زوال پذیر ایم کیو ایم

Malik Tanvir Ahmed
ملک تنویر احمد

زوال پذیر ایم کیو ایم

از، ملک تنویر احمد

آپ نے غالباً ’’اربعہ جوں کا توں اور کنبہ ڈوبا کیوں‘‘ کا لطیفہ سن رکھا ہوگا۔ کہتے ہیں کہ ایک کنبہ کسی دریا کو پار کرنے کی غرض سے اس کے کنارے پر کھڑا تھا۔ اس کنبے میں ایک حساب دان بھی تھا۔ کنبے کے سربراہ نے حساب دان سے کہا کہ اپنا اربعہ لگا کر دریا کی گہرائی معلوم کرو۔ حساب دان نے حساب لگایا کہ دریا کی گہرائی اوسطاً تین فٹ ہے۔ اس پر کنبہ دریا میں اتر گیا او ر اسے عبو رکرنا شروع کر دیا۔جب انہوں نے کچھ فاصلہ کر لیا تو کنبہ ڈوبنے لگا۔سربراہ نے حساب دان سے پوچھا کہ تونے کیسا حساب لگایا کہ کنبہ تو ڈوب رہا ہے۔ حساب دان نے جواب دیا،’’کنبہ ڈوبتا ہے تو ڈوبے ، میرا حساب غلط نہیں ہو سکتا‘‘۔

متحدہ قومی موومنٹ پاکستان پر یہ لطیفہ بر محل اور صادق آتا ہے فاروق ستار کی زیر سرپرستی دھڑے اور عامر خان کے دام گرفت میں جکڑے ہوئے دھڑے ایوان بالا کے انتخابات میں نشستیں جیتنے کے حساب کتاب میں اپنی ہی جماعت کی ناؤ کو ڈبو بیٹھے۔موجودہ ایم کیو ایم پاکستان کے دونوں دھڑے اپنے تئیں حساب میں بلاشبہ زیرک اور چالاک ہوں لیکن فی الحقیقت اس جماعت کا شیرازہ بکھرچکا ہے جو ایک وقت میں اپنے مضبوط تنظیمی ڈھانچے جو بلاشبہ خوف و غضب کے تاروپود سے بنا ہوا تھا میں ایک مثال تھا اب اضمحلال کی اس سطح پر ہے کہ جہاں ایوان بالا کی چند نشستوں کو جیتنے کے لیے مناسب امیدوار وں کا فیصلہ بھی ان کے لیے کسی کٹھن اورجاں گسل مرحلے سے کم نہیں۔

پر تشدد اور خون ریز ماضی سے لتھڑے ہوئے دامن کی حامل جماعت پر کیا جولانی تھی کہ سندھ کے شہری علاقوں میں اس کے سامنے کسی کو دم مارنے کی بھی اجازت نہ تھی۔اس کے قائد کے ’’منصب جلیلہ ‘‘پر متمکن شخص کی ایک صدا پر جہاں شہر کراچی سائیں سائیں کرنے لگتا تھا تو دوسری جانب اعلیٰ عہدایدران سے لے کر کارکنان تک سر نیہوڑے ’’جی بھائی، جی بھائی‘‘ کی دھیمی آوازوں میں اپنے آپ کو اس قہر و غضب سے بچنے کے کوشش میں لگے رہتے جو بھائی کی ناراضگی کی صورت پر کسی آسمانی بلا کی طرح ٹوٹ پڑتی تھی۔

جارج آرویل کے معروف عالم ناول ’’1984’’ کے بگ برادر کی طرح بھائی کی غضب نگاہیں اس پورے شہر کا محاصرہ کیے رہتیں جو ان کی راجدھانی تھی۔ شہر کے ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک ایم کیو ایم کا نام ہی قہر و غضب اور دہشت و خوف کی علامت تھا۔ اس جماعت میں تنظیمی نظم و ضبط جو بلاشبہ خوف و جبر کے بل بوتے پر قائم کیا گیا تھا ایسا مثالی تھا کہ ایران توران کے کسی باسی کو ایم کیو ایم کا ٹکٹ مل جاتا تو بلا چوں و چراں اس پر سب آمناً صدقناً کہہ دیتے اور بھلا کسی کی مجال کے اس فیصلے کے خلاف بغاوت کا ارتکاب کرنے کا خیال بھی اپنے دل و دماغ کے نہاں خانوں میں لائے۔

کراچی کے باسیوں نے اس شہر میں ایک طلبہ تنظیم سے جنم لینے والی متحدہ قومی موومنٹ کا عروج کا ایسا زمانہ دیکھا کہ کسی تصور اور وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ کبھی اس شہر میں متحدہ قومی موومنٹ ایسی زوال پذیر ہو گی کہ ایک جماعت کے کئی حصے بخرے کچھ ایسے انداز میں ہوں گے کہ بقول شاعر’’اس دل کے ٹکڑے ہزار ہوئے، کوئی یہاں گرا کوئی وہاں گرا‘‘۔متحدہ قومی موومنٹ کے پر تشدد ماضی اور اس کے بطن سے پھوٹنے والے تشدد، خون ریزی اور فسادات نے اس شہر کراچی کے دروبا م کو کیسے رنگین کیا اس

کے لیے کسی اور زبان بولنے والے لسانی گروہ کی بجائے خود اردو بولنے والے طبقے سے ہی استفسار کیا جائے تو ایسی ایسی داستان خونچکاں سماعتوں سے ٹکراتے ہوئے خون کے آنسورونے پر مجبو ر کرے گی کہ انسان کا انسانیت سے اعتبار اٹھ جائے۔ایک ایسا لسانی گروہ جس کی شناخت پاکستان بھر میں شائستگی، اخلاق، تہذیب، رکھ رکھاؤ، ادب و فنون لطیفہ کے موتیوں سے مزین تھی وہ قعر مذلت میں کچھ ایسا گرا کہ کان کٹوں، لنگڑوں، کانوں اور دادوں کی کنیت ان کے ناموں کا لازمی لاحقہ ٹھہرا۔

ایک سیاسی جماعت سے زیادہ ایک متشدد گروپ جسے مخالفین مافیا کے طور پر یاد کرتے تھے اب قوت و بازو میں اضمحلال در آنے کے باعث کسی فالج زدہ جسم کی مانند زمین بوس ہو چکا ہے۔ ایم کیو ایم بلاشبہ متوسط طبقے کی نمائندگی کا ایک ایسا مژدہ جاں فزا تھا جو جاگیرداروں، صنعت کاروں اور سرمایہ داروں کے کوچہ سیاست میں نقب لگانے میں کامیاب ٹھہری لیکن اس کی صفوں میں در آنے والے تشدد اور دہشت نے اسے انڈر ورلڈ کے کسی مافیا کی صورت میں ڈھال دیا جو کسی مخالف آواز کو بزور بازو دبانے کے علاوہ کوئی دوسرا طریقہ نہیں جانتے۔

بقول اردو اسپیکنگ طبقے کے قیام پاکستان کے بعد سے اس طبقے سے ساتھ روا رکھے جانے والے ناروا سلوک اور اس سے جنم لینے والی محرومیوں نے مہا جر نام پر سیاست کرنے والی کسی جماعت کے لیے زمین کو سازگار بنا دیا تھا جس پر ایم کیو ایم نے کچھ ایسی جڑیں پیوست کیں کہ تین عشروں تک مہاجر ووٹر کے پاس ایم کیو ایم کے علاوہ کوئی اور آپشن موجود نہ تھا۔آزادی اختلاف کے وصف سے محروم جماعتوں کے ساتھ یہی المیہ پیش آتا ہے جس سے اس وقت ایم کیو ایم گز ررہی ہے۔خوف، جبر اور دہشت کے ہتھکنڈوں سے لیس اس جماعت کے بانی کی پاکستان مخالف تقریر کے بعد جب ملک میں موجود قیادت نے ان سے علیحدگی اختیار کی تو اس کے ساتھ ساتھ قومی سلامتی کے اداروں نے اس جماعت کی صفوں میں موجود جرائم پیشہ عناصر کی بھی بیخ کنی کر کے اس عسکری ونگ کو نیست و نابود کیا جو شہر میں جبر و خوف کی فضا قائم رکھنے کا فریضہ انجام دیتا تھا۔

بلاشبہ ایم کیو ایم کو بھی پاکستان کی قومی سیاست میں بھرپو ر کردار ادا کرنے کا حق حاصل ہے لیکن ماضی میں اپنے سیاسی مخالفین کی آوازوں کو دبانے کے لیے کیا کیا ستم ڈھائے وہ داستان امیر حمزہ کی طرح نہ صرف طویل ہے بلکہ ایسی خونچکاں کہ اس کا ذکر کرتے ہوئے بھی دل میں ہول اٹھنے لگیں۔بانی متحدہ پر پاکستان میں پابندی کے بعد ایم کیو ایم پاکستان سے کراچی میں ایک صحت مندانہ اور تعمیری سیاست کی امید لگائی گئی تھی لیکن ذاتی مفادات کی اسیر قیادت کی باہمی آویزش نے اس جماعت کو مزید دو ٹکڑوں میں بانٹ دیا۔ شہر کراچی میں تین عشروں کے بعد ایک ایسی سیاسی فضا میسر آئی ہے جس میں ہر جماعت کو سیاست کرنے کی مکمل آزادی ہے۔

جہاں ایم کیو ایم کی حریف سیاسی جماعتیں عشروں بعد ایک سازگار ماحول میں ووٹرز کو اپنے جانب کھینچنے کی کوشش کریں گی وہیں پر ایم کیو ایم ایک زوال پذیر جماعت کی طرح اپنی صفوں میں بڑھتے ہوئے انتشار پر قابو پانے کی سعی لا حاصل میں مصروف ہے۔