اردو کا مزاح مستقبل کے کیسے مرد بنانا چاہتا ہے

Yasser Chattha
یاسر چٹھہ

اردو کا مزاح مستقبل کے کیسے مرد بنانا چاہتا ہے؟

از، یاسر چٹھہ 

آج گھر میں بچوں کو اردو کی کتاب پڑھنے کا شوق آیا۔

کہا، چند ہفتے قبل آپ کے سکول میں بُک فئیر ہوا تھا۔ وہاں سے جو کتابیں آپ نے خود لیں تھیں، ان میں سے ایک لے آئیں۔

خوشی تھی کہ بچوں کو ‘مقامی سرکاری’ زبان اور ‘نافذ کردہ’ اور پرورش پا کر بڑا ہو چکا lingua franca پڑھنے کی کچھ رغبت ہوئی۔ اس معاشرے میں رہنا ہے تو اردو تو آنی چاہیے۔

(لیکن اپنی سوچ یہی ہے کہ کوئی زبان اور اس کی ادبی و ثقافتی مصنوعات اپنے پڑھنے دیکھنے والوں کی صورت گری خود اپنی شکل صورت اور چہرے مُہرے پر کرتی ہیں۔)

یہ لطیفوں کی کتاب تھی۔ بچوں کے لیے تھی۔ زبان کی سطح کو بچوں کی سطح پر لانا، ان کی ذمے داری نہیں تھی۔ یہ بات کتاب کے جملوں کی ساخت سے واضح تھا۔

اب مندرجات کی بات کرتے ہیں۔

بتایا ہے کہ لطیفے تھے؛ لیکن لطیفے اسی طرح کے تھے جیسے اردو کے نام ور مزاح دان ادیب وغیرہ لکھتے ہیں۔ ظاہر ہے وہ جیسا سوچتے ہیں، آس پاس ویسا ہی لکھتے ہیں۔

جب وہ ایسا لکھتے ہیں تو انھیں پڑھنے والے بھی ان صفحوں میں پیش کردہ سب سماجی حقائق کو فطری اور حتمی صداقت مانتے ہیں۔

اس انداز کی ‘لکھنے اور پڑھنے’ پر جب سوال قائم کرو تو لِکَھت استاد اور پڑھت شاگرد یہی سمجھتے ہیں اور بولتے ہیں کہ بھئی کیا بات کرتے ہو۔ بس ‘یہی ہے’ اور ‘یہی

ہوتا ہے’۔

اس کتاب کا پہلا صفحہ ہی پڑھا تو بچوں کے لیے ظرافت گیری کے لیے ‘نشانے’ سکھانے اور سُدھانے کی ‘ترںیت’ کا سامان موجود تھا۔ بھلے آپ نا راض ہوں، یا راضی بہ رضا جو سمجھ آتا ہے سمجھیے، مجھے آپ کو ا، ب نہیں سکھانی، نہ میرا یہ منصب ہے۔

البتہ یہ ضرور کہوں گا کہ کل کو یہی ذوقِ ظرافت اگلی نسل کو منتقل ہو گا۔ یہ اگلی نسل جب کسی گزرتے وقت کی ‘موجود نسل’ بنے گی تو وہ یہی کہے گی:

اردو میں تو مزاح کی یہی روایت ہے!

یہ راقم سوچتا ہے کہ اردو کے طنز و مزاح کے ادب میں اردو سپیکنگ اور اردو پڑھنے والا ‘شوہر’ کیسا ‘کاغذی مرد’ (papier mache) ہے، جس پر افسانوی عورت ظلم ڈھاتی رہتی ہے۔

 یہ شوہر اتنا ہی کاغذی رہتا ہے جب تک کہ یہ کسی بڑی عمر کی ماں کا بڑا سا بیٹا نہیں بن جاتا۔ تب اس کے بچوں کی ماں کے بکری بننے کا موقع آ جاتا ہے۔ اردو مزاح میں عورت بکرے کی ماں کا کردار پاتی ہے۔ یہی اردو کی متعفّن ظرافتی روایت کی اوسط ہے۔

اپنے بیٹے فریدون کو فوراً کہا، پُتّر جی بھلے آپ نے خود ایسی کتاب خریدی، لیکن اسے بھاڑ میں جھونکیے، مجھے آپ کو مستقبل کا ایسا گھٹیا مرد نہیں بنانا جیسا مرد اردو کا طنز و مزاح کا ادب اسے گھڑتا ہے اور جیسا وہ اس گھڑے گدھے کو پیش کرتا ہے، اور جیسا وہ اس مزاح میں عورت کو پیش کرتا ہے۔

About یاسرچٹھہ 240 Articles
اسلام آباد میں ایک کالج کے شعبۂِ انگریزی سے منسلک ہیں۔ بین الاقوامی شاعری کو اردو کےقالب میں ڈھالنے سے تھوڑا شغف ہے۔ "بائیں" اور "دائیں"، ہر دو ہاتھوں اور آنکھوں سے لکھنے اور دیکھنے کا کام لے لیتے ہیں۔ اپنے ارد گرد برپا ہونے والے تماشائے اہلِ کرم اور رُلتے ہوئے سماج و معاشرت کے مردودوں کی حالت دیکھ کر محض ہونٹ نہیں بھینچتے بَل کہ لفظوں کے ہاتھ پیٹتے ہیں۔