مستقبل کا انسان اور مذہب کی ضرورت

Tariq Ahmed Siddiqui aik Rozan
طارق احمد صدیقی، صاحبِ مضمون

مستقبل کا انسان اور مذہب کی ضرورت

از، طارق صدیقی

آج سے کئی سال قبل ایک دوست نے مجھ سے کئی سوالات پوچھے تھے لیکن میں نے ان کا جو جواب دیا اس کے اندر نظم اور ربط کی کمی تھی، اور زیادہ تر اس وجہ سے کہ میرے اندر ان تمام سوالات کا جواب دینے کی علمی صلاحیت نہیں تھی۔ اس لیے میں اپنا جواب ان کو پوسٹ نہیں کر سکا۔ ان میں سے ایک سوال یہ تھا:
کیا اپ سمجھتے ہیں که مستقبل کے انسان کو مذہب کی ضرورت نہیں ہو گی؟
اس سوال کے جواب میں جو کچھ میں نے لکھا وہ یہ تھا:

مستقبل کے انسان بھی زمانہ حال کے انسانوں سے ہی بر آمد ہوں گے۔ اس لیے دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اس وقت انسانوں کے نزدیک مذہب کی حیثیت کیا ہے۔ تو یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اس وقت انسانوں کی اکثریت مذہب پر ہی چلتی ہے۔ انسانوں کی ایک بہت بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو کسی مذہب کو نہیں مانتی۔
بہت سے لوگوں کا خیال یہ ہے کہ مذہبی جنگ و جدل اور دہشت گردی کے سبب موجودہ صورتحال کے نتیجے میں لوگ مذہب کو ترک کر دیں گے۔ یہ کسی حد تک درست ہے کہ لوگ مذہب کے منفی نتائج کو دیکھ کر ایسا ضرور کریں گے، اور بہت سے لوگوں نے ایسا کیا بھی ہے، لیکن یہ خیال کرنا صحیح نہیں ہے کہ مذہب کا مکمل خاتمہ ہو جائے گا۔ میں بھی بہت دنوں تک ایسا ہی سمجھتا رہا لیکن بعد میں مجھے اس نقطہ نظر کو ترک کرنا پڑا۔ اس کے کئی اسباب ہیں جنہیں میں درجِ ذیل طور پر لکھتا ہوں:


1۔ پچھلے ادوار میں مذہب ایک علمی ضرورت بھی تھا اور معاشرت کی بنیاد بھی۔ اب فلسفیانہ اور سائنسی علوم کی زبردست ترقی کے سبب مذہب کا تعلق حصولِ علم سے بہت کم رہ گیا ہے، البتہ مذہب اب بھی معاشرت کی بنیاد ہے، اور مذہبی عقائد، خواہ وہ کتنے ہی غیرمعقول یا غیرمنطقی نظر آتے ہوں، آج بھی ہم عقیدہ انسانوں کو باہم جوڑتے ہیں۔ پیدائش اور موت کی رسوم، نکاح و طلاق کے طریقے، اور اجتماعی جشن (مثلاً کرسمس، عید، ہولی دیوالی) کا انعقاد وغیرہ مذہب کو باقی رکھنے کا کام کرتے ہیں۔ انسانوں کی بہت بڑی اکثریت مذہبی ہے اور عقائد کی بنیاد پر قوموں، ذیلی قوموں اور فرقوں میں منقسم ہے۔

اور تمام فرقوں کے لوگوں میں ایک بڑی تعداد ایسی پائی جاتی ہے جو مذہب سے متنفر ہے لیکن اس کے باوجود ایسے لوگوں کی زندگی بھی مذہبی ہی ہے کیونکہ وہ اپنی پیدائش سے لے کر موت تک مذہبی رسومات ہی کے زیرِ نگیں ہیں، وہ اپنے ہم مذہب لوگوں میں مذہب کی عائد کردہ طریقوں اور ممنوعات و محرمات کا لحاظ رکھتے ہوئے نکاح کرتے ہیں، اپنے ہم مذہب لوگوں کے طریقے سے اپنے ہاں پیدائش، موت کے رسوم کا اہتمام کرتے ہیں (ختنہ، منڈن، تدفین، داہ سنسکار وغیرہ)، مذہبی خوشیوں یعنی عیدوں میں شرکت کرتے ہیں، اور یہ سب رسوم و قیود ایسی ہیں کہ اجتماعی طور پر ان کے تسلسل میں کوئی ٹوٹ نہیں ہے، گو شخصی انحرافات ہر مذہب کے لوگوں میں پائے جاتے ہیں لیکن منحرفین کی نسلیں بہت جلد قوم کے مرکزی دھارے سے آ کر مل جاتی ہیں۔

ان مظاہر کے مشاہدے کے بعد ایک شخص اگر یہ سمجھتا ہو کہ مذہب کا خاتمہ ہو جائے گا تو وہ ایک بہت بڑی نادانی میں مبتلا ہے۔ مذہب قائم ہے عوام الناس میں رائج سنتوں یعنی پٹے ہوئے راستوں کے صراط مستقیم پر۔ اور ٹیڑھا راستہ اختیار کرنے والے چند لاکھ ملاحدہ ایک مذہب کے عوام الناس کو اس سنت سے منحرف نہیں کر سکتے۔ چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ جس قدر غالی ملاحدہ مذہب کو فنا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، مذہب اسی قوت سے عوام پر اپنی گرفت بڑھاتا جا رہا ہے، خاص طور سے اہلِ اسلام میں مذہبی بنیاد پرستی ساری دنیا میں بڑھتی جا رہی ہے اور اس وقت صورتحال یہ ہے کہ وہ دنیا کے مختلف خطوں میں دروں مذہبی اور بین مذیبی کشمکش میں گرفتار ہیں۔ پھر یہ بھی دیکھنے کی بات ہے کہ مذہبی بنیاد پرستی جس تیزی سے جڑ پکڑ رہی ہے، اسی تیزی کے ساتھ الحاد بھی بڑھ رہا ہے۔ لیکن مذہب و الحاد کے تناسب میں بالترتیب 9 اور 1 کا تناسب بھی معلوم نہیں ہوتا۔ اس صورتحال میں رہ کر اگر آپ غور کریں تو پائیں گے کہ مذہب کا خاتمہ مشکل ہی نہیں، ناممکن بھی ہے۔


2۔ مذہب اس لیے باقی نہیں ہے کہ اس کے ماننے والے حق و صداقت یا علم کے حامی ہیں، بلکہ اس کے قائم رہنے کا اولین سبب وہ معاشرتی، جماعتی اور تہذیبی بنیاد ہے جو مذہب فراہم کرتا ہے۔ مذہبی شخص علمی نکتوں کو نہیں سنتا بلکہ جماعتی عصبیت کی بنیاد پر متحرک ہوتا ہے۔ جماعتی عصبیت ایک طرف ایک مذہب یا فرقہ کے انسانوں کو باہم جوڑتی ہے تو انہیں دوسرے مذاہب کے انسانوں سے توڑتی اور کاٹتی بھی ہے۔ یعنی مذہب علمی حقیقت سے زیادہ اجتماعی اور گروہی حقیقت ہے۔ اور جہاں گروہی عصبیت کارفرما ہو، وہاں علمی سوالات کی کوئی وقعت نہیں۔


3۔ یہ نکتہ بھی ملحوظ رکھنا چاہیے کہ مذہب انسان کی مابعد موت نجات کے متعلق کچھ عقائد کامل یقین کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ فلسفہ اور سائنس میں انسان کی مابعد موت نجات پر اتنے شرح صدر اور یقین کامل کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ زندگی اور کائنات کا وجود کیوں ہے؟ انسانی زندگی کا مقصد کیا ہے، انسان کہاں سے آیا ہے اور کہاں جائے گا، ان سوالات کا جواب دینا معاشرتی اور اجتماعی زندگی گزارنے کے لیے قطعی ضروری ہے۔ ان سوالات کے جواب سے عاری معاشرہ کے افراد کے درمیان کوئی جذبِ باہم نہیں رہ سکتا۔چنانچہ اقبال نے ٹھیک ہی کہا:

قوم مذہب سے ہے، مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذبِ باہم جو نہیں، محفل انجم بھی نہیں

فلاسفہ و ملاحدہ کے سامنے سب سے بڑا سوال اگر یہ ہے کہ مذہب کا خاتمہ کیسے کیا جائے تو انہیں مذکورہ بالا سوالات کا جواب بالکل یقین کے ساتھ دینا ہوگا، یعنی ایسے نئے عقائد کی تخلیق کرنی ہوگی جو انسانوں کے درمیان جذبِ باہم کی کیفیت کو پیدا کرے۔ اور جوں ہی کہ ایسے نئے عقائد وجود میں آئے، ایک نئے مذہب کی داغ بیل پڑ جائے گی، اور ان عقائد کے خلاف کچھ دوسرے عقائد کی پیشکش ممنوع قرار دے دی جائے گی۔ کیونکہ مسئلہ یہ نہ ہوگا کہ کون سا عقیدہ برحق ہے بلکہ یہ ہوگا کہ کون سے عقیدے پر ملاحدہ کے معاشرہ اور تہذیب کی بنیاد قائم ہے۔ اور جیسے ہی کوئی عقیدہ اس حد تک مقتدر ہو جائے کہ وہ جماعت کی بنیاد سمجھا جانے لگے، ویسے ہی اس پر تنقید کا باب بند ہو جائے گا، اس عقیدہ کو پیش کرنے والے شخص کا مذاق اڑانا ممنوع ہوگا۔ یہ پھر وہی صورتحال ہوگی جس سے آج کے اردو ملاحدہ بھی متنفر ہیں۔


4۔ اب تک آپ بھی اس حقیقت تک پہنچ چکے ہوں گے کہ مرکزی مسئلہ زندگی اور کائنات سے متعلق ان ابتدائی سوالوں کا ہے جو انسان کے اندر پیدا ہوتے ہیں اور وہ ان کے حتمی جوابات چاہتا ہے، تاکہ اپنی اجتماعی زندگی کو ان جوابات کے اعتبار سے سنوار سکے۔ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان سوالات کا کوئی ایک جواب نہیں ہے، اور اس لیے نہیں ہے کہ خود انسانی عقلوں اور طبعیتوں میں اختلاف ہے۔ ہر عقیدے پر سوال اٹھایا جا سکتا ہے، اور ہر عقیدے کو طنز و استہزا کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے، اور اس کے مقابلے میں ایک مختلف عقیدہ پیش کیا جا سکتا ہے۔ اور اس سب سے کسی انسانی جماعت کا شیرازہ بکھرتا ہے، یا اس سے ٹوٹ کر نئی جماعتیں بنتی ہیں، پھر ان نئی جماعتوں میں مزید عقائدی نوعیت کی شکست و ریخت ہوتی ہے، اور مزید نئی جماعتیں ظہور میں آتی ہیں۔


5۔ اگر کچھ لوگ یہ سمجھتے ہوں کہ زندگی اور کائنات سے متعلق بنیادی سوالوں سے فرار حاصل کیا جا سکتا ہے اور مذہب کو اجتماعیت کی بنیاد سے بے دخل کیا جا سکتا ہے، اور خالص دنیوی مقاصد کے تحت ایک قوم کی بنیاد ڈالی جا سکتی ہے، تو ممکن ہے ان کا سمجھنا صحیح ہو، لیکن میرا خیال یہ ہے کہ ان سوالات سے فرار حاصل کرنا ممکن نہیں، البتہ یہ ممکن ہے کہ جماعت کی بنیاد ان سوالوں کے جواب پر نہ ہو کر کسی دوسری بنیاد پر ہو۔ مثلاً جغرافیائی خطہ، زبان، مجرد تہذیبی، تمدنی اور ثقافتی روایات، تو یہ سب بھی کوئی مستقل بنیادیں نہیں ہیں، اور یہ بھی شکست و ریخت سے دو چار ہوتی رہتی ہیں۔


6۔ اس سلسلے میں ایک سوال یہ ہے کہ فلسفیانہ سطح پر نوعِ انسانی کو ایک جماعت بن کر رہنا چاہیے یا متفرق جماعتیں بن کر۔ نوعِ انسانی کا متفرق جماعتیں بن کر رہنا تو ایک سامنے کی بات ہے، لیکن ذرا سے غور و فکر کے بعد ہی معلوم ہوجاتا ہے سارے انسانوں کا ایک جماعت بن کر رہنا ممکن نہیں، انسان گروہ در گروہ منقسم ہو کر ہی زندگی گزار سکتا ہے۔ اس لیے وہ لوگ غلطی پر ہیں جو متفرق جماعتوں کو مٹا کر تمام نوع انسانی کو ایک قوم بنا دینا چاہتے ہیں۔


7۔ اب آئیے، اس سوال پر غور کریں کہ مستقبل کے انسان کو مذہب کی ضرورت ہوگی یا نہیں؟ تو میرا جواب یہ ہے کہ نہ انسان ایک ہے، اور نہ مذہب ایک ہے۔ زندگی اور کائنات کے سوالوں کا جواب بھی ایک نہیں ہے۔ اس لیے سوال مستقبل کے انسان کا نہیں بلکہ “انسانوں” کا ہے۔ انسانوں کا جماعتوں میں منقسم ہونا بھی ایک حقیقت ہے۔ اور انسانی جماعت کی بنیاد کچھ بھی ہو سکتی ہے، زندگی اور کائنات سے متعلق سوالات کا جواب بھی کسی انسانی جماعت کی بنیاد بن سکتا ہے، اور زبان، نسل، جغرافیائی خطہ، مجرد تہذیب و ثقافت، روایتی مذاہب اور جدید ترین نظریات بھی انسانی جماعتوں کی بنیاد بن سکتے ہیں۔ البتہ مذاہب یا نظریوں اور فلسفوں کی بنا پر جو قومیں وجود میں آئیں گی، وہ زیادہ دیرپا ہوں گی۔ کوئی مذہبی یا غیرمذہبی جماعت ایسی بھی وجود میں آ سکتی ہے جو اپنے عقائد میں ہمہ وقت سائنسی اور فلسفیانہ نوعیت کی تحقیقات کے ذریعے ترمیم کرتی رہے، لیکن ایسی جماعتوں میں ذیلی جماعتیں اور فرقے بکثرت ظہور میں آئیں گے۔ اس طرح نوعِ انسانی کو کسی ایک عقیدے یا جماعت کا پابند رکھنا ممکن نہیں ہوگا۔


رہی بات روایتی مذاہب کے باقی رہنے کی تو میرا خیال ہے کہ وہ ایک مزار کی طرح باقی رہیں گے۔ روایتی مذاہب جامد ہوتے ہیں اور اپنے اندر کسی تغیر کو اصولاً راہ نہیں دیتے۔ جیسے ہی وہ کسی اصولی تغیر کو برداشت کریں گے، ان کا پچھلا مذہبی اصول باطل ہو جائے گا۔ مثلاً اہلِ اسلام میں جو لوگ اب صرف قرآن کو حجت قرار دیتے ہیں اور حدیث سنت کی حجیت سے دست بردار ہو چکے ہیں، ان کے لیے اسلام کا یہ قدیم اور اصلی اصول باطل ہو چکا کہ شرعی احکام معلوم کرنے کے ماخذ چار ہیں: قرآن، سنت، اجماع اور قیاس و اجتہاد۔ حدیث و سنت اور اجماع کی حجیت سے انکار ان اہلِ اسلام نے جدید مغربی عقل کے ذریعے اٹھائے گئے ناقابلِ شکست اعتراضات کے بعد کیا ہے۔ حدیثوں سے ثابت ہے کہ ذی روح کی مصوری حرام ہے، مجسمہ سازی نہیں کرنی چاہیے، عورت ناقص العقل ہے، جہنم میں عورتوں کی کثرت ہوگی، یا 999 فی ہزار لوگ جہنم میں جائیں گے وغیرہ۔ اس قسم کے مذہبی تصورات سے سے اپنا پیچھا چھڑانے کے لیے مابعد مودودیوں اور غامدیوں کے لیے حدیث و سنت کی حجیت سے انکار کرنا، یا متنوع تاویلات کے ذریعے ان حدیثوں سے پیدا ہونے والے سوالات کو تحلیل کر دینا بالکل ضروری ہے۔ ایسا کرنے کے ذریعے یہ لوگ اسلام کو مغربی نظریہ اور فلسفہ کے مقابلے میں ایک قابلِ عمل سیاسی آئیڈیولوجی بنانا چاہتے ہیں تاکہ اہلِ مغرب اسلام کو قبول کر سکیں۔ لیکن اہلِ مغرب اتنے کم علم تو نہیں اور نہ ہمارے ہاں کے علما و فضلا اتنے کم علم ہیں کہ اس قسم کی لیپاپوتی کو نہ سمجھیں گے۔ مذہب میں غرب زدگی پر مبنی تجدد پسندی کا حشر بہت برا ہوگا، لیکن مابعد مودودیوں اور غامدیوں کو اس کا شعور نہیں ہے۔


مغرب زدہ تجدد پسندوں کے ملیامیٹ ہو جانے کے بعد ہماری نظر روایتی اسلاموں کی طرف اٹھے گی اور چونکہ اس کا ہر حکم مغربی جدیدیت کی پیدا کردہ علمی و تکنیکی ماحول میں قابلِ قبول نہ ہوگا، مثلاً ذی روح کی مصوری و سنگتراشی، تو شریعت کا یہ حکم آپ سے آپ معطل ہو جائے گا۔ اس قسم کے تعطل کو اسلام کی شکست نہیں سمجھنا چاہیے، خواہ یکے بعد دیگرے اسلام کے کتنے ہی احکامات ناقابلِ عمل ہوتے چلے جائیں۔ مابعد مودودیوں اور غامدیوں کو اپنی مغرب زدگی میں یہ یقین نہیں آتا کہ یہ احکامات جو دورجدید میں آ کر معطل ہو گئے، اللہ تعالی کی طرف سے ہو سکتے ہیں، ان کی نظر میں آخر خدا تعالی کیونکر ایسے ناقابلِ عمل احکامات صادر کر سکتا ہے؟ چنانچہ وہ اسی مذہبی متن سے تعبیری و تاویلی کھینچ تان کے ذریعے اس چیز کا جواز نکال لیتے ہیں جس مذہبی متن سے گزشتہ چودہ سو سالوں تک اس چیز کو حرام کیا جاتا رہا۔ ظاہر ہے یہ ایک بڑی شرمناک بات ہے، لیکن جب شرم ہی کو طاق پر اٹھا کر رکھ دیا تو اب جو چاہو کرو، اسلام کو مغربی عقل کی پیدا کردہ صورتحال میں بذریعہ تاویل جو چاہو بنا دو، لیکن علمی سطح پر اس کی پرِ کاہ کے برابر اہمیت نہیں۔


8۔ اب سوال ہے کہ روایتی مذاہب جو مغربی ماحول میں ناقابلِ عمل ہو گئے، کیا وہ زندہ رہیں گے؟ تو دنیا میں ایک اسلام ہی نہیں، بہت سے مذاہب ہیں جو زندہ ہیں، اور فوسل کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ مذہب کا علمی کردار اب چونکہ بہت کم باقی رہ گیا ہے، اور معاشرتی کردار ابھی باقی ہے، اور شاید ہمیشہ باقی رہے، اس لیے مذہب کا تعلق فکر و عقیدہ سے کم اور مذہبی روحانی شخصیات سے زیادہ ہو گیا ہے۔ چنانچہ مذہبی احساس اب آپ کو تبلیغی سنٹروں میں نہیں بلکہ مزارات اور آستانوں میں دکھائی دے گا۔ یہ اجمیر و کلیر اور نظام الدین کی گلیوں میں جلوہ فگن ہے۔ محتاج اور بے بس انسانوں کے انبوہ ان مزارات پر حاضری دیتے اور اپنی روحانی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں۔ استاد نصرت فتح علی خاں اور دیگر فنکاروں کی صوفی قوالیاں اور گانا بجانا اس بات کے شاہد ہیں کہ مذہب کا یہ تصور مسلمانوں میں بہت مقبول ہو چکا ہے۔ ان قوالیوں کو سننا اور ان سے حظ اٹھانا ہی اس بات کا زندہ ثبوت ہے کہ اب مذہب اور مزار لازم و ملزوم ہو چکے۔ اور جن لوگوں کو اپنی وہابیانہ آئیڈیالوجی پر بڑا غرہ ہے، وہ صوفی میوزک کا متبادل پیش کر کے دکھائیں۔ اور خالص بادہ توحید کی بنیاد پر پیش کر کے دکھائیں۔ اور میرا خیال ہے وہ نہ کر سکیں گے۔


پس، روایتی مذہب اپنے احکام کی حد تک معطل ہونے کے بعد متصوفانہ رنگ میں ظاہر ہوگا، اور قوم کو متحد کرے گا، یہ متصوفانہ مذہب نہ فلسفہ و سائنس کا دشمن ہوگا اور نہ خواتین پر کوئی ڈریس کوڈ لادے گا اور نہ ایک مذہبی آئیڈیولوجی کی پیش کش اور تبلیغ کے ذریعے دنیا کی دوسری قوموں پر غلبہ حاصل کرنے کی پرامن دعوتی جدو جہد سے لے کر مذہبی جدال و قتال کی سچویشن پیدا کرے گا۔
9۔ آپ کے سوال کا بالکل ٹو دی پوائنٹ جواب دینا، دو اور دو چار کی طرح، فی الوقت میرے لیے بہت مشکل ہے، لیکن اگر اس سلسلے میں مزید سوالات سامنے رکھے جائیں تو ممکن ہے اس بحث کے کئی گوشے مزید روشن ہوں۔