جنرل ضیاء الحق صاحب، یہ استاد دامن ہے، ریڈیو لاہور، یا ریڈیو جالندھر نہیں

استاد دامن کا جنرل ضیا کو ٹکا سا جواب

استاد دامن
استاد دامن اور جنرل ضیاء الحق

(تنو یر احمد ملک)

پنجابی زبان کے بے بدل اور بے مثل شاعر استاد دامن سے گجرات کے چوہدری ظہور الٰہی (چوہدری شجاعت کے والد) کا گہرا یارانہ تھا۔ چوہدری ظہور الٰہی نے اپنے بیٹے کی شادی کے لئے استاد کو بھی دعوت دیا۔ استاد چوہدری ظہور الٰہی کی دعوت پر گجرات تشریف لے گئے۔ چوہدری ظہور الٰہی نے اپنے فرزند کی شادی میں فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کو بھی مدعو کر رکھا تھا۔ چوہدری ظہور الٰہی استاد دامن کی سرشت و طبیعت سے واقف تھے جو کھرے اور بے باک شخص تھے اور کسی لگی لپٹی کے بغیر اپنی بات کہہ دیتے تھے۔
چوہدری صاحب نے استاد کو اپنے مصاحبوں سے الگ کمرے میں بٹھایا تاکہ ان کا ٹاکرا جنرل ضیا ء الحق سے نہ ہو سکے۔تنویر ظہور استاد دامن پر پنجابی زبان میں لکھی جانے والی تصنیف میں لکھتے ہیں کہ ان دنوں استا ددامن نے جنرل ضیاء الحق کے خلاف پنجابی زبان میں نظم کہی تھی جسے ان دنوں شہرت عام نصیب ہوئی تھی۔
یہ نظم جنرل ضیاء کے کانوں تک بھی پہنچی تھی۔جب چوہدری ظہور الٰہی نے جنرل ضیاء کو استاد دامن کی دوسرے کمرے میں موجودگی کے بارے میں بتایا تو جنرل ضیاء نے استاد دامن سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ چوہدری ظہور الہی استاد دامن کے پاس پہنچے اور انہیں اس کمرے میں لے آئے جہاں جنرل ضیاء براجمان تھا۔
جنرل ضیاء کے اندر منافقت کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا اس لئے وہ سینے میں تو کینہ رکھتا تھا لیکن اسے ظاہر نہیں ہونے دیتا تھا۔جنرل ضیاء استاد دامن سے بڑا گرمجوشی سے ملا اور ان سے کتنی دیر تک بات چیت کرتا رہا۔کچھ دیر بعد جنرل ضیاء نے استاد دامن سے شاعری سنانے کی فرمائش کی اور کہا کہ چاہے وہ نظم ہی سنا دیں جو جنہوں نے ان کے (جنرل ضیاء) کے خلا ف کہی ہے۔استاد دامن انتہائی شریف النفس تو تھے لیکن وہ جنرل ضیاء کے جھانسے میں آنے والے نہیں تھے۔
استاد دامن نے جواب دیا کہ جنرل صاحب! یہ موقع نظم سنانے کا نہیں ہے کیونکہ ہم دونوں شادی کی تقریب میں آئے ہیں۔استاد دامن نے مزید کہا کہ ہاں اگر موقع ملا تو کسی جلسے میں سناؤں گا۔ استاد دامن نے اسی پر اکتفا نہ کیا بلکہ مزید کہا کہ جنرل صاحب !یہ استاد دامن ہے ریڈیو نہیں کہ کہ جب دل کیا بٹن دبایاتو ریڈیو لاہور لگا لیا اور جب من چاہا ریڈیو جالندھر لگا لیا(یاد رہے کہ جنرل ضیاء کا تعلق مشرقی پنجاب کے ضلع جالندھر سے تھا)۔
اب یہ نظم کون سی تھی جسے استاد دامن نے جنرل ضیاء کو سنانے سے انکار کیا تھا لیکن وہ اسے کئی مشاعروں میں سنا کر سامعین سے داد سمیٹ چکے تھے۔ یہ نظم جنر ل ضیاء کے دور قہر و جبر میں اس وقت استاد دامن نے کہی جب صاحبان جبہ و دستار سے لے کر نام نہاد طبقہ اشرافیہ کے فارن کوالیفائیڈ اشخاص جنرل ضیاء کی چوکھٹ پر سجدہ ریز تھے اور ان کی نام نہاد اسلام پسندی کے گن گا گا کر اپنے اور اپنی والی نسلوں کا مستقبل سنوار رہے تھے۔ استاد دامن کی نظم کے بول کچھ یوں تھے:

میر ے ملک دے دو خدا
لا الہ تے مارشل لاء
اک رہند ا ا ے عرشاں اتے
دوجا رہندا فرشاں اتے
اوہدا ناں اے اللہ میاں
ایہد ا ناں اے جنرل ضیاء
واہ بھئی واہ جنرل ضیاء
کون کہندا اے تینوں ایتھوں جا؟
ساڈے دیس وچ موجاں ہی موجاں
جدھر دیکھو فوجاں ہی فوجاں
واہ بئی واہ جنرل ضیاء
کون کہندا اے تینوں ایتھوں جا؟

1 Comment

1 Trackback / Pingback

  1. جب حضرت شام پاس ہو تو رات کیسے آئے — aik Rozan ایک روزن

Comments are closed.