جمعیتِ علمائے اسلام  کا مارچ اور لبرل سرٹیفکیٹ کی ضرورت

احمد علی کاظمی

جمعیتِ علمائے اسلام کا مارچ اور لبرل سرٹیفکیٹ کی ضرورت

دو ہزار چودہ کے دھرنے اور 2019 کے مارچ میں فرق کیا ہے اور اگر وہ غلط تھا تو یہ بھی غلط کیوں نہیں ہے؟ فرق یہ ہے کہ 2014 میں سینسر شپ اور مارشل لا نہیں لگا ہوا تھا۔

 دو ہزار چودہ کا دھرنا جنرل راحیل شریف اور جنرل ظہیر الاسلام نے منعقد کروایا تھا۔ حوالدار میڈیا کی بھر پُور حمایت حاصل تھی۔ دھرنا ان جماعتوں نے دیا جن کا تاریخی کردار جمہوریت مخالف رہا ہے۔ دھرنے کا بنیادی مقصد ملک میں فوجی سیاسی کردار کو نئی بلندیوں تک لے جانا اور استحکام دلانا تھا۔ پانچ سالہ تاریخ بتاتی ہے کہ فوج نے یہ مقاصد مکمل طور پر حاصل کیے۔ خود دھرنے کے دوران سارا زور ایمپائر کی انگلی پر تھا اور ایک سو چھبیس دن کے دھرنے میں فوجی سیاسی کردار کے خلاف، یا سویلین سُپرَیمیسی کے حق میں ایک جملہ بھی ادا نہیں ہوا۔

حالیہ مارچ کے تحریری مطالبات میں سویلین سُپرَیمیسی اور فوج کے سیاسی اور انتخاب میں کردار کا خاتمہ شامل ہے:  نہ تو حوالدار میڈیا یہ مارچ دکھا رہا ہے، نہ ہی جنرل صاحب کی سپورٹ اسے حاصل ہے۔ دھرنے کے موضوعات سینسرشپ کا خاتمہ، ملک میں جاری خلافِ آئین و قانون، فوجی و عدالتی احتساب پر تنقید اور فوج کے انتخابی عمل میں شمولیت پر شدید مذمت ہیں۔

جے یو آئی کے صنفی شمولیت بے زار، اقلیت مخالف اور مذہبی ریاست کے بیانیے غلط ہیں اور اس پر دلائل قائم کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس پر ہمیشہ سے روشن خیال حلقے تنقید کرتے رہے ہیں، اور آئندہ بھی کریں گے۔ تاہم حالیہ احتجاجی مارچ فوجی اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے پر استوار ہے اور اس کی حمایت کر لینے سے لبرلزم کے سرٹیفکیٹ پر کوئی اثر نہیں پڑتا کیوں کہ سیاسی حق انتخاب ایک لبرل cause ہے۔

ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ اگر مولانا فضل الرحمٰن سونے کے بن کر بھی آ جائیں تو وہ انہیں قبول نہ کرے۔ تاہم ایسے کٹّر سیاسی تعصب کی بنا پر اکثر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت متاثر ہو جاتی ہے۔

از، احمد علی کاظمی