موٹر سائیکل گرل : انسانی عزم کی کہانی

موٹر سائیکل گرل

موٹر سائیکل گرل : انسانی عزم کی کہانی

از،  حسین جاوید افروز

پاکستان فلم انڈسٹری دھیرے دھیرے فلم بینوں میں دل چسپی کا سامان پیدا کرنے کی جستجو میں گزشتہ دس سال سے مگن ہے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ اب یہ انڈسٹری گنڈاسہ کلچر کو خیر آباد کہہ چکی ہے اور 2007 سے ایک نیا فلمی کلچر پروان چڑھا ہے جس نے فلم بینوں کو بول، خدا کے لیے، وار، جوانی پھر نہیں آنی۔ مالک، میں پنجاب نہیں جاؤں گی اور ایکٹر ان لاء جیسی معیاری فلمیں تخلیق کیں۔

اس کے ساتھ ساتھ کافی نئے اور فریش چہرے فلم انڈسٹری کا وزن اٹھاتے دکھائی دیے۔ ان نئے اور با صلاحیت اداکاروں میں تازہ اضافہ سوہائے علی ابڑو کا ہے جنہوں نے حال ہی میں رہلیز ہونے والی فلم موٹر سائیکل گرل میں تن تنہا فلم کا بوجھ اپنے کندھوں پر کامیابی سے اٹھایا ہے۔  سوہائے اس سے پہلے کئی ڈراموں میں بھی بے مثال پرفارمنس دے کر اپنی موجودگی کا احساس کامیابی سے دلا چکی ہیں۔

تاہم فلمی کیرئیر میں موٹر سائیکل گرل ان کے لیے ایک سنگ میل ثابت ہوئی ہے۔ فلم کی کہانی سچے واقعات پر مبنی ہے اور ایک لڑکی زینتھ عرفان کے گرد گھومتی ہے جو کہ لاہور شہر میں اپنی زندگی کی گاڑی کئی سمجھوتوں تلے گزار رہی ہوتی ہے۔ اس کے دل میں بچپن سے یہ خواب سمایا ہوتا ہے کہ وہ اپنے مرحوم والد کے خواب کی تکمیل کرے جو کہ خنجراب تک سفر کرنے کے متمنی تھے۔ اپنی آزاد اور لاابالی طبیعت کے سبب زینتھ کو اپنے خاندان اور دفتر میں کھڑوس باس کی تنقیدی نشتر کو قدم قدم پر برداشت کرنا پڑتا ہے۔  زینتھ کو دفتر میں بھی محنتی اور تخلیقی آئیڈیاز سے آراستہ ہونے کے باوجود قدم قدم پر اپنے باس کی طرف سے بے عزت کیا جاتا ہے۔ اور ایک چھوٹی سی بھول کو لے کر اسے باس کے شدید عتاب کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ایسے میں اس کی دوست ہی اس کے  لیے سب سے زیادہ مددگار ثابت ہوتی ہے۔  لیکن پھر کہانی ڈرامائی موڑ لیتی ہے اور زینتھ خاندانی دباؤ کے پیش نظر ایک انوسٹمنٹ بینکرکے ساتھ منگنی کے بندھن میں بندھ جاتی ہے لیکن اس کے دماغ میں والد کے خنجراب جانے کا جذبہ مسلسل کلبلاتا رہتا ہے اور اپنی اس خواہش کا اظہار وہ اپنے منگیتر علی کاظمی سے کرتی ہے جو تھوڑی بہت ہچکچاہٹ کے بعد زینتھ کو بائیک پر اکیلے خنجراب جانے کی اجازت دے دیتا ہے۔ یوں اب زینتھ کے ایڈونچر سے بھرپور سفر کا آغاز ہوتا ہے۔

سفر میں اسے عفی نامی ایک اور بائیکر بھی مل جاتا ہے جو اسے قدم قدم پر سپورٹ فراہم کرتا ہے۔ اس پرخطر،  طویل لیکن دلکش مہم کے دوران زینتھ ایک ایسے حادثے کا بھی شکار ہوتی ہے جو اس کی زندگی میں کئی تبدیلیاں لے کر آتا ہے۔ جبکہ ایک مسلسل دباؤ اسے پریشان کیے رکھتا ہے کہ جس شخص سے وہ شادی کرنے جارہی ہے وہ اس کی خواہشات اور جذبات کی بالکل بھی پروا نہیں کرتا۔ کیا زینتھ اپنے خواب یعنی خنجراب پاس کی بلندیوں پر پہنچ پاتی ہے؟

کیا وہ اپنی زندگی اپنے منگیتر کے ساتھ گزارنے پر آمادہ ہوجاتی ہے جس کا حاکمانہ رویہ اس کی زندگی میں مسلسل اضطراب کا سبب بن جاتا ہے؟ یہ سب کچھ آپ کو موٹر سائیکل گرل کے ساتھ سفر پر نکلنے سے ہی حاصل ہوگا۔ یہ امر باعث طمانیت ہے کہ اب ہمارے ہاں سیاحت، کے موضوع پر بھی توانا اسکرپٹ کے ساتھ فلمیں بننے لگی ہیں جو کہ فلم بینوں کو ایک نیا لطف اٹھانے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ فلم کا اسکرپٹ ناظر کو مکمل طور پر اپنی گرفت میں  لیے رکھتا ہے اور یہی ڈائریکٹر کی کامیابی بھی ہے جس نے ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کو دیے جانے والے گھٹے گھٹے ماحول کو بے نقاب کیا اور لڑکیوں کو بھی لڑکوں کی طرح گنجائش فراہم کرنے پر زور دیا تاکہ وہ بھی اپنی خوابیدہ صلاحتیوں کو اجاگر کرنے میں کامیاب ہوسکیں۔ جبکہ فلم کا جان دارسکرین پلے بھی ڈائریکٹر کی مہارت کا ثبوت ہے جو کہ فلم میں بوریت کے عنصر کو معدوم کیے رکھتا ہے۔

ایکٹنگ کے شعبے کی بات کی جائے تو یہ سوہائے ابڑو کا شو ہے۔ جس نے ایک چیلنجنگ کردار کی باریکیوں کو سمجھا اور اپنی بے ساختہ اداکاری سے گویا فلم کا بوجھ کامیابی سے اپنے کندھوں پر اٹھایا۔ بلاشبہ یہ فلم سوہائے ابڑو کے کیرےئر کے  لیے خاصی سودمند ثابت ہوئی ہے۔ خصوصاً جس طرح وہ اپنے منگیتر کو کھری کھری سناتی ہے اور اپنے دل کا غبار نکالتی ہے وہ منظر فلم کی جان ہے۔ جبکہ زینتھ کی سہیلی کے کردار میں اداکارہ نے بھی اپنی منہ پھٹ اداکاری سے کہانی میں مزید تازگی فراہم کی۔ جبکہ فلم کے رائٹر عدنان سرور نے عفی کے کردار میں ایک مددگار کے طور پر اچھا کام کیا۔

لیکن زینتھ کی دادی کے کردار میں شمیم ہلالی اور بے بس ماں کے کردار میں ثمینہ پیرزادہ کچھ خاص متاثر نہیں کرسکی۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ جب بھی وہ کیمرے پر نظر آئیں تو یوں لگا جیسے ہم کوئی روایتی ساس بہو کا ڈرامہ سیریل دیکھ رہے ہوں۔ علی کاظمی جو اکثر ڈراموں میں منفی کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں اس بار بھی اپنے کردار کے حساب سے انہوں نے تسلی بخش پرفارمنس دی۔ جبکہ ایک کھڑوس اور اکھڑ مزاج باس کے رول میں سرمد کھوسٹ نے بھی اپنی موجودگی کا بھرپور احساس دلایا۔

مگر یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ فلم منٹو میں ڈوب کر اداکاری کرنے والے سرمد نے آخر ایک سائیڈ رول کیوں لیا؟ کیونکہ منٹو کے بعد فلم بین ان کو اب ایک نمایاں میں ہی دیکھنا چاہیں گے۔ اب بات ہوجائے فلم کی خامیوں کی تو سب سے پہلے فلم کا میوزک ہرگز دم دار نہیں رہا۔ یہ درست ہے کہ فلم میں رومانوی روایتی گانوں سے اجتناب کیا گیا لیکن جب ڈائریکٹر ایک جذبے سے بھرپور پراجیکٹ پر کام کررہا ہو تو یہ بہت ضروری ہوجاتا ہے کہ اس کے  لیے بیک گراؤنڈ میوزک شائقین کو ولولہ عطا کرسکے۔ اس کے علاوہ فلم میں جب زینتھ موٹر سائیکل چلانا سیکھ لیتی ہے تو جس طرح وہ وین کے ڈرائیور کو انگلی سے قابل اعتراض اشارے کرتی ہے وہ بہت ہی غیر ضروری اور شرمناک منظر تھا۔ کیونکہ فلم جیسے وسیع کینوس پر آپ معاشرے کو اس طرح کے غیر مہذب اشارے دکھا کر کیوں آلودہ کرنا چا ہ رہے ہیں؟

یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ ہمارا سنسر بورڈ اس سین کو ہضم کیسے کر پایا؟ جبکہ ایسی ہی بے مقصد تکرار ہمیں اس منظر میں بھی دکھائی دیتی ہے جب زینتھ کی سہیلی ایک دکاندار سے خواتین کے استعمال کی چیزوں کی پیکنگ پر اعتراض کرتی ہے کہ ایسی چیزوں کو شجرِ ممنوعہ بنا کر کیوں پیش کیا جاتا ہے؟ سچی بات تو یہ ہے کہ اس منظر کا اس فلم کی تھیم سے دور دور تک بھی تعلق واسطہ نہیں تھا۔ ڈائریکٹر اور رائٹر کو سمجھنا چاہیے کہ ابھی ہمارا سنیما تازہ تازہ جوان ہوا ہے ابھی ہم ہالی وڈ یا اکشے کمار کی پیڈ مین کی سطح پر نہیں پہنچے لہذا ایسی واہیات تکرار سے حتی الوسع گریز کرنا ہی بہتر رہے گا۔

سب سے آخر میں بات ہو جائے اس سفر کی جو ہمیں زینتھ کے ہمراہ لاہور سے خنجراب تک لے جاتا ہے۔ یقیناً سنیماٹوگرافی شاندار رہی لیکن ایک سوال ذہن میں الجھن پیدا کرتا ہے کہ آپ نے وجاہت ملک جیسے شہرہ آفاق ٹریکر کو فلم میں شامل کیا تو ذرا اس کی ہی زبانی شمال کے حسین نظاروں جن میں نانگا پربت، راکا پوشی، جگلوٹ جہاں تین پہاڑی سلسلوں کا سنگم ہوتا ہے کا ذکر ہی کر دیتے۔ ان جنت نظیر مقامات کو فلمانا یقینا ایک قومی خدمت ہے مگر بہت بہتر ہوتا اگر ان حیات آفرین جگہوں کا پرکشش تعارف بھی دیکھنے والوں کے لیے اچھوتے انداز میں کردیا جاتا۔ افسوس وجاہت ملک جیسے زرخیز سیاح کو فلم میں ضائع کیا گیا ہے۔ تاہم مجموعی طور پر ہماری فلمی صنعت ابھی تجربات کی بھٹی سے گزر رہی ہے اور ایسے میں موٹر سائیکل گرل یقینی طور پر تازہ ہوا کا جھونکا قرار دی جاسکتی ہے۔ میں اس فلم کو 3/5 کروں گا۔

About حسین جاوید افروز 84 Articles
حسین جاوید افروز جیو نیوز سے وابستہ صحافی ہیں۔