ماحولیاتی تنقید، واہ ڈاکٹر اورنگ زیب نیازی واہ

Yasser Chattha, the writer

ماحولیاتی تنقید، واہ ڈاکٹر اورنگ زیب نیازی واہ

تبصرۂِ کتاب از، یاسر چٹھہ

نیند سے آنکھیں پُر تھیں جب کہ گھر کے باہر دروازے پر دستک ہوئی۔ انسانی روا روی کے تصور سے دروازہ کھولنے نکلا کہ چلو خیر ہے چلتے ہیں دیکھتے ہیں۔ ہر چند کہ اس سمے نیند ہمیں سب دنیا و ما فیھا سے پیاری تھی۔ ہم وہ ہیں کہ جنھیں لا تاخذہُ سِنتم ولا نوم  جیسا کوئی دعویٰ کرنا قطعی طور پر شرک لگتا ہے۔ بھاری چال اور نیم وا انسانی آنکھوں سے دروازے پر موجود ڈاکیے سے کتاب نما پارسل پکڑا۔

بھیجنے والے کا پتا دیکھا تو لاہور سے جناب ڈاکٹر اورنگ زیب نیازی کا دل کو پیارا نام دیکھا۔ جاگ گیا کہ سونے کا مقام نہیں رہا تھا۔ پارسل کو بھوکے شیر کی طرح لِیر و لِیر کیا۔ دیکھنا تھا کہ اندر سے کیا بر آمد ہوتا ہے؟ دیکھا تو یہ تھی،

ماحولیاتی تنقید: نظریہ و عمل (منتخب مضامین) ماحولیاتی تنقید
ترجمہ: ڈاکٹر اورنگ زیب نیازی
اردو سائنس بورڈ

اُونگھ اور نیند کی حالت میں راقمِ لفظا لفظئِ ہٰذا میں بشاشت آتی ہے۔ اوّل اوّل تاثرات میں دیکھتا ہوں تو نثر کی عمدگی کا تاثر گُل دستۂِ خوش رنگ کے طور پر سامنے آتا ہے۔ ڈاکٹر نیازی کا شکریہ دو طور سے ادا کرتا ہوں: ایسا عمدہ موضوع پکڑا ہے کہ جس میں ہمارے اردو کلچر میں نا ہونے کے برابر شعور اور اور نا ہونے سے بھی کم درجے کی وابستگی ہے۔ حالاں کہ ہمارا ملک ان چند ممالک میں سے ہے جن کی جانب ماحولیاتی تبدیلیوں کے بھیانک ترین اثرات دھاڑتے چنگھاڑتے آ رہے ہیں۔

اسی سلسلے میں نثری تخلیقی متنوں کی سطح پر اردو فکشن میں محمد عاطف علیم  کا ناول مشک پُوری کی ملکہ، خالد فتح محمد کا ناول کوہِ گَراں اور آمنہ مفتی کا حالیہ ناول، پانی مر رہا ہے، نشانِ مسئلہ کے طور پر سامنے آئے ہیں۔

ان تینوں ناولوں میں بڑے عمدہ تسلسل سے چند مضامینِ آئے ہیں۔ انسان اور دیگر حیاتیات و موجودات کے باہمی تعامل (بہ توسط عاطف علیم کے مشک پوری کی ملکہ)، گوجرانوالہ کے مضافات، جہاں بہ ظاہر ان برسوں میں پانی کی کمی کسی واضح مسئلہ کی شکل میں فہمِ عامہ کے ریڈار پر مجود نہیں (ہر چند کہ افسوس ہے، پر ایسا ہی ہے) لیکن خالد فتح محمد اپنے ناول کوہِ گَراں میں اپنی حال شناسائی اور مستقبل بِینی سے اس مسئلے کو اپنا موضوع بنانا تخلیقی فرضِ جانتے ہیں۔

اسی طرح آمنہ مفتی کا ناول، پانی مر رہا ہے، انسان، انسان کی فطرت کو اپنی حرص کی عینک سے تشکیلِ نَو کرنے، ٹیکنالوجی کی فطری نظم اور گرامر کی اُتھل پُتھل کی صورت میں فطرت کے اپنی رِدھم کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کے بعد فطرت کے غیظ و غضب کی فِکشنل حقیقت نگاری کے نشانات ملتے ہیں۔ پرانی دنیا کی معدومیت کے بعد نئی ماحولیاتی اقدار سے مزیّن دنیا کی تعمیر کا خاکہ ابھر رہا ہے۔

تو کہنے دیجیے کہ فکشن والوں نے تو فکر کی، آس پاس نئے فہمِ عامہ کے سوئے ہوئے محل اور مستانوں کی جھونپڑی کے باہر دستک دی۔ لیکن تنقید حالتِ نیند میں تھی۔

بہت دل دوزی کے ساتھ یاد آتا ہے کہ اسلام آباد کی اکادمی ادبیات کے رائٹرز ہاؤس میں خالد فتح محمد کے ناول کوہِ گَراں کی تقریبِ پذیرائی کی محفل برپا ہے۔ اور یہ محفل اُسی طرح برپا ہے کہ جیسے نعوذ باللہ یہاں اکثر محافل برپا ہوتی ہیں۔ کتاب پر گفتگو کرنے والے حضرات اور خواتین کمال مہارت، روانئِ گفتار اور لحنِ بلند آہنگ میں ناول پر گفتگو کرتے جا رہے ہیں لیکن کسی کے پاس خالد فتح محمد کی ناول میں چھیڑے غم گیں سُروں پر نقد کے پیمانے، محاورے اور تراکیب موجود نا ہیں۔ تبصرے کے ساز موجود تھے، گانے والے موجود تھے، لیکن نغمہ و غزل کہیں گُم تھی۔

میرے پاس ناول نہیں تھا، وہیں گھنٹہ ڈیڑھ بیٹھے جلد از جلد skimming انداز کی خواندگی کرتا ہوں تو کوہِ گَراں سے عنوان یافتہ ناول کے ہر صفحے پر پانی، پانی کی آہ کرتا متن ہے۔ اس قدر پانی، پانی کی کراہ اور آہ و زاری سننے کو ملتی ہے کہ اس قدر آمنہ مفتی کے ناول، پانی مر رہا ہے، میں سانپ اور ناگ کی لفظیات جا بہ جا نہیں مِلتیں۔ مجہول سامع کے طور پر کوہِ گَراں پڑھتے گیا اور آس پاس تنقیدی و مبصرانہ خاموشی کے شور میں کانوں میں انگلیاں رکھے رہا۔

اس تقریبِ پذیرائی میں ڈاکٹر صلاح الدین درویش میرے ساتھ والی نشست پر نشستن تھے۔ اسی دوران کچھ وقت نکال کے برادرم  درویش کو ورلڈ بینک کے ویب سائٹ سے پاکستان کی واٹر پروفائل نکال کر چھ سات سطریں گوش گزار کیں اور عرض کیا، لالہ اپنے تبصرے میں اس ڈیٹا کا حوالہ دے کر بات کا رُخ موڑیے گا۔

مُحبی نے عزت افزائی کی تو خاموشی کے غار کے آگے سے بڑا پتھر کچھ سرکا۔ اسی تقریب کے آخر میں ملتان نصف جہاں اور حالیہ سرائیکی زبان کے ناول، ادھ ادھورے لوک، کے خالق جناب حفیظ خاں آئے۔ انہوں نے ناول کے اہم موضوع کا کچھ اور بھرم رکھا۔ مجہول و چست، ہر دو سامعینِ کے لیے چُوں کہ قیمتی وقت پہلے ہی تحلیلِ نفسی میں بخارات بن کر اُڑ چکا تھا، اس لیے ہم نے بعد ازاں کے چائے کے وقفے کے دوران حفیظ خاں اور ڈاکٹر درویش کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ تبصرے کی تقریب کے برہم ecological balance پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔

یہ لمبی digression دیوانے کی بُڑ سے کہیں زیادہ ماحولیاتی تنقیدی حالات کی کَسریات کی جانب اشارہ تھا۔

دو بارہ عرض کروں گا کہ فکشن والوں نے تو فکر کی، آس پاس نئی فہمِ عامہ کے سوئے ہوئے محل اور مست حال جھونپڑی کے باہر دستک دی۔ لیکن تنقید والے، تبصرے کے تاجر، میری آپ کی فہمِ عامہ ابھی دھائیوں پرانی ما بعد جدیدیت، صنفیات، اور جمالیات کی کوٹھڑی میں بیٹھے کوئی موم بتی جلانے کے لیے وقت رسیدہ و مرطوب دیا سلائیاں ٹٹول رہی تھی۔

شکریہ پروفیسر ڈاکٹر اورنگ زیب نیازی، اور اردو سائنس بورڈ کے ڈائریکٹر جنرل، ڈاکٹر ناصر عباس نیئر آپ احباب نے زندگی اور ادب کے بیچ کی دیواروں کو توڑنے کی ایک اور کوشش کی۔ جیون، اس کا موجودہ وقت، ہمارے وجود کے گھر کے دروازوں کے سامنے تَھڑا جمائے خطرے کے لیے، اس کے مستقبل کی کیفیت و صحت کے لیے وقت اور صفحات کا ایثار کرنے کا، اپنا سا حصہ ڈالنے کا۔

امید ہے اس کتاب کو حال اور مستقبل کے تختۂِ دار کے مشاہدۂِ کار سنجیدہ قارئین ملیں گے۔ یہ کتاب صرف ادبی ناقد کے لیے نہیں۔ یہ ہر جینے والے پر، ہر اس پر جو زندگی کی افزائش و نمُو پر یقین رکھتا ہو، ہر وہ جو کسی خاص مخلوق کے شرفِ مخلوقات کے خبطِ عظمت کے عارضے سے باہر رہنا اپنا بنیادی انسانی فریضہ سمجھتا ہو، ہر وہ بندہ بشر جو انسان دوستی کے اگلے پڑاؤ کا فکری و عملی مسافر ہو کہ جو یہ باور کر سکے کہ جس طرح زمین کائنات کا مرکز نہیں، اسی طرح انسان بھی کائنات کا مرکز نہیں، یہ کتاب ان کے لیے، اس کے لیے بھی ہے۔

انسان بہت سارے حیوانات، نباتات، جمادات، چرند، پرند اور دیگر مظاہرِ فطرت کے ساتھ نسبتِ اخوّت میں ہے۔ اسے اپنے روشن و منور مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے شرف کے زُعمِ نا جق کو بر طرف کرنا ہو گا، اپنے ہم احساسی کے اعلیٰ انصاف کے تصور کو قبولتے ہوئے نئے مقام کو ماننا ہو گا: یہ ہی انصاف ہو گا، یہی ارفع انسانیت اور یہی نئی صلحِ کُل۔ اور جو مناسب وقت پر چیزوں کو فہم میں جگہ دینے سے قاصر رہتے ہیں وہی گھاٹے میں رہتے ہیں۔ انسان خسارے میں نہیں رہنا چاہیے۔ مگر، انَّ الانسان لَفی خسر…؟

ما بعد جدید تنقید کے سکوپ میں اضافہ کرنے پر پیارے بھائی ڈاکٹر اورنگ زیب نیازی کا شکریہ۔ پانی، پہاڑوں، دریاؤں، سمندروں، سبزے، چرند، پرند، حشرات کو سلام کہ انسان نے اپنے اوپر سے کُنج اتارنے کا شاید ایک نیا فیصلہ کر لیا ہے۔ کہنے کو  ماحولیاتی تنقید eco criticism کے مختلف سر کردہ اور اساسی مضامین کے ترجمہ جات پر مشتمل کتاب ہے، لیکن اس قدر عمدہ ترجمہ ہے کہ ڈاکٹر اورنگ زیب نیازی نے ان کو ترجمہ ہی کہا ہے، اس کے بہ صد شکریہ۔ حالاں کہ بہ آسانی وہ کچھ اور بھی کہہ لیتے تو ہماری علمی و تنقیدی ثقافت میں کون سا انوکھا پن ہوتا۔ نیازی صاحب کی علمی دیانت کو سلام۔

کتاب کی قیمت سات صد روپیہ ہے، اردو سائنس بورڈ نے 2019 میں شایع ہوئی ہے۔ یہ بلا شک و شبہ اردو سائنس بورڈ کے لیے سرمایہ بننے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔ معتبر حوالہ بن جانے والی کتاب ہے: اپنی لائبریری، اپنے شعور و فکریات، اور اس کا حَصِیل اپنے رویّوں میں ڈھالنے کے لیے ضروری طور پر دل سے لگا کر رکھنے کی چیز ہے۔


دل چسپی رکھنے والوں کے لیے کتاب رعایتی قیمت پر 350 روپے میں اردو سائنس بورڈ میں دستیاب ہے۔ رابطہ: حسنین الطاف موبائل نمبر، 03337678999

About یاسرچٹھہ 240 Articles
اسلام آباد میں ایک کالج کے شعبۂِ انگریزی سے منسلک ہیں۔ بین الاقوامی شاعری کو اردو کےقالب میں ڈھالنے سے تھوڑا شغف ہے۔ "بائیں" اور "دائیں"، ہر دو ہاتھوں اور آنکھوں سے لکھنے اور دیکھنے کا کام لے لیتے ہیں۔ اپنے ارد گرد برپا ہونے والے تماشائے اہلِ کرم اور رُلتے ہوئے سماج و معاشرت کے مردودوں کی حالت دیکھ کر محض ہونٹ نہیں بھینچتے بَل کہ لفظوں کے ہاتھ پیٹتے ہیں۔