نئی پشتون پود اور کچھ شکست خوردہ پختون نیشنلسٹ

علی ارقم
علی ارقم

نئی پشتون پود اور کچھ شکست خوردہ پختون نیشنلسٹ

از، علی ارقم

شکست خوردہ ذہنیت کے حامل پشتون نیشنلسٹ آج نئی پشتون پود کے نو جوانوں کو اپنی انا اور نفرت کی خاطر پھر سے آگ و خون کے کھیل میں دھکیلنا چاہتے ہیں۔

ایسے لوگوں کے ماضی کے بڑے ڈاکٹر نجیب شہید کے دور میں ان کے پاس افغانستان جاتے، ان کو “لوی افغانستان (گریٹر افغانستان) اور پختونستان کے قصے سناتے اور کہتے کہ پاکستان سے افغان جہادیوں کی سپورٹ کا بدلہ لینے کا یہی طریقہ ہے کہ وہاں یہ سلسلہ شروع کر دیا جائے، اور اس کے عوض کچھ پیسے لے کر آ جاتے۔

آخر میں ڈاکٹر نجیب شہید ان کو پہچان گئے تھے، اور ان کا کھیل سمجھ گئے تھے کہ یہ در اصل آگ و خون کے کھیل کو جواز بخشنے کے عمل کا حصہ اور یہ قوم فروش اس کا حصہ ہیں۔

اس لیے ڈاکٹر نجیب شہید کہتے تھے،”افغانستان خون کا کیک ہے، اور ہر فریق نے اس میں سے اپنا پیس فرام دا پائی وصول کیا ہے۔”

آج بھی ایسا ہی ہے، کابل انتظامیہ کا حصہ بن کر جس اسماعیل یون نے بہت تیز رفتار مالی ترقی کی ہے، محل کھڑے کیے ہیں، وہ اعلان کر رہے ہیں کہ کیوں نہ منظور پشتین کو لر او بر افغان کا مشترکہ رہبر قرار دیا جائے، ایسے مداریوں سے ہوشیار!

منظور جس تحریک کی بنیاد پر اٹھا ہے، اس کے چند مطالبات ہیں، جس کے لیے وہ ریاست کے سب سے طاقت ور عنصر کو چیلنج کر کے کھڑا ہے، اور ہزاروں نوجوان اس کی پشت پر ہیں۔

یہ ایک طویل جنگ ہے، آگ و خون کے کھیل سے مالی فوائد اخذ کرنے والے کبھی بھی اتنی آسانی سے پسپا نہیں ہوں گے، ان کے لیے پشتون خطے سے اٹھنے والی آواز نئی ہے، لیکن اس کا عدم تشدد پر اصرار نیا نہیں ہے، پشتونوں کا ان کا مطالعہ بھی نیا نہیں ہے، اس لیے وہ اس تحریک کو ماضی کی تحریکوں کی راہ پر لگا کر اپنے کھیل کو جاری رکھنے کا جواز چاہتا ہے۔

پی ٹی ایم جنگ کا دھندا اور دکان سمیٹنے کی تحریک ہے، پشتونوں کی ایک اور نسل کو ایک اور جنگ میں جھونکنے کی نہیں، اس لئے نہ اسے ماضی کی غلطیاں دہرانی ہیں نہ ہی فکری افلاس کے ماروں کی پراکسی بننا ہے۔

جو لوگ وسطی پختونخوا یعنی سابق فاٹا اور ملحقہ اضلاع کو کسی نئی جنگ میں جھونکنے کے خواہش مند ہیں یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنا خطہ یعنی جنوبی پختونخوا (بلوچستان کے پشتون اضلاع) کو جنگ کے شعلوں سے بڑی کامیابی سے بچائے رکھا ہے، بدلے میں انہوں نے افغان طالبان کے سارے مراکز، ان کی سرگرمیوں کی طرف آنکھ بند کئے رکھی، اور وجہ یہی بتاتے ہیں کہ ہم اپنے ہاں ان کی مخالفت کرتے تو یہ ہماری قیادت کو نشانہ بناتے، ہمارے کارکن قتل کرتے، اس لئے ضلع پشین میں افغان جہاد کی سرگرم حمایتی جمعیت علماء اسلام نظریاتی کے ساتھ بلدیاتی سطح پر اتحاد بھی کیا، ساتھ حکومت بھی کررہے ہیں۔

خدا کا صد شکر ہے کہ جنوبی پختونخوا جنگ کے شعلوں سے محفوظ رہا ہے، اور وہاں کی سیاسی قیادت محفوظ ہے، سیاسی کارکن خیبر پختونخوا میں عوامی نیشنل پارٹی کی طرح قتل نہیں ہوئے ہیں۔

لیکن وسطی پختونخوا کے نو جوانوں کا بھی حق ہے کہ وہ عدم تشدد پر استوار جد و جہد سے اپنے مسائل حل کریں، سیاسی عمل کا حصہ بنیں ، پشتونوں کی قیادت کے جس مقام پر حالات نے ان کو فائز کیا ہے اس منصب کو بخوبی نبھائیں، اور خطے میں امن لے کر آئیں۔

یہاں امن ہو گا، ریاست کی پراکسی وارز کو ملاؤں کی طرف سے جہادی پیادے میسر نہیں آئیں گے، تو آگ اور خون کا کھیل جاری نہیں رہے گا۔

لر او بر یو افغان کوئی قابل اعتراض بات نہیں، یہ خون کے رشتے ہیں اس کو سیاسی حد بندیاں اور سرحدی باڑیں نہیں توڑ سکتیں، لیکن جن کے کام دھندے، انفارمل ٹریڈ میں ساجھے داریاں متاثر ہوئی ہیں، وہ غصے میں آ کر سب کچھ جلا دینے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں۔

خدا پشتون خطے میں امن لائے، جنگ کی دکان بند ہو، تو آج کے جدید دور میں ملکوں کے بیچ سرحدیں بے معنی ہو گئی ہیں، انشاء اللہ وقت آئے گا کہ افغانستان سے چل پڑنے والا پھلوں سے لدا ٹرک چمن کے راستے پاکستان میں داخل ہو کر کھوکرا پار مونا باؤ سے ہوتا ہوا ہندوستان جا پہنچے گا۔

میں بندوقوں کے نشاں تک نہیں رہنے دوں گا
عہد رفتہ میرے ہاتھوں میں قلم رہنے دے