فارمیسی: طب کا منفرد ترین شعبہ

Pharmacy Image

(ڈاکٹرعثمان عابد )

ادویات کی تیاری، ترسیل اور استعمال

علم الادویات(فارمیسی) کہلاتا ہے۔ ایم بی بی ایس ڈاکٹر مریض کی تشخیص کرتا ہے اور ایک ماہر فارماسسٹ اس کے لئے دواتیار کرتا ہے۔ لہٰذا ایک فارماسسٹ اور ایک بی بی ایس ڈاکٹر دونوں ہی مریض کی صحت کے لئے اہمیت کے حامل ہیں۔فارماسسٹ پس منظر میں رہتے ہوئے ادویات کے معیار، مقدار اور درست استعمال پر نظر رکھتے ہیں۔ یہ ایک ایسا شعبہ ہے جو بیک وقت پیدا واری بھی ہے اور خدمت بھی۔ایک فارماسسٹ باریک بینی کے ساتھ معاشرے اور ہسپتالوں میں بیماریوں پر نظر رکھتا،تجربہ گاہ میں تحقیق میں مصروف ہوتا اور دواساز فیکٹری میں ادویات کی پیداوار کے لئے بھی کام کرتا ہے۔ ان ادویات کی مارکیٹنگ بھی اس کے کام میں شامل ہے۔ اس طرح طبی علوم میں یہ اپنی نوعیت کا بڑا منفرد ترین شعبہ ہے۔

فارمیسی کی اہمیت وضرورت

زیر نظر تحریر کا مقصد فارماسسٹ کے کردار کو اجاگر کرنا ہے۔ صحت مند معاشرے کے لئے فارماسسٹ بھی اتنا ہی ضروری ہے کہ جتنا ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر۔پاکستان میں فارمیسی کے بارے میں آگاہی نہ ہونے کے باعث فارماسسٹ کا نا کافی استعمال کیا جاتا ہے اور اسے بطور ماہر اتنی اہمیت نہیں دی جاتی کہ جس کا وہ حق دار ہے بدقسمتی سے فارمیسی کی تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کو ہی معلوم نہیں کہ ان میں کتنی صلاحیتیں پوشیدہ ہیں ۔ انٹری ٹیسٹ میں ناکامی کے باعث وہ مجبوراً فارمیسی کے شعبے میں داخلہ لیتے ہیں ۔ حالانکہ اگر غیر جانبداری سے دیکھا جائے تو فارماسسٹ کی اہمیت ایم بی بی ایس ڈاکٹر سے بالکل بھی کم نہیں۔ لیکن عوام سے زیادہ خود فارمیسی کے شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کا زیادہ قصور ہے۔ انہیں چاہییے کہ عام آدمی کو آگاہ کریں کہ آج کے معاشرے کی صحت میں ایک فارماسٹ کتنا اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ فارمیسی کے شعبے سے تعلق رکھنے والے تمام افراد چاہے وہ اساتذہ ہوں، طلباء ہوں، سائنسدان ہوں، محقق ہوں غرض ہر فرد کو سنجیدہ نوعیت کے انقلابی اقدامات اٹھانے ہوں گے تاکہ پاکستان بھی ایک صحت مند معاشرہ کہلائے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق صحت سے مراد محض بیماری کا ٹھیک ہونا نہیں بلکہ اس سے مراد “مکمل طبعی، دماغی اور سماجی صحت یابی ہے” ۔ اس تعریف سے ثابت ہوا کہ صحت مند آبادی کے لئے فارماسسٹ بنیادی کردار ادا کرتا ہے اور بہت اہمیت کا حامل ہے۔فارمیسی طبی سائنس اور بنیادی سائنس میں تعلق پیدا کرتی ہے۔ دوائی کی تیاری اوراس کے پراثر استعمال کو یقینی بناتی ہے۔ گذشتہ چند دہائیوں سے فارمیسی سے وابستہ افراد نے بحالی صحت مہیا کرنے کے معیار کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ اس شعبے نے عام افراد میں یہ شعور اجاگر کیا ہے کہ دواسازی کے معیار کو محفوظ اور پر اثر بنانے کے لئے فارماسسٹ کا کردار کتنا اہم ہے۔

صاحب مضمون، عثمان عابد

عوام میں فارماسسٹ کی غیر مقبولیت کی وجوہات اور ان کا حل

پاکستان میں 55%فارماسسٹ ادویات تیار کرنے والی صنعتوں میں کام کررہے ہیں۔ 15%فارماسسٹ دفاقی وصوبائی سطح پر ،15%ادویات کی فروخت میں،10%کمیونٹی فارمیسی اور ہسپتال فارمیسی جبکہ 5%تحقیق و تدریس کے شعبے میں کام کر رہے ہیں۔
ان اعداد و شمار سے عوام میں فارماسسٹ کی غیر مقبولیت کی وجہ آسانی سے سمجھ آتی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق صرف 10%فارماسسٹ حضرات کمیونٹی فارمیسی سے وابستہ ہیں یعنی فارماسٹ کی ایک قلیل تعداد عام لوگوں سے رابطے میں ہوتی ہے۔’’ایک عام شخص اور ایک فارماسسٹ میں باہمی رابطے کا فقدان ہی دراصل عوام میں فارماسسٹ کی غیرمقبولیت کی سب سے بڑی وجہ ہے۔‘‘ اس مسئلے کا بڑا آسان حل ہے۔ فارمیسی کے شعبے سے وابستہ افراد کو ہنگامی بنیادوں پر عوام میں ’’فارمیسی کی اہمیت و ضرورت ‘‘ کی تشہیر کرنی چاہیے۔
اس کی دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں موجود فارمیسی کے کئی ادارے کسی ہسپتال سے الحاق کے بغیر موجود ہیں۔ ہسپتال سے الحاق نہ ہونے کے باعث طلباء بنیادی کلینکل نالج کی پریکٹس سے محروم رہتے ہیں ۔ اس ضمن میں وزارت صحت انقلابی قدم اٹھاتے ہوئے ہر فارماسسٹ کے لئے ایک سالانہ ’’انٹرن شپ ‘‘لازمی قرار دے ۔ ہسپتال فارمیسی میں بطورکلینکل فارماسسٹ کام کرنے سے فارماسسٹ کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں میں مزید بہتری ہوتی ہے جو کہ ایک صحت مند معاشرے کے لئے ضروری بھی ہے اور اہم بھی۔
ہم جانتے ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ آبادی بڑھتی جارہی ہے۔ اسی تناسب سے صحت مند آبادی کے لئے فارماسسٹ کی طلب بھی بڑھتی جارہی ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے آبادی کے تناسب سے فارماسسٹ کی مخصوص حد مقرر کی ہے جس کے مطابق عوامی صحت کی مطلوبہ حد حاصل کرنے کے لئے ہر 2000افراد کے لئے ایک فارماسسٹ کا ہونا بے حد ضروری ہے۔
یہ فارماسسٹ کی کمی ہی ہے کہ جس کی وجہ سے ایم بی بی ایس ڈاکٹر حضرات ہرفن مولا بنے ہوئے ہیں اور مریض کی تشخیص سے لے کر دوائی کی تقسیم تک بطور ماہر کام سر انجام دے رہے ہیں۔ ینگ ڈاکٹر حضرات کی آئے دن ہڑتالوں اور ناجائزمطالبات سے خود حکومت بھی بے حد تنگ ہے۔ ان ہڑتالی ڈاکٹرز میں سے زیادہ تر تعداد ان ’’ ایم بی بی ایس‘‘ ڈاکٹر حضرات کی ہوتی ہے جو کہ کم نمبر ہونے کے باعث نجی میڈیکل کالجوں ( جن کی فیس لاکھوں میں ہوتی ہے) سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کرتی ہے۔ اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ آئے دن یہ ڈاکٹر حضرت ہڑتالیں کر رہے ہوتے ہیں اور ٹائر جلا رہے ہوتے ہیں۔
اگرچہ گذشتہ دو دہائیوں سے ایم بی بی ایس ڈاکٹرز اور فارماسسٹ کی علیحدگی کی بات کی جاتی ہے لیکن گورنمنٹ ابھی تک یہ سمجھتی ہے کہ فارماسسٹ کی کمی کی وجہ سے اس کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔پاکستان کے دیہی علاقوں اور چند چھوٹے شہروں میں ایک سروے کے دوران بڑا بھیانک انکشاف ہوا کہ وہاں پر موجود میڈیکل سٹوروں کا عملہ بغیر کسی فارمیسی ٹریننگ کو حاصل کیے عوام کو ادویات فروخت کر رہا تھا۔ ان افراد کو فارمیسی کی الف،ب بھی معلوم نہیں تھی اور وہ بغیرکسی ڈاکٹر کے تجویز کردہ نسخے کے عام لوگوں کو ادویات فروخت کررہے تھے۔یہ لوگ دواؤں سے متعلق غلط آگاہی دے کر اور زیادہ عوامی مطالبے کو مدنظر رکھتے ہوئے دوائیاں فروخت کررہے تھے جو کہ بہت خطرناک صورتحال ہے۔

خدمات کے شعبے اور ملازمت کے مواقع

وطن عزیز کے طول و عرض میں شہرہوں یا دیہات ہر جگہ سرکاری اور پرائیوٹ ہسپتال بن رہے ہیں۔ ادویات کی صنعت تیزی سے بڑھ رہی ہے اور عوام میں صحت سے متعلق آگاہی بھی بڑھ رہی ہے۔ یہ وہ بنیادی علامات یں جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ فارمیسی کا مستقبل بہت روشن ہے۔ آپ کسی بھی ادارے میں کا م کریں، ہر جگہ تین باتوں کا خیال رکھیں:
1۔دوسرے کے ہر اچھے کام کو تسلیم کریں 2-دوسروں کی مدد کے لئے ہر وقت تیار ہیں -3دوسروں سے تعلقات اچھے رکھیں۔ادویات بنانے والے اداروں میں ملکی ادارے بھی ہیں اور غیر ملکی بھی۔ ان اداروں میں تنخواہ اور دیگر مراعات بہت بہتر ہیں۔ البتہ ان اداروں کے لئے طلباء و طالبات کو تعلیمی قابلیت اور فنی مہارت کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔
ایک فارماسسٹ مندجہ اداروں میں کام کرسکتا ہے
وزارت صحت اور دیگر گورنمنٹ ادارروں میں،جامعات اور کالجزمیں ،ہسپتالوں میں،تفتیشی اداروں میں،تجزیہ وتحقیق کے اداروں میں،شعبہ ماحولیات میں،زرعی ادویات اور زراعت کے دیگر شعبوں میں،کمیونٹی فارمیسی ، صحت اور صفائی کے شعبوں میں کام کرنے والی این جی اوز، فورسز میں (آرمی، ایئر فورس ، نیوی) ، پیشہ ورانہ تحقیق کرنے والے اداروں میں، ریگولیٹری اتھارٹی میں، خوراک اور میک اپ کے ادارے میں( تاکہ مصنوعات کو حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق بنایا جائے۔)

آئیڈیل فارماسسٹ

بین الاقوامی دواسازفیڈریشن اورورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے مل کر’’آئیڈیل فارماسسٹ‘‘ کا تصور پیش کیا ہے۔ ان کے مطابق ایسا فارماسسٹ جس میں مندرجہ ذیل سات خوبیاں پائی جاتی ہوں’’سیون سٹار فارماسسٹ‘‘یا’’آئیڈیل فارماسسٹ ‘‘ کہلاتا ہے۔ ایک آئیڈیل فارماسسٹ وہ ہوتا ہے جو:
-1عام افراد کی بہتر صحت میں حقیقی دلچسپی رکھتا ہے -2ایک اچھا فیصلہ ساز ہوتا ہے-3دوسروں کو آگاہ کرنے کی قدرتی صاحیت رکھتا ہے-4تیزی سے سیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور زندگی بھر سیکھتا رہتا ہے -5 ایک اچھا منتظم ہوتا ہے-6 قائدانہ صالاحیتوں سے مالا مال ہوتا ہے-7ایک کامیاب استاد اور محقق ہوتا ہے۔

About عثمان عابد 10 Articles
عثمان عابد نے حال ہی میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے ڈاکٹر آف فارمیسی کی ڈگری مکمل کی ھے۔ ابلاغ کے مثبت اور تعمیری امکانات پر پُختہ یقین رکھتے ہیں۔ فارماسسٹ ہونے کے ساتھ ساتھ موٹیویشنل سپیکر اور رائٹر بھی ھیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے ساتھ وابستہ ہیں جن کے لیے وہ تحریری اور مشاورتی شراکت رکھتے ہیں۔ فارماریڈرز نامی میگزین کے چیف ایڈیٹر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک نجی تنظیم کے چیف ایگزیکیٹو بھی ہیں۔