب ہے۔ ظاہر ہے سبھی تو سرِ دست حقیقتوں کے سطحی اظہار کو کہانی کہنے سے، آرٹ کہنے، ادب باور کرانے، صحافت منوانے، اور خود کو کہانی کار، فن کار، صحافی کہنے سے باز رہے۔

اب اس کی تشریح “نیا وطن” کے شوخ نظر، شفاف بیاں، واضح خیال، کوئی نا کوئی، بَل کہ کئی ایک، پرور دگارانِ سخنِ سوشل میڈیا بتا دیں گے، جامع انداز سے بھی، مختصراً بھی، بہ اندازِ آفاقی حقیقت کے مظہر کے اظہار کے بھی، کہ سِیرل المیڈا کی نصرت جاوید کی طرح، طلعت حسین کی مانند، مطیع اللہ جان جیسے کی ہی ریٹنگ ویٹنگ اور پذیرائی تھی۔

سخن کے خداؤں کے پاس واضح شبیہیں clear images ہوتی ہیں، روانئِ گفتار و اظہار ہوتا ہے۔ ہم ان سے رشکِ نا رشک کے رشتے میں بندھے ہوئے بھاگتے ہیں۔


مزید دیکھیے: سیرل المیڈا کا وہ نا قابلِ فراموش ہفتہ  از، سیرل المیڈا


جی ہاں، سیرل کو کوئی پڑھتا نہیں تھا، اس لیے منطقی فیصلہ تھا کہ وہ ڈان میں نا رہتے۔ انہیں کسی آزاد ملک کی آزاد فیصلوں کی فضا میں رہنے کا حق بھی کا ہے کو تھا۔

سنسر شپ، ضبطِ زبان، آزادئِ افکار و اظہار…. ان پر بات کیوں کرتے ہو، منفی ذہن والے ہو۔

دیکھتے نہیں ہو، مبشر و حسن، لیاقتِ عامر یہاں آزاد ہیں….

سِیرل نے ایسے ہی غیر سنجیدگی کے کسی لمحے میں فیصلہ کر کے لکھنا چھوڑ دیا ہے۔

باقی کوئی ایسی ویسی بات نہیں، وہ کسی ہارُونی فرزند کا بی بی سی ہارڈ ٹاک کو انٹرویو بھی لغو تھ، لا یعنی تھا۔

فکری المیے بھلا کیا المیے ہوتے ہیں۔ یہ تو صرف چونچلے ہی ہوتے ہیں ناں۔

آخر میں بس ایسے ہی مرتضیٰ بیگ برلاس کو سن لیجیے، یا پھر، کم از کم پڑھ لیجیے:

دوستوں کے حلقے میں ہم وہ کج مقدر ہیں
افسروں میں شاعر ہیں، شاعروں میں افسر ہیں

آندھیاں لپکنے سے، بجلیاں چمکنے سے
کاش تم سمجھ سکتے جو رُتوں کے تیور ہیں

موسموں کی سازش سے کس کو با خبر کیجیے
اب ہمارے شہروں میں سارے لوگ پتھر ہیں

جراتِ بیاں میری، مجھ سے چھین لے یا رب
جن سے میں مُخاطب ہوں، بےحسی کے پیکر ہیں

بات یہ الگ شاید بخت ہو سکندر کا
ورنہ ساتھ پورس کے ہاتھیوں کے لشکر ہیں

دشمنوں سے یہ کہہ دو زحمتِ عداوت کیوں
ہم میں میر صادق ہیں، ہم میں میر جعفر ہیں

جو قصیدہ لکھتے ہیں روز چڑھتے سورج کا
حیف، وہ بہ زُعمِ خود آج کے سُخن ور ہیں

About یاسرچٹھہ 240 Articles
اسلام آباد میں ایک کالج کے شعبۂِ انگریزی سے منسلک ہیں۔ بین الاقوامی شاعری کو اردو کےقالب میں ڈھالنے سے تھوڑا شغف ہے۔ "بائیں" اور "دائیں"، ہر دو ہاتھوں اور آنکھوں سے لکھنے اور دیکھنے کا کام لے لیتے ہیں۔ اپنے ارد گرد برپا ہونے والے تماشائے اہلِ کرم اور رُلتے ہوئے سماج و معاشرت کے مردودوں کی حالت دیکھ کر محض ہونٹ نہیں بھینچتے بَل کہ لفظوں کے ہاتھ پیٹتے ہیں۔