کراچی کی سیاست کروٹ بدلنے کو ہے

Malik Tanvir Ahmed
ملک تنویر احمد

کراچی کی سیاست کروٹ بدلنے کو ہے

از، ملک تنویر احمد

شہر کراچی کی سیاست اس وقت ملک کی سیاسی قوتوں کی مرکز نگاہ بنی ہوئی ہے۔ آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے شہر میں تین عشروں تک ایک نام کے گرد اس شہر کی سیاست گھومتی رہتی ہے جس میں لسانیت، نفرت، دہشت گردی اور بربریت کے سارے رنگ بھرے ہوئے تھے۔ دو تین برس قبل کراچی شہر کا امن بحال ہوا تو اس شہر کی سیاست نے بھی انگڑائی لی اور وہ سارے نقش کہن معدوم ہوتے دکھائی دیے جن میں خون ریزی اور فسادات کے بد نما داغ سب سے نمایاں تھے۔ کراچی کا المیہ بہت گھمبیر ہے کہ اس شہر کو بیرون شہر سے زیادہ اس شہر کی تین دھائیوں تک منتخب نمائندہ سیاسی جماعت نے نقصان پہنچایا۔

اس سیاسی جماعت کی طرز سیاست نے جبر، ظلم، دھونس اور دھاندلی کے وہ سارے ہتھکنڈے اگر متعارف تو نہیں کرائے لیکن اسے بہرحال اس عروج تک پہنچا دیا کہ جس کے سامنے ماضی کے سارے ہتھکنڈے ہیچ نظر آئے۔ کراچی کی سیاست اب ایک نئے دور میں داخل ہو چکی ہے کہ اب یہاں خوف و جبر کی وہ فضا کافی حد تک ختم ہو چکی ہے جس میں ایک سیاسی جماعت انتخابی مقابلے میں سب کو مات دے دیتی تھی۔ کراچی بدل رہا ہے تو لازماً اس کی سیاست بھی تبدیل ہو گی۔

کراچی بے پناہ مسائل میں گھرا ہوا ہے اور یہ اس شہر کی بد قسمتی ٹھہری کہ ن مسائل کے حل کے لیے اب تک کسی کے نخل فکر میں کسی مربوط و مبسوط حکمت عملی کی کوئی تدبیر نہیں پھوٹی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کو سندھ کی حکمرانی کے مزے لوٹتے ہوئے تقریباً دس سال ہو چکے ہیں۔ کراچی شہر میں پی پی پی ہمیشہ سے ایک کمزور سیاسی حریف ثابت ہوئی ہے اور ایک آدھ نشست کے علاوہ اس کی جھولی میں کراچی سے انتخابی نشستوں کی کوئی خاص تعداد نہیں پڑی۔

پی پی پی کے ایم کیو ایم پر انتخابات میں دھونس دھاندلی کے الزامات کچھ غلط بھی نہیں ٹھہرتے تھے لیکن پی پی پی کبھی اردو بولنے والے ووٹرز کے لیے کشش کا باعث نہیں رہی۔ ستر کی دھائی میں لسانی فسادات اور کوٹہ سسٹم کے نفاذ نے پی پی پی اور اردو بولنے والے ووٹر کے درمیان جو خلیج پیدا کی تھی وہ آج تک پاٹی نہ جا سکی اور پھر پی پی پی کے خراب انداز حکمرانی نے تو کوئی کسر نہ چھوڑی کہ اب اردو بولنے والا ووٹر اس کی جانب راغب ہو۔

پی پی پی اگرچہ بدلے ہوئے سیاسی حالات میں کراچی سے معقول تعداد میں انتخابی نشستیں جیتنے کے لیے پر عزم ہے لیکن کراچی کے گونا گوں مسائل اس کی راہ میں سد سکندری کی طرح حائل ہیں کہ دس سالوں میں کراچی کے رخسار سجانے کی بجائے اس نے اس شہر کا حلیہ تک بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ اب پی پی پی کے پاس وہ کیا جادوئی چراغ ہے کہ کراچی کا ووٹر اس کی جانب لپکے یہ تو پی پی پی کے مردان کار ہی جانیں یہ گتھی سلجھانا ہمارے فہم سے تو بالاتر ہے۔

تاہم درون خانہ پی پی پی کے ذرائع بتاتے ہیں کہ انہوں نے اس بار اس شہر سے ایک معقول تعداد میں نشستیں جیت کر اس تاثر کو مٹانے کی کوشش کرنی ہے کہ پی پی کراچی شہر میں ایک کمزور سیاسی فریق ہے اور وہ فقط دیہی سندھ کی نمائندہ سیاسی جماعت ہے۔

تحریک انصاف کی انٹری کراچی شہر میں زبردست طریقے سے ہوئی اور عمران خان نے اس شہر میں وہ کارنامہ کر دکھایا تھا کہ جس نے مخالفین کو ششدر کر دیا تھا لیکن خان صاحب نے پھر کراچی کو بھی بے یارو مددگار چھوڑ دیا۔ اب کراچی میں سیاسی خلا عمران خان پر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن ان کی جماعت کی تنظیمی قابلیت پر گہرے سوال ثبت ہیں جو عمران خان اس شہر میں مقبولیت کو صحیح طریقے سے انتخابی قوت میں بدلنے سے قاصر رہی ہے۔

خان صاحب کے لیے کراچی شہر میں اگلے انتخابات میں سنہری موقع ہے کہ وہ اس شہر کے بدلے ہوئے سیاسی حالات میں اپنے آپ کو انتخابات میں ایک مضبوط شراکت دار کے طور پر منوا سکیں۔ میاں نواز شریف نے کراچی کو اپنی انتخابی سیاست میں کبھی بھی ترجیحات میں کوئی خاص جگہ نہ دی اس لیے تو اس شہر میں امن کی بحالی کا سہرا ان کے سر پر سجنے کے باوجود وہ کراچی میں اپنی جماعت کے لیے کوئی خاص مقام حاصل نہیں کر سکے۔ اب نواز لیگ کی صدارت کا ہما میاں شہباز شریف کے سر پر بیٹھا تو وہ کراچی کے دوروں پر نکلے ہوئے ہیں۔ یہ ایک خو ش آئند تبدیلی ہے کہ حکمران جماعت کو کراچی کا خیال با لآخر سوجھا لیکن یہ پیش رفت بہت دیر سے ہونے کی وجہ سے ایسے کوئی امکانات نظر نہیں آتے کہ حکمران جماعت انتخابی نشستوں کے حصول میں ایک مضبوط فریق کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔

ایم کیو ایم انتشار اور ٹو ٹ پھوٹ کے بد ترین دور سے گزر رہی ہے۔ ایم کیو ایم کو خیر باد کہہ کر کے جانے والے مصطفی کمال نے پاک سرزمین پارٹی کے نام سے الگ پارٹی بنا کر اردو بولنے والے طبقے میں اپنی جڑیں مضبوط کرنا شروع کر دی ہیں تو دوسری جانب ایم کیوایم پاکستان کا دو دھڑوں میں تقسیم ہو جانا اس پارٹی کا رہی سہی قوت کو مزید کمزور کر رہا ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان میں اس وقت دھڑے بندی گروہی اور ذاتی مفادات کی جنگ ہے جس نے ایک ایسی پارٹی کا کچھ یوں تیا پانچہ کر ڈالا کہ اب یہ ایک مضبوط فریق کی صورت کی بجائے ایک کمزور سیاسی فریق کے روپ میں ڈھلتی جا رہی ہے۔

کراچی کی سیاست سے ایم کیو ایم پاکستان کا قطعی اخراج تو اگلے انتخابات میں ممکن نہیں لیکن وہ پہلے جیسا طمطراق اور بانکپن اب قصہ ماضی ٹھہرا کہ جب اس شہر میں اس کی سیاست سامنے سب پانی بھرتے تھے۔

ایم کیو ایم کا زوال لازم تھا کہ اس شہر نے انہیں ان کے حصے سے بڑھ کا انتخابی کامیابیوں سے نوازا لیکن بدلے میں انہوں نے اس شہر کو فسادات، خون ریزی اور قتل و غارت گری کے علاوہ کچھ بھی نہ دیا۔ کراچی کی سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے یہ تو آنے والے انتخابات ہی بتائیں گے لیکن تین دھائیوں کے بعد جب انتخابات کا انعقاد خوف و جبر کی فضا سے آزاد ہوگا تو کراچی کا انتخابی مینڈیٹ بھی قطعی مختلف ہوگا جو تین دھائیوں سے دھونس اور دھاندلی کی آلائشوں میں لتھڑا ہوا ہے کیونکہ ماضی میں کراچی کے انتخابات کو فیض کی زبان مل جائے تو اس کا منظر کچھ یوں ہو گا ع

ایسا سناٹا کہ شمشانوں کی یاد آتی ہے

دل دھڑکنے کی بہت دور صدا جاتی ہے