صحافت کے حجرِ روشن کو بوسہ یا سیاہ رات کی پوجا؟

Waris Raza

صحافت کے حجرِ روشن کو بوسہ یا سیاہ رات کی پوجا؟

از، وارث رضا 

آپ کی نگارشات، رائے اور اپنے مؤقف کو جان دار بنانے کے لیے مانگے تانگے کے خطوط اور رائے کا استعمال، اس بات کا غماز تو ضرور ہے کہ آپ ایک خاص ذہن اور سوچ کے ساتھ موجودہ صحافتی حالات کو دیکھتے ہیں۔ ہم آپ کی رائے کی قدر کرتے ہیں مگر ضروری نہیں کہ اتفاق کیا جائے۔

دوم کہ یہ آپ کا حسنِ ظن ہے کہ آپ ہم ایسے سڑک چھاپ دوستوں کو بھی گھاس ڈال دیتے ہیں وگرنہ ہم اس قابل کہاں۔ سوم کے آپ کی تمام دلیل اور دوسرے جرنیلی اشرافیہ افراد کی کمک اور رائے بھی آپ کے مؤقف میں کوئی ٹھوس پن نہ لا سکی وگرنہ ہم بھی آپ کے ہم رکاب ہوتے۔

چہارم کہ آپ کی کمک اور رائے سے یہ بات تو آپ نے مستند کروا ہی دی کہ آپ ملک میں لوٹ کھسوٹ، دھونس دھاندلی اور عوام کی آواز کو طاقت اور غیر آئینی ہتھ کنڈوں سےدبانے والی جرنیلی اشرافیہ کے شدید تر غلام ہونے کی کوشش کر رہے ہیں اور مکمل یوتھیا فورس میں اپنی واضح جگہ بنانا چاہتے ہیں، اب جرنیلی اشرافیہ کے بد عنوان اور عمران غلام کے یوتھیے آپ کو قبول کرتے ہیں یا نہیں۔ یہ شاید ابھی انہوں نے طے نہیں کیا وگرنہ آپ نے بد عنوان جرنیلی اشرافیہ اور غلام عمران کے اَردلی بننے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔

آپ اور آپ کے ہم نوا تو جرنیلی اشرافیائی غلامی میں اس قدر آگے بڑھ گئے کہ آپ نے صحافت کے بنیادی اصول یعنی ریاست کی کم زوریاں عیاں کرنے کے نُقطۂِ نظر کو بھی ذہن میں نہ رکھا اور ملک کو اس کساد بازاری اور بد عنوانی کے دہانے پر پہنچانے والی جرنیلی اشرافیہ کی ایسی قدم بوسی کی ہے کہ حیرت بھی آپ کے حسنِ ظن پر شرمندہ سی گھوم رہی ہے۔

آپ تو جرنیلی غلامی میں یہ تک بھول بیٹھے کہ آپ بلڈی سویلین ہیں جن کی جد و جہد سے ملک آزاد ہوا اور آپ ایسوں کے بڑوں کی جد و جہد سے صحافت نے اپنا کردار بنایا تھا۔ آپ تو جرنیلی اشرافیہ کی قدم بوسی میں ایسے لیٹے ہوئے ہیں کہ جب تک وہ آپ کو ٹھڈے نہیں ماریں گے آپ نے اور آپ کے ہم نواؤں نے ان کے قدم نہیں چھوڑنا۔

بالکل اسی طرح جس طرح فوجی سیاسی بی ٹیم جماعتِ اسلامی جنرل ضیاء کے قدموں میں لوٹی اور آخرِ کار جماعتِ اسلامی نے صحافتی یک جِہتی کو تاراج کیا اور ایک مضبوط صحافتی تنظیم کو حصوں میں بانٹا جب کہ بچا کُچھا کام ایم کیو ایم نے کیا اور اب اس صحافت کی لہولہان تحریک کو مکمل ختم کرنے کا کام آپ کے ہم نوا عمران غلام کے ذریعے کروایا جا رہا ہے۔

آپ اور آپ کے ہم نوائوں کو اپنی رائے رکھنے کا مکمل اختیار ہے اور یہ آپ کا حق تسلیم شدہ بھی ہے مگر آپ اور آپ کے ہم نوا یہ حق دوسروں کا بھی تسلیم کریں اور اس دوران کم از کم کسی بھی جانب سے حقائق کو فراموش نہیں رکھا جانا چاہیے۔

کیا آپ میاں افتخار الدین، چراغ حسن حسرت، منہاج برنا اور ساتھیوں کی خدمات اور صحافتی تحریک میں قربانیوں کو فراموش کر دیں گے؟ یا آپ اور آپ کے ہم نوا نہیں جانتے کہ عوامی جد و جہد ذریعے برٹش آرمی سے ملک آزاد کروانے والی عوام نے آزاد ریاست کس وجہ سے بنائی تھی؟

جب کہ آج کے جنرل کی پشتین ساری زندگی برٹش امپائر کے بوٹ پالش کرتی رہیں اور تحریکِ پاکستان کے وقت موجودہ جرنیلی اشرافیہ کے بڑے ہمارے عوام اور اکابرین کی مخبریاں کرتے رہے اور برٹش امپائر سے سندیں حاصل کرتے رہے؟ اور اب یہی جرنیلی اشرافیہ آج بھی عوام کو حقیر جان کر عوامی جد و جہد سے حاصل کی گئی ریاست پر بَہ زورِ بندوق قابض ہے۔ اور بندوق کی طاقت سے سماج اور ریاست کے سب سے مضبوط ستون صحافت کا گلہ دبانے کے لیے آپ ایسوں سمیت نو جوانوں میں غلط بیانیہ دے رہی ہے تا کہ صحافت میں بھی مکمل آپ ایسے شاہ دولہ کے چوہے لائے جائیں۔

کیا آپ نہیں جانتے کہ میاں افتخار اور روشن خیال صحافیوں نے تن من دھن کی بازی لگا کر صحافت کی قدر و منزلت اور وقار کو بڑھانا چاہا تو اس وقت انہی جرنیلی اشرافیہ نے امروز، انجام، حریت اور پاکستان ٹائمز ایسے روشن سوچ صحافت کے اخبارات کے مقابل بندوق کی طاقت اور سہارے پر میر خلیل الرحمن اور دیگر کو آگے کیا تا کہ عوام میں جرنیلی بیانیے کی ہاہاکار ہو۔

میر خلیل سے لے کر نظامی، الطاف قریشی، جنرل مجیب نے صحافت کا گلہ گھونٹنے میں جرنیلی اشرافیہ کا ساتھ دیا۔ آج جرنیلی اشرافیہ کا نوازا ہوا بچہ جنگ گروپ یا ان کے مالکان یا کوئی اور اگر جرنیلی اشرافیہ کے بیانیے کو مکمل کرنے میں ان کی مرضی و منشاء پر نہیں چل رہے تو آج جنگ گروپ سے جرنیلی اشرافیہ اور ان کا غلام عمران اور آپ ایسے خوش نہیں۔

کیا صحافتی تنظیموں کو کم زور کرنے میں میر خلیل، یا میر شکیل کا ساتھ جرنیلی اشرافیہ نے نہیں دیا؟

کیا جرنیلی اشرافیہ کے کہنے پر چینل اور اخبارات کے مالکان نے آپ سمیت ہزاروں صحافیوں کو بے روز گار نہیں کیا؟

کیا جرنیلی اشرافیہ اگر چاہے تو صحافیوں کی تنخواہیں مالکان روک سکتے ہیں؟ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ ان مراعت یافتہ مالکان کی گرفتاری یا احتساب دکھا کر مزید صاحب روز گار صحافیوں کو بے روز گار کیا جائے؟ اور پھر ان مالکان کو نواز کر پلاٹس اور ٹھیکے دے کر جرنیلی اشرافیہ اپنا ملک دشمن اور عوام دشمن بیانیہ چلانے واسطے چند شاہ دولہ کے چوہوں کو صحافی بنائے اور  اپنا کام نکالے۔

بھاڑ میں جائیں مالکان اخبارات اور چینل۔ ان کے ٹھیکے، ان کے تعلقات اور ان کی دولت۔ سوال یہ ہے کہ ہم اس بے تکی بحث میں پڑ کر کیا صحافتی تنظیموں کو متحد کر رہے ہیں، یا انہیں مزید تقسیم کرنے کی طرف جا رہے ہیں۔ کیا صحافی کو جرنیلی اشرافیہ کے غلامانہ ذہن کو قبول کرنا ہے یا ہمیں تحریر و تقریر یا اظہارِ رائے سے نسلوں کے ذہنوں میں کشادہ سوچ پیدا کرنی ہے؟

مجھے یا آپ کو کسی اخبار یا چینل سے سو اختلاف ہو سکتے ہیں مگر خبر کی حقانیت اور اس کو درست پیش کرنے سے ہم قطعی طور پر انکار نہیں کر سکتے۔ اور نہ ہی ہم یہ چاہیں گے کہ جو بھی اظہارِ رائے کی آزادی ہو اس کو مزید سلب کیا جائے۔ کیا آپ اس بات کو درست عمل سمجھتے ہیں کہ جنگ گروپ میں یا کسی بھی ادارے میں ہمارے باقی ماندہ صحافی دوست بے روز گار اور معاشی پریشانیوں کا شکار ہوں؟

کیا آپ کی نظر میں کسی کے بھی اظہار یا نُقطۂِ نظر پر پابندی لگائی جا سکتی ہے؟ ہر گز نہیں۔ تو پھر کیا جرنیلی اشرافیہ اور غلام عمران کا جیو نیوز چینل کو ملک بھر میں بند کرنا، یا اس پر ہتھ گولے کرنا درست عمل ہے؟ قطعی  نہیں۔

آپ اسے کسی طور درست نہیں کہہ سکتے۔ البتہ اس سارے جرنیلی اشرافیہ اور مالکان کے کھیل میں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ یہ سب مل کر محنت کش صحافیوں کا معاشی استحصال چاہتے ہیں اور ایک ایسی صحافت چاہتے ہیں جس کے چاروں طرف خوف کی باڑ لگا دی جائے۔ کیا آپ کو ایسی مستقبل کی صحافت قبول ہے۔

مجھے تو کسی قیمت پر جرنیلی اشرافیہ اور چینل مالکان کے استحصال سے لبریز صحافت قبول نہیں… تو پھر… آئیے نا سب مل کر جیو نیوز پر پا بندی کے ساتھ تمام دوستوں کے معاشی اور صحافی حقوق کا مل کر متحد ہو کر دفاع کریں اور تمام نا راض یا رُوٹھے ہوؤں کو منا کر صحافت کی ایک ایسی منڈلی بنائیں جس کی مضبوط قدروں کو جرنیلی اشرافیہ حکومت یا مالکان نہ ہلا سکیں اور نہ توڑ سکیں۔ یہ سب سوچنے سمجھنے اور آپس کے اتحاد سے ہی ممکن ہے۔ شاید کہ ترے دل میں اتر جائے مری بات۔

About وارث رضا 36 Articles
وارث رضا کراچی میں مقیم سینئر صحافی ہیں۔ ملک میں چلنے والی مختلف زمینی سیاسی و صحافتی تحریکوں میں توانا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ پاکستان کا مستقبل عوام کے ہاتھوں میں دیکھنا ان کی جد وجہد کا مِحور رہا ہے۔