غیر روایتی تشدد پسند نظریہ اور ہم

Salman Durrani aik Rozan
سلمان درانی، صاحبِ مضمون

غیر روایتی تشدد پسند نظریہ اور ہم

سلمان درانی

ایک فرد بےشک کہ اپنے وجود میں ایک خاص حیثیت رکھتا ہو مگر سماج میں رہتے ہوئے اس کی اور اس کے خیالات کی حیثیت ثانوی اس صورت میں رہ جاتی ہے جب اس کی سوچ سماج سے ذرا ہٹ کر ہو۔ جہاں یہ بات طے ہے کہ انفرادی سوچ کے مقابلے میں ایک سماج کے اجتماعی بیانیے کی اہمیت زیادہ ہے وہاں کچھ لوگ اپنے غیر اجتماعی بیانیے کو اجتماعی بنا کر عام عوام پر اس مہارت سے تھوپ دیتے ہیں کہ اسے ہر کوئی اپنا بیانیہ، اپنی سوچ سمجھنے لگ جاتا ہے۔ ہم اس طرز عمل کو آٹوکریسی کہتے ہیں۔ ہمارے ہاں سماج میں اس طرز کی سیاست اور مذہبی اجارہ داری کا بڑا رواج ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کی حالیہ پریس کانفرنس سُن کر میری یاداشت کے ایک پیرائے میں بیٹھی آئی ایس پی آر کی کلبھوشن جادیو کے حوالے سے کی گئی پریس کانفرنس کا ٹریلر چلنے لگا۔ اس پریس کانفرنس میں اس وقت کے ڈی جی عاصم باجوہ صاحب اور ساتھ میں پرویز رشید بیٹھے تھے۔ ان کے سامنے بہت سے سینئر صحافی تھے۔ تمام تر پریس کانفرنس تو یاد نہیں مگر اس میں ایک صحافی کی طرف سے آنے والے سوال جس کا جواب دیا نہیں گیا تھا یا گول کر دیا گیا تھا وہ مجھے آج بھی ازبر ہے۔ صحافی جن کا میں نام نہیں لوں گا، نے سوال یہ کیا کہ جنرل صاحب ہم نے پہلے بھی ایک جاسوس کو لاہور سے چھوڑا تھا، وہ تب تک نہیں مانا نہ ہی کچھ اُگلا کہ جب تک اس کو بارڈر پار کرنے کے بعد سانس نہیں آگیا۔

ہندوستان پہنچنے کے بعد اس نے سب باتوں کا انکشاف کیا جو وہ یہاں کرکے گیا یا یہاں سے حاصل کرکے گیا۔ ہندوستان اس جاسوس کو سر پر بٹھاتا ہے اور آج وہ ہندوستان میں ایک ہیرو کی حیثیت رکھتا ہے۔ کلبھوشن کیسا جاسوس ہے کہ گرفتاری کے چند ہی دن بعد وہ ہم میں ایسا گھُل مل گیا ، ہر ایک چیز ایسے اُگل گیا جیسے اپنے ہی ڈرائینگ روم کے صوفے پر بیٹھ کر اپنے کسی بہت ہی قریبی عزیز سے بیٹھ کر باتیں کر رہا ہے۔ وہ بھی ایک ہندوستانی جاسوس تھا اور یہ بھی اسی سرزمین کا جاسوس ہے،ان دونوں میں فرق پر ذرا روشنی ڈالیے۔

جنرل صاحب کو شاید اس کا جواب دینا یاد نہ رہا ہو مگر اتنی اہمیت کا حامل سوال گول تو ہوگیا۔ حالیہ پریس کانفرنس میں یہ بات تو طے ہوگئی کہ کلبھوشن کو جلد پھانسی دے دی جائے گی۔ اس وقت ہمارے ارباب اختیار کے حلقوں میں بہت سے سوالات کی کشمکش تو ضرور ہوگی جیسے کہ اس کی پھانسی سے داخلی اور خصوصاً خارجی طور پر کس ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا اور خطرات اگر زیادہ ہین تو اس معاملے کو اور کس طریقے سے ہینڈل کیا جاسکتا ہے۔

خیر رپورٹر جب کلبھوشن کے حوالے سے یہ سوال رکھ رہا تھا تب میرے ذہن میں کچھ شرارتی سوالات بھی آئے اور میرا خیال تھا کہ اعزاز بھائی تو یہ پوچھیں گے ہی پوچھیں گے۔ مگر ساری پریس کانفرنس گزر گئی کسی نے یہ کامپلیمنٹ نہیں دیا کہ سر شوٹنگ کے لیے لوکیشن اور سیٹ کا انتخاب کمال تھا کس کا آئیڈیا تھا یہ؟ لیکن ہاں تکنیکی طور پر لائیٹنگ میں ذرا مسائل تھے کیونکہ سبجیکٹ کا سایہ بہت واضح دکھائی دے رہا تھا۔ یہ پوچھنے میں بھی تو کوئی حرج بظاہر نہیں تھا کہ کلبھوشن میاں کا میک اپ آرٹسٹ کون ہے، چہرے پر بڑا نکھار آیا ہوا تھا خیر سے۔ ویسے پفِنگ تو احسان اللہ احسان میاں کی بھی بڑی زبردست کرائی تھی، صافی صاحب کا انٹرویو تھا مذاق تھوڑی میں ہے۔

اچھا گلوریفیکیشن تو ایک الگ سبجیکٹ ہے، دہشتگردوں کو اس حالیہ پریس کانفرنس میں جس طرح سے ڈیفنڈ کیا گیا ہے اس کی مثال ہمیں تین دہائیاں قبل ایک سیاہ دور میں جا کر ہی ملتی ہے۔ صحافی کا سوال جب ڈی جی صاحب سمجھ گئے تو وہ یہ بھی سمجھ گئے کہ مجھے اس سوال کا جواب کہاں سے شروع کرنا ہے اور کہاں ختم کرنا ہے۔ جواب شروع ہوا تمام ان ممالک کی تحریک آزادیوں کا جہاں ہمارا چھوٹا بڑا کوئی نہ کوئی مفاد ضرور ہے، ان کی بھرپور حمایت سے ہوتے ہوتے جواب ان تحریکوں کی جڑوں تک پہنچا۔ اور پھر یہ کہ جنرل صاحب کے مطابق اس ملک کے ہر شہری کو سیاسی عمل میں حصہ لینے کی مکمل آزادی ہے لیکن آخر میں یہ بھی کہ ملی مسلم لیگ اور لبیک والوں کے بارے میں ریاست نے فیصلہ کرنا ہے کہ انہیں رجسٹر کیا جائے یا نہیں۔

یہ بات تو درُست ہے، مگر ہمیں بھی تو ریاست پاکستان کے اصل معانی معلوم ہی ہیں۔ اس بات کا بہت افسوس ہوا کہ جنرل صاحب ہر اُس سیاسی معاملے پر صحافیوں سے یہ تو فرما رہے تھے کہ انہوں نے سوال سیاسی لینس سے پوچھا ہے، جنرل صاحب اس کا جواب سیکیورٹی کے لینس میں سے دیں گے۔ مگر احسن اقبال والے معاملے اور اس پر حکومت کے ردعمل پر سوال کا جواب انتہائی غیر مناسب اس لیے تھا کہ سولین حلقوں کو جو میسیج دیا جا رہا ہے اور جس طرف سے دیا جا رہا ہے ان کا تو مینڈیٹ ہی نہیں کہ اس معاملے پر کوئی کمینٹ کرتے۔

جس طرح سے جنرل صاحب ہر سیاسی اور اپنی مرضی کے برخلاف زاویے سے کیئے گئے سوال کا جواب اپنے زاویے سے دے رہے تھے، ختم نبوت والے معاملے پر یہ کہہ سکتے تھے کہ وہ ان کی ڈومین نہیں ہے یہ سوال کسی اور سے کیا جائے۔ جنرل صاحب نے اس بات پر بیان دے کر ہو نہ ہو لاہور میں تیسرے نمبر پر آنے والی وحشی مذہبی قوت کو اور ان کے عزائم کو تقویت بخشی ہے۔

اس پریس کانفرنس سے ایک خاص ذمہ داری کے مظاہرے کی جتنی توقع کی جارہی تھی افسوس کہ وہ توقعات سب کی سب دھری کی دھری رہ گئیں۔ ایک چینل کی رپورٹر جو کہ جنرل صاحب سے یہ پوچھ کر جُرم کی مرتکب ہوئیں کہ ہندوستان کے ایئر چیف کی جانب سے دھمکی آمیز بیانات پر آپ کیا کہیں گے، ہمارا کیا ردعمل ہے۔ جواب میں جنرل صاحب نے ان محترمہ سے یہ پوچھ لیا کہ آپ نے کبھی پاکستان کے ایئر چیف کا بیان سُنا ہے؟ اور یہ کہ وہ جب کریں گے ہم اس کا جواب اس وقت دے دیں گے۔ جواب پر میں بات نہیں کروں گا لیکن جنرل صاحب کا ایک ادارے سے بلائی گئی رپورٹر خاتون سے اس طرح کا سلوک ایک منظم اور پیشہ ور ادارے کےترجمان ہونے کی ایک خاص حیثیت سے کوئی بہت مناسب بات نہیں تھی۔

بعد میں ایک متنازع چینل کے متنازع اینکر نے جنرل صاحب کے اس خاص جواب کے ایک ایک لفظ کو کنگھال کر اس خاتون اور ان کے ادارے کو پاکستان سے باہر کی کوئی شے بنا کر پیش کیا اور یہ بتانے کی کوشش کی کہ آپ پاکستان کا چینل نہیں کسی اور ملک کا چینل ہیں، اور اگر فوج سمجھتی ہے تو سمجھ لیا جائے کہ تمام تر پاکستان یہی سوچ رکھتا ہے اس بات پر ایمان کی حد تک یقین رکھتا ہے۔یہی بات اس کالم کے ابتدایئے میں کہی گئی تھی کہ کچھ لوگ ایک غیر اجتماعی سوچ کو بھی ایک اجتماعی مطلب دینے میں کتنی مہارت رکھتے ہیں۔

جہاں تک پریس کانفرنس میں یہ بات کی گئی کہ سیکیورٹی اہلکار نے مقرر کردہ ضابطوں کی ایک روبوٹ کی طرح سے پابندی کرنی ہوتی ہے تو یہ ایک سیاسی بیان ہے کہ آرمی چیف بھی ہوں تو سپاہی ان کا کارڈ بھی چیک کرنے کا مجاز ہے، ایسے بیانات ہمارے سپاہیوں کی ساکھ کو مزید کمزور کرنے کے مترادف ہے۔ سپاہی انسان ہی تو ہوتے ہیں اور اسی سماج میں پلنے بڑھنے والے ایک زیادہ ذمہ دار انسان۔ مولوی خادم حسین رضوی کے سپاہیوں اور پاک فوج کے سپاہیوں میں کوئی فرق تو روا رکھیے جناب۔ میرے خیال میں تو غیر روایتی بیانیوں کے استعمال کی بھی اپنی ایک تاریخ ہے۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ایک زمانے میں ایک حکمران تھا جو مذہب سمیت معاشرے کی ہر اس غیر روایتی چیز کو استعمال کرتا تھا جس سے معاشرہ اس کی منشا سے حرکت کرے۔ لیکن وہی معاشرہ جو کبھی غیر مسلموں کو نقصان دینے کا بھی سوچ نہیں سکتا تھا اپنے ہی مسلمانوں کی گردنیں اُتارنے کے درپے ہوا۔

حالیہ لہر کچھ مذہبی اور کچھ  سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لیے شروع ہوئی، معاملہ شیخ رشید کے اسمبلی فلور پر تقریر سے شروع ہوا، ایک اینکر نے اس کو مزید ہوا دی، ایک خاص ادارے کی جانب سے اس بے بنیاد بات پر شور مچانے کو سپورٹ کیا گیا، اور اب کیپٹن سفدر کا اسمبلی کے فلور پر اقلیتی حلقے پر ہرزاہسرائی، یہ تمام واقعات الگ نہیں ایک ہی جامع اسٹریٹجی کا حصہ ہیں۔ معاشرے میں بدامنی کا مسئلہ آگے ہی بہت بڑا چیلنج بنا ہوا ہےاوپر سے ہم غیر روایتی تشدد پسند بیانیےکو اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے ایک عام سوچ بنا دیں گے تو ہمارے گھرانے جہاں کبھی کسی قتل کی گفتگو کوبھی بڑی غیر مناسب گفتگو سمجھا جاتا ہے، وہاں ایک دوسرے کی گردنیں اُتارنے کی باتیں خیر سمجھی جانے لگیں گی۔ ہمیں یہ بات پہلے سے زیادہ سمجھنے کی ضرورت تھی۔