نفسیات اور ادبی تنقید از، راکیش چندرا جوشی

اصغر بشیر

نفسیات اور ادبی تنقید : ٹی ایس ایلیٹ اور ولیم ورڈز ورتھ کے تنقیدی نظریات کا جائزہ، از، راکیش چندرا جوشی

از، اصغر بشیر

نفسیات ہر قسم کے آرٹ کو فن کاروں کے لا شُعُور کے اظہار کے طور پر لیتی ہے۔ یہ نقطۂِ نظر فرائیڈ کے اثرات کے تحت پیش کیا جاتا ہے جِنہیں تحلیلِ نفسی کے خالق کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اِن کے تحلیلِ نفسی کے نظریات نے تمام پہلوؤں پر بہت اثرات مرتب کیے ہیں۔ خوابوں کے بارے میں فرائیڈ کی تشریحات نے خوابوں کے مطالَعَہ اور نفسیات میں ایک سنجیدہ دل چسپی کو پروان چڑھایا۔

اسی طرح کے اثرات کے تحت، بیسویں صدی میں آرکِی ٹائپ اور اساطیری تنقید کا آغاز ہوا اور پروان چڑھی۔ اساطیری تنقید کا نقطۂِ عُروج نارتھوپ فرائے کی کتاب، تنقید کی اناٹومی کو سمجھا جاتا ہے جو 1957 میں شائع ہوئی تھی؛ جب کہ آرکِی ٹائپ تنقید کا وکیل ماڈ بوڈکن کو سمجھا جاتا ہے، جن کا نقطۂِ عُروج اِن کی کتاب، شاعری میں آرکی ٹائیپل پیٹرن (1934) ہے۔

تنقید پر نفسیاتی اثرات اس حد تک ہیں کہ تنقید کا ایک نیا مکتبۂِ فکر، یعنی، نفسیاتی تنقید بیسویں صدی میں نمُو پذیر ہوا۔ اگر چِہ، بعض نقادوں نے تنقید کی ابتداء نفسیات سے تلاش کی ہے، لیکن منظم نفسیاتی مطالَعَہ صرف بیسویں صدی میں ظاہر ہوا ہے۔ ایک نفسیاتی نقادکے لیے، ایک نظم شاعر کی لا شُعُور ذات کا اظہار ہے۔ ایک نظم شاعر کی شعوری ذات کی پیداوار نہیں ہوتی، بَل کہ لا شُعور اور کبھی کبھار تحتُ الشُّعور سے وارد ہوتی ہے۔

لہٰذا، نفسیاتی تنقید میں، شاعر کی نفسیات کی گہرائیوں کو جانچنے کی کوشش کی جاتی ہے تا کِہ ان کیفیات کی جانچ کی جا سکے جو اس  کے پوشیدہ لا شعور اور تحت الشُّعور میں موجود ہوتی ہیں؛ اور یہ صرف اس طرح کے نفسیاتی مطالَعَہ کے ذریعےہی ہے کہ شاعری کی حقیقی تفہیم ممکن ہو سکتی ہے۔

اس طرح، نفسیاتی تنقید، شاعری کی پیداوار کی بنیادی وجہ کو تلاش کرنے کی کوشش ہے۔ نفسیاتی نقاد اس کی پیداوار کے بنیادی سبب کو تلاش اور تجزیہ کرنے کی کوششیں کرتے ہیں۔ ان کے لیے، شاعر کی ذات کے شعوری اور لا شعوری پہلو اس کے اعمال کا تعین کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ شاعر کی زندگی کے دوران وقتاً فوقتاً حاصل ہونے والے تمام نقوش، اس کے لا شعور میں جمع ہوتے رہتے ہیں، اور وقت کے ساتھ، اس کےلا شعور میں مستقل سکونت اختیار کر لیتے ہیں۔

وہ تاثرات جو شاعر نے اپنی زندگی میں حاصل کیے ہوتے ہیں، شاعری کی تخلیق کے عمل میں غالب کردار ادا کرتے ہیں۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ تاثرات ہی شاعری کی تخلیق کےاصل ذمے دار ہیں۔ یہ اثرات جو بعد میں، مرحلہ وار جذبات، تجربات اور نظریات میں تبدیل ہو جاتے ہیں ان کو شاعر کی شخصیت سے الگ نہیں کیا جا سکتا، اور شاعر کی شخصیت صرف ان وقتاً فوقتاً حاصل ہونے والے تمام نقوشں کا اظہار ہے۔

یہ نقوش شاعر کی شخصیت کی تشکیل کرتے ہیں۔ ایک ماہرِ نفسیات کے لیے لا شعور ذہن کا مطالَعَہ بنیادی اہمیت رکھتا ہے کیوں کہ یہ جانے بَہ غیر کہ شاعر کے لا شُعور اور تحتُ الشُّعور میں کیا موجود ہے، اس بات کا تعین نہیں کیا جا سکتا ہے کہ کون سا تاثر شاعری کی تخلیق اور پیدوار کا ذمہ دار ہے۔

لہٰذا، نفسیاتی تنقید اور اس کی دوسرے شکلوں میں، شاعر کی نفسیات میں گہرائی کو تلاش کیا جاتا ہے تا کِہ شاعر کی شاعری میں ظاہر ہونے والے جذبات کی تخلیق کے لیے ذمہ دار تاثرات کو منظرِ عام پر لایا جا سکے؛ اور یہ صرف شاعر کی شخصیت کے نفسیاتی تجزیہ کے ذریعہ ہی ممکن ہے کہ شعر، یا نظم کو بہتر سمجھا جا سکتا ہے۔

شاعر کی شخصیت کو شاعری سے الگ نہیں رکھا جا سکتا؛ بَل کہ، شاعری کی تخلیق، یا پیداوار میں یہ سب سے اہم کردار ادا کرتی ہے۔ نفسیاتی نقاد نہ صرف شاعر کی نفسیات، بَل کہ اس کے ساتھ ساتھ وہ قارئین کی نفسیات کا بھی مطالَعَہ کرتا ہے۔

آرکی ٹائپ تنقید بھی نفسیاتی تنقید کی ایک شکل ہے جس کی وکالت مڈ بوڈکن کرتے ہیں:

“اس کا آرکی ٹائپ کا تصور اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ اس طرح کے عالمی اہمیت کی حامل امیجز، انسانی نفسیات کی بہت گہرائیوں کے ساتھ جڑی امیج، لازمی طور پر ماضی میں شاعر اور قارئین دونوں کو اپنی اہمیت کا اظہار کر چکی ہوں گی۔” (ویمسٹ اور بروکس، 1964، ص 715)

شاعر کی نفسیات نہ صرف اس کے لا شعور یا لا شعور ذہن کا ایک مطالَعَہ ہے، بَل کہ یہ معاشرے کی نفسیات کا مطالعہ بھی ہے، شاعر ملک اور دنیا میں رہتا ہے۔ یہ صرف اس کے حال کی نفسیات کا مطالعہ نہیں ہے، بَل کہ اس کے ماضی کی نفسیات کا مطالعہ بھی ہے۔ اس طرح، نفسیاتی تنقید ایک طرف شاعر کے ذہن کے اندر پوشیدہ کو ظاہر میں لانے کے لیے مناسب محسوس ہوتی ہے؛ اور دوسری طرف شاعری کی تخلیق کے لیے ذمہ دار اثرات کو تلاش کرنے میں بھی مدد دیتی ہے۔

شاعر شاعری کی صورت میں ایسے جذبات کا اظہار نہیں کر سکتا جن کا اس نے خود تجربہ نہ کیا ہو، اور، اس کی شاعری کو ان عوامِل کو ذہن میں رکھنے کے بعد ہی سمجھا جا سکتا ہے جنھوں نے اس کی شخصیت کو تشکیل دیا ہے۔ نظم، یقینی طور پر، شاعر کے لا شعور کا اظہار ہے، کیوں کہ یہ اس کے تمام اعمال کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ لہٰذا، نقاد کو شاعری کے محاسن کا جائزہ لینے کے لیے نفسیاتی طریقوں کو بَہ رُوئے کار لانا پڑتا ہے۔

کارل یُنگ، فرائیڈ کے مقابلے میں حالیہ ادبی تنقید پر زیادہ اثر انداز  ثابت ہوئے ہیں (ویمسیٹ اور بروکسس، 1964، ص 716)۔ آپ نے اساطیری تنقید کا تصور بھی پروان چڑھایا ہے۔ وہ اساطیر کو کُلیدی کردار کا حامل ٹھہراتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ اساطیر اور خواب انسان کی نفسیات میں اہم کردار ادا کرتے ہیں:

 “سنجیدگی کا ایک پہلو، جس کے ساتھ وہ ہماری نفسیاتی زندگی میں اساطیر کے کردارکا جائزہ لیتا ہے، وہ پہلو اس کا اس بات پر یقین ہے کہ آدمی کو بہت احتیاط کے ساتھ اساطیر اور خوابوں کے درمیان تفریق کرنی چاہیے” (ویمسیٹ اور بروکس، 1964، ص 715)

وہ جائزہ لیتے ہیں کہ لا شعور ذہن شعوری ذہن سے بہتر ہے۔ اس طرح، نفسیاتی، اساطیری، اور آرکی ٹائپ، تنقید کےکل تین قسمیں، لا شعور، ذہن، یا ذات کو فضیلت تفویض کرتی ہیں۔ جب ٹی ایس ایلیٹ کے اہم نظریات کے جائزہ لیا جاتا ہے، تو  آشکار ہوتا ہے کہ انہوں نے شاعر اور قاری کے ذہن پر نفسیات کی عمل پذیری کو مکمل طور پر نظر انداز کیا ہے۔

وہ شاعری کو شخصیت کے اظہار کے طور پر نہیں لیتے۔ ان کے لیے، بَل کہ یہ شخصیت سے فرار ہے. رینسم جیسے نقادوں کے لیے اِن کی تنقید نفسیاتی ہو سکتی ہے، لیکن یہ بھی کہا جا سکتا ہے اور ثابت بھی کیا جا سکتا ہے کہ اس کے نظریات میں نفسیات کی کوئی جگہ نہیں ہے۔

ایلیٹ کے لیے (1962، ص 300)، “شاعری جذبات کو ڈھیل دینا نہیں ہے، بَل کہ جذبات سے فرار ہے۔ یہ شخصیت کا اظہار نہیں ہے، لیکن شخصیت سے فرار ہے۔” ایلیٹ، ورڈز ورتھ کے نظریے کو مسترد کرنے کے بعد، شاعری کے تخلیق پر اپنے خیالات پیش کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

“یہ بہت زیادہ تجربات کا ایک ارتکاز ہے، اور اس ارتکاز سے حاصل ہونے والی نئی چیز ہے۔ ایک عملی اور فعال شخص ان کو تجربات بھی تصور نہیں کرے گا۔ یہ ایک ارتکاز ہے جو شعوری طور پر، یا غور و خوض کے ذریعے وقوع پذیر نہیں ہوتا۔” (ص 300)

وہ جذبات کو رد کرتے ہیں اور لکھتے ہیں:

“شاعری جذبات کا اظہار نہیں ہے، لیکن جذبات سے فرار ہے۔ یہ شخصیت کا اظہار نہیں ہے، بَل کہ شخصیت سے فرار ہے” (ص 300)

وہ نہیں چاہتے کہ شاعر اپنے جذبات اور شخصیت کا اظہار کرے۔ بَل کہ وہ چاہتے ہیں کہ وہ ان دونوں سے فرار اختیار کرے۔ لیکن، اس کے ساتھ ہی، وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ شاعر جذبات اور شخصیت دونوں کا حامل ہو۔ وہ لکھتے ہیں:

“صرف وہی لوگ جو شخصیت اور جذبات رکھتے ہیں،جانتے ہیں کہ ان چیزوں سے فرار کا کیا مطلب ہے” (ص 300)

وہ جذبات کو مخصوص اہمیت دیتا ہے جب وہ لکھتے ہیں:

“شاعر کا کام نئے جذبات کو تلاش نہیں کرنا، بَل کہ عام جذبات کو استعمال کرنا ہے،” اور یہ بیان کرتے ہیں کہ”آدمی کے لیے اہم اثرات اور تجربات کی شاعری میں کوئی جگہ نہیں ہے، اور جو شاعری میں اہم بن جاتے ہیں وہ آدمی اور اس کی شخصیت میں نا قابلِ ذکر کردار ادا کرسکتے ہیں۔‘‘ (صفحہ 299)

وہ یہ بھی لکھتے ہیں:

“شاعر کے پاس اظہار کی شخصیت نہیں ہوتی، بَل کہ ایک خاص ذریعہ ہوتا ہے، جو صرف ایک ذریعہ ہوتا ہے، ایک شخصیت نہیں ہوتا، جس میں تاثر اور تجربے منفرد اور غیر متوقع طریقوں سے شامل ہوتے ہیں۔” (ص 299)

درج بالا تمام بیانات متضاد نظر آتے ہیں؛ اور ایسا لگتا ہے کہ چُوں کہ ان کا مقصد صرف ورڈز ورتھ کے شاعری کے نظریے کی مخالفت کرنا تھا، لہٰذا، اس نے ان متضاد بیانات پر توجہ نہیں دی۔

شاعری کے متعلق ان کا نظریہ شاعری کے نفسیاتی نظریہ کے خلاف ہے جو شاعر کی نفسیات اور ان کی شخصیت کا مطالعے کو سب سے زیادہ ترجیح دیتا ہے۔ وہ فن کے جذبات کو غیر شخصی بیان کرتے ہیں، جب کہ نفسیاتی نظریات کے مطابق، کوئی فن غیر شخصی نہیں ہو سکتا؛ چُوں کہ اسے ایک شخص تخلیق کرتا ہے، اس کی شخصیت یقینی طور پراس میں اپنا مقام تلاش کرے گی اور اس کے فن میں یقینی طور پر نظر آئے گی۔

فن کار، یا شاعر اپنے فن یا شاعری سے الگ نہیں رکھا جا سکتا۔ ایلیٹ یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ جذبات بھی، جن کا شاعر نے کبھی تجربہ نہیں کیا اپنے وقت پر خدمات سر انجام دیں گے، اور اس کے ساتھ ساتھ وہ جذبات بھی کام آئیں گے جن سے شاعر، یا فن کار واقف ہوتا ہے۔ (ص 300)

یہ بیان بھی نفسیاتی تصورات کے خلاف ہے۔ وہ تجربہ جو شاعر نے کبھی محسوس نہیں کیا، اس کے لا شُعُور سے پیدا نہیں ہو سکتا، لہٰذا شاعری کے متعلق اس کا نظریہ کم زور ہے۔

یہاں تک کہ اس کے معروضی تلازمے کے تصور میں نفسیات کا ذکر تک نہیں ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ شاعر اپنے جذبات کا مساوی تلاش کرنے کے قابل ہو سکتا ہے، اور ایک معروضی تلازمے کے ذریعے اس کا اظہار کر سکتا ہے، لیکن یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ امیجز، یا تلازمے جن کو شاعر دریافت کرتا ہے، ان کا تعین شاعر کی نفسیات کے ذریعے کیا جائے گا۔ یہاں تک کہ اس کے تلازمے کے استعمال کو سمجھنے کے لیے، نفسیات لاگو کرنے کی ضرورت ہو گی، تا کہ اس امر کا جائزہ لیا جائے کہ وہ تلازمے کس خاص مقصد کے تحت استعمال ہوتے ہیں، اور ان عوامِل کو تلاش کرنے کی ضرورت ہو گی جو مخصوص تلازمے کے استعمال کا تعین کرتے ہیں۔

مثال کے طور پر، ایک شاعر معروضی تلازمے کا انتخاب اپنے پیشے یا اپنی پسند، یا ناپسند یا معاشرے میں اپنے مقام اور حیثیت، اپنے مشغلے اور اسی طرح کے کسی دوسرے عمل کے زیرِ اثر کر سکتا ہے۔ لہٰذا، نفسیات کو مکمل طور پر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ جب ایلیٹ کہتے ہیں، ’’جذبات کی زندگی نظم میں ہے، اور شاعر کی تاریخ میں نہیں ہے،” (ص 301) وہ نفسیات کو نظر انداز کرنے کی غلطی کا ارتکاب کرتے ہیں، کیوں کہ شاعر کی تاریخ اور نفسیات یقینی طور پر اس کی شاعری کو متشکل اور تبدیل کرے گی۔ وہ اپنی شاعری کی حدود سے باہر نہیں رہ سکتا، اور اس طرح  اس کی تحریر کردہ شاعری لازمی طور پر اس کی شخصیت کا اظہار ہو گی، اور اس کو صرف اس کی نفسیات کی گہرائی میں تحقیق سے بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔

اسی طرح، تمام معروضی تلازمے شاعر کی نفسیات متعین کرتی ہے اور ان تلازموں کو شاعر کی نفسیات اور نفسیات کی گہرائیوں کا جائزہ لیے بَہ غیر نہیں سمجھا جا سکتا۔ لہٰذا، ظاہر ہوتا ہے کہ ایلیٹ نے معروضی تلازمے کے نظریے کی تشکیل کے وقت نفسیات پر توجہ نہیں دی۔ پس، اِن کے نظریے میں جھول پایا جاتا ہے؛ یعنی یہ نا مکمل ہے اور اسی وجہ سے تنقید کا مستحق ہے۔

ایلیٹ کے لیے ضروری تھا کہ وہ نفسیات کو زیرِ غور لاتے تا کِہ وہ معروضی تلازمے کی بہتر تفہیم کے ساتھ ساتھ شاعری کی بھی بہتر تفہیم کرتے۔

ولیم ورڈز ورتھ کا شعری نظریہ، ٹی ایس ایلیٹ کی تھیری کے مقابلے میں زیادہ نفسیاتی محسوس ہوتا ہے۔ انگریزی ادبی تنقید میں ورڈز ورتھ کا حصہ بہت اہم ہے۔ انہوں نے نہ صرف رومانویت کو فروغ دیا، بَل کہ انہوں نے شاعری اور شاعرانہ ڈِکشن کا ایک جامِع نظریہ پیش کیا۔ انہوں نے شعر کی تخلیق کے عمل کو بھی بیان کیا۔ لِیِریکل بیلڈز کے پیش لفظ میں، ورڈز ورتھ (1962، ص 180) لکھتے ہیں:

“شاعری طاقت ور جذبات کا اچانک اُبال ہے۔ اس کا ماخذ وہ جذبات ہوتے ہیں جن کو اطمینان کے لمحات میں یاد داشت میں محفوظ کیا جاتا ہے۔”

اِن کے اپنے الفاظ میں:

“جذبات کی نوعیت پر غور کیا جاتا ہے، ایسا ردِ عمل کے متنوِّع سلسلے کے ذریعے کیا جا تا ہے۔ اطمینان آہستہ آہستہ غائب ہو جاتا ہے، اور غور و خوض میں ہنگامہ خیزی کے بعد، جذبہ آہستہ آہستہ بیدار ہوتا ہے، اور سوچ میں اپنے وجود کو ظاہر کرتا ہے۔ اس موڈ میں، عموماً فن کی کام یاب تشکیل شروع ہوتی ہے۔” (صفحہ 180)

ورڈز ورتھ کی درجہ بالا تعریف کی روشنی میں، یہ کہا جا سکتا ہے کہ شعر جذبات، یا شاعر کی شخصیت کا اظہار ہے۔ اِن کے جذبات اِن کی شخصیت کا ایک لازمی حصہ بناتے ہیں، اور اس طرح، ان کا نظریہ ٹی ایس ایلیٹ کے نظریہ کے مقابلے میں زیادہ نفسیاتی ہے، جیسا کہ ایلیٹ کی نظر میں شاعری، شاعر کی شخصیت کی اظہار نہیں ہے۔

ورڈز ورتھ اس پر اضافہ کرتے ہیں، اور شاعری میں مردوں کی زبان کے استعمال کی حمایت کرتے ہیں۔ ورڈز ورتھ، اس سلسلے میں، لکھتے ہیں کہ اِن کا مقصد مردوں کی زبان کی نقالی کرنا، اور جہاں تک ممکن ہو، اس کو اپنانا ہے۔ وہ شعر کی زبان کو مردوں کی زبان کے قریب لاتا ہے، جو اِن کی رومانویت کے لیے بہت بڑی خدمت ہے، زبان پہلے ہی خود کو نو کلاسیکی ماہرین سے آزاد کروانا چاہتی تھی جنھوں نے اسے نام نہاد مصنوعی زبان کے بندھنوں اور زنجیروں میں قید کر رکھا تھا۔

جب ورڈز ورتھ ایسا کہتے ہیں تو، وہ بھی ایک نفسیاتی تجزیہ کار محسوس ہوتے ہیں، کیوں کہ زبان کا تجزیہ بھی شاعر کی نفسیات، یا شخصیت کے ساتھ کرنا پڑتا ہے۔ ایک شاعر کی زبان کا تعین یقینی طور پر، وہ معاشرہ  کرتا ہے جس میں وہ رہتا ہے؛ اور اس کے ساتھ ساتھ اس کی پرورش اور اس کی تعلیم بھی اس تعین میں حصہ ڈالتی ہے۔ لہٰذا، جب ورڈز ورتھ شاعروں کی زبان کے بارے میں بات کرتے ہیں تو، وہ جانتے ہیں کہ شاعر کی نفسیات اہم ہے، کیوں کہ یہ اس کی شخصیت کا ایک لازمی حصہ ہے۔

ورڈز ورتھ لیریکل بیلڈز کے پیش لفظ میں ایک شاعر کی خصوصیات بیان کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں، وہ کہتے ہیں کہ شاعر:

“ایک آدمی ہے جو آدمی سے بات کرتا ہے، وہ ایک ایسا آدمی ہوتا ہے جس کے پاس عام انسانوں کی نسبت زیادہ متحرک حساسیت، زیادہ حوصلہ مندی اور ملائمت ہوتی ہے، اس کے پاس انسانی فطرت کے بارے میں زیادہ علم ہوتا ہے، اور وہ ایک زیادہ جامِع روح کا حامل ہوتا ہے۔ وہ اپنے جذبات اور وجوہات سے خوش ہوتا ہے، اور وہ اپنے اندر موجود زندگی کی روح سے دوسروں کی نسبت زیادہ مسرُور ہوتا ہے۔

“وہ خوشی کے سبب اسی طرح کی وجوہات اورجذبات پر غور کرتا ہے جو کائنات کی سر گرمیوں میں ظاہر ہوتی ہیں، اور جہاں وہ اسے میسر نہیں آتیں وہ ان کی تخلیق کے لیے عادتاً مجبور ہو جاتا ہے۔” (ص 171)

اس طرح، ورڈز ورتھ کے لیے، شاعر ایک آدمی ہے جو آدمی سے بات کرتا ہے، جو عام آدمی سے زیادہ حساس ہے، اور عام آدمیوں سے زیادہ جوش و جذبہ اور ملائمت کا حامل ہے۔ شاعر انسانی فطرت کے بارے میں زیادہ علم رکھتا ہے اور زیادہ جامِع روح ہے۔ جو چیز اِسے عام انسانوں سے الگ کرتی ہے، وہ یہ ہے کہ اس کے اندر یہ خصوصیات زیادہ درجے کی حامل ہوتی ہیں۔ اس کے اندر ہر انسانی خصوصیت زیادہ درجے کی ہوتی ہے۔ اس کو اظہار کی طاقت سے نوازا گیا ہے۔ ورڈز ورتھ کے الفاظ میں:

“دوسرے آدمی اپنے آپ کو محسوس کرنے کے عادی ہیں: کسی طرح، اور عمل سے، شاعر اس امر کے لیے زیادہ تیاری اور طاقت حاصل کر لیتا ہے کہ جو کچھ وہ سوچتا ہے اور محسوس کرتا ہے اس کا اظہار کر سکے اور ایسا خاص طور پر ان خیالات اور احساسات کے لیے ہوتا ہے جو اس کی پسند، یا اس کی ذہنی ساخت کی بَہ  دولت، اس کے شعور میں جگہ بناتے ہیں اور کسی بیرونی حوصلہ افزائی کے بَہ غیر فوری طور پر پیدا ہوتے ہیں‘‘ (ص 171)

لہٰذا، اِن کے لیے شاعر آدمیوں کی عام خصوصیات نہیں رکھتے۔ وہ ان سے بہتر ہے جہاں تک انسانی خصوصیات کے قبضے کا تعلق ہے۔ شاعر کی خصوصیات کی درجہ بالا وضاحت یہ واضح کرتی ہے کہ شاعری کی تخلیق کے لیے شاعر کی شخصیت بہت اہم ہے۔ وہ اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار کرتے ہیں جو ان کی زندگی میں وقت فوقتاً حاصل کرنے والے نقوش سے ظاہر ہوتے ہیں۔ وہ اپنے جذبات کو استعمال کیے بغیر نہیں لکھ سکتے ہیں؛ اور ان کی شخصیت کا ان کی شاعری میں اظہار خیال ہونا چاہیے۔

اس لیے، ورڈز ورتھ کا نظریہ بہت نفسیاتی ہے، کیوں کہ وہ شاعر یا شاعری کے تخلیق کار کو نظر انداز نہیں کرتے۔ وہ جانتے ہیں کہ نفسیاتی طور پر، شاعر اس کی تخلیق یا شاعری کے ہر لفظ میں پایا جانا چاہیے۔

لیریکل بیلڈز میں موجود نظمیں ایک خاص مقصد کے ساتھ لکھی گئی ہیں، جیسا کہ ودڈز ورتھ خود یہ واضح کرتے ہیں:

“ان جلدوں میں موجود نظمیں کم از کم ایک فرق کی وجہ سے ممتاز ہیں کہ ان میں سے ہر ایک کا ایک اہم مقصد ہے۔”(ص۔165 )

اور، یہ مقصد سُوڈو، یا نو کلاسیکی شاعری کے خلاف ایک ردِ عمل کے طور پر رومانوی شاعری قائم کرنا ہے۔ شاعری کا مقصد خوشی دینا اور مسرت تخلیق کرنا ہے۔ ان کے اپنے الفاظ میں، “شاعری کا مقصد خوشی کے عدم توازن کے ساتھ مل کر مسرت تخلیق کرنا ہے۔” (178)

ورڈز ورتھ نے انگریزی ادبی تنقید کے لیے بہت بڑی خدمت کی ہے؛ اور اپنے لیریکل بیلڈز کے پیش لفظ کے ذریعے، انہوں نے انگریزی ادب میں رومانوی تحریک کا آغاز کیا۔ اس پیش لفظ میں، وہ شاعری کے ہر پہلو کو زیرِ بحث لاتے ہیں، اور اس طرح، یہ وہ مضمون ہے جو رومانوی شاعری کے اصولوں کی بنیاد رکھتا ہے۔ یہ رومانوی اور فلسفیانہ تنقید کی مثال بھی ہے، جو معاصر ادبی دنیا میں رومانوی شاعری کے لیے جگہ حاصل کرنے کی ضرورت کی بنیاد پر پروان چڑھتی ہے۔

یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ایلیٹ، جان بوجھ کر، یا انجانے میں، موضوعی شاعری کی مخالفت کرتا ہے اور معروضی شاعری کی حمایت کا اعلان کرتے ہیں، جو سُوڈو کلاسیکی، یا نو کلاسیکی شاعری کی عظمت کا نشان تھی۔

دوسرے الفاظ میں، وہ شاعر کے حوالے سے معروضیت کو فروغ دیتے ہیں، اور مجموعی طور پر موضوعیت کی مخالفت کرتے ہیں۔ وہ تحریر اور تخلیق میں معروضی نقطۂِ نظر پر زور دیتے محسوس ہوتے ہیں، کیوں کہ ایک “معروضی فن پارہ ہوتا ہے جس میں مصنف ایجاد شدہ صورتِ حال، یا افسانوی کردار اور ان کے خیالات، احساسات، اور اعمال پیش کرتا ہے اور الگ اور پا بندی سے آزاد رہنے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔” (Abrams، 2003، صفحہ نمبر 1)

ایلیٹ، اس طرح، لکھنے کے لیے موضوعی نقطۂِ نظر کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں جس میں “مصنف تجربات، فیصلوں، اقدار اور احساسات کے بیانیے میں ذاتی تجربات، یا منصوبوں کو شامل کر لیتا ہے۔” (Abrams، 2003، صفحہ 196-197)

وہ جدید عہد میں آگے بڑھنے کے بَہ جائے عملِ مراجعت میں مشغول نظر آ رہے ہیں۔ اس طرح، بَہ راہِ راست، یا بِالواسطہ طور پر، اٹھارویں صدی کی سُوڈو کلاسیکیت، یا نو کلاسیکیت کا حامی محسوس ہوتے ہیں۔

لہٰذا، یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ رومانوی شاعری سُوڈو کلاسیکی، یا نو کلاسیکی شاعری کی نسبت زیادہ نفسیاتی ہے۔ ایلیٹ کے شعری نظریے کی نسبت یہ نفسیات کے زیادہ قریب ہے۔ بَل کہ، یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ورڈز ورتھ انسانی فطرت اور نفسیات کے بہتر تجزیہ کار تھے؛ لہٰذا اُن کا موضوعی شاعری کا نظریہ ان کے معروضی شاعری کے نظریے کی نسبت زیادہ نفسیاتی ہے، جو شاعر کی شخصیت کو مکمل طور پر نظر انداز کرتا ہے اور اس کی تخلیق یا شاعری میں اس کا داخلہ ممنوع قراردیتا ہے۔

ایک معروضی مصنف یا شاعر “جمالیاتی فاصلے کو بر قرار رکھتا ہے، یہ ایک موضوعی مصنف کے بَر عکس ہے جو ادبی سر گرمی میں نمائندگی اور اعمال کے ساتھ خود شامل ہوتا ہے، اور وہ اس مصنف کے بھی بر عکس ہے جو ادبی فن پارے کو اپنے ذاتی عقائد کی حوصلہ افزائی کے لیے استعمال کرتا ہے۔” (Abrams، 2003، پی 174)

لہٰذا،موضوعی شاعری، معروضی شاعری کی نسبت زیادہ نفسیاتی ہے اور معروضی شاعری کے شاعر کو زیادہ شعوری کوششیں کرنا ہوں گی تا کِہ ان کی شخصیت ان کی تخلیق میں داخل نہ ہو۔ انہیں اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ ان کی شخصیت ان کی تخلیق، یا شعر میں کہیں بھی دکھائی نہ دے۔

پس، ایک خاص قسم کی معروضی شاعری کی تخلیق میں جو جذبات شامل تھے، ان کی تلاش کے لیے تحلیلِ نفسی کی ضرورت ہوتی ہے۔ شاعر کی نفسیات ایک معروضی شعر کی تخلیق میں جو کردار ادا کرتی ہے اس کےتجزیہ کی بھی ضرورت ہے۔ پس، یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ ولیم ورڈز ورتھ کا شعری نظریہ ٹی ایس ایلیٹ کے نظریے کی نسبت زیادہ نفسیاتی تھا۔

حوالہ جات

  • Abrams, M.H. (2003). A Glossary of Literary Terms. Singapore: Thomson Asia Ltd, 174,196-197.
  • Drabble, M. (1985). (Ed.), The Oxford Companion to English Literature. New York: Oxford University Press, 369.
  • Eliot, T.S. (1962). Tradition and the Individual Talent. In D.J. Enright, and E. D. Chickera (Eds.), English Critical Texts. 299-301, Delhi: Oxford University Press.
  • Wimsatt, W.K., Jr., & Brooks, C. (1964). Literary Criticism: A Short History. (pp 715-716). Calcutta: Oxford & IBH Publishing Co.
  • Wordsworth, W. (1962). Preface to the Lyrical Ballads. In D.J. Enright, and E. D. Chickera (Eds.), English Critical Texts, (pp 165-180), Delhi: Oxford University Press.

لنک

https://www.sciencedirect.com/science/article/pii/S1877042813019289