مستقبل کا صدمہ:ایلون ٹوفلر کی مشہور زمانہ کتاب

لکھاری

(صائمہ یوسف)

مستقبل کا صدمہ ایلون ٹوفلرکی مشہور زمانہ کتاب The Future Shockکا اردو ترجمہ ہے، جسے مقتدرہ نے شائع کیا ہے۔ نیرّعباس زیدی صاحب نے نہایت خوب صورت انداز میں مصنف کے خیالات کو اردو زبان میں پیش کر کے قارئین کو اس موضوع کی جانب متوجہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ثقافتی صدمہ‘‘ جیسی متوازی اصطلاح پہلے ہی ہمارے مقبول ذخیرۂ الفاظ میں داخل ہوچکی ہے۔ ثقافتی صدمہ دراصل وہ ’’اثر‘‘ ہے جو ایک انجانے مہمان پر کسی انجانی ثقافت میں داخل ہونے پر پڑتا ہے۔ امن کے رضاکاروں کو بورنیو (Borneo) یا برازیل میں اس کا سامنا کرنا پڑا۔ شاید مارکو پولو کو کیتھی (چین )پہنچنے پر بھی اسی کیفیت سے دوچار ہونا پڑا ہو۔ ’’ثقافتی صدمہ‘‘ اس وقت درپیش ہوتا ہے جب کوئی مسافر خود کو اچانک ایک ایسے مقام پر پائے جہاں’’ہاں‘‘ کا مطلب ’’ناں ‘‘ ہو، جہاں ’’ایک دام ‘‘ (Fixed Price) پر بھی گفت و شنیدہوسکتی ہو، جہاں دفتر کے باہر انتظار کرنا ہتک کا باعث نہ ہواور اسی طرح جہاں قہقہہ غصے کی علامت بھی ہوسکتا ہے۔ یہ اسی کیفیت کا نام ہے کہ جب کسی فرد کو اس معاشرے میں اپنی کارکردگی دکھانے میں مدد دینے والے شنا سا قسم کے نفسیاتی رمز اچانک اپنی جگہ چھوڑ دیں اور ان کی جگہ اجنبی اور ناقابل بیان رمز لے لیں۔
’’
ثقافتی صدمہ‘‘ کا مظہر زیادہ تر اس اضطراب، مایوسی اور بے سمتی کو ظاہر کرتا ہے جو امریکیوں کو دیگر معاشروں کے افراد کے ساتھ معاملات نمٹاتے وقت درپیش ہوتی ہیں۔ اس سے ابلاغ میں رکاوٹ پیش آتی ہے، حقیقت کا غلط مطلب لیا جاتا ہے اور تعاون و اشتراک کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے۔ تاہم ’’مستقبل کے صدمے‘‘ جیسے شدید اختلال کے مقابلے میں ’’ثقافتی صدمہ‘‘ ہلکا ہوتا ہے۔ ’’مستقبل کا صدمہ بدحواس کردینے والی بے سمتی ہے جو ’’مستقبل‘‘ کی قبل ازوقت آمد کی وجہ سے پیدا ہوئی۔ یہی چیز آنے والے کل کا ایک اہم ترین روگ بھی ہوسکتی ہے۔
مستقبل کا صدمہ وقت اور معاشرے میں تیزی سے بڑھتی ہوئی تبدیلی کی شرح کے نتیجے کا مظہر ہے۔ یہ صورت حال پرانی ثقافت پر نئی ثقافت مسلط کر دینے کے باعث پیدا ہوتی ہے۔ یہ صورت حال اپنے ہی معاشرے میں ثقافتی صدمہ ہوتا ہے لیکن اس کے اثرات انتہائی بدتر ہوتے ہیں۔ امن کے دستوں سے منسلک افراد، خصوصاً سیاح بخوبی یہ جانتے ہیں کہ جو ثقافت وہ پیچھے چھوڑ آئے ہیں وہ وہیں پر موجود رہے گی لیکن مستقبل کے صدمے کا شکار فرد اس بات سے آگاہ نہیں۔
کسی فرد کو اس کی ثقافت سے جداکرکے اچانک کسی ایسے ماحول میں لے جائیں جو اس کے اپنے ماحول سے بالکل مختلف ہو، جس میں اس کے سامنے ردعمل ظاہر کرنے کے لیے مختلف اشارے کنائے ہوں اور جہاں وقت، خلا، کام، محبت، مذہب، جنس اور دیگر تمام چیزوں کے بارے میں مختلف تصورات ہوں اور بعدازاں اس سے کسی شناسا سماجی ماحول میں واپس جانے کی امید بھی چھین لی جائے، اس صورت میں وہ شخص انتہائی شدید تخلل کا شکار ہوگا۔ مزید یہ کہ اگر یہ نئی ثقافت خود مسلسل کسی افراتفری کا شکار ہو اور اگر ۔۔۔ یہ بدتری کا تسلسل جاری رہے، اس کی اقدار مسلسل تبدیل ہورہی ہوں تو ایسی صورت میں بے سمتی کی نوعیت مزید شدید تر ہوجائے گی۔اگر تبدیل ہوتے ہوئے ماحول سے نبٹنے کے لیے ضروری اشارات (Clues)کے بارے میں متعلقہ افراد کو یہ بتادیا جائے کہ ان حالات/ ماحول میں کس قسم کے رویے کی ضرورت ہے تو شاید یہ متاثرہ افراد کے ساتھ ساتھ دیگر افراد کے لیے بھی نقصان دہ ہو۔
اب کسی ایک فرد کی بجائے پورے معاشرے یا ایک پوری نسل کا تصور اپنے ذہن میں لائیں جس میں اس کے کمزور ترین ،کم ذہین اور انتہائی نامعقول افراد بھی شامل ہوں اور جنھیں اچانک اس نئی دنیا میں منتقل کردیا جائے ۔ اس کا نتیجہ انتہا درجے کی بے سمتی اور بڑے پیمانے پر ’’مستقبل کے صدمے‘‘ کی صورت میں سامنے آئے گا۔
یہ وہ حالات ہیں جن کا آج کل انسان کو سامنا ہے۔ تبدیلی ایک برفانی تودے کی طرح ہمارے سروں پر گررہی ہے اور لوگوں کی اکثریت، بے ڈھنگے انداز اختیار کیے ہوئے ہے او راس تبدیلی کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہیں۔