یہ تقریب تو تیرے اعزاز میں تھی؟ میلے میں ٹھیلا

آدم شیر
آدم شیر

یہ تقریب تو تیرے اعزاز میں تھی؟ میلے میں ٹھیلا

از، آدم شیر

ہسپانوی طرز تعمیر سے متاثر ہو کر بنائی گئی وسیع و عریض عمارت میں ادبی میلہ ہو رہا تھا۔ یہاں کئی ہال تعمیر کئے گئے ہیں ۔ باغیچے ہیں اور دھوپ سینکنے کے لئے پتھریلے بنچ بھی نصب کئے گئے ہیں۔ کھانے پینے کا بندوبست ہے مگر پیسے اپنے اپنے۔ ناچ گانا ہوتا ہے اور مصوری کی نمائشیں ہوتی رہتی ہیں۔ کبھی کبھار ادیبوں کا اکٹھ بھی ہو جاتا ہے جیسے اب ہوا تھا۔ میلے کا افتتاح وزیراعظم نے کیا تھا اور ’سرخ فیتہ ‘کاٹنے کے اوقات میں حفاظتی اقدامات کے نام پر داخلی دروازے بند کر دیئے گئے تھے جس کے باعث سڑک پر لوگ چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں بٹے گپ شپ لگا رہے تھے۔ ان لوگوں میں ادب کے شائقین ہی نہیں بلکہ کاملین بھی شامل تھے اور مَیں ان میں سے چند معروف چہروں کو حیرانی سے تک رہا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سڑک پر شائقین کی تعداد کافی ہونے کے باوجود محافظین سے کم معلوم دے رہی تھی۔ ابھی میں حیرانی کے سمندر میں غوطہ زن کچھ تلاش رہا تھا کہ ایک دو ایسی ہستیاں بھی مل گئیں جن کا شمار قانون سازوں میں ہوتا تھا۔ انہیں دیکھ کر میں مزید گہرائی میں چلا گیا اور گھنٹہ بھر یونہی ہاتھ پیر مارتا رہا لیکن کچھ بھی حاصل کئے بغیرسطح پر ابھر آیا جبھی داخلے کی اجازت ملی۔ عمارت کے اندر بھی بڑی رونق تھی اور خوشی ہوئی کہ اس میلے کا حال چند مہینے پہلے یہیں ہوئے ٹھیلے جیسا نہیں جس کے شرکاء وہ زبان بولتے تھے جو اس ہجوم جسے زندہ قوم کہا جاتا ہے، کے حواس پر بے طرح سوار رہتی ہے اور سنبھالی پھر بھی نہیں جاتی۔

اُس ادبی میلہ میں مجھے اپنا آپ اجنبی معلوم دے رہا تھا۔چست پتلونیں اور بغیر بازو کے تنگ قمیصیں پہنے مہ جبینیں یوں ٹہل رہی تھیں کہ ان کے اعضاء کے ساتھ ساتھ میرے سانس بے ترتیبی سے اوپر نیچے ہو رہے تھے۔ ان میں سے چند ایک ہونٹوں میں سگریٹ دابے چھوٹے چھوٹے کش لے لے کر دھواں نکالنے کے لئے اچھے بھلے چہروں کو بگاڑ رہی تھیں۔ ٹو پیس اور تھری پیس میں پیک مرد اور فیشنی لڑکے جن میں سے اکثر کے چہروں پر نخوت اورکپڑوں پر دولت کی چھاپ تھی، بغلوں میں ہرنیاں لئے پھر رہے تھے اور میں ڈھیلی پتلون کے ساتھ بوسیدہ قمیص ٹانکے ، جس کی جیب رفو کی گئی تھی، بچ بچ کے چل رہا تھا کہ کہیں ٹکر نہ ہو جائے مگر میری آنکھیں گھوم رہی تھیں کہ ایک ہی وقت میں اتنا کچھ دیکھنے کو مل رہا تھا جو اندر اندر ہی سدا سلگنے والی چنگاری کو زور زور سے ہوا دے رہا تھا۔ میں جان بوجھ کر ایسی جگہوں پر ٹھہرتا گو بے چینی بھی ہوتی لیکن جیسے ہی دوسری طرف کوئی اپنے جیسا نظر آتا، میرے چہرے پر جز وقتی اطمینان کی کچھ لہریں ابھرتیں اور جلد ہی لوٹ جاتیں وہیں ، جہاں سے آتی تھیں۔
کیا ادبی میلہ تھا کہ ٹیلی کام سے لے کر تیار خوراک اور مختلف اقسام کے مشروبات کے شعبے سے وابستہ بڑے بڑے اداروں کے سٹال بھی لگے ہوئے تھے جن کے گرد کتب کے لئے مختص میزوں سے زیادہ رش تھا۔ اس سب سے گزر کر میں نے دو اجلاسوں میں شرکت بھی کی تھی جن میں سے ایک میں، جو حالات حاضرہ پر مبنی تھا، دو باریش افراد نے سوال جواب شروع ہونے پر مائیک لے کر مقررین کی زبان میں ہی اپنی اپنی رائے پیش کی تھی جو ہال میں موجود اکثریت نے سننے کی بجائے ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ اڑا دی کیونکہ وہ ان افراد کی طرح غیر ہی تھیں مگر حیرانی ہوئی کہ مقررین اور ناظم بھی آداب محفل سے بے بہرہ تھے یا شاید ان کی طرح ان کے قواعد بھی اور تھے۔

اِس میلہ میں بھی اجنبیت کا احساس موجود تھا مگر نہ ہونے کا برابر۔ یہاں بہتوں کے ملبوسات مختلف ہونے کے باوجود ایک سے تھے گو چند کے مکھڑے اور کپڑے ویسے ہی تھے جیسے اُس میلہ کے شرکاء کے تھے مگر اکثریت کے چہروں پر وہ چمک نہیں تھی جو جیبیں بھری ہونے سے آتی ہے اور زبان وہی بولی جا رہی تھی جو میری اپنی ہے۔ مجھے یہاں کئی شناسا ملے جبکہ کچھ سے میری شناسائی بھی ہوئی جن میں سے ایک تو گلابی رنگت والا جرمن پروفیسر تھا جو تصوف پر مضمون سنانے آیا تھا مگر گلے میں خصوصی مندوب کا کارڈ لٹکائے ہر ہال میں اپنے اجلاس کا پتا کر رہا تھا اور کوئی اسے یہ بتانے والا نہ تھا کہ اس نے کہاں اور کب مضمون پڑھنا ہے جبکہ اسی وقت اس سے دس بارہ فٹ کے فاصلے پر چہرے پر میک اپ کی ایک ایک انچ موٹی تہہ چڑھائے مٹیالے رنگ کی دراز قد خاتون جو ادب سے متعلقہ ایک ادارے کی سربراہ تھی، چھ چھ سرکاری ملازموں کو اپنے پیچھے پیچھے گھماتے ہوئے حکم نامے جاری کئے جا رہی تھی اور ہزاروں میل کا سفر طے کر کے دعوت پر آنے والا پروفیسر اپنی بات سنانے کے لئے تن تنہا مارا مارا پھر رہا تھا۔

جرمن پروفیسر اکیلا ہی ایسا نہ تھا، اور بھی کئی استاد ادبا، جن کی سنجیدہ تحریریں لکھتے لکھتے انگلیاں گھس چکی تھیں مگر اب تک گوشہ گمنامی میں زندگی گزار رہے تھے،تناؤ بھری جبینوں کے نیچے تیکھی نظروں کے ساتھ میلہ دیکھ رہے تھے جبکہ ٹی وی کے ذریعے مشہور ہونے والے ہاتھوں ہاتھ لئے جا رہے تھے ۔ کئی ان کے ساتھ تصویریں اتروا رہے تھے تاکہ بعد میں ان کی مشہوری کی چھاپ سے خود بھی فائدہ اٹھا سکیں اور کئی کتابیں ہاتھوں میں تھامے آٹو گراف لے رہے تھے۔ جب کوئی ان ادیبوں میں سے کسی سے ہاتھ ملاتا جو تعلقات بنانے میں ناکام رہے ، ان کے چہروں پر عجب توانائی کی لہریں ابھرتیں جو ممنونیت سے بھری ہوتی تھیں۔ نوجوان طالب علم انہیں دور سے دیکھتے اور اندازے لگاتے کہ یہ بھلا کونسے ادیب ہیں؟ ملنے کے قابل بھی ہیں کہ نہیں؟ لیکن میں جس ادیب سے ایک منٹ کے لئے ملا، وہ بہت دور جا چکاہے ۔ اس کے ساتھ چند لمحوں کے لئے ملنا ایک یاد بن گیا ہے اور یادیں اداس ہی کرتی ہیں۔

جب میں اس ہال میں داخل ہوا جہاں میری خودساختہ ملاقات اس بلند قامت ادیب سے ہوئی تھی، کوئی کرسی خالی نہیں تھی۔ کچھ نوجوان قالین سے ڈھکی سیڑھیوں پر بیٹھے ہوئے تھے، میں نے بھی ان کے ساتھ جگہ بنالی۔ سٹیج پر سات کرسیاں تھیں جن میں سے درمیان والی پر بیٹھے بزرگ ادیب اجلاس کی صدارت کر رہے تھے اور ان کے ساتھ والی کرسی کافی دیر خالی نظر آئی مگر بعد میں ایک اور خاتون وہاں بیٹھی ہوئی تھی۔ باقی نشستیں بھی نامی گرامی اصحاب نے سنبھال رکھی تھیں جبکہ ایک ادیب جو اجلاس کی نظامت بھی کر رہے تھے، دائیں ہاتھ سے مائیک تھامے حاضرین سے خیالات کا تبادلہ کر رہا تھا۔ اس نے عہدِ حاضر کے تناظر میں اسی ادیب، جس سے ایک یاد وابستہ ہے، کے فن پر ایسی ایسی باتیں کیں کہ جی خوش ہو گیا۔ اس کے بعد ایک نقاد نے کتابی اصطلاحات کا اندھا دھند استعمال کیا جو ہال میں بیٹھے اکثر لوگوں کے سروں کے اوپر سے گزر کر پچھلے دروازے سے باہر نکل گئیں لیکن حاضرین نے مقالے کے اختتام پر تالیاں خوب خوب پیٹ کر دقیق علمی اصطلاحات سے اپنی واقفیت اور سمجھ بوجھ کی سند پیش کی۔

اس کے بعد ایک اور نقاد کو دعوتِ اظہارِ خیال دی گئی، وہ کچھ کاغذات کی ترتیب لگاتے ہوئے کرسی سے اٹھے اور ڈائس کو ہو لئے۔ اسی اثناء میں وہ لمبا ترنگا ادیب ہال کے داخلی دروازے سے اندر آیا جہاں سے دائیں ہاتھ سٹیج کو سیڑھیاں جاتی تھیں اور بائیں ہاتھ حاضرین کی نشستیں تھیں۔ اس نے ایک نظر ہال میں بیٹھے لوگوں پر ڈالی اور دوسری سٹیج پر موجود کرسیوں اور ان پربراجمان اکابرین کی نذر کی ۔ پھر سر کو تھوڑا اور اٹھا کر سٹیج کے پیچھے دیوار پر آویزاں بینر دیکھا جس پر ان تین ادبا کے نام لکھے ہوئے تھے جن کی فنی خدمات کے اعتراف میں یہ جلسہ ہو رہا تھا، ان میں اس کا نام بھی شامل تھا۔

وہ اپنے نام کو دیکھے جا رہا تھا اور میں اس سے کچھ فٹ کے فاصلے پر سیڑھیوں پر بیٹھا اسے تک رہا تھا کہ وہ کمر پر دونوں ہاتھ ٹکائے کسی مددگار کا منتظر تھا لیکن کوئی نہ آیا۔ سٹیج سے نہ ہال میں سے کوئی اٹھا۔ اس وقت وہ مجھے کوئی بہت بڑا ادیب نہیں لگ رہا تھا بلکہ ملائی جیسی رنگت والی ڈھیلی ڈھالی پتلون قمیص میں ملبوس ایک نادار بوڑھا معلوم دے رہا تھا جس کی پیشانی وقت کے تھپیڑوں نے کشادہ کر دی تھی اور باقی بچے بال شاید خضاب کے استعمال سے دو رنگے نظر آتے تھے جیسے اس کی مونچھیں کناروں سے سفید اور درمیان میں سیاہی مائل بھوری لگ رہی تھیں۔ داڑھی کا بھی یہی حال تھا کہ ٹھوری کے پاس چاندی کے تار لگتے تھے اور قلموں کے قریب کالے بالوں کا شبہ ہوتا تھا۔ وہ اپنا وزن کبھی ایک ٹانگ اور کبھی دوسری پر منتقل کر رہا تھا۔ مجھے دور سے محسوس ہو رہا تھا کہ کمزور ٹانگیں زیادہ دیر لاغر وجود سہار نہیں سکیں گی اور ایسا ہی ہوا کہ اس نے کمر سے ہاتھ ہٹا کر سٹیج پر جما لئے۔

وہ قریباً پانچ منٹ سے وہیں کھڑا تھا اور ڈائس پر موجود مقرر اس کی کہانیوں سے رنگ برنگے پھول چن چن کر دکھا رہا تھا مگر میری نگاہیں اس کی زبان سے زیادہ متحرک تھیں۔ جب میری آنکھیں تھک گئیں تو میں چپکے سے اٹھا اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا۔
’’آئیں، آپ کو سٹیج پر چڑھا دوں۔‘‘
’’نہیں۔ رہنے دو۔ میں یہیں ٹھیک ہوں۔ ‘‘
’’لگ تو نہیں رہے۔‘‘ اتنا کہہ کر میں دروازے کی طرف بڑھا جہاں سے ایک انتظامی کارکن عین اسی وقت اندر آ رہا تھا۔ میں نے اسے بزرگ ادیب کے متعلق بتایا تو اس نے کندھے اچکائے کہ ’’ میں کیا کر سکتا ہوں۔‘‘ درخواست کی کہ ’’اور کچھ نہیں تو ایک کرسی کا ہی بندوبست کر دو۔ بزرگ آدمی ہے۔ کہاں اتنی دیر کھڑا رہ پائے گا۔ گر جائے گا۔‘‘بھلا ہو اس بھلے آدمی کا کہ جلدی سے باہر گیا اور کہیں سے ایک بوسیدہ کرسی اٹھا لایا جو وہیں سٹیج کی سیڑھیوں کے پاس رکھ دی گئی۔ اسے بیٹھتے دیکھ کر میں نے وہیں کھڑے کھڑے خود سے پوچھا، ’’کیا یہ وہی ہے جس کی کہانی لاکھوں لوگ پڑھ چکے ہیں اور کئی زبانوں میں بھی منتقل ہو چکی ہے؟ جو ادارہ یہ ادبی میلہ کرا رہا ہے، اس کا سربراہ تو اس ادیب کا دوست بھی مانا جاتا ہے جس پر بات کہنے اور سننے کے لئے لوگ جمع ہوئے ہیں توپھر یہ کیا ہے؟ یہ فیض کی مایا ہے یا جہالت کی چھایا کہ گنوار بن بیٹھے ہیں عالموں کے چچا تایا؟‘‘ میں اور نجانے کیا کیا خود سے پوچھتا رہتا کہ کسی نے مجھے کندھے سے ہلا کر راستہ دینے کے لئے کہا اور میں چپ چاپ سیڑھیوں پر جا بیٹھا۔

مقرر اب ساحر بن چکا تھا جس کے منہ سے نکلنے والے جادوئی شبد ہوا کے دوش پر ہر کسی کو مدہوش کئے جا رہے تھے سوائے میرے کہ کنپٹیاں دُکھ رہی تھیں اور جی چاہتا تھا کہ کچھ دیر کو ہر طرف اتنی خاموشی ہو جائے جتنی موت کے سے سناٹے میں ہوتی ہے تاکہ میں وہ سن سکوں جو کہا نہیں جا رہا اور وہ دیکھ پاؤں جو منظر نامے میں موجود نہیں مگر ہر امر کب آپ کی مرضی کے مطابق واقع ہوتا ہے۔ اس بزرگ ادیب کو بھی شاید یہ سمجھ تھی جبھی تو چپکے سے کرسی پر چند منٹ بیٹھا رہا اور پھر سٹیج کا سہارا لے کر اٹھا ۔ اس نے گھوم کر ایک نظر پیچھے دیکھا اور باہر نکل گیا۔ اس کے یوں تکنے سے نجانے کیا اثر ہوا کہ میں بھی پیروی میں اٹھ کر گھومامگر مجھے کچھ دکھائی نہیں دیا۔ سٹیج پر بیٹھے اکابرین کو دیکھا اور اس بار بھی کچھ نظر نہ آیا۔ ڈائس کی طرف نگاہ کی تو خالی لوٹ آئی۔ دیوار پر آویزاں بینر پر نام پڑھے جو مٹ رہے تھے اور میں ہال سے باہر آ گیا تاکہ اسے دیکھ سکوں جو کہیں دور جا چکا تھا۔

1 Comment

Comments are closed.