فیس بک اور پرائیویسی

Yasser Chattha, the writer

فیس بک اور پرائیویسی

از، یاسر چٹھہ

آج دن میں ڈیجیٹل زندگی کی گزران کے دوران ایک واقعہ پیش آیا۔ اس کی ترتیب کچھ یوں ہے، جسے اس وقت رقم کیا۔ دیکھیے۔

 ایک واقعہ چند منٹ پہلے اپنے بیٹے کے سکول کی ای میل دیکھی۔ بتایا گیا کہ اُنہیں آج برپا ہونے والے کشمیریوں سے اظہارِ یکجہتی پروگرام کی وجہ سے آپ نے اپنے بچے کو سکول سے 11:00 بجے سے پہلے pick کرنا ہے۔

ابھی چند روز ہوئے ہیں کہ اُن کا اُس سکول میں داخلہ کروائے۔ ای میل سے فون نمبر، موبائل فون کی میموری میں feed نہیں کیا ہوا تھا۔ ابھی لکھنا شروع کرنے سے پانچ چھ منٹ ہوئے ایسا کیا۔

وجہ اس کی یہ بھی تھی کہ مجھے فون سننے کی نسبت ای میل پر رابطہ زیادہ سہل و با سہولت، اور بَہ مطابقِ مزاج لگتا ہے۔ موبائل فون سے جہاں سہولتیں آئیں، وہاں لوگوں کی کثیر تعداد ہَمہ وقت یہ توقع باندھے رکھتی ہے کہ آپ بات کرنے کے لیے ہر وقت دست یاب ہیں۔ بھلے آپ کسی بھی حالت و حال میں ہوں، اور ان توقعات پر پورا نا اترنے کی صورت میں اچھے خاصے تعلقات بھی، برسوں کے یارانے پَل بھر میں ہاتھ سے، ذہن کے اچھے گوشوں سے اور دل سے نکلتے جاتے ہیں۔ راقم کو تو گزرے وقتوں کے عزیزوں اور دوستوں نے جن کی تعداد کم از تین ہے، اس وجہ سے ترکِ تعلقات اور گوشۂِ یاد و دل سے بھی رفع کر دیا۔ بعد ازاں فون پر بلاک، میسنجر پر بلاک، اور کبھی کہیں اس چھوٹی سی دنیا میں دیکھ لیا تو اپنی آنکھوں کے cornea کا ارتکاز و سکیڑ، یا تو خلا میں ڈال دیا، یا پھر سلام دعا کو سنا اَن سنا کر دیا۔ لوگ پوچھا کیے، کیا ہوا؛ کوئی جواب پاس نا تھا۔ جواب کو گول کر کے خود اپنی آنکھوں سے جھوٹ بولنا پڑا۔ (اوہ، یہ کس طرف بات چل نکلی۔)

نکتہ یہ ہے کہ جُوں ہی وہ فون نمبر فون میں محفوظ کیا، اور اس کے بعد فیس بُک ایپ کھولے، تو آگے اپنے بچے کے سکول کے فیس بُک پیج کا میسیج میری نیوز فیڈ میں سامنے موجود تھا۔

میں نے اپنے طور پر، فیس بک ایپ کو اپنی contacts list کی رسائی نہیں دی ہوئی۔

مدعائے اظہار یہ ہے کہ فیس بک کو تانک جھانک کی بُری لَت کہاں سے پڑی؟

ہم تو گلیوں،
چوباروں،
دروازے کی دَرزوں سے،
کنکھیوں سے،
کالی عینکوں کے اندر سے جھانکتی آنکھوں کی کُھرکِ عارفانہ سے بے زار تھے، یہ فیس بک ایپ تو گھر کا بھیدی ہے، اور جانے ہماری نِجی زندگی کی کس کس لنکا پر نظر رکھے ہوئے ہے؟

About یاسرچٹھہ 240 Articles
اسلام آباد میں ایک کالج کے شعبۂِ انگریزی سے منسلک ہیں۔ بین الاقوامی شاعری کو اردو کےقالب میں ڈھالنے سے تھوڑا شغف ہے۔ "بائیں" اور "دائیں"، ہر دو ہاتھوں اور آنکھوں سے لکھنے اور دیکھنے کا کام لے لیتے ہیں۔ اپنے ارد گرد برپا ہونے والے تماشائے اہلِ کرم اور رُلتے ہوئے سماج و معاشرت کے مردودوں کی حالت دیکھ کر محض ہونٹ نہیں بھینچتے بَل کہ لفظوں کے ہاتھ پیٹتے ہیں۔