ہیرانی کے پاس ایسا کیا ہنر ہے؟

Khizer Hayat
خضرحیات

ہیرانی کے پاس ایسا کیا ہنر ہے؟

از، خضرحیات

سنجو، راج کمار ہیرانی کی بنائی ہوئی بھارتی فلم ہے جو بالی وُڈ کے ‘بیڈ بوائے’ سنجے دت کی زندگی کے کچھ پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے۔ فلم دُنیا بھر میں 29 جون کو ریلیز ہوئی ہے اور اب تک 150 کروڑ سے زیادہ پیسے کما چکی ہے۔ فلم کیسی ہے؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ہیرانی فارمولا

فلم بنانے میں راج کمار ہیرانی کا ایک خاص فارمولا ہے جو ان کی ہر فلم کو بھرپور بنا دیتا ہے؛ وہی فارمولا یہاں بھی کام کرتا دکھائی دیتا ہے۔

مزاحیہ اور جذباتی مناظر کی مدد سے کہی گئی کہانی دیکھنے والوں کے دل میں اترتی چلی جاتی ہے۔ بھلے کچھ مواقع پہ دماغ اپنا اعتراض پیش بھی کر دے، مگر اس وقت تک کہانی دلوں پر مکمل طور پر چھا چکی ہوتی ہے اور دماغ کی طرف سے اٹھائے گئے تمام اعتراضات خفیف تر دکھائی دینے لگتے ہیں۔

یہ ہنر ہیرانی کو ہی آتا ہے کہ ایک ہی سین میں معیاری مزاح ڈال کر آپ کو ہنسا ہنسا کے لوٹ پوٹ بھی کر دے اور اسی سین میں کچھ جذباتی صورتِ حال ڈال کر آپ کو آنسو بہانے پر بھی مجبور کر دے۔

راج کمار ہیرانی بنیادی طور پر ایک فلم ایڈیٹر ہے اور اس نے جو کچھ سیکھا ہے وہ یہی ہے کہ فلم کے مختلف مناظر جب وہ فلم بند ہو جائیں انہیں جوڑ جاڑ کے اس طرح کی ایک تصویر مکمل کی جائے جیسی ڈائریکٹر کے دماغ میں چل رہی ہوتی ہے۔

یہی مناظر جوڑ کر تصویریں پوری کرتے کرتے ہیرانی کو ایک دن خیال آیا کہ میں بھی کچھ مناظر کو فلماؤں اور بعد میں انہیں اپنے ہاتھ سے جوڑوں۔ ذہن تو پہلے دن سے ہی تخلیقی تھا اور اب جو اس میں نئی ترنگ اٹھی تو توقع کی جا سکتی تھی کہ یہ غیر معمولی ہی ہو گی۔

چُناں چِہ ‘منا بھائی ایم بی بی ایس’ ہمارے سامنے آئی جس میں سنجے دت اور سنیل دت دونوں باپ بیٹے کے کرداروں میں نظر آتے ہیں اور یہی وہ فلم ہے جو سنجے دت کو مکمل طور پر ایک مختلف روپ میں پیش کرتی ہے۔ کہانی کہنے کا انداز اس قدر مختلف اور اس قدر دل چسپ تھا کہ راجو اس ایک ہی فلم سے ایک معتبر فلم ساز تسلیم کر  لیے گئے۔

وقت آگے بڑھتا رہا اور راجو کو بھی اپنے ساتھ پختگی بانٹتا رہا۔ اور پھر لگے رہو منا بھائی، تھری ایڈیئٹس اور پی کے جیسی شاہ کار پکچرز بھارتی فلم انڈسٹری کی تاریخ میں نئے ابواب کھولتی نظر آئیں۔ دنیا نے تسلیم کیا کہ راجو کا سنیما باقی سب سے ہٹ کر ہے۔ اس نے جو موضوعات اپنے  لیے چنے انہیں فلمانا آسان کام نہیں تھا مگر جب وہ ہمارے سامنے آئے تو ہم حیران رہ گئے کہ جس کمال کے ساتھ ان موضوعات کو برتا گیا ہے شاید ہی کوئی دوسری کوشش ایسی کارگر ثابت ہو سکے۔

کہانی

سنجے دت کے حوالے سے راج کمار ہیرانی کہتے ہیں کہ میں الفاظ میں نہیں بیان کر سکتا کہ سنجو میرے  لیے کیا ہے۔ بس آپ یہ دیکھ لیں کہ میں نے آج تک پانچ فلمیں بنائی ہیں جن میں سے تین فلموں میں وہ خود ہے اور اب چوتھی اس کے اوپر بنائی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ میں آج جس مقام پر کھڑا ہوں وہ سنجو کی وجہ سے ہی ہے۔

اب سنجو سے اس قدر محبت کرنے والا شخص جب اس کی زندگی پر فلم بنائے گا تو ظاہر ہے وہ اس میں بھی اپنی بے پناہ محبت کا اظہار کرتا ہوا ہی نظر آئے گا اور اپنی محترم ہستی کی ذات پر اٹھنے والے سوالات کا جواب دیتا نظر آئے گا۔

چُناں چِہ ایسا ہی ہوا ہے اور سنجو میں سنجے دت کی زندگی میں پیش آنے والے بڑے بڑے واقعات کو سنجے دت کی آنکھوں سے دکھانے کی کوشش کی گئی ہے اور وہ تمام مُتنازِع باتیں جو سنجے دت کے حوالے سے بازار دنیا میں گھومتی رہتی ہیں ان میں سنجے دت کا ورژن شامل کیا گیا ہے۔


مزید دیکھیے: فلم پی کے میں کھویا ہوا بھگوان


بنیادی طور پر یہ فلم سنجے دت کی پوری زندگی کا احاطہ نہیں کرتی۔ اسے دیکھ کر آپ کو سنجے دت کی اسٹارڈم کا بالکل پتا نہیں چلے گا، نہ ہی اس میں یہ دکھایا گیا ہے کہ سنجے دت کی کتنی شادیاں ہوئیں اور کب کب ہوئیں۔ سنجے دت کی کون سی فلم کب ریلیز ہوئی اور کب فلاپ گئی اس پر بھی کوئی روشنی نہیں ڈالی گئی۔

مجموعی طور پہ ‘سنجو’ ایک الجھے ہوئے انسان کی کہانی ہے جسے اپنی زندگی میں بڑے بڑے مسائل اور چیلنجز کا سامنا ہے۔ سنجو کو ان چیلنجز سے لڑتے ہوئے اور ان میں سے راستہ تلاش کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

سنجے دت کے ذہن پہ سب سے بڑا بوجھ ان کے والد سنیل دت کی صورت میں منتقل ہونے والا وراثتی قد کاٹھ ہے جس کے نیچے وہ اپنے آپ کو دبتا ہوا محسوس کرتے ہیں۔ پھر جذبات سے مغلوب ہوکر نشے کا سہارا لینا دوسرا بڑا مسئلہ ہے۔ غیر مستقل مزاجی اور غیر پیشہ وارانہ رویہ ایک اور اہم مسئلہ ہے۔

پھر گھر سے کلاشنکوف برآمد ہونے پر انہیں دہشت گرد قرار دے کر جیل میں پہنچا دینا ان کے لیے ایک بڑا چیلنج تھا۔ اس سارے منظر نامے میں دنیا کو وہی کچھ پتا چلا جو اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلز نے لوگوں تک پہنچایا۔ اس بیانیے میں سنجے دت کا اپنا ورژن کہیں نظر نہیں آتا اور یہی غیر موجودگی اس کو عوام کے سامنے ایک دہشت گرد کے روپ میں پیش کرنے میں کامیاب رہی۔

میڈیا نے کبھی یہ نہیں بتایا کہ عدالت نے اسے دہشت گردی کے مقدمے سے بری کر دیا تھا اور اسے صرف غیر قانونی اسلحہ رکھنے کے جرم میں انڈین آرمز ایکٹ کے تحت سزا ملی ہے۔

یہی وہ بھنور تھے جن میں سنجے دت آج تک پھنسے رہے اور اس مسائل کی اندرونی کہانی کیا تھی یہ ہمیں آج تک میڈیا کے راستے سے معلوم نہیں ہو سکی ہے۔ یہی اندرونی کہانی راج کمار ہیرانی نے سنانے کی کوشش کی ہے اور وہ اس میں بھرپور طریقے سے کامیاب بھی رہے ہیں۔

ہم صاف لفظوں میں کہیں تو کچھ  یوں ہوگا کہ راج کمار ہیرانی نے سنجے دت کی زندگی پر فلم بنا کر دراصل سنجے دت کی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے ایک منجھے ہوئے وکیل کا کردار ادا کیا ہے۔

ادا کاری

سنجو کا پہلا ٹِیزر آنے سے بھی پہلے ہمیں اس بات کا یقین تھا کہ جو شخص راک اسٹار، برفی، یہ جوانی ہے دیوانی اور تماشہ جیسے کرداروں کو کاملیت کی حد تک پہنچا کے نبھا گیا ہے وہ سنجو کا کردار بھی لا زوال بنا دے گا۔

ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ رنبیر کپور بالی ووڈ میں ادا کاروں کی نسلِ نو کا سب سے بڑا ادا کار ہے۔ عامر خان، شاہ رخ خان اور سلمان خان کے ہاتھوں سے ہوتا ہوا سپرسٹاری کا یہ چراغ اب رنبیر کپور کے ہاتھوں میں ہے اور رنبیر کپور اپنی ہر ہر پرفارمنس سے خود کو اس چراغ کا سب سے موزوں حق دار ثابت کرتا جاتا ہے۔ راجو نے سنجو کے کردار کے لیے رنبیر کپور کو کاسٹ کرکے ایک بہترین فیصلہ کیا ہے۔

رنبیر کے علاوہ سنیل دت کے روپ میں پاریش راول نمایاں ہیں۔ اصلی سنیل دت سے اگرچہ ظاہری مشابہت بہت دھندلی ہے، مگر سنیل دت کے کردار کو چار چاند لگانے میں پاریش راول نے کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ نرگس کے کردار میں منیشا کوئرالا بہت جچی ہیں۔ اپنے خاندان اور خاص طور پر بیٹے سے محبت کو جس طرح انہوں نے اپنے تاثرات سے ہم تک پہنچایا ہے وہ یقیناً بہترین اظہار ہے۔

ان کے علاوہ سنجے دت کے دوست کے روپ میں وکی کوشل، سنجو کی بائیوگرافی لکھنے والی خاتون صحافی کے کردار میں انوشکا شرما، سنجو کی بیوی کے روپ میں دیا مرزا اور سنجے کی دوست کے روپ میں نظر آنے والی سونم کپور، یہ سب وہ نمونے ہیں جنہیں راجو نے ڈھونڈ کے انگوٹھی میں جڑا اور ایک ایک ہیرے نے انگوٹھی کی شان و شوکت میں اضافہ ہی کیا۔

بومن ایرانی کا مختصر سا رول یاد گار ہے جنہوں نے سنجے دت کی گرل فرینڈ کے والد کا کردار نبھایا ہے اور ہمیشہ کی طرح کیا ہی عمدگی سے نبھایا ہے۔ بومن ایرانی بنیادی طور پر ایک فیشن فوٹو گرافر تھے جنہیں متعارف کروانے کا سہرا راج کمار ہیرانی کے سر جاتا ہے۔ تب سے اب تک بومن ایرانی راج کمار ہیرانی کے لیے لازم و ملزوم ہو گئے ہیں۔ ان کی تقریباً تمام فلموں میں بومن ایرانی کے لیے ایک خاص رول رکھا جاتا ہے۔

پیوش مشرا اور تبو بھی چھوٹے چھوٹے کرداروں میں نظر آئے ہیں جب کِہ فلم کے اختتام پر سنجے دت خود بھی رنبیر کپور کے ساتھ ایک گانے میں ناچتے گاتے نظر آتے ہیں۔

موسیقی

فلم کی موسیقی تین موسیقاروں نے مل کر ترتیب دی ہے جن میں سے دو گانے اے آر رحمان نے کمپوز کیے ہیں۔ اے آر رحمان کے لیے گانوں کے بول ارشاد کامل نے لکھے ہیں جو اس سے پہلے رحمان کے لیے راک اسٹار کے بول بھی لکھ چکے ہیں۔ فلم کی موسیقی کہانی کا ہی ایک حصہ ہے اور ہر نغمہ کہانی سناتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس لحاظ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ فلم کا میوزک کہانی سے مکمل مطابقت رکھتا ہے اور اس سے مختلف نظر نہیں آتا۔ ‘میں بڑھیا، تُو بھی بڑھیا’ خاصے کی چیز ہے۔

میک اپ

موسیقی کے علاوہ جن چیزوں کی تعریف ہونی چاہیے وہ میک اپ اور کاسٹیومز ہیں۔ سنجو کے لیے رنبیر کپور کو جس طرح تیار کیا گیا ہے وہ انتہائی متاثر کن ہے۔ چہرہ، بالوں کی بناوٹ، ڈاڑھی، کپڑے، جوتے یہ سب کچھ ایک بھرپور تاثر پیدا کرنے میں کامیاب رہا ہے۔

کمزوریارں

فلم جہاں مجموعی طور پر انتہائی متاثرکُن رہی وہیں اس میں چھوٹے موٹے کچھ مسئلے بھی پائے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ کہانی صرف سنجے دت کا نقطۂِ نظر ہی پیش کرتی نظر آتی ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ بائیوگرافی میں یہی کچھ ہوتا ہے مگر توازن پیدا کرنے کے لیے سنجے دت کی ذات پر الزام لگانے والوں کا نقطۂِ نظر بھی کسی ایک سین میں پیش کر دیا جاتا تو دیکھنے والوں پر اچھا اثر پڑتا۔

پھر فلم میں یہ بھی دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ سنجے دت کی شبیہ کو بگاڑنے میں میڈیا نے ہی سب سے بڑا کردار ادا کیا ہے اور میڈیا کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ میرا خیال ہے سبھی کچھ میڈیا پہ ڈال دینا بھی درست نہیں ہے۔ سنجے دت کا اپنا رویہ ہی اتنا قابلِ اعتراض رہا ہے کہ غلط فہمیاں آرام سے حقیقت کا روپ دھار سکتی تھیں۔

اس کے علاوہ نشے کی جانب مائل ہونے کی وجوہات بچگانہ لگتی ہیں اور راج کمار ہیرانی ان وجوہات کا بھی دفاع کرتے نظر آتے ہیں۔ مختصراً یہ کہ سنجے دت اپنی ذاتی زندگی میں اتنے بھی شریف اور معصوم نہیں ہیں جتنا انہیں راج کمار ہیرانی نے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔

بزنس

فلم جمعہ 29 جولائی کو ریلیز ہوئی تھی اور پانچ دن میں 167 کروڑ بھارتی روپے کما کر ایک ویک اینڈ پہ 2018ء کی سب سے زیادہ کمائی کرنے والی فلم بن گئی ہے۔

جب اس طرح کی صورتِ حال ہو کہ فلم انڈسٹری کے بہت بڑے بڑے ناموں پر ابھی تک فلمیں نہ بنائی گئی ہوں اور آپ کے زندہ اور جوان ہوتے ہوئے آپ پہ فلم بنا دی جائے تو یہ بات کسی بہت بڑے اعزاز سے کم نہیں ہے۔ دلیپ کمار، راج کپور، دیو آنند، راجیش کھنہ، کشور کمار، اشوک کمار، محمد رفیع، پرتھوی راج کپور، سنیل دت، مدھو بالا، نرگس، مینا کماری، نوتن، گرو دت، امیتابھ بچن جیسے بڑے ستاروں کے ہوتے ہوئے قرعہ سنجے دت کے نام نکلا ہے تو یہ مقام بھی اپنی جگہ ممتاز ہے۔

سنجے دت اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ انہیں راج کمار ہیرانی جیسا دوست ملا ہے ورنہ کہانیاں تو باقی لوگوں کی زندگیوں کی بھی سننے سے تعلق رکھتی ہیں۔

ہماری نظر میں فلم ایک خوش رنگ گُل دستہ ہے جس میں کہانی، کردار، اداکاری، موسیقی، ایڈیٹنگ، مزاح اور چُست مکالمے الگ الگ پھولوں کی صورت نظر آتے ہیں۔ ایک دل چسپ فلم دیکھنے والوں کی منتظر ہے، مشورہ ہے کہ ایک بار دیکھ ہی لینی چاہیے۔