بھئی اتوار مبارک ہو

Jameel Khan aik Rozan writer
جمیل خان، صاحبِ مضمون

اتوار مبارک

جمیل خان

کچھ وقت پہلے ایک وڈیو دیکھی، جو واٹس ایپ پر کسی نے فارورڈ کی تھی، اس وڈیو میں ایک خونخوار و خوار قسم کے کوئی مولوی حضرت ارشاد فرما رہے تھے کہ نواز شریف محض اس لیے ذلت اُٹھارہا ہے اور اس پر فردِ جُرم عائد ہوئی ہے، کہ اس نے جمعہ شریف کی چھٹی ترک کرکے اتوار کو ہفتہ وار تعطیل کا آغاز کیا۔

ہم صرف یہ دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ کیا مسلمانوں کے کسی بزرگ، قطب الاقطاب، غوث دستگیر، پیرانِ پیر، شہنشاہِ ہفت اقلیم، قلندر، ولی، مفتی، حافظ، یا علامہ نے ہفتہ وار تعطیل کی اختراع متعارف کرائی تھی….؟

یاد رہے کہ کالونیل نظام سے قبل جب مسلمان خود اپنے اپنے خطوں پر شہنشاہیت شہنشایت اور ظلّ الہٰی ظلّ الہٰی وغیرہ کھیل رہے تھے، تب تو غلامی کا بدترین نظام رائج تھا۔

غلاموں اور لونڈیوں کی خرید و فروخت منڈیوں میں مویشیوں کی مانند ہوا کرتی تھی، جہاں انہیں مادر زاد برہنہ خریداروں کے سامنے پیش کیا جاتا تھا، اور وہ ان غلاموں اور لونڈیوں کے جسم کو اچھی طرح ٹٹول کر معائنہ کرنے کے بعد ہی دام لگایا کرتے تھے۔

غلاموں اور کنیزوں کی زندگی کے ہر قسم کے فیصلے ان کے آقا کیا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ ان کی جنسی زندگی کے بارے میں بھی…. آقا اپنے غلاموں یا لونڈیوں کے ساتھ ناصرف جنسی تعلق قائم کرنے میں آزاد تھا، بلکہ اپنے دوستوں کو بھی فیض یاب کروا سکتا تھا۔

بعض جگہ تو مشقت کے کاموں سے اس وقت ہی رخصت ملا کرتی تھی، جب غلام یا کنیز کا جسم مزید مشقت کے قابل نہیں رہتا تھا۔ پھر زندہ رہنے بھر کی غذا دے کر جانوروں کے اصطبل سے بھی بدتر جگہوں پر انہیں سونے کے لیے دھکیل دیا جاتا تھا۔

معمولی معمولی سی غلطیوں پر ایسی اذیت ناک سزائیں دی جاتی تھیں کہ آج کا انسان ان کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ ہفتہ وار تعطیل اور چوبیس گھنٹوں میں اوقاتِ کار کا تعین بھی غیرمسلموں کی جدوجہد اور قربانیوں کا نتیجہ ہے۔

وہ تمام لوگ جو اس جدوجہد میں شریک رہے اور ان میں سے بہت سوں نے تو اپنی جانوں کے نذرانے بھی اس سلسلے میں پیش کیے، وہ انسانیت کے محسن ہیں، انہی کا فیض ہے کہ ہم آج ہفتہ وار تعطیل اور دن میں آٹھ گھنٹے کام کے اصول سے مستفید ہورہے ہیں۔ چنانچہ ہمارے نزدیک تو اتوار ہی تعطیل کے لیے مبارک ہے۔

مولوی خونخوار ہو، خوار ہو، یا شیرخوار و حلوہ خوار ہو، اسے معاشرے سے دور رکھنا ضروری ہے، اس لیے کہ وہ جب بھی کچھ بولتا ہے، خیر شاذ ہی پھیلتی ہے۔

مذکورہ خونخوار مولوی صاحب کے علم میں نہیں کہ جمعہ شریف کی تعطیل کا حکم تو قرآن میں بھی نہیں ہے، اور اس میں بھی فرمایا گیا ہے کہ نمازِ جمعہ کے بعد اللہ کی زمین پر رزق کے حصول کے لیے پھیل جاؤ۔ سرکاری ملازمین تو اس پھیلنے سے شاید یہ مُراد لیتے ہیں کہ نمازِ جمعہ کے بعد دفتر میں حاضر ہونے کے بجائے اپنے اپنے گھروں کو چلے جاؤ، یعنی شہر میں پھیل جاؤ۔