جدید ثقافتی استعماریت اور مزاحمتی ادب ایک جائزہ

Ashraf Javed Malik اشرف جاوید ملک

جدید ثقافتی استعماریت اور مزاحمتی ادب ایک جائزہ

1960ء کے بعد بھی ساختیت اور ہیئت نگاری کاعمل شاعری اور نثری ادب سے رخصت نہیں ہوا تھا صرف مغربی تنقید نگاروں اور یورپ میں جدیدیت اور ما بعد جدیدیت کے مباحث کے ذریعے ان تنقیدی مباحث کا رخ موڑتے ہوئے ترقی پسندی اور ترقی پسندوں کے کام سے توجہ ہٹانے کی شروعات کی گئیں تا کہ روسی ادبی اور تنقیدی  مباحث سے دنیا کی توجہ ہٹا کر نئے آلاتِ تنقید کو رواج دیا جائے۔ نثر پاروں یا شعری اصناف کو ہیئت یا ان کی تخلیقی ساخت اور فکری بنیادوں سے دیکھتے ہوئے تاثراتی رائے بندی یا تنقید نگاری کے پرانے طریقہ ہائے کار سے ہٹ کر کسی بھی تحریر یا تخلیق کو اس کے اسلوب، الفاظ کے چناؤ، اور اس کی لسانیاتی نسبت سے اس کے معانی کے حوالے سے دیکھا جانے لگا۔ یوں مصنف قاری اور متن کے مباحث کا ایک نیا آغاز بھی ہوا۔

دریدا نے تحریر پر تقریر کو فوقیت دیتے ہوئے کہا کہ تقریر تحریر سے زیادہ مؤثریت کی حامل ہے۔ جدید تنقید نگاری کے حوالے سے یہ رائے بھی دی گئی کہ متن مصنف سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ جدید دور میں گلوبلائزیشن اور ملٹی نیشنل کو کروسیڈ کی اصطلاحات سے جوڑا گیا تو نہ صرف دنیا کے نقشے میں طاقت ور اور کم زور کی بنیادی تقسیم واضح ہوکر سامنے آئی بل کہ نیو ورلڈ آرڈر کے چارٹر کا اعلان کرتی ہوئی امریکی استعماریت نے زمین پر قبضے کی پالیسی سازی میں ترمیم کی اور دنیا کے نقشے پر موجود با وسائل اور قدرتی دولت سے مالا مال ممالک پر آئی ایم ایف اور ڈالرز کی طاقت وری کی اقتصادی حیلہ سازی اور ہیر پھیر کی امریکی پالیسیوں نے اپنی آکاس بیلی شیطانیت میں جکڑتے ہوئے یہ باور کرا دیا کہ طاقت کا منبع اور اقتدار کا بین البراعظمی مرکز صرف امریکہ ہو گا۔ دنیا کی ہر کرنسی اور معیشت ڈالر میں لین دین کی پابند ہو گی۔

اس خود مرکز امریکی نظریے کے تحت امریکہ نے دنیا میں موجود ہر اس ملک پر طاقت کی یلغار کر دی جس سے امریکہ کو بَہ راہ راست تو کوئی بھی خطرہ نہیں تھا، لیکن بالواسطہ طور پر وہ ملک طاقت ور ہو کر امریکہ کے متحارب ان دوسرے طاقت ور ممالک کا حصہ بن سکتا تھا جو اندرونی طور پر امریکی بالا دستی سے نجات کے لیے عملی طور پر سرگرم عمل ہیں جیسا کہ روس، چین، جاپان، ایران ترکی اور ۱۹۱۷ کے بعد کا پاکستان سی پیک پاک چائنا کوریڈور، گوادر میں دبئی سے زیادہ ترقی یافتہ ساحلی شہر کا تیز تر قیام اور دنیا پر امریکی تسلط کے خلاف مضبوط ہوتے ہوئے یورو، یا پھر پاک چائنا کی اپنی ذاتی کرنسیوں میں کار و بار ڈالر کی بد معاشیوں سے نپٹنے کے کسی حد تک کام یاب اقدامات ضرور ہیں مگر اسرائیل کی مکروہ طاقت کو سنبھالا دینے اور شام و عراق سے افغانستان تک بہ راہِ راست جنگی کار روائیاں کرتے ہوئے طاقت ور امریکی بحری جہازوں اور مدر آف بمبز کی تباہ کن کار روائیوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ امریکہ سپر پاور ہوتے ہوئے ترقی پذیر متوسط طور پر ترقی یافتہ یا پھر کم زور تر تمام ممالک کو اپنے زیرِ تسلط رکھنا چاہتا ہے تا کہ دجالی نیٹ ورک کے ذریعے دنیا کے بہترین معدنیاتی اثاثوں، تیل، سونا، گیس تانبا اور بیسیوں اقسام کے خزانے اسے ڈالر کی چال سازیوں کے ہیر پھیر کے طریقوں سے مفت میسر ہیں۔

اب جب کہ بہت سے ممالک بہ شمول ترکی نے امریکی بنکوں میں رکھا ہوا سونا واپس منگوا لیا ہے اور ڈالر سے ہٹ کر اپنی کرنسی میں تجارت کا اعلان کیا تو امریکہ مالیاتی طور پر معاشی بحران کا شکار ہوا ہے جس کی وجہ سے اس نے چین، پاکستان، ایران، ترکی، روس اور اسی قبیل کے ان سب ممالک پر اقتصادی پا بندیاں بڑھا دی ہیں جن کی طرف سے امریکہ کو مزاحمت کے حوالے سے بالواسطہ خطرات درپیش ہیں۔

مندرجہ بالا تمام مباحث طاقت اور زور آزمائی کے زمرے میں آتے ہیں جن کے اثرات بہ راہِ راست طور پر بین الاقوامی اقتصادیات، ثقافت، زبانوں کے مستقبل اور متوقع جدید نو آبادیاتی نظام کی رد تشکیل پر بہت گہرائی کی حد تک دیکھے جا سکتے ہیں۔

اندھی طاقت جہاں کہیں بھی خون بہاتی ہے کسی ایک منفرد ثقافتی یا سماجی صورت حال کو اس کی اصل سے ہٹا کر مسخ کرتی ہے۔ کسی ایک طاقت ور علاقے میں اپنا دائرۂِ اختیار بڑھانے کے لیے مشرقی تیمور طرز پر وہاں استحصال اور ظلم کی تصویر سازی کر کے وہاں ایک خود ساختہ طفیلی ریاست قائم کر کے پہلے اسے طاقت دیتی ہے اس کا وجود بین الاقوامی سطح پر تسلیم کرواتے ہوئے اسے ایک آزاد اور خود مختار مگر اپنی ذیلی نو آبادی کی طرز پر ایک مضبوط اور خود مختار ریاست کے طور پر منظور کرواتی ہے اور پھر اسے جدید اسلحہ فراہم کر کے اس کی زمینی اور ثقافتی سرحدوں کو وسعت دینے کی نیت سے اس کی ہمسایہ ریاستوں سے بھڑا دیتی ہے۔ جس کی مثال غزہ، اریحہ، گولان کی پہاڑیوں اور مصرو لبنان کے علاقوں پر بعد از قبضہ اسرائیل کا قیام ہے۔

عرب ممالک عراق، ایران، ترکی، سعودی عرب اور شام سے مسلسل بڑھتی ہوئی صیہونی مخاصمت ہے۔ اسی طرح سے طالبانائزیشن کےنیٹ ورک کو وجود میں لا کر روس کو توڑنے کے بعد عراق وشام اور سوڈان پر امریکی حملوں یا مداخلت کے ثبوت ہیں جن کے ڈانڈے بالواسطہ طور پر افغانستان کی جنگ سے ملتے ہیں۔ یہیں سے بلوچستان اور سرحد کے اندرونی علاقوں پر مشرف دور میں مسلسل ڈرون حملے کیے گئے۔ جن میں را اور موساد کا حصہ رہا اور بات کلبھوشن کی گرفتاری تک آ پہنچی جس کے ثبوت عالمی سطح پر پاکستان نے پیش کیے۔

داعش نیٹ ورک کی پیدائش اور اسامہ بن لادن سے حقانی گروپ تک سب امریکی طاقت اور قبضہ کی پالیسی سازی کا کرشمہ تھے۔ پاکستان نے اپنی سالمیت کے پیش نظر ضرب عضب اور ۲۰۱۸ تک کے پاک ملٹری کی طرف سے کی گئے رد الفساد آپریشن کے ذریعے ان سب نیٹ ورکس کا کام یاب خاتمہ کر کے امریکی اسرائیلی اور بھارتی اتحاد کی سازشوں کا کام یاب جواب دیتے ہوئے روس اور چین کی طرف ہاتھ بڑھایا۔

اس وقت جب کہ پاکستان میں نئی حکومت آئی ہے پاکستان نے سعودی عرب اور چائنا کی طرف ہاتھ بڑھا کرکے دانش مندی کا ثبوت دیا ہے۔

روس اور ترکی بھی پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنائے ہوئے ہیں۔ شمالی کوریا بھی امریکہ کو خاطر میں نہیں لا رہا اس تمام صورتِ حال سے امریکہ بہت پریشان ہے لیکن ان تمام بین الاقوامی سیاسی معاملات کے اثرات نے دنیا کے سماجی اور ثقافتی ڈھانچے کو بہت حد تک منقلب کیا ہے۔

نئےبین الاقوامی سماجی اور ثقافتی منظر نامے کے اثرات نے ساری دنیا کے مختلف ممالک کے ادب کو بھی شدید طور پر متاثر کیا۔

کسی بھی ملک کا ادب ہو یا شاعری اس کی ساخت اس کی تھیوری اور اس کا فکری اور فنی نظام اس ملک کی داخلی زندگی کا مظہر ہوا کرتا ہے۔ شاعری ہو یا نثر پارہ وہ اس ملک کے مجموعی حالات سماجی زندگی کی رفتار، معاشی پس ماندگی یا ترقی اور حکومتی مشینری کے ملکی عوام کے ساتھ روا رکھے گئے عمومی رویوں کا بہترین مبصر یا عکاس ہوتا ہے۔

اگر معاشرہ تہذیب یافتہ ہے، شرح خواندگی بہترین حد تک بلند ہے، صحت اور کھیل کا معیار شان دار اور قابل تعریف ہے، لوگوں کی اوسط آمدنی بہتر ہے، جی ڈی پی کا لیول صحت مند ہے سٹاک ایکسچینج کا گراف انڈکس، مَثبت اور جان بَر ہے تو اس معاشرے کا ادب مثبت ہو یا منفی اس میں مزاحمت کے عنصر کی عمومی متاثریت کو دیکھا جائے گا۔

اس ملک کا ادب علاقائی اور صوبائی حوالے سے کس درجہ اہمیت کا حامل ہے، اس علاقے یا صوبے کے لوگوں کے معیارِ زندگی کو کون سے مسائل و معاملات احتجاجی اور مزاحمتی بنا سکتے ہیں۔ یہ ایک دل چسپ مطالعہ ہو گا کہ کسی بھی خطے یا جغرافیے سے متعلق لوگوں کا احتجاجی یا مزاحمتی موقف کیا ہے؟  ان کے بنیادی مسائل کیا ہیں؟ متعلقہ سماج میں رہتے ہوئے وہ اپنی زندگی کے کن پہلوؤں سے غیر مطمئن ہیں؟

ان کی ثقافت، معاشرت، زبان، ان کے جغرافیے، ان کی تاریخیت کو، نو تاریخیت کے نام پر مسخ کرنے کے لیے کوشاں جارح عناصر کے غلبہ پانے کی خود طے کردہ بَہ ظاہر مثبت مؤثریت جو کہ در اصل منفی ہے یا تباہ کن ہو سکتی ہے جس کے غلبے سے ایک خاص علاقے  کی ثقافت، زبان یا لوگوں کے گنے جانے کی شماریات میں ہیر پھیر یا رد تشکیلیت کی بَہ جائے ان کی ثقافت کو ہی رد کر دینے کے شبہات پیدا ہو جانے کا خدشہ ہو سکتا ہے۔

یا اسے کسی قریبی نو تشکیلی زبان یا ثقافت میں ضم کردینے کا خطرہ پیدا ہو جائے جیسا کہ ایک بڑے علاقے پر موجود مغلوب زبان یا علاقئی ثقافت کو ایک چھوٹی مگر غالب و جابر زبان کے غلبے یا مؤثریت کے عمل سے یہ خطرہ کہ وہ زبان یا ثقافت اسے اپنے اندر ضم کرنا چاہتی ہے یا اس امر میں کوشاں ہے۔

ایک طاقت ور مزاحمتی شعور کی پیدائش مندرجہ بالا وجوہات کی بنا پر ہو سکتی ہے۔ یہاں اصل خطرات زیر دست سماجوں یا ثقافتوں کو لاحق ہوں گے چاہے وہ سماج ملکی ہوں یا کسی ملک کے اندر موجود علاقائی یا پس ماندگی کا شکار مقامی علاقہ جات یا ان شہری یا دیہات سے تعلق رکھنے والے لوگ۔ یہ عدم تحفظ کا احساس رنگ، نسل، زبان، قوم، ثقافت یا مذہب و فرقہ ہر سطح پر ہو سکتا ہے۔

جیسا کہ امریکہ یا افریقہ کے کالوں کو گوروں سے، امریکہ یا مغربی ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کو مذہبی تعصب کی بنا پر وہاں کے یہودی یا عیسائی شدت پسنوں سے، فلسطینیوں یا کشمیریوں کو اپنے غاصبین یا قبضہ گرد ہندوؤں یا یہودی آباد کاروں سے اپنی نسل کے تباہ ہونے یا اپنے علاقوں یا گھروں کے چھن جانے کا خوف اور اس کے خلاف مزاحمت۔

سیدھے سادے مسلمانوں کو داعش جیسے نام نہاد متحارب گروہوں سے خوف اور اس کے خلاف مزاحمت کی تیاری پاکستان کے صوبہ پنجاب میں موجود ایک بڑی سرائیکی قومیت کو ۱۸۱۸ کی صوبائی حیثیت دو بارہ حاصل نہ کر سکنے کے بعد سندھ سے الگ ہو کر ایک نئی ملتانی یا سرائیکی  ثقافت کے طور پر خود کو بَہ حیثیت قوم رجسٹرڈ کروانے میں در پیش بیوروکریسی کی طرف سے طاقت کی مزاحمت یا پھر ایک دوسری مقامی زبان یا ادب کی رجسٹرڈ طاقت کی طرف سے ادغامی حیلہ سازیوں کا ڈر اور اس کے خلاف سے پیدا ہونے والی شعوری مزاحمت جو اپنی زبان یا ثقافت کی رٹ بحال رکھے ہوئے ہے۔

انفرادی اور ملکی سطحوں پر ہونے والی یہ مزاحمتیں مقامی یا ملکی یا علاقائی مزاحمتوں کے طور پر ان تمام ملکوں یا ان ملکوں کے اندر سے اٹھنے والی مزاحمتیں ہیں جن کا اظہار ان کے ملکی یا علاقائی ادب کے طور پر شائع ہو کر ہمارے سامنے آتا رہتا ہے۔

کسی بھی ملک کی سیاست یا ایوانِ نمائندگان میں اس ملک کے مختلف علاقوں اور سماجوں کی ثقافت اور زبان کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ اگر کسی مخصوص ثقافت یا زبان کو اس کے حقوق سے محروم رکھا جائے یا اس ثقافت سے متعلقہ عوام کی جائز ضروریاتِ زندگی کو پورا کرنے میں تساہل سے کام لیا جائے مثلاً روز گار، صحت و تعلیم، اور وہاں کی مخوص تاریخیت اور ثقافت کی ترقی پر توجہ نہ کی جائے تو اس علاقے یا سماج کے اندر مخاصمت اور مزاحمت کی تحریک پیدا ہو گی۔ اس کا اظہار پلے کارڈز کے ذریعہ سے ہو یا پھر انٹرنیٹ، سوشل ویب سائٹس یا پرنٹ اور ٹیلی میڈیا اس مزاحمت کی مؤثریت کا وسیلہ بنے اس کے اثرات یہاں کے دانش ور طبقہ کے اذہان وقلوب پر سو فیصد زیادہ ہوں گے۔

مزاحمت کے عمل میں شدت کا انحصار سماج کے دانش ور طبقہ بالخصوص سماجی کارکنوں، شاعروں اور ادیبوں پر زیادہ ہوا کرتا ہے۔ اور یہی طبقہ ہی سیاسی رہنماؤں کو بہترین نظریات اور بہتر سوچ فراہم کرتا ہے۔

اب آتے ہیں مزاحمت کے اس گراف کی بین الاقوامیت کی طرف چُوں کہ روس کی افغانستان میں شکست کے بعد امریکہ نے واحد سپر پاور کے طور پر دنیا پر اپنی اقتصادی، تکنیکی، جنگی اور قومیتی و ثقافتی برتری ثابت کرنے کی اب تک مسلسل کوشش کی ہے اور وہ اس امر میں بہت حد تک کام یاب بھی رہا ہے اس لیء اس نے پوری دنیا کا اقتصادی، سماجی، تکنیکی، جنگی، اور ثقافتی منظر نامہ تبدیل کرنے کی جارحیت میں دنیا کی آزادی، مختلف المزاج، ثقافتی تکثیریت، اور مختلف تہذیبوں کی انفرادی جمالیات کو نا قابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔

اس لیے دنیا میں ایک بار پھر کچھ ممالک امریکہ کے خلاف ہونے یا اس کی مخالفت کا اعلان نہ کر کے ایک نیا اتحادی بلاک قائم کرنے کے لیء کوشاں ہیں تا کہ امریکی غلبہ سوزی اور طاقت کے اندھے استعمالی طریقوں سے خود کو بچایا جا سکے اس لیے روس چین اور امریکہ کے درمیان سرد جنگ میں نومبر ۲۰۱۸ تک پہلے کی نسبت تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔ اور دنیا بھر کی سیاست، اور ادب میں بھی امریکہ کے خلاف مزاحمت میں اضافہ ہوا ہے۔

فی زمانہ دنیا کے نظامِ زیست میں طاقت کے بے تحاشا استعمال لاکھوں لوگوں کے قتل کم زور ملکوں پر جنگیں مسلط کرنے کے نتائج، موسمیاتی نظام میں انسانی مداخلت، ماحولیاتی آلودگی، پانی میں غیر صحت مند اجزاء یا آرسینک کی ملاوٹ، فضا میں کثافت کی افزائش، سموگ، جدید تکنیکی ترقی کی وجہ سے ماحولیاتی ارتعاشیت اور ذہنی امراض، ڈپریشن، انگزائیٹی اور انتہا پسندی میں اضافہ، سائنس کی ترقی کے منفی اثرات، بموں اور ڈرون کا نفسیاتی خوف، گندے پانی میں کاشت کردہ اجناس، پھل اور سبزیات سے کیمکلز اور بیماریوں کی افراط، جبر و تشدد، نا انصافی، بھتہ، قبضہ اور ڈکیتی، کم زور سماجوں کو مزید پس ماندگی کی طرف دھکیل کر ان کے وسائل اور تہذیب پر قبضہ گیری کا رجحان ایسے درد ناک عوامل ہیں جن کی گونج آج کے مزاحمتی ادب کا با قاعدہ حصہ بن چکی ہے۔

بلا شبہ یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ مزاحمتی ادب کی تحریک ترقی پسندی کی عملی توسیع و تحرک کا ایک بہترین نمونہ بن کر نئے زمانے کے تناظر میں دو بارہ سامنے آئی ہے اور بہت حد تک خود کو منوانے میں کام یاب بھی ہورہی ہے اور دنیا کہ ہر ادب میں اس کا بھرپور حصہ ہے رہا ہے۔

از، اشرف جاوید ملک 

پی ایچ ڈی سکالر، شعبۂِ اردو، بہاء الدین زکریا یونی ورسٹی، ملتان