انگریزی میں گالیاں دینا مہذب ہونے کی دلیل ہے کیا؟

Jameel Khan aik Rozan writer
جمیل خان، صاحبِ مضمون

انگریزی میں گالیاں دینا مہذب ہونے کی دلیل ہے کیا؟

از، جمیل خان

ہر معاشرے میں کچھ شریف لوگ پائے جاتے ہیں، جن کی زندگی خود کو مہذب ثابت کرنے میں ختم ہو جاتی ہے۔ یہ گالیاں نہیں دیتے، لیکن ان میں سے بعض ایسے ہیں، جنہیں بِلا شک و شبہ مجسم گالی کہا جا سکتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں، جو اعلیٰ طبقے و عہدے کے لوگوں کی خوشامد کرتے ہیں، جب کہ نچلے طبقے کے افراد کو حقیر سمجھ کر دُھتکار دیتے ہیں۔

ان کا بنیادی کام معاشرے میں نئی سوچ کے راستے میں ہر قسم کی رکاوٹیں کھڑی کرنا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر غَبّی، رَٹّو طوطے اور حافظ ہوتے ہیں۔ بیش تر مذہبی ہیں، اور جو مذہبی نہیں ہیں، ان کی ذہنی ساخت مذہبی ٹھیکے داروں ہی کی مانند ہے، یعنی یہ بھی ان کی طرح لفظ پرستی میں مبتلا ہیں۔

جس معاشرے میں ایسے شریف النفس لوگوں کی تعداد زیادہ ہوجائے تو وہ معاشرہ ترقئِ معکُوس کی راہ پر چل پڑتا ہے۔ معکوس کا مفہوم ہے پستی میں گرتے چلے جانا…. جن کی اُردو اتنی اچھی نہیں ہے اور وہ اسے ماں ….کُ….س وغیرہ سمجھ بیٹھے ہیں تو وہ بھی غلط نہیں ہیں۔

دنیا کی کوئی سی بھی زبان سیکھنا ہو، تو کہا جاتا ہے کہ پہلے اس زبان کی گالی سیکھ لو…. ابھی تک دنیا پِدر سری نظام کے گہرے اثرات سے باہر نہیں نکل پائی ہے۔ اس لیے بیش تر زبانوں میں گالیاں خواتین کو شامل کر کے دی جاتی ہیں۔ کبھی نہیں کہا جاتا کہ تیرا باپ چ….د، تیرا بھائی چ….د  وغیرہ وغیرہ۔

یہ جتنے بھی شریف النفس انسان ہیں، جو نہایت نستعلیق گفتگو فرماتے ہیں، جن کی نشست و برخواست میں ادب و آداب کا بہت لحاظ رکھا جاتا ہے، وہی اپنی خلوت میں، غصہ کی حالت میں، کسی کم زور کو ذلیل کرتے ہوئے یا پھر نشے کی حالت میں گالیاں بکنے لگتے ہیں۔
ہمارے ڈاکٹر عامر میر بھائی، ایک پنجابی، جو پنجابی زبان بولنا اپنی توہین سمجھتے تھے، ان سے بھی پنجابی میں گالیاں نکلوا چکے ہیں۔
بہت سے شریف لوگوں کا خیال ہے کہ خواتین کے سامنے گالی نہیں بکنی چاہیے۔ کئی برس پہلے ہم ایک دفتر میں ایڈمن انچارج تھے تو ہم کسی پوسٹ پر کسی خاتون کو جوائن کرتے ہوئے ان پر یہ واضح ضرور کر دیتے تھے کہ دفتر میں آپ کو ایک انسان بن کر کام کرنا ہو گا، عورت بن کر نہیں، کل کو میں یہ نہ سنوں کہ فلاں بات میرے سامنے کیوں کی گئی، میرے خاتون ہونے کا لحاظ کیوں نہیں کیا گیا؟


مزید دیکھیے:  کیا صرف مولوی کو گالی دینا ہی لبرل ہونا ہے؟  از، جمیل خان


جب تک خواتین کو نسوانیت یا صنفِ نازک کی مراعات ملتی رہیں گی، وہ انسان نہیں بن سکیں گی، اور گائے بھینسوں کی سی زندگی گزارتی رہیں گی۔ جب انہیں مردوں کے مساوی حقوق در کار ہیں تو پھر انہیں مردوں کی طرح ہر مشکلات کا سامنا مردانہ وار کرنا ہو گا، اور ہر طرح کی ہراسانی سے ہمت کے ساتھ بھر پور طریقے سے لڑنا پڑے گا، نہ کہ سمٹتے ہوئے، سسکتے ہوئے اور روتے ہوئے۔
خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا، ہم آتے ہیں اپنے اصل موضوع کی جانب…. ایک دوسرے دفتر میں اشرافیہ طبقے کی خواتین کی تعداد زیادہ تھی۔ وہاں وہ دن بھر فَ٭٭ یُو، فَ٭٭ یور سیلف، ف٭٭ اِٹ وغیرہ جیسے مہذب الفاظ بلا لحاظ بولتی رہتی تھیں۔ لیکن جہاں کسی نے عادتاً چو….ہ یا پھر بہ….ود وغیرہ کہہ دیا، اس کی گویا کہ گ….ڈ پھاڑ کر رکھ دیتی تھیں۔

الحمد للہ آپ کے بھائی نے ان میموں کی بھی ماں بہن ایک کر دی تھی، کہ انگریزی میں گالی دینا پھول جھڑنے کے موافق ہیں، لیکن اردو، پنجابی یا کسی دوسری زبان میں گالی بکنا، مغلظات بکنا ہے۔ اس روز کے بعد کسی نے پنجابی یا اردو گالی سن کر کسی کے بھی انگلی نہیں کی۔

کل ہم نے یوپی کی مسلم اشرافیہ کا ذکر کیا تھا، ان میں سے بیش تر انتہائی مکار، سازشی، چاپلوس اور کبر و رعونت کی غلاظت سے بھرے ہوئے تھے اور اس میں ان کا بھی قصور نہیں تھا۔

صدیوں سے مسلم حکم رانوں کے درباروں میں اسی طرز کے لوگوں کو پذیرائی ملتی تھی۔ اگر ذہین، با صلاحیت اور ہنر مند لوگوں کی پذیرائی ہوتی تو پھر ان میں ایسی خصوصیات نمایاں ہوتیں۔ اور یہ یوپی ہی کی اشرافیہ کا معاملہ نہیں ہے، مجموعی طور پر مسلمانوں میں جس قدر کمینگی اور پست ذہنی کا مرض دکھائی دیتا ہے، یہ ان کے نیچ اور کمینے مقتدر طبقے کا ہی شاخسانہ ہے۔
یُو پی کی مسلم اشرافیہ کے لوگ نہایت نستعلیق ہوا کرتے تھے۔ الفاظ چبا چبا کر بات کرنے والے، محاوروں اور ضربُ المِثل کا مناسب استعمال ….آج کل پنجاب کے متوسط اور اشرافیہ طبقے کے لوگ ہُو بہ ہُو انہی کی نقل بن چکے ہیں، اور اپنی مادری زبان ترک کرکے اردو کو اپنا لیا ہے۔

لیکن یُو پی کے عام لوگ جو ہنرمند، مزدور، کاشت کار تھے، وہ اپنی روز مرہ گفتگو میں گالیوں کو محاوروں اور ضرب المثل کی مانند استعمال کرتے تھے۔ وہ ز، ذ اور ض کی آواز کو جیم کی آواز سے ادا کرتے،  ش کو س کی آواز سے…. ان کی بات چیت میں فارسی یا عربی الفاظ کے بجائے ہندوستانی الفاظ کا ذخیرہ کہیں زیادہ ہوا کرتا تھا۔ جیسے میرے سسر مرحوم، غبارے کو پھگے کہا کرتے تھے، لعنت کو نالت، مزاج کو مجاز…. وغیرہ وغیرہ…. بہن کی گالی تو شاید تکیہ کلام تھا۔

ایک روز گھر میں کسی پٹھان مزدور سے کام کروا رہا تھا، اس کو کام سمجھاتے ہوئے اسے بہن کی گالی دے ڈالی …. وہ ہتھے سے اکھڑ گیا…. تم نے ام کو گالی کیسے دیا؟ سسر مرحوم بھی اتنے ہی غصے سے بولے …. ابے کس بہ….ود نے تجھ بہ….ود کو گالی دی ہے؟
آج ایسے لوگ خال خال ہی ملتے ہیں۔ لیکن دو روز قبل ایسے ہی فرد سے ملاقات ہوئی، تو ان سے بات کرکے لطف آ گیا۔ شاید نوجوان نسل تو واقف نہیں ہو گی، لیکن ہماری عمر کے اور ہم سے سینئر احباب کو علی مختار رضوی تو ضرور یاد ہوں گے۔

یہ ان بارہ نوجوان طالب علموں میں شامل تھے، جنہیں حکومت مخالف طلبہ تحریک چلانے پر ایوب خان کی سرکار نے شہر بدر کردیا تھا، اور یہی نہیں بَل کہ یہ جہاں بھی جاتے تھے، اس شہر سے بھی انہیں انتظامیہ نکلنے پر مجبور کردیتی۔ تاہم اس سے فائدہ یہ ہوا کہ ایوب کی مخالفت بڑھتی چلی گئی، اور انہیں استعفےٰ دینا پڑا۔

علی مختار رضوی تو نہیں رہے، اور ہماری بد قسمتی کے ہم ان سے نہیں مل سکے، لیکن ہماری ملاقات ان کے بھتیجے اویس رضوی سے ہوئی۔ جن لوگوں نے علی مختار رضوی کو قریب سے دیکھا ہے، وہ یہ کہتے ہیں کہ اویس رضوی اپنے چچا سے ہُو بہ ہُو مشابہت رکھتے ہیں، بات چیت میں بھی ان کا انداز جھلکتا ہے، یعنی ہر جملے میں تین چار گالیاں تو ضرور شامل ہوتی ہیں، ساری تو ہمیں یاد بھی نہیں رہیں۔ ریسرچ کے کاموں سے منسلک ہیں۔ کہنے لگے کہ ناسا کے وائیجر ٹُو نے کئی بلین میل کے فاصلے سے نظامِ شمسی کی جو تصویر بھیجی ہے، اس میں ہماری زمین جھ….ٹ برابر بھی نہیں ہے، سوئی کی نوک کے جیسی دکھائی دے رہی ہے۔ یہ تو صرف نظام شمسی میں اس کی حیثیت ہے، کائنات کتنی بڑی ہے، اس کا ل….ڈ بھی کسی کو پتا نہیں ہے۔ لیکن اس جھ….ٹ برابر زمین پر اچھلنے والے بھ….ڑی کے مسلمان کہتے ہیں کہ ہم خدا کی پسندیدہ قوم ہیں۔ سارے گ….و مل کر پوری دنیا قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔