معصوم نجات دہندہ

معصوم رضوی

معصوم نجات دہندہ

از، معصوم رضوی

چنگیز خان کے جانشین ہلاکو کے لشکر نے بغداد کا محاصرہ کر رکھا تھا، 50 ہزار فوجی سرد ترین موسم میں عباسی سلطنت کے در پر کھڑے تھے، ایسے میں خلیفہ مستعصم باللہ کے دربار میں یہ اللہ کی قدرت پر بحث جاری تھی کہ سوئی کے ناکے سے بیک وقت کتنے اونٹ گزر سکتے ہیں۔ اس بحث کے نتائج تو آج بھی نہ نکل سکے ہاں مگر یہ ہوا کہ ہلاکو کی خوں آشام فوج نے اسلامی سلطنت کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔ خواہشات، خوش فہمی و خوش خیالی کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، تعبیر کبھی خواب اور خواہشات کی محتاج نہیں رہیں۔ حقیقت یہ ہےکہ مجھے خواہشات اور خوش فہمی سے نہیں بلکہ حد سے زیادہ خود اعتمادی سے خوف آتا ہے، عوام تحریک انصاف کو نجات دہندہ کے روپ میں دیکھتے ہیں، مگر کب تک؟

سب کو پتہ ہے کہ اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ معیشت ہے، کنٹینر سے لیکر انتخابی مہم تک تحریک انصاف نے کرپشن کا خوب ڈھول پیٹا، دھڑلے سے ایسے وعدے کیے کہ بس حکومت آتے ہی ہر جانب خوشحالی اور ترقی کا ڈنکا بج رہا ہو گا۔ حکومت آتے ہی اربوں ڈالر وطن واپس، غیر ملکی سرمایہ کاروں کی قطاریں، تعلیم، صحت اور امن عامہ کے مسائل چٹکیوں میں حل ہو جائینگے۔ نیک نیت اور پاکباز قائدین ہر مشکل مرحلہ لمحوں میں طے کرینگے، پوری دنیا میں پاکستان کی ترقی کی مثال دی جائیگی۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے بھی بڑی غیر حقیقی توقعات وابستہ کی گئی تھیں۔ میری بات پر یقین نہ ہوں تو ذرا زحمت کریں، سوشل میڈیا پر عمران خان اور انکے ساتھیوں کی تقاریر اور انٹرویوز دیکھ ڈالیں، بہت نادر و نایاب خزانہ ملیگا۔ میری دانست میں تحریک انصاف تھیوری اور پریکٹیکل کے فرق کو شاید ابتک نہیں سمجھ پائی، یہ فرق اتنا ہی ہوتا ہے جتنا خواب اور تعبیر میں، جانے پہلی محبت کا سرور ہے کا خمار، اترنے کا نام ہی نہیں لیتا۔

جناب اس وقت معاشی صورت حال یہ ہے کہ گزشتہ 8 ماہ میں شرح نمو 5۔3 فیصد ہے جو کہ پہلے 9۔5 فیصد ہوا کرتی تھی، اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق خطے میں ہم صرف افغانستان سے اوپر ہیں، بھارت، نیپال، سری لنکا، بنگلہ دیش اور مالدیپ سے بھی نیچے، مہنگائی کی شرح 4۔9 فیصد کو جا پہنچی ہے، صرف گزشتہ ماہ کے دوران مہنگائی میں 2۔1 فیصد اضافہ ہوا ہے، ماشااللہ اس حوالے سے ہم بلامقابلہ خطے میں پہلی پوزیشن پر ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب ڈالر، بجلی، پیٹرول، گیس مہنگی ہو گی تو مہنگائی کے جن کو کس طرح قابو میں رکھا جا سکتا ہے۔ عالمی قرضوں پر خودکشی کرنے جیسے اعلانات کے باوجود گزشتہ 8 مہینوں میں 3400 ارب روپے کا قرضہ لیا جا چکا ہے، الحمداللہ ابھی آئی ایم ایف کا در دستک کا منتظر ہے۔ اس صورتحال میں جب عوام مہنگائی کے بوجھ تلے پستے اور معاشی اہداف دور ہوتے جا رہے ہیں، بڑھتی پیداواری لاگت کے باعث غیر ملکی تو درکنار ملکی سرمایہ کار ہاتھ روک کر بیٹھے ہیں۔ ماہران معشیت چیخ چیخ کر نااہلی کی دہائی دے رہے ہیں، عالمی اقتصادی اداروں کے اعداد و شمار ہولناک داستان بیان کر رہے ہیں، تحریک انصاف کا اطمینان اور غیر سنجیدگی قابل رشک ہےاور حد سے بڑھی خود اعتمادی یقینی طور پر کہیں خوفناک ہے۔

بہرحال اتنا برا وقت کبھی نہ آیا تھا کہ وزیر خزانہ ملک کے دیوالیہ ہونیکا اعتراف کریں اور اگر اپوزیشن اعداد و شمار سے واضح کریں تو اسے مناظرے کا چیلنج دیں۔ اس خوفناک صورتحال میں اسد عمر صاحب فرماتے ہیں کہ مہنگائی تو فقط طلب و رسد کا معاملہ ہے، یقین جانیں ایڈم اسمتھ کی روح اس انکشاف پر موصوف کو دعائیں دیتی ہو گی۔ چونکہ اسد عمر صاحب قوم کے جہل کو بھی بخوبی جانتے ہیں لہذا مثالیں دیکر سمجھاتے ہیں کہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے ایلیویٹر پر نہ چڑھیں تو پوڑیاں چڑھنی پڑتی ہیں، رمضان آتے ہی کیلے اور امرود کی طلب بڑھ جاتی ہے تو قیمت بھی بڑھ جاتی ہے۔ اب آپ ہی فرمائیے اسے کیا کہا جائے۔ وزیر پیٹرولیم فرماتے ہیں پیٹرول پر 11 روپے اضافے کی سفارش ہوئی تھی، شکر کریں صرف 6 روپے بڑھایا ہے بقول غالب

حیراں ہو دل کو روئوں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں

خیر عوام کی اوقات نوحہ گر رکھنے کی کہاں، اب تو آنکھوں کے آنسو بھی خشک ہو چکے ہیں۔ نجات دہندگی کے نوحہ خوانوں نے اپنی پوری توجہ کرپشن پر مرکوز کر رکھی ہے، معشیت، خارجہ امور، عوامی مسائل، امن عامہ یہ سب کچھ تو چلتا رہیگا مگر بدعنوان سیاستدانوں کو انجام تک پہنچانا فرض اولین ہے۔ نیب کا جادو جلد یا بدیر، تمامتر اختلافات کے باوجود اپوزیشن کو متحد کرنے کا کارنامہ انجام دینے والا ہے۔ وفاقی و صوبائی وزرا آستینیں چڑھائے، منہ سے جھاگ نکالتے حزب اختلاف کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔ اب بھلا یہ کون سوچے کے چھ ووٹوں کے بل پر قانون سازی کیسے کی جائیگی، فوجی عدالتوں کی مدت ختم، جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کا وعدہ اور دیگر اہم امور قانون سازی کے متقاضی ہیں جو اپوزیشن کے بغیر ممکن نہیں، مگر یہ سب کون سوچے۔ بعض اوقات تو یہ لگتا ہے کہ عمران خان اور انکے ساتھی اب تک کنٹینر سے نہیں اترے۔ ہر ادارے کو دائرے میں رہنے کی تلقین کرنیوالے اب ہر دائرے سے آزاد کیوں ہیں، اخلاقیات کا درس دینے والے وزرا دشنام طرازی اور جگتوں سے جان کیوں نہیں چھڑا سکے۔ آسمان سے چاند ستارے لانے کا دعویٰ کرنے والی تحریک انصاف معاشی بحران پر قابو پانے میں ناکام کیوں نظر آتی ہے۔ میری سمجھ میں صرف یہ نہیں آتا کہ نیب غیر جانبدار ادارہ ہے، عدالتیں آزاد ہیں، حکومت ایماندار ہے، تو نیب اور عدالتوں کو اپنا کام کرنے دیں، پوری کابینہ کی ساری قوت بدعنواں سیاستدانوں کے خلاف دشنام طرازی کرنے کے بجائے اپنی اپنی وزارتوں کو بھی تھوڑا سنجیدہ لے لیں، کچھ کام کر لیں، کچھ کارکردگی دکھا دیں تاکہ عوام کو کچھ ریلیف ملک سکے، دکھوں کا کچھ مداوا ہو سکے۔ عوام کو اب بھی تحریک انصاف کی قیادت سے امید وابستہ ہے مگر کیا یہ ضروری ہے کہ پوری حکومت کرپشن کی سوئی کے ناکے سے اونٹ نکالنے پر لگی رہے؟

عالمی سیاسی نقشے پر تیزی سے تبدیلیاں ہو رہی ہیں، خطے میں معاشی و عسکری ترجیحات تبدیل ہو رہی ہیں۔ بھارت کی جارحیت ایک ٹھوس حقیقت کی شکل میں موجود ہے، مودی سرکار کسی بھی وقت کہیں بھی کارروائی کر سکتی ہے۔ امریکہ افغانستان سے نکل رہا ہے سو اب اسے پاکستان کی زیادہ ضرورت نہیں، طالبان کی زیر قیادت افغانستان میں داعشی عفریت کسی بھی وقت انگڑائی لے سکتا ہے۔ سعودی عرب سے بڑھتی قربت، ایران بھارت کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھا رہا ہے۔ چین کی سرحد محفوظ ہے مگر سی پیک میں سست پیش رفت لمحہ فکریہ ہے۔ اتنے سارے اندرونی اور بیرونی مسائل میں گھرے ملک کے نجات دہندوں کی معصومیت پر ترس بھی آتا ہے مگر تحریک انصاف کی اصل جنگ خود اپنے آپ سے ہے۔ مشرقی اور مغربی محاذ غیر محفوظ مگر اس وقت پاکستان کو سب سے بڑا خطرہ معاشی محاذ پر ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ایماندار ناتجربہ کار حکومت کارامد ہوتی ہے یا بے ایمان تجربہ کار حکومت۔