بدھا ان ٹریفک جام Buddha in Traffic Jam فلم پر تبصرہ

بدھا ان ٹریفک جام

بدھا ان ٹریفک جام Buddha in Traffic Jam فلم پر تبصرہ

تبصرہ و تحقیق از، نعیم بیگ

A Vivek Agnihotri Movie (Based on the true life Incidents)

فلم کا انتساب:  فیض احمد فیض

چند روز اور میری جان! فقط چند ہی روز

Revolution is not a Dinner Party. MAO

یہ فلم یونیورسٹی کے ایک ترقی پسند پروفیسر (انوپم کھیر ) اور طلباء، طالبات کے درمیان مسلسل مکالمے کی صورت ہے۔ کہانی میں وہ اپنے cause کے لیے ایک ” دی پوٹرز کلب” بناتے ہیں، جس میں پروفیسر اور ان کی بیوی دونوں مل کر آرٹ اور کلچر کی دنیا سٹوڈنٹس کے درمیان آباد کرتے ہیں۔

ایک طالب علم اپنی سوچ کے تحت غریبوں کی حالت بدلنے کے لیے “دی پوٹرز کلب” کو منافع کے لیے کار و باری بنیادوں پر چلانا چاہتا ہے اور شہر کے ٹاپ کار و باری لوگوں کو دعوت دیتا ہے کہ اس میں پیسہ اِنوسٹ کیا جائے۔ اس پریزنٹیشن میں کار و باری لوگ متاثر ہو جاتے ہیں، لیکن پروفیسر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور اس کار و باری تجویز کو یک سَر رد کر دیتے ہیں۔

ان کا خیال ہے کہ یوں ہم کار و بار اور سکینڈلز میں الجھ جائیں گے، جس سے ہماری ترقی پسند اور کیمونسٹ کاز کو نقصان پہنچے گا۔

یوں پروفیسر، کامریڈ وِکرم اور پروفیسر کی بیوی کے درمیان ایک کانفلٹ پیدا ہو جاتا ہے اور اس کی بیوی نو جوان باغی کامریڈ وکرم کے ساتھ ہو  جاتی ہے۔ یوں کہانی آگے بڑھتی ہے۔

اس فلم میں ترقی پسند قوتوں اور سرمایہ داری نظام کے درمیان جو فکری تناؤ ہے، اس تناؤ کو  ریجنل اور بھارت کی ملکی سطح پر جا بہ جا مکالمے کی صورت دکھایا گیا ہے۔ بدلتے بھارت کی سوچ کو مہمیز دی گئی ہے اور نئے بھارت کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ علامت اور استعارہ وسیع ہے اور علاقائی معنویت بھی رکھتا ہے۔

فلم کے اختتام سے چند منٹ پہلے یونیورسٹی کے کلاس روم میں نو جوان باغی کامریڈ وکرم اور یونیورسٹی کے پروفیسر کا مکالمہ فلم پر از خود سیر حاصل تبصرہ ہیں۔

پروفیسر: جائن می وکرم!  میرے ساتھ آ جاؤ ، میرے سولجر بن کر۔ میں نے چُنا تھا تمہیں۔ میرا تھیسسز پہلے تمہاری سمجھ میں نہیں آیا تھا، جو پیسوں کے لیے ان لٹیروں کے خلاف ہے۔

میرا مشن اس دیش کے غریبوں کے حق کے لیے ہے۔ یہ آزادی کے لیے۔

مجھے ایکسپلین کرنے دو،  دیکھو اپنے چاروں طرف، یہاں آفیسر، کلرک، ڈاکٹر، انجنئیر، ٹریڈرز، پولیس، ایم ڈیز، وزیر، وزیر اعظم، یہاں تک کہ میڈیا اور آرٹسٹ بھی کرپٹ ہیں۔ اگر کوئی کرپٹ نہیں ہے تو وہ غریب شخص ہے جسے کرپٹ ہونے کا موقع ہی نہیں ملا ہے۔

میری اور تمہاری لڑائی اس سوچ کے خلاف ہے۔ آج ان لوگوں کی غریبی ہٹاؤ کا مطلب ہے کہ کچھ لوگوں کو مزید امیر بناؤ۔

لیڈرز رائے بناتے نہیں، بگاڑتے ہیں۔ ایک ووٹ کے لیے مسجد توڑتا ہے تو دوسرا ووٹ کے لیے مندر بناتا ہے۔ کس کا پیسہ لگ رہا ہے۔ میرا اور تمہارا

ایک غریب شخص کا۔ Incredible India کی چمک کے پیچھے کیا تمہیں ایک سول وار کی خوش بو نہیں آ رہی ہے؟

چالیس (40) فی صد بھارت ملٹری کے کنٹرول میں ہے۔ یہ ایک بڑی وار ہے ۔

یہ ایک فکنگ وار ہے، کیپٹلسٹ سٹیٹ وار اگینسٹ ہنگری اینڈ ڈیپرئیواڈ پیپل ۔

اور سنو! ایسا بھارت میں نہیں پوری دنیا میں ہے۔ نیو ورلڈ وار ۔۔۔ یہ دو دیشوں کی نہیں، زمین کے ٹکڑے کے لیے نہیں، پاور کے لیے نہیں یہ ہوری دنیا کی وار ہے۔

یہ وار “ہیو” اور “ہیوو ناٹ” کے درمیان ہے۔ یہ وار طاقت کے حصول کی وار ہے، اور اب اس فکنگ وار کو کوئی نہیں روک سکتا!

باغی کامریڈ وکرم: سے یس ٹو یور ریوولیوشن؟

وائی شڈ آئی جائن ٹو یو؟

وائی شڈ آئی سے یس ٹو یور ریوولیوشن؟  کہاں ہے آپ کا انقلاب؟ کہاں ہے آپ کی طاقت؟ کہاں ہے آپ کا انقلاب؟

(باغی کامریڈ وکرم اس موقع پر فلم کے دوران دکھائی گئی اپنی پریزنٹیشن کی ایک سلائیڈ پروفیسر کو  اپنے ٹیب پر دکھاتا ہے جو در اصل بزنس پروپوزل ہوتی ہے جس میں “دی پوٹرز کلب” جو انہوں نے مل کر بنایا ہوتا ہے اس کی بڑھوتری کی پروپوزل ہے۔)

آپ نے کتنے غریبوں کو غریبوں کے نام پر مارا ہے؟ پروفیسر؟

ان غریبوں کو آپ کا ریوولیوشن اور بندوقیں نہیں چاہییں۔ انہیں بزنس اور پیسہ چاہیے۔ یہ ہی نئے بھارت کی نئی سوچ۔

نو مڈل مین۔ یہ نیا بھارت ہے۔ یہ ہے وہ خفیہ جنگ جو ہم لڑ رہے ہیں آپ نہیں، کامریڈ پروفیسر۔

About نعیم بیگ 145 Articles
ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار اور دانش ور، نعیم بیگ، مارچ ۱۹۵۲ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ گُوجراں والا اور لاہور کے کالجوں میں زیرِ تعلیم رہنے کے بعد بلوچستان یونی ورسٹی سے گریجویشن اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۷۵ میں بینکاری کے شعبہ میں قدم رکھا۔ لاہور سے وائس پریذیڈنٹ اور ڈپٹی جنرل مینیجر کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے ایک طویل عرصہ بیرون ملک گزارا، جہاں بینکاری اور انجینئرنگ مینجمنٹ کے شعبوں میں بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ نعیم بیگ کو ہمیشہ ادب سے گہرا لگاؤ رہا اور وہ جزو وقتی لکھاری کے طور پر ہَمہ وقت مختلف اخبارات اور جرائد میں اردو اور انگریزی میں مضامین لکھتے رہے۔ نعیم بیگ کئی ایک عالمی ادارے بَہ شمول، عالمی رائٹرز گِلڈ اور ہیومن رائٹس واچ کے ممبر ہیں۔