جمہوری ڈاکٹرائن

معصوم رضوی

جمہوری ڈاکٹرائن

از، معصوم رضوی

نامراد و ناہنجار یہود و نصاریٰ کی سازشیں جان ہی نہیں چھوڑتیں، ڈو مور کا تقاضا نہ ہوا عمروعیار کی زنبیل ہو گئی۔ چلیں پہلے انکل سام تقاضا کرتے تھے، بزرگوں کا ادب واجب ہے مگر اب تو ہر للو پنچو دروازے  کو پیٹ ڈالتا ہے۔ عالمی بینک اور آئی ایم ایف تو چھوڑیں اور تو اور کم بخت ایف اے ٹی ایف بھی مُنھ آنے لگا ہے، یہ جانتے بوجھتے کہ ہماری ہر دلعزیز حکومت اور اولوالعزم اسٹیبلشمنٹ ہر لمحہ چوکس ہے، جیسے ہی ایف اے ٹی ایف کے اجلاس کی اطلاع ملتی ہے فوری کالعدم تنظیموں کے سیکڑوں کارکنان پکڑے جاتے ہیں، قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوتا ہے، پانچ سالہ نیشنل ایکشن پلان کی جھاڑ پوچھ کی جاتی ہے، دہشت گردوں کی کمر توڑنے کا عزم بھی دھرایا جاتا ہے۔ مگر پھر ڈو مور، ڈو مور کے صدائیں ختم ہونیکا نام نہیں لیتیں۔

ویسے آپس کی بات ہے جب سے تیل نکلنے کی نوید سنائی دی ہے، یہود و نصاریٰ ہی نہیں ہنود تک پریشان ہیں، چلیں باہر والے تو جلتے ہیں مگر ملک میں بھی مذموم عناصر کی کمی نہیں، وہی فرسودہ سائنٹیفک شکوک و شبہات اور افواہیں، یہ جانے بوجھتے کہ پہلی بار ایسی صادق اور امین حکومت اقتدار میں ہے جس کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہیں ۔ کبھی چنیوٹ میں سونا نکلنے کا حوالہ دیتے ہیں تو کبھی تھر میں کوئلے کے ذخائر کے بعد قوم کی قسمت بدلنے کے بیانات دھراتے ہیں۔ بھیا پہلے حکومتوں کی بات اور تھی، یہ حکومت قول کی پکی، ایماندار اور دیانتدار ہے، اسکا مقابلہ کرپٹ حکومتوں سے کرنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔

عوام اعتبار کرتے ہیں، ابھی پرسوں ہی میں کوئٹہ نمکین ہوٹل پر شہد جیسی میٹھی دودھ پتی چائے پی رہا تھا، ہوٹل پر پہلے پروپرائٹر کا نام جمن کاکڑ لکھا ہوتا تھا جسے مٹا کر الشیخ جمن الکاکڑ الباکستانی لکھا ہوا ہے۔ چاچا کاکڑ کی مونچھیں جو پہلے آٹھ بج کر بیس منٹ بجاتی تھیں اب دس بجکر دس منٹ بجا رہی ہیں، سر پر پگڑی کے بجائے گترا و عقال اور پنجرے میں ایک تلور بھی پال لیا ہے۔ الشیخ جمن نے اپنے ہوش رُبا منصوبوں پر بھی روشنی، بس یوں جانیے کہ ن م راشد کی نظم انتقام یاد آ گئی۔ خیر اعتراض کرنے والوں کو تو عادت ہے اب کیا کہا جائے، کہتے ہیں دو ارب ڈالر لانے کا وعدہ کیا تھا، بھائی یہ دیکھو چار ارب باہر جانے سے بچ گئے، شجر کاری پر اعتراض، ڈیم نہ بننے پر واویلا، ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ مکانات تو مصرع طرح بن چکے ہیں۔

دراصل یہ اعتراضات کرنیوالے سوشل میڈیا پر توجہ نہیں دیتے، دیکھیں لاکھوں لاکھ درخت  لہلہا رہے ہیں اور جہاں تک رہی ڈیم کی بات بس کینیڈا سے واپسی پر ڈیم کے کنارے جھونپڑی بھی ڈل جائیگی، پھر دیکھیں بدخواہوں کے مُنھ کیسے بند ہوتے ہیں۔ آپ یقین کریں یہ سب یہود و ہنود کا ساتھ دے رہے ہیں، انکے ساتھ وہی سلوک کرنا چاہیئے جو

ڈالر آسمان پر گیا تو ہر چھوٹی بڑی چیز مہنگی ہو گئی، بجلی اور گیس کی قیمت بڑھی تو دال سبزی سے لے کر تمام مصنوعات کی قیمتوں کو ڑی پر لگ گئے، آئی ایم ایف سے قرضے کیلئے منتیں ترلے جاری ہیں، اسٹیٹ بینک کہہ رہا ہے مہنگائی گزشتہ پانچ سالوں کی بلند ترین سطح پر ہے، اس پر وزیر اعظم کا فرمان ہے کہ قرضے کے بعد مہنگائی اور بڑھے گی۔ بھلا بتائیے ان اعتراضات کی کیا حیثیت ہے یہ نہیں دیکھتے کہ جب سے سرکار نے عظیم الشان غربت مٹاؤ مہم ‘احساس’ کا افتتاح کیا ہے، غریب و نادار تو عید منا رہے ہیں۔ دفتر واپسی پر ایک فقیر کو روزانہ کچھ نہ کچھ دیتا ہوں، اب گاڑی کے قریب آ کر زور سے صدا دیتا ہے، جو کچھ دینا ہے دے دے بچہ، ڈھونڈو گے ہمیں ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم، رہی بات اسٹیٹ بینک کی اب آپ ہی بتائیے ہندسوں کے گورکھ دھندے میں کون مُنھ کالا کرے، ماشااللہ وزیر خزانہ ببانگ دہل کہہ رہے ہیں کہ بس اچھے دن آنیوالے ہیں، کپتان بھی تصدیق کرتے ہیں پھر مسئلہ کیا ہے۔

دراصل تحریک انصاف سے چھوٹی سے غلطی ہو گئی، جب 100 دن پورے ہوئے تو تمام اخبارات میں حکومت کا اشتہار چھپا تھا “ہم مصروف تھے” بس 200 دن پر بھی وہی چھاپ دیتے، بلکہ ہر سو دن پر چھاپتے رہیں تو نکتہ چینی کرنیوالے خود ہی لاجواب ہو جائینگے۔ عمران خان کرپٹ رہنماؤں کو پیسے دو جان چھڑاؤ کا مشورہ دیں تو طوفان مچ جاتا ہے، بھئی انہیں فائیو اسٹار ہوٹل کے کمروں میں الٹا لٹکا کر تو پیسے وصول نہیں کیے جا رہے، مشورہ ہی دیا ہے جی چاہے مانو یا نہ مانو۔ کہتے ہیں نواز شریف کی ڈیل ہو گئی، شہباز شریف کا نام ای سی ایل سے نکل گیا، گمراہ کن افواھیں پھیلائی جا رہی ہیں کہ عمران خان برہم ہیں، ارے بھائی برہم ہوتے تو بھلا پیسے دو جان چھڑاؤ کا این آر او کیوں دیتے؟   

سچ ہے کہ وطن عزیز میں شرپسند عناصر کی کمی نہیں، بات کا بتنگڑ بنانے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں، اب ذرا خود ہی غور فرمائیں، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں ترقی و خوشحالی کو دیکھیں، دونوں صوبے گڈ گورننس کی کی اعلیٰ مثال بن چکے ہیں۔ مگر جناب لوگوں کو چین کہاں ہے، کے پی میں انہیں صرف بی آر ٹی منصوبہ نظر آتا ہے، بھئی بڑے کاموں میں تاخیر تو ہوتی ہے، 23 مارچ افتتاح نہ ہو سکا بعد میں ہو جائے گا۔ میٹرو منصوبے کے پر تو نہیں جو اڑ جائے گا، بجٹ آسمان کو پہنچا تو کیا، وزیر اعلیٰ محمود خان کہہ چکے ہیں عوامی منصوبہ ہر حال میں مکمل ہو گا۔ پنجاب میں امن و امان، ترقی اور خوشحالی کے حسد میں مبتلا عوام بیچارے عثمان بزدار کو تختہ مشق بناتے ہیں، ایسا بھلا آدمی جانو مُنھ میں زبان ہی نہیں، سادہ لوح، نیک طینت، اب کیا وزیر اعلیٰ کو اکا دکا پولیس افسران تبدیل کرنے کا بھی اختیار نہیں، بھئی تنقید کی بھی کوئی حد ہوتی ہے آخر! خیر جناب بس دیکھتے رہیں وہ دن دور نہیں ملک کی قسمت تبدیل ہونے والی ہے، تبدیلی صرف خیبر پختونخوا اور پنجاب تک محدود نہیں رہے گی، پورا پاکستان ایسی ترقی کی مثال بن جائے گا۔

میرے عزیز ہم وطنوں کا اعلان تو شاید ماضی کا قصہ بن گیا مگر سب ایک پیج پر ہیں کا اعلان آپ نے کئی بار سنا ہو گا ویسے اطلاعاً عرض ہے کہ یہ خبر نہیں خواہش ہوا کرتی تھی۔ اب خبر یہ ہے کہ ماشا اللہ واقعی سب ایک پیج پر ہیں، کیونکہ اس بار ایک پیج پر ہونا بھی “ڈاکٹرائن” کا حصہ ہے، جہاں ستر سال گزار ڈالے چند سال اس “جمہوری ڈاکٹرائن” کو بھی دیکھ لیں۔