چہ بد کرداری ای چرخ؟

Naseer Ahmed, the writer

چہ بد کرداری ای چرخ؟

کہانی از، نصیر احمد

میں اوشا سی جوتی ریکھا۔
سالی پوری ہندنی ہے، احساس محرومی کی ماری ہوئی، اوپر سے نخرا تو دیکھو، جٹا دھاریوں پہ مہربان ہو جائے گی لیکن ہمیں نہیں دے گی۔ لیکن اسے اگر نیچے نہیں لٹایا تو حاشر میرا نام نہیں۔

پرستو کی پوسٹ پڑھ کر حاشر بڑبڑایا۔ پرستو کچھ بھی لکھتی حاشر نے گری ہوئی بات ہی کہنی تھی۔ وہ بس شہدا، سفلہ، اوچھا، جوشیلا سا چچھورا تھا اور اسے اپنی کمینگی کو کسی کائناتی مقصد سے مطابقت پیدا کرنے کا ہنر آتا تھا۔ اس نے اپنی طاقت کی بنیاد قانون اخلاقیات اور انسانیت کی مکمل معطلی پر رکھی تھی اور جس بات کی وہ ٹھان لے کسی نے کسی طور سے وہ کر لیتا تھا۔ وہ ان لوگوں میں سے تھا جو کچھ بھی کر سکتے تھے اور جنھیں ہر وقت جھگڑا، شور اور ہنگامہ چاہیے ہوتا تھا کہ وہ نہ اپنے آپ سے ملاقات کر سکیں نہ کسی اور سے۔ ایسی ملاقات جس میں کچھ سچی باتیں ہو سکیں۔پھر اس نے ایسی بہت سی فلمیں دیکھی تھیں جن میں لڑکا لڑکی کا غرور توڑ کر اسے اپنا اسیر کر لیتا تھا۔ ان فلموں میں لڑکا لڑکی کو غنڈوں سے بھی بچاتا تھا مگر اس بات کو وہ فلمی سمجھتا تھا لیکن لڑکی کا غرور توڑنا اس کا مشن تھا۔ لیکن پرستو کا غرور نہیں ٹوٹ رہا تھا جس کی وجہ سے وہ بہت جھنجھلایا سا رہتا تھا اور جب بھی پرستو ایسی کوئی بات اپنے آن لائن پیج پر پوسٹ کرتی، وہ گالیوں کے تعفن میں ڈوب جاتا۔

جس دن پرستو نے مایا اینجلو کی وہ نظم پوسٹ کی تھی جس میں مایا بیدار ہوتی خواتین کے اعتماد کی تصویر کشی کرتی ہیں کہ چاہے لفظ لفظ خدنگ کر لو اور آنکھیں خنجر اور نخوت سے مجھے قتل کرو مگر میں نے تو آگے بڑھنا ہے اس دن تو حاشر نے دانت پیسے، چائے کا کپ دیوار پر دے مارا اور میز پر پڑے ہوئے کاغذ چبائے اور مایا اینجلو کو ان کے رنگ کے حوالے سے گالیاں دیں۔ اب اس کا کیا کریں ہمارے تو ایک وزیر اعظم بھی تھے جو ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی وزیر خارجہ کے رنگ کے بارے میں گھٹیا گفتگو کرنے لگے تھے کہ انھوں نے ان کی شاہد بازی کے بارے میں کچھ سچی بتا دیں تھیں اور وہ شہید وزیر اعظم مشرقی پاکستانیوں کو جلسوں میں گالیاں دینے لگے تھے۔

پرستو نہ ہوتی توحاشر کو شاید یہ علم ہی نہ ہوتا کہ مایا اینجلو کون ہیں مگر پرستو کے ہونے سے بھی اور مایا سے آگاہی کے با وجود کوئی فرق نہیں پڑا کیوں کہ حاشر کی خواتین سے دشمنی بہت بڑھی ہوئی تھی۔اور جس معاشرے میں وہ رہتا تھا اس میں اسے خواتین دشمنی کے حوالے سے بہت حمایت مل جاتی تھی۔ جس کی وجہ سے اس کا حوصلہ بڑھتا رہتا تھا۔ وہ خود کو ایک ایسا جہادی سمجھنے لگا تھا جو خواتین کو مغربی اور ہندوانہ ثقافت کی فحاشی اختیار کرنے پر ان کو سبق سکھا رہا تھا۔

اب ریپ میں نیکی کے کون سے اسباق ہوتے ہیں مگر ایک عظیم مقصد کے لیے اگر کچھ لوگ اپنی غلطیوں کے نتیجے میں تکلیف سے گزریں تو اس میں کیا برائی ہے؟ وہ ایسے ہی سوچتا تھا اور اس سوچ کی معاشرے میں کچھ لوگ حمایت کرتے تھے۔

ایسے میں اس کا کام بہت آسان ہو جاتا اور لڑکیوں کی زندگیاں برباد ہوتی رہتیں۔ ویسے بھی سسٹم بھی کچھ ایسا ہی تھا جس میں ایک عظیم مقصد کےنام پر زندگیاں برباد ہوتی رہتی تھیں اور حاشر سسٹم کا بندہ تھا اس نے اپنی خواہشات کو سسٹم سے ہم آہنگ کر لیا تھا۔لیکن سسٹم کی حمایت کے باوجود پرستو اس کے قابو میں نہیں آ رہی تھی۔

وہ ایک پولیس افسر تھا اور لوگوں کو توڑنا اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ بس کیا کہیں معاشرے میں نفسیاتی تشدد کا ایک طریقہ رائج تھا جس میں انسان ہونا ہی کمزوری تھی اور ایک اچھا انسان ہونا تو جیسے ایک المیہ تھا۔وہ گرین مائلز مووی کے جان کوفی والی بات کہ مجرم دونوں بہنوں کو بے دردی سے قتل کرنے میں اس لیے کامیاب ہوا کہ وہ ایک دوسرے سے محبت کرتی تھیں۔ اگر کوئی کسی سے محبت کرتا، کوئی کسی کی عزت کرتا دکھائی دیتا تو باہمی مفادات کے ارد گرد ایسی ایسی سازشیں ترتیب دی جاتیں کہ محبوب کے چہرے پر تیزاب پھینک دیا جاتا اور معزز کو سر عام رسوا کر دیا جاتا اور سازشی حاشر کی طرح جنھوں نے اپنی طاقت کی بنیاد قانون، اخلاقیات اور انسانیت کی معطلی پر رکھی ہوتی حسب موقع کبھی قہقہے لگاتے پائے جاتے، کبھی زیر لب مسکراتے اور کبھی گرتی ہوئی قدروں کے نوحے پڑھتے پائے جاتے۔

زندگی سے متعلق ہر اچھی چیز آسانی سے عذاب میں تبدیل کر جاتی۔ اگر صلاحیتیں شہر کی خدمت میں وقف ہوتیں تو باصلاحیت کو معاشرے کا مردود کرنا حاشر جیسے لوگوں کے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ اگر دولت کے ساتھ کچھ خوبیاں منسلک ہو جاتیں تو جب تک دولت سے وہ خوبیاں ہٹتی نہیں تب تک سازشیوں کو چین نہیں پڑتا تھا۔ اور حاشر ان سب سازشوں کا ماہر تھا مگر پرستو اس کے قابو میں نہیں آ رہی تھی جس کی وجہ سے وہ جھنجھلایا سا رہتا۔

اس نے سالوں پرستو کو تنگ کیا۔ بس یوں سمجھیے کہ پرستو کے ہاں زندگی مونا لیزا کے تبسم جیسی تھی اور حاشر ۔۔ اب کیا کہیں کہ ناگوار باتیں کہنا اچھا نہیں لگتا مگر حاشر نے پوری کوشش کی پرستو کے ہاں جو زندگی ہے وہ متعفن ہو جائے۔

پرستو ایک اخبار میں خواتین کے صفحے کی مدیر تھی اور کبھی کبھار اس اخبار میں اس کے اپنے آرٹیکل بھی چھپتے رہتے اور جب پرستو کا کوئی مضمون چھپتا تو حاشر ایک لشکر لے کر اس مضمون پر حملہ آور ہو جاتا۔ فاحشائیں مغربی ثقافت کو فروغ دے رہی ہیں۔ اپنے معاشرے کی تفہیم ہی نہیں ہے۔ ہم ایسے لوگ نہیں جن کی لڑکیاں بے باک ہیں۔ اس طرح کی بے شمار باتیں۔ اسے امید تھی کہ ایک دن پرستو روتی ہوئی اس سے معافی مانگے گی یا کسی ذریعے سے مہربانی کی امیدوار ہو گی مگر پرستو نے اس کی باتوں کو کچھ اہمیت نہیں دی۔

پرستو کسی غریب میں کوئی خامی دیکھتی تو حاشر اور اس کے لشکر کے نزدیک وہ سنگ دل لاڈلی ہوتی جس نے غریبی دیکھی ہی نہیں۔ اور اگر کسی امیر میں کوئی خرابی دیکھتی تو حاشر مارکس کا چولا اتار کر شکاگو سکول کا حمایتی بن جاتا اور پرستو کو کوسنے لگتا کہ بجپن کی غربت کے نتیجے میں پرستو کا احساس محرومی نہیں جا رہا ورنہ اگر امیر نہیں ہوں گے تو دولت کیسے بنے گی۔ کچھ باتیں ٹھیک بھی ہوتیں مگر حاشر کا ٹھیک غلط سے کوئی ناتا نہیں تھا وہ تو پرستو کو توڑ رہا تھا اور پرستو ٹوٹ نہیں رہی تھی،جس کی وجہ سے وہ جھنجھلایا سا رہتا۔
اب حاشر کی پستی کوئی انتہا نہیں تھی۔ اس نے پرستو کو گندی تصویریں تک بھیجیں۔

اپنی جنسی فتوحات کی تٖفصیلات بتائیں۔ بینکوں میں پڑی اپنی دولت کی نمائش کی۔ بڑے بڑے لوگوں کے ساتھ کھنچوائی تصویریں بھیجیں۔ پرستو کے بارے میں افواہیں پھیلائیں کہ یہ تو سیکس کے لیے ہمہ وقت تیار رہتی ہے مگر میں اسے پوچھتا ہی نہیں۔

مگر پرستو نے میرےعلاوہ کسی سے اس کا ذکر نہیں کیا۔
حاشر نے طرح طرح کی دفعات بھی سوچیں کہ کسی طور پرستو کسی مقدمے میں پھنس جائے مگر پرستو کی خاموشی اور دوسرے پرستو کے سلسلوں کا بھی اسے کچھ خوف تھا جس کی وجہ سے وہ ان سکیموں پر عمل کرنے کی ہمت نہ کر پایا ۔بہرحال پرستو کا معاشرتی مقام اس سے کچھ بہتر تھا، پھر وہ صحافی تھی اور اگر وہ کسی قسم کا ڈراما شروع کرتی تو حاشر کے لیے کچھ مشکل ہو جاتی اس لیے اس نے نفسیاتی تشدد تک ہی خود کو محدود رکھا مگر نفسیاتی تشدد کام نہیں کر رہا تھا۔ اور پرستو قابو میں نہیں آ رہی تھی۔
اور وہ گھناؤنی سازشیں سوچنے لگا تھا۔
پرستو کا برا حال تھا۔ ایک دن میں نے پرستو سے کہا کہ یہ کچرا سے لوگ ایسے تو باز نہیں آتے ، کچھ نہ کچھ تو کرنا پڑتا ہے۔
پرستو کہنے لگی
ہراسانی سے نمٹنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ انسان کی دنیا خوف، واہموں، شک، غصے، غم اور ذہنی اذیت سے بھر جاتی ہے۔ اگر آپ اچھی خاتون ہیں تو ایک حاشر تو نہیں ہوتا بس ڈگری کے فرق سے ارد گرد حاشر جیسے بہت سارے پائے جاتے ہیں جو آپ کو آپ کی خوبیوں کی وجہ سے تکلیف دے رہے ہوتے ہیں اور ایک لغزش کو بنیاد بنا کر آپ سے محبت، عزت، شہرت، دولت یہاں تک زندگی بھی چھین لیتے ہیں۔ اور کوئی آپ کو تنگ کر رہا ہے تو جس سے مدد چاہیں گی اس کے ذہن میں بھی کچھ نہ کچھ خراج ہوتا ہی ہے۔ اور کبھی کبھار سعد سلمان کے شعر کی طرح دست بہ دست دوش بہ دوش خراج دیتے دیتے زندگی برباد ہو جاتی ہے۔
میں نے کہا
یار پرستو، ایسے ہوتا ہے مگر تم اتنی مجبور نہیں ہو مگر یہ خاموشی جو تم نے اختیار کی ہوئی ہے اس کے نتیجے میں ہو جاو گی یا اس مسلسل ذہنی دباؤ کے تحت خود کشی کر لو گی۔ ۔قانون، انسانیت اور اخلاقیات کی معطلی بنیادی طور پر ایک بزدلانہ فعل ہے۔ایسے کیسز ہیں جہاں پر اس بزدلی کی بہت سماجی حمایت ہے اور گٹھ بندھن کے ایسے سلسلے ہیں کہ آدمی کچھ نہیں کر پاتا اور خاموشی ہی اس کا دفاع بن جاتی ہے مگر تمھارے کیس میں تھوڑی سی جارحیت اور بہت سی سچائی تمھارے لیے معاملات آسان کر سکتی ہے۔ اس لیے غمزدہ شاعری کے بجائے چند کراری گالیوں کا سہارا لو اور یہ مصیبت تمھارے سر سے ٹل جائے گی۔
پرستو نے کہا
اور اگر بات بگڑ گئی۔
میں نے کہا
نہیں بگڑے گی، محبت نہیں ہے تو نہیں بگڑے گی۔ بددیانت درمیانے وہ سب نہیں کھونا چاہتے جس کی بنیاد پر وہ معاشرے کو بلیک میل کرتے ہیں۔اگر تمھیں اس سے محبت ہوتی تو مشکل ہوتا کہ محبت کا بددیانت درمیانے بدترین استحصال کرتے ہیں۔ تمھارے کیس میں محبت کا نہ ہونا ایک نعمت ہے اس لیے اس سے کہو کہ کل کا تمھارا مضمون اس کی کمینگی کے بارے میں ہو گا۔ ڈرو نہیں، کچھ الٹا سیدھا ہو گیا تو پھر دوست کس لیے ہوتے ہیں۔یہ بھی اچھا ہے کہ مجھے تم سے محبت نہیں ہے، اگر ہوتی تو قریبی سے قریبی آدمی ذاتی مفاد کو بیچ میں لا کر تمھارے انسانی حقوق معطل کر دیتا۔ اور میں تمھاری کوئی مدد نہیں کر پاتا۔ ایک سے تھی اور وہ بہت بری طرح بلیک میل ہو رہی تھی۔ اسے چھڑانے کے لیے ایک دوست سے مدد مانگی، شام کو فون پر فون آنے لگے کہ کن چکروں میں پڑ گئے ہو اور کچھ اور سوچنا پڑا۔
پرستو نے کہا
تو محبت کا نہ ہونا کتنی بڑی نعمت ہے۔
اگر یہ قصہ اسی بات پر میں ختم کر دوں تو ادب میں طنز کے تقاضے پورے ہو جاتے ہیں مگر میں کون سا ادیب ہوں جس نے ادیبوں کی داد ضرور لینی ہے۔ اس لیے میں نے پرستو سے کہا
اچھا ہے ناں، ان ڈرے ہوئے والدین کی کیفیت تم اب بہتر سمجھ سکتی ہو اپنی بالغ اولاد کو عاشقی سے روکتے رہتے ہیں۔ لیکن اگر اس بات کو وسیع تناظر میں دیکھا جائے قانون، انسانیت اور اخلاقیات کی معطلی سے محبت ہی تو معطل ہوتی ہے۔ بہ ہر حال تم اس کمینے سے مت ڈرو۔

پرستو نے میری بات مان لی اور حاشر کو جب اپنی نوکری خطرے میں نظر آئی تو اسے اس بات کا اعتراف کرنا پڑ گیا کہ اگر چِہ وہ انسانی خوبیوں کی معطلی کا شاہ کار ہے مگر زندگی پیچیدہ ہے اور کبھی کبھار کوئی پرستو جیسی بھی سامنے آ جاتی ہے جو نہیں ٹوٹتی۔ ہاں وہ خواتین سے اب بھی شدید نفرت کرتا ہے اور لڑکیوں کی زندگیاں برباد ہو رہی ہیں۔ آپ اسے اور اس جیسے بے شمار مردوں اور عورتوں کو روک سکتے ہیں اگر آپ محبت، قانون، اخلاقیات، جمہوریت اور انسانیت کی معطلی سے معاشرتی حمایت کے سلسلے توڑنے کی ہمت کر لیں۔