پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی ادارے اور کمرشلزم کی دوڑ: ایچ ای سی کے کردارکی اہمیت

(ڈاکٹر ثاقب ریاض)

تاریخ عالم کے اوراق اس پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہیں کہ قوموں کی ترقی کا راز تعلیم کے حصول میں مضمر ہے۔ جن قوموں نے حصولِ علم پر توجہ دی اور تعلیم کا فروغ جن کی ترجیح اول رہا‘ ترقی‘ کامیابی اور کامرانی ان قوموں کا مقدر رہا اور جن بدقسمت قوموں نے حصولِ علم کو اہمیت نہ دی‘ اپنی تاریخ کا بیشتر حصہ جنگ وجدل میں گزار دیا‘ جہالت ان کا مقدر بنی اور وہ ذلت و رسوائی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ڈوب گئیں۔ بدقسمتی سے ملکِ عزیز پاکستان میں تعلیم کو کبھی وہ اہمیت نہیں دی گئی جو ترقی یافتہ قوموں کی صف میں شامل ہونے کے لئے آج کے دور میں ضروری ہے۔ ملک کے سیاسی بام ودر میں تعلیم کا ذکر کم ہی ہوتا ہے۔ حکومتی ترجیحات میں بھی تعلیم کا نمبر بعد میں آتا ہے۔ لیکن گزشتہ عشرے میں اس سماجی معاملے کو قومی سطح پر تسلیم کیا گیا‘ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے تعلیم کے بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کیا جس کے مثبت اثرات سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ مصدقہ اطلاعات کے مطابق گزشتہ چند برسوں میں سکولوں اور کالجوں میں داخلہ لینے والے طلباء اور طالبات کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ سرکاری سکولوں میں فیس کم ہونے اور باقی تعلیمی اخراجات نہایت کم ہونے کی وجہ سے عوام کی اکثریت کے لئے تعلیم کا حصول ممکن ہوا ہے سکولوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہونے اور ہزاروں سکولوں کی اپ گریڈیشن کے باعث لاکھوں بچوں کے لئے یہ ممکن ہوا ہے کہ اپنے گاؤں‘ قصبے یا شہر میں سکول‘ کالج کی تعلیم حاصل کرسکیں۔ گزشتہ دس برسوں میں ہزاروں سکولوں کو اپ گریڈیشن دے کر بہت سے کالجز کو اپ گریڈ کرکے یونیورسٹی بنادیا گیا۔ جس سے اعلیٰ تعلیم کے مواقع میں بہتری آئی ہے۔ 2004 میں مرکزی سطح پر ہائر ایجوکیشن کمشن کا قیام عمل میں لایا گیا اور پہلے سے قائم ادارے یونیورسٹی گرانٹس کمشن کو نئے قائم ہونے والے ادارے ایچ ای سی میں ضم کر دیا گیا۔ اس ادارے کو ملک میں اعلیٰ تعلیم کو فروغ کا ذمہ دار قرار دے کر اس کے اختیارات میں وسیع اضافہ کردیا گیا۔ کمشن نے ہزاروں طلباء وطالبات کو وظائف دے کر پی ایچ ڈی اور پوسٹ ڈاکٹریٹ کے لئے بیرونِ ملک بھجوایا جن کی بڑی تعداد واپس آکر ملکی جامعات اور کالجز میں تعلیم دے رہی ہے۔ اس طرح ہائر ایجوکیشن کمشن نے لاکھوں طلباء و طالبات کی مالی معاونت کرکے اندرون ملک اعلیٰ تعلیم کا حصول ممکن بنایا۔ گزشتہ چند سالوں میں ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے طلباء و طالبات کو لیپ ٹاپ تقسیم کئے گئے جس کی بدولت نوجوان نسل کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے ذریعے حصولِ تعلیم میں مصروفِ عمل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج کی دنیا سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا ہے۔ آج کی اس چکا چوند کر دینے والی دنیا میں جدید علوم کا حصول کمپیوٹر ٹیکنالوجی نے انتہائی آسان بنا دیا ہے۔ کسی بھی موضوع پر صرف ایک کلک کے ذریعے ہزاروں صفحات تک رسائی ممکن ہو جاتی ہے۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں فائبرنیٹ ورکنگ‘ انٹر نیٹ براڈبینڈ کی فراہمی‘ ڈیجیٹل لائبریری کے ذریعے ہزاروں جرنلز تک رسائی جیسے بہت سے اقدامات ہائر ایجوکیشن کمشن کے مرہونِ منت ہیں اور کمشن کے ان اقدامات کے مثبت کے نتائج بھی سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔

اعلیٰ تعلیم کے فروغ میں کوشاں ایک اور قومی ادارہ نیشنل ٹیسٹنگ سروس ہے جس نے یونیورسٹیوں میں داخلے سے لے کر وفاقی اور صوبائی محکموں میں بھرتیوں تک مختلف سطح پر مناسب ترین امیدواروں کے انتخاب کے حوالے سے اہم کردار ادا کیا ہے۔ نیشنل ٹیسٹنگ سروس ایک عالمی معیار کا ادارہ ہے جو مختلف شعبہ جات کے ٹیسٹ انٹر نیشل سٹینڈرڈ کے مطابق تیار کرتا ہے اور ملکی جامعات میں داخلوں کے سلسلے میں معاونت کرتا ہے۔ ملک میں اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے لئے عساکرِپاکستان کے اداروں نے بھی ایک قابلِ ذکر کردار ادا کیا ہے۔ پاک فوج کے زیرِانتظام چلنے والا اعلیٰ تعلیم کا ادارہ نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ایک عالمی سطح کا ادارہ بن چکا ہے جس کا شمار دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے۔ اس ادارے میں ہزاروں طلباء و طالبات عالمی معیار کی جدید ترین تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ اسی طرح پاک فوج کے زیرِ انتظام چلنے والی جامعہ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی دفاعی تعلیم کے حوالے سے دنیا کی ایک اہم اور نمایاں یونیورسٹی بن چکی ہے جہاں پر نہ صرف پاکستان بلکہ امریکہ اوریورپی ممالک سمیت دنیا کے مختلف ممالک سے فوجی افسران دفاعی امور کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کا شعبہ گورنمنٹ اینڈ پبلک پالیسی پاکستان کے سول شہریوں کو حکومتی معاملات چلانے اور پالیسیاں بنانے کے حوالے سے ماسٹرز اور ایم فل سطح پر تعلیم کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ پاک بحریہ کے زیرِ اہتمام چلنے والی بحریہ یونیورسٹی ملک میں اعلیٰ تعلیم کی معیاری درسگاہ بن چکی ہے۔ اسی طرح پاک فضائیہ نے ملک کے مختلف شہروں میں فضائیہ کالج قائم کر رکھے ہیں۔ جہاں ہزاروں طلباء و طالبات زیرِ تعلیم ہیں۔ ایئر یونیورسٹی کا قیام بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے جہاں جدید ترین تعلیم کے مواقع فراہم کئے جاتے ہیں۔ ثابت ہوتاہے کہ عساکرِ پاکستان کے اداروں نے ملک میں جدید فنی تعلیم کے فروغ میں ایک نمایاں اور قابلِ ذکر کردار ادا کیا ہے۔ ان اداروں کے معیار کو عالمی سطح پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ یہاں سے فارغ التحصیل طلباء وطالبات نہ صرف دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے ہیں بلکہ دنیا کے اعلیٰ ترین اداروں میں خدمات بھی سرانجام دے رہے ہیں۔

مملکتِ خداداد پاکستان کا ایک اور قومی تعلیمی ادارہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ہے جو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں قائم ہے لیکن اس کے علاقائی کیمپسز اور دفاتر کا نیٹ ورک پورے ملک میں پھیلاہوا ہے۔ یہ یونیورسٹی ملک کے طول و عرض میں میٹرک سے لے کرپی ایچ ڈی کی سطح تک کے پروگرام اور کورسز پیش کررہی ہے اور اس میں داخلہ لینے والے طلباء و طالبات کی تعداد دس لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔ طلباء کی تعداد کے لحاظ سے یہ دنیا کی میگا یونیورسٹیوں میں شامل ہے جو کہ ایک عالمی اعزاز ہے۔ یونیورسٹی کے موجودہ وائس چانسلر ملک کے معروف ماہرِ تعلیم‘ مصنف‘ ادیب‘ صحافی اور دانشور ڈاکٹر شاہد صدیقی ہیں جن کی قیادت میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی نے بعض بڑے سنگ میل رکھے ہیں اور بڑے اہداف کا حصول ممکن ہوا ہے۔ حال ہی میں اس یونیورسٹی نے ملک بھر کی جیلوں میں بند قیدیوں کے لئے فری ایجوکیشن کا اعلان کیا ہے جس کا فائدہ ہزاروں قیدیوں کو پہنچے گا اور وہ تعلیم یافتہ شہری بن کر معاشرے کے مفید رکن ثابت ہوں گے۔ اسی طرح یونیورسٹی نے حال ہی میں نابینا افراد کو اُن کی ضرورت کے مطابق جدید تعلیم کی فراہمی کے لئے ایسسبیلیٹی سینٹر قائم کیا ہے جس سے معاشرے کے نابینا افراد جدید کمپیوٹرز پر تعلیم حاصل کرسکیں گے۔ یونیورسٹی نے قومی سطح پر سیمینارز اور کانفرنسز کا ایک سلسلہ شروع کررکھا ہے جو ملک میں تحقیق و تدریس کی روایات کو مستحکم خطوط پر استوار کررہا ہے۔ ان تقریبات میں ملک بھر سے ماہرین تعلیم کو بلایا جاتا ہے اور ان کی تحقیق سے استفادہ کیا جاتا ہے۔ سینئر صحافیوں اور اہلِ قلم کی خدمات کے اعتراف میں اُنہیں پروگرام ’ملاقات‘ میں مدعو کیا جاتا ہے جہاں پر طلباء و طالبات اور اساتذہ کی بڑی تعداد شریک ہو کر ملک کی نامور شخصیات سے ملاقات اور تبادلۂ خیالات کرتی ہے۔

بلاشبہ سرکاری شعبے میں قائم تعلیمی ادارے ملک میں تعلیم کے فروغ کے لئے گرانقدر خدمات سرانجام دے رہے ہیں لیکن روز بروز بڑھتی ہوئی آبادی کی تعلیمی ضروریات کے پیشِ نظر سرکاری شعبہ یہ ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہے۔ فروغ تعلیم کا ہدف اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتا جب تک کہ پرائیویٹ سیکٹر اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا نہ کرے۔ بڑی حد تک پرائیویٹ سیکٹر نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ ملک کے طول و عرض میں ہزاروں کی تعداد میں قائم سکول اور کالج علم کی شمع جلانے میں پیش پیش رہے ہیں۔ ان نجی تعلیمی اداروں نے ملک سے جہالت کے اندھیرے دُور کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ وطنِِ عزیز کے بہت سے نجی تعلیمی ادارے فروغِ تعلیم کے سلسلے میں حکومتی اداروں کے شانہ بشانہ رہے اور ان سے فارغ التحصیل ہونے والے لاکھوں نوجوان نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک بھی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ وفاقی اور صوبائی محکموں کے علاوہ پرائیویٹ اداروں میں خدمات انجام دینے والے لاکھوں لوگ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے فارغ التحصیل ہیں۔ لہٰذا ان اداروں کا کردار اپنی جگہ مسلمہ ہے۔ لیکن اس تصویر کا دوسرا رخ تابناک نہیں بلکہ یہ رُخ انتہائی پراگندہ اور تکلیف دہ ہے۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں کمرشلائزیشن کے رجحان نے معاشرے میں شدید انتشار پیداکردیا ہے۔ اُردومیڈیم اور انگلش میڈیم سکولوں کے رجحان نے طبقاتی کشمکش کو جنم دیا ہے جو بڑھتے بڑھتے پورے ملک میں پھیل گئی ہے۔ افراط و تفریط کے اس رجحان نے معاشرے میں بہت سے مسائل پیدا کردیئے۔ انگلش میڈیم سکولوں میں پڑھنے والے اشرافیہ کے بچے ہر شعبہ زندگی میں آگے نکلنے لگے اور اُردو میڈیم اور ٹاٹ سکولوں میں پڑھنے والے غریب بچے نظر انداز ہونا شروع ہوگئے۔ یوں اُردو میڈیم اور انگلش میڈیم سکولوں کی تفریق نے معاشرے میں بڑے مسائل پیدا کردیئے۔ معاشرے کے بہت سے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے بھی اپنے بچے انگریزی میڈیم سکولوں میں داخل کرادیئے جس سے پرائیویٹ سکولوں اور کالجوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اس صورتحال کے پیشِ نظر حکومتی سرپرستی میں چلنے والے تعلیمی اداروں میں انگریزی مضمون کو لازمی حیثیت دے دی گئی اور ہزاروں کی تعداد میں انگریزی مضمون کے اساتذہ تعینات کر دیئے گئے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نجی تعلیمی اداروں میں کمرشلائزیشن کی وباء بڑھتی گئی۔ چھوٹے بڑے سکول بن گئے اور پھر بڑے سکولوں نے ملک بھر میں اپنی شاخیں کھول کر تعلیمی شعبے میں تسلط قائم کرنا شروع کردیا۔ ہر شخص کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اچھے سے اچھے سکول میں داخل کرائے۔ پرائیویٹ سکولوں نے لوگوں کی اس خواہش کے پیشِ نظر اپنے سکولوں کی بہت سی شاخیں کھول لیں اور فیسوں میں بے تحاشا اضافہ کردیا۔ بڑے شہروں میں قائم بڑے اور معروف پرائیویٹ سکول ہر سال فیسوں میں بے تحاشا اضافہ کردیتے ہیں جس کا براہِ راست اثر والدین پر پڑتا ہے۔ سکول فیس کے علاوہ تعلیمی اخراجات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ کتابوں‘ کاپیوں‘ سٹیشنری کے اخراجات اور پک اینڈ ڈراپ کے اخراجات شامل کئے جائیں تو یہ فہرست ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ ایسالگتا ہے یہ پرائیویٹ تعلیمی ادارے کسی قاعدے اور قانون کے پابند نہیں‘ ان کے اوپر کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا۔ یہ اپنی مرضی سے جب چاہیں فیسوں میں اضافہ کردیتے ہیں۔ ان سکولوں میں آکسفورڈ سلیبس کی انتہائی مہنگی کتب پڑھائی جاتی ہیں جس سے تعلیمی اخراجات مزید بڑھ جاتے ہیں۔2015 کا تعلیمی سیشن شروع ہوتے ہی بڑے شہروں میں قائم معروف تعلیمی اداروں نے اپنی فیسوں میں بے تحاشا اضافہ کردیا۔ مزید برآں سکیورٹی چارجز کے نام پر والدین سے اضافی رقم کا مطالبہ کردیا گیا۔ اس صورت حال پر ملک بھر میں احتجاج ہوا‘ معاملات میڈیا سے ہوتے ہوئے حکومتی ایوانوں تک پہنچے لیکن حاصل کچھ بھی نہ ہوا۔ والدین اپنے بچوں کے مستقبل کی خاطر بھاری بھر کم فیسیں دینے پر مجبور ہیں۔ بات فیسوں تک ہی محدود نہیں بلکہ اضافی اخراجات کا نہ ختم ہونے والے سلسلہ والدین کے لئے مزید پریشانی کا سبب ہے۔ آئے روز نئے نئے بہانوں سے والدین سے رقوم کی وصولی کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ بڑے پرائیویٹ سکول اب ایک طرح کی ایمپائر بن چکے ہیں جو ملک بھر میں اجارہ داری قائم کر چکے ہیں۔ ان کے مقابلے میں چھوٹے پرائیویٹ سکول بند ہونے پر مجبور ہیں۔ یہ بڑے پرائیویٹ سکول بچوں کو کیا پڑھا رہے ہیں اور ان میں تعلیم حاصل کرنے والی نسل پاکستان کی نظریاتی اساس کے بارے میں کتنا علم رکھتی ہے اور مشاہیر اسلام کے بارے میں کتنی آگاہی رکھتی ہے، ان سوالوں کا جواب کچھ حوصلہ افزا نہیں ہے۔مکمل طور پر مغربی نظامِ تعلیم کے مطابق پروان چڑھنے والی نسل اسلامی جمہوریہ پاکستان کی نظریاتی‘ ثقافتی اور معاشرتی اقدار کا تحفظ کس طرح سے کر پائے گی؟ یہ ایک ایسا سوالیہ نشان ہے جس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ آخر ہم کس سمت جارہے ہیں۔ اپنی مشرقی روایات اور اقدار سے لاتعلق رہ کر ہم کون سا مقصد اور مشن حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ غیرملکی آقاؤں کو خوش کرنے کے لئے سکولوں اورکالجوں کے نصاب سے اسلام‘ تاریخ اسلام اور نظریہ پاکستان کے اسباق کو نکال کر ہم کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ تلخ حقیقت یہ ہے کہ ابتدائی تعلیم اور سیکنڈری تعلیم، بشمول او لیول اور اے لیول، پر صرف چند ایک بڑے پرائیویٹ سکولوں کا قبضہ ہو چکا ہے اور اُن بڑے گروپوں کا مقصد پیسہ کمانے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ بھاری بھر کم فیس لینے کے باوجود طلباء کو مناسب سہولیات فراہم نہیں کی جاتیں‘ اساتذہ کو اچھے معاوضے نہیں دیئے جاتے‘ کھیلوں اور دیگر غیرنصابی سرگرمیوں پر توجہ نہیں دی جاتی۔ البتہ آئے روز حیلوں بہانوں سے والدین سے پیسے بٹورلئے جاتے ہیں اور جلد ہی اس سکول کی نئی برانچ کھل جاتی ہے جہاں مزید بچے داخل کرکے مزید کمائی کا دورازہ کھول دیا جاتا ہے۔ بعض بڑے پرائیویٹ سکولوں کی برانچز کی تعداد ہزاروں میں پہنچ چکی ہے۔

اب آتے ہیں ملک میں اعلیٰ تعلیم کی طرف جہاں ملک بھر میں اعلیٰ تعلیم کی فراہمی کے لئے سرکاری سطح پر102 جبکہ پرائیویٹ سیکٹر میں74 یونیورسٹیاں قائم ہیں جنہیں ہائر ایجوکیشن کمشن نے باقاعدہ طورپر تسلیم کررکھا ہے۔ 20 کروڑ آبادی والے ملک میں سرکاری شعبے میں کام کرنے والی جامعات انتہائی ناکافی ہیں۔ اس کمی کو پرائیویٹ یونیورسٹیوں نے پورا کیا ہے۔ آج سے 20 سال پہلے کسی یونیورسٹی میں داخلہ بہت بڑا اعزاز سمجھا جاتا تھا لیکن اب ہر نوجوان کسی نہ کسی سرکاری یا پرائیویٹ یونیورسٹی میں داخلہ لے سکتا ہے۔ اس وقت بہت بڑی تعداد میں نوجوان نجی شعبے کی جامعات میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ بلاشبہ نجی شعبے کی جامعات نے ملک میں اعلیٰ تعلیم کے مواقع میں اضافہ کیا ہے اور ان میں سے بعض یونیورسٹیاں عالمی معیار کی جامعات میں شامل کی جاتی ہیں لیکن مجموعی طور پر صورت حال کچھ زیادہ تسلی بخش نہیں۔

پرائیویٹ یونیورسٹیاں کمرشلائزیشن کے راستے پر گامزن ہیں اور ان کا مقصد صرف اور صرف پیسہ کمانا رہ گیا ہے۔ بڑے بڑے تجارتی گروپوں نے صابن اور سیمنٹ کے کارخانے بند کرکے یونیورسٹیاں کھول لی ہیں۔ سرمایہ کار اور صنعتکار اب اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں داخل ہو کر ڈگریاں بانٹ رہے ہیں۔ آخر ان کو یہ حق کس نے دیا؟ بظاہر تو پرائیویٹ یونیورسٹیاں ہائر ایجوکیشن کمشن کی منظوری سے ان کے قواعد و ضوابط کی پابند ہیں لیکن عملاً وہ اپنے سارے فیصلے خود کرتے ہیں۔ پرائیویٹ یونیورسٹیوں کے مالک صنعتکار اور سرمایہ دار ہی فیصلہ کرتے ہیں کہ ان کی ڈگریوں کی قیمت کیا ہے۔ سرمائے کے بل بوتے پر وہ عالیشان عمارات تعمیرات کرکے اور قیمتی قالین اور فرنیچر رکھ کر طلباء و طالبات کو داخلہ لینے پر مائل کرتے ہیں پھر اپنی مرضی کی فیس لیتے ہیں اور اپنی صنعتوں کو پروان چڑھاتے ہیں۔ کاروباری لوگوں کی بنائی ہوئی یہ یونیورسٹیاں ملک کے طول و عرض میں قائم ہیں اور بھاری بھر کم فیسیں لے کر طلباء و طالبات کی بڑی تعداد کو داخلہ دے دیا جاتا ہے۔ کمرشلائیزیشن کا یہ عالم ہے کہ بعض یونیورسٹیوں نے مارکیٹوں اور پلازوں میں بھی کیمپس قائم کر رکھے ہیں۔ اور صرف فیس کی رقم لے کر ڈگریاں بانٹی جارہی ہیں۔ ہائر ایجوکیشن کمشن نے نجی یونیورسٹیوں کے لئے جو اصول وضوابط مقرر کررکھے ہیں ان پر بہت کم عملدرآمد ہوتا ہے۔ زیادہ تر پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں داخلہ لینے کے لئے میرٹ کا کوئی تصور نہیں ہے۔ داخلہ لینے کے خواہشمند ہر نوجوان کو داخلہ دے دیا جاتا ہے چاہے اس نے تھرڈ ڈویژن ہی حاصل کر رکھی ہو۔ بعض اوقات تو بی اے اور بی ایس سی میں فیل ہونے والے کو بھی مشروط طور پر ایم اے‘ ایم ایس سی میں داخلہ دے دیا جاتاہے۔

کاروباری سوچ کے حامل سرمایہ داروں اور صنعتکاروں نے تعلیم کو بھی کمائی کا ذریعہ بنالیا ہے اور ان کے نزدیک ان کی پرائیویٹ یونیورسٹی پیسہ کمانے کا ویسا ذریعہ ہے جیسا کہ ان کے کارخانے اور یہ لوگ یونیورسٹی بھی کارخانے کی طرز پر چلارہے ہیں۔ کمرشلائزیشن کی اس دوڑ میں اعلیٰ تعلیم کی ڈگریاں بے وقعت ہو کر رہ گئی ہیں۔ بعض پرائیویٹ یونیورسٹیوں نے ایم فل اور پی ایچ ڈی پروگرام شروع کرکے ہزاروں کی تعداد میں داخلے کر لئے ہیں جب یہ نوجوان اعلیٰ ترین ڈگریاں لے کر ملازمت حاصل نہ کرسکیں گے تو اس صورتحال کا ذمہ دار کون ہوگا۔

تعلیم کے نام پر کمرشل ازم پیشہ ورانہ تعلیمی اداروں تک بھی پہنچ چکا ہے۔ بڑی تعداد میں انجینئرنگ یونیورسٹیاں اور میڈیکل کالج پرائیویٹ سیکٹر میں کھل چکے ہیں۔ ان میں سے بعض پرائیویٹ میڈیکل کالج اور انجینئرنگ یونیورسٹیاں بہت اچھی تعلیم دے رہی ہیں لیکن بہت سے ادارے ایسے بھی ہیں جن کا مقصد لوٹ مار کے سوا کچھ بھی نہیں۔ کسی زمانے میں میڈیکل کالج میں داخلہ بہت بڑا اعزاز سمجھا جاتا تھا لیکن اب کوئی بھی نوجوان خواہ اس نے تھرڈ ڈویژن لے رکھی ہو پرائیویٹ میڈیکل کالج میں داخلہ لے سکتا ہے۔ پیسے کے بل بوتے پر ڈاکٹر بننے والے لوگ ملک و قوم کی کیا خدمت کریں گے۔ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کا فرض بنتا ہے کہ وہ پرائیویٹ میڈیکل کالجز کے لئے داخلے کا معیار مقرر کریں اور ان کی فیسوں کو مناسب حد تک کم کریں۔

دوسری طرف ہائر ایجوکیشن کمشن پر اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے حوالے سے بہت بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ پرائیویٹ سیکٹر کی یونیورسٹیوں نے تعلیم کے نام پر لوٹ مارکا جو سلسلہ شروع کررکھا ہے اس کو روکا جائے۔ ان جامعات میں داخلے کے لئے میرٹ کو یقینی بنایا جائے اورتھرڈ ڈویژن والوں کو داخلہ نہ دیا جائے۔ پرائیویٹ یونیورسٹیوں کے امتحانی نظام کو مربوط بنایا جائے تاکہ ڈگریوں کی تقسیم کا سلسلہ ختم ہو۔ ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح کے داخلوں کو محدود کیا جائے اور تعلیمی اسناد کو بے وقعت ہونے سے بچایا جائے۔ مارکیٹوں اور پلازوں میں قائم ہونے والی غیر معیاری یونیورسٹیوں کو بند کیا جائے۔ نجی شعبے میں کام کرنے والی یونیورسیٹی کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے طلباء وطالبات کو بہترین تعلیمی سہولیات فراہم کریں‘ بہترین لائبریریاں اور لیبارٹریاں قائم کریں جہاں طلبا تعلیم اور تربیت حاصل کریں۔ غیر نصابی سرگرمیوں پر توجہ دی جائے اور کھیلوں کے لئے جگہ مختص کی جائے۔ ایم فل اور پی ایچ ڈی کے تحقیقی منصوبوں پر خصوصی توجہ دی جائے اور عالمی معیار کے مطابق تحقیقی مقالہ جات لکھوائے جائیں۔ ان مقالہ جات کی ایوالویشن ترقی یافتہ ممالک کے پروفیسروں سے کرائی جائے۔ ہائر ایجوکیشن کمشن کو چاہئے کہ ملک میں تحقیق کے کلچر کو پروان چڑھایاجائے اور پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں ریسرچ کے عمل کی نگرانی کی جائے۔ فیسوں کے معاملات کی نگرانی کی جائے اور سالانہ فیسوں کی بالائی حد مقرر کردی جائے۔ افسوس کا مقام ہے کہ دنیا کی ٹاپ500 یونیورسٹیوں میں ہمارے ملک کی کسی بڑی یونیورسٹی کا نام نظر نہیں آتا۔ اس صورت حال کو تبدیل ہونا چاہئے۔ کمرشلائزیشن کے منہ زور گھوڑے کو لگام دی جائے اور تعلیم کے فروغ کو اس کی صحیح روح کے مطابق پروان چڑھایا جائے۔ سرمایہ داروں کو یہ باور کرایا جائے کہ تعلیمی ادارے کو اپنے کارخانوں سے الگ سمجھیں اور تعلیمی اداروں کو صرف تعلیم پھیلانے کے ادارے تک ہی محدود رکھیں۔

توقع ہے کہ ایچ ای سی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے کمرشلائزیشن کے اس سیلاب کے آگے بندباندھے گا اور پرائیویٹ یونیورسٹیوں کو اس بات کا پابند کرے گا کہ وہ قومی دھارے میں شامل ہو کر اپنا صحیح کردار اداکریں۔

 

(ڈاکٹر ثاقب ریاض علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ ماس کمیونیکیشن (ابلاغیات عامہ) میں بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ تعلیم اور متعلقہ امور پر خصوصی مضامین لکھتے رہتے ہیں۔)