شی جن پنگ کا چین

aik Rozan writer
حسین جاوید افروز ، صاحب مضمون

شی جن پنگ کا چین

از، حسین جاوید افروز

نپولین بونا پارٹ نے چین کے متعلق درست ہی کہا تھا کہ چین ایک سویا ہوا دیو ہے ۔اسے سونے دو کیونکہ اگر یہ بیدار ہوگیا تو دنیاپچھتائے گی ۔آج چین مکمل طور پر بیدار ہوچکا ہے ۔اور ایک دنیا چینیوں کی انتھک محنت اور معاشی کامیابیوں کے گن گاتی دکھائی دیتی ہے ۔جس کی تازہ ترین مثال اکتوبر 2017 میں چین کی نیشنل پیپلز کانگرس کا اجلاس ہے جو کہ ہر پانچ سال بعد منعقد ہوتا ہے ۔اس میں ایسے راہنما بھی سامنے آتے ہیں کہ جو موجودہ حکمرانوں کی معیاد ختم ہونے کے بعد دنیا کے اس سب سے بڑے ملک کی قیادت سنبھالیں گے۔ اس اجلاس میں ہی چین کی تمام داخلی اور خارجہ پالیسیوں کا جائزہ بھی لیا جاتاہے اور اگلے 5سال کے لیے اہداف بھی رکھے جاتے ہیں۔ اس اجلاس میں کمیونسٹ پا رٹی کے 2200 نما ئندے شریک ہوئے۔یہ نمائندے کمیونسٹ پا رٹی کی 200 رکنی سینٹرل کمیٹی کا انتخاب کرتے ہیں۔

یہ 200 ارکان 24 رکنی پولٹ بیورو اور یہ 24 ارکان7 رکنی قائمہ کمیٹی کا انتخاب کرتے ہیں چین کا سب سے با اختیار ادارہ   یہی قائمہ کمیٹی ہو تی ہے۔چین کی نئی قیادت کا انتخاب بھی یہی ادارہ کرتا ہے۔اسی اجلاس میں موجودہ چینی صدر شی جن پنگ کو لازوال قومی خدمات کے حوالے سے شا ندار انداز سے خراج تحسین پیش کیا گیا ہے ۔اپنے پا نچ سالوں میں شی جن پنگ نے چینی قوم کو بھرپور اعتماد بخشا۔۱۹ویں کا نگرس کے اجلاس میں بھی شی جن پنگ نے فخر کے ساتھ اس با ت کا اظہار کیا کہ چین جیسی عظیم قوم کو اب دنیا میں اس کا جا ئز مقام ملنے جا رہاہے۔ شی جن پنگ کوکمیونسٹ پا رٹی میں مقبولیت کی’’کور‘‘ لیڈر کاخطاب بھی مل گیا ہے۔ چین کی سیاسی اصطلاح میں’’ کور‘‘کے خطاب کو ڈینگ شاوپنگ نے متعارف کر وایا تھا اس سے مراد ایسا راہنما ہوتا ہے جو چینی عوام، کمیونسٹ پا رٹی اور افواج پر مکمل اثرو رسوخ رکھتا ہو۔شی جن پنگ پارٹی کے جنرل سیکر ٹری ،مرکزی فوجی کمیشن کے سربراہ اور پیپلز لبریشن آرمی کے سپریم کمانڈر بھی ہیں۔

گز شتہ پا نچ سال یعنی شی جن پنگ کے دور میں سنٹرل کمیٹی کے 40 ممبران کو کرپشن پر سخت سزائیں دی گئی۔جبکہ2016کے اعدادو شمار کے مطابق کمیونسٹ پا رٹی کے دس لاکھ ارکان کی کرپشن کے معاملات پر انکوائری کی گئی۔چین کے سرکاری میڈیا کی اطلا عات کے مطابق پیپلز لبریشن آرمی کے4885 افسروں کو کرپشن پر سزائیں دی گئی جن میں کئی فوجی جنرلز بھی شامل تھے ۔ اس مہم میں شنگھائی اور بیجنگ کے قد آور اور با اثر کمےؤنسٹ رہنماؤں کو بھی نہیں بخشا گیا ۔ یہاں یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ شی جن پنگ کے خیالات کو کمیونسٹ پارٹی کے دستور میں نمایاں جگہ دی گئی ہے۔ اس سے قبل ماؤزے تنگ کے خیالات اور ڈینگ شاؤ پنگ کے نظریات کو بھی پارٹی کے دستور میں جگہ دی گئی۔

چینی سوشلزم مارکس ازم سے مختلف سوچ ہے ۔اسے چینی نظریاتی ضروریات ،معاشی مقاصد اور سماجی تبدیلی کے ساتھ ڈھالا گیا ہے ۔یوں اسے چینی خوبیوں والا سوشلزم قرار دیا گیا ۔لیکن ڈینگ شاؤپنگ کی زندگی میں ان کے نظریات پارٹی کے دستور کا حصہ نہیں بنے ۔ البتہ ان کے بعد بنائے گئے ۔تاہم اب اس لمحہ موجود میں شی جن پنگ چین کی پہلی ایسی شخصیت بن کر ابھرے ہیں کہ جو اپنے سیاسی قد ،اثر اور پارٹی پر اپنی نظریاتی گرفت کی بدولت ڈینگ شاؤ پنگ سے ایک قدم آگے ماؤ کے برابر آ کھڑے ہوئے ۔شاؤپنگ کے بعد چین کی معاشیات ،سماجیات اور سیاست شی جن پنگ سے سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے ۔ ان کی شروع کردہ اینٹی کرپشن مہم نے مطلوبہ اہداف کے حصول میں ا ہم کردار ادا کیا اور کرپشن میں خاصی کمی دیکھنے کو ملی۔

یہی وجہ ہے کہ چین اب 2050 تک دنیا کی سب سے بڑی معاشی قوت بننے کی راہ پر برق رفتاری سے گامزن ہوچکا ہے ۔اس دوڑ میں یقیناٰ امریکہ چین سے پیچھے جاتا ہوا نظر آتا ہے ۔چین کی حیران کن ترقی کی بڑی وجو ہا ت میں ریا ستی ہدا یا ت کے مطا بق کی جانے ولی سرما یہ کاری اور انفراسٹرکچر کی ترقی ہے۔ گورننس پربھر پور توجہ دینے کے با عث ہی آج چین میں حکومت سنجیدہ اور منظم نظر آتی ہے چین کی لیڈر شپ معاشی اور سما جی ترقی کے اہداف حاصل کر نے پر ہی اپنی توجہ مرکوز رکھتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ صدرشی جن پنگ’’چینی خصوصیات کا حامل اشتراکی نظام‘‘دنیا بھر کے  لیے ترقی کے کئی راستے حاصل کرتا دکھائی دیتا ہے۔

تاہم چینی قیادت کو سمجھنا ہوگا کہ کہ گزشتہ دو یا تین عشروں میں چین نے جہا ں ایک طرف بھرپور معاشی ترقی کے ثمرات سمیٹے تو دوسری جانب وہاں پر دولت کی انتہا ئی عدم مساوات پر مبنی تقسیم کو بھی جڑ سے اکھاڑنے کی سعی کی جائے ۔آئیے چین کے اس ترقی کے سفر کو تاریخی تناظر میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ چین نے یہ سفر کسی آرام دہ شاہراہ پر طے نہیں کیا بلکہ اس کی راہ میں ہمالیائی مشکلات بھی آئیں جن سے گزرنے کے بعد ہی آج چین مستقبل کی عظیم سپرپاور بننے کے راستے پر شان سے گامزن ہے۔ چینی انقلاب نے اس چینی سماج کو ہمیشہ کے  لیے بدل کر رکھ دیا جو ایک افیون زدہ سماج کہلاتا تھا۔

چینی قوم تساہل کی اتھاہ پستیوں میں ڈوبی ہوئی تھی ۔ایسے میں اپنے عظیم لانگ مارچ کے ذریعے ماؤزے تنگ نے گوریلا جنگ لڑتے اس قوم کی کایا ہی پلٹ دی ۔اور چین میں جاگیرداری نظام کو ہمیشہ کے  لیے جڑ سے نکال پھینکا ۔اس وسیع و عریض ملک کے کسان اور مزدور ماؤ کے شانہ بشانہ کھڑے ہوگئے اور چین کے تابندہ دور کا آغاز ہوگیا ۔قوم پرست چین کے علمبرداروں کو شکست دینے کے بعد ماؤ نے چینی سماج و سیاست کو بدل کر رکھ دیا ۔ملک میں ایک جماعتی نظام رائج ہوا ۔اور چینی طرز کا سوشلزم رائج کر دیا گیا ۔ اس دور میں چین عالمی دنیا سے کٹ کر رہ گیا ۔روس اور امریکہ کے ساتھ تعلقات خاصے کشیدہ رہے ۔تبت اور سنکیانگ میں طاقت کے زور پر اپنا تسلط قائم کیا گیا۔

چینی معاشرے میں ماؤ پرستی کے نام پر شخصیت پرستی بھی اپنے جوبن پر نظر آئی۔ اس دور میں سب سے خوفناک دور ثقافتی انقلاب کا تھا جو کہ 1966 تا 1976 برپا ہوا ۔ایک سماجی وسیاسی تحریک کی آڑ میں چین میں سیاست اور سماج سے بورژواء کلاس کو کچلنے کے نام پر کریک داؤن کیا گیا ۔ماؤ نے ریڈ گارڈز تشکیل دیے۔ یوں ماؤ نے انقلاب بندوق کی نالی سے برآمد کرنے کے نعرے کو عملی طور پر کر دکھایا۔اس ثقافتی انقلاب اورکمیونسٹ نظریے کے تحفظ کے نام پر بدترین تشدد کا دورچلا ۔چین کی قدیم تہذیبی ،تاریخی اور مذہبی ورثے کو اس انقلاب میں شدید ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔

نامور چینی فلسفی کنفیوشش کی تعلیمات چینی معاشرے سے مٹانے کی بھرپور کوششیں کی گئیں۔ چینی شہروں میں بسنے والوں کو دیہات میں بسنے کی ترغیب دی جاتی رہی۔ بعد ازاں1981 میں کمیونسٹ پارٹی نے اس ثقافتی انقلاب کو عوامی جمہوریہ چین کے قیام سے اب تک کا سب سے زیادہ ضررساں واقعہ قرار دیا۔ اس تحریک نے دس سال میں چینی معاشرے اور معیشت کو گویا جامد کر کے رکھ دیا تھا۔

ماؤ کے بعد چین میں ڈینگ شاؤ پنگ کا دور آیا جس کو جدید چین کا معمار بھی قرار دیا جاتا ہے ۔اس نے ادراک کر لیا تھا کہ صرف ر یاستی سوشلزم کے ماڈل سے ترقی نہیں ہو سکتی۔چنا نچہ چینی راہنماوں نے معا شی اصلاحات کے ذریعے ملک میں مر کزی منصوبہ بندی کے ساتھ ساتھ منڈی کے نظام کے لیے بھی گنجائش پیدا کر دی جس سے چین کی معیشت دیکھتے ہی دیکھتے ترقی کی نئی بلندیوں کو چھونے لگی۔

ڈینگ شاؤ پنگ نے چین کے سوشلزم کے ڈھانچے میں اصلاحات متعارف کرائیں اور چین کو منڈی کی سیاست یعنی مارکیٹ اکانومی و اشتراکیت میں داخل کیا اور چین میں دھیرے دھیرے ذاتی ملکیت کی جانب سفر شروع کیا گیا ۔یہ اقدام بلاشبہ ایک نئے چین کی بنیاد تھی لیکن اس کے ساتھ ماؤ کی بنیادی اور روایتی تعلیمات سے انحراف بھی تھا ۔ان اصلاحات کے دورس اثرات رہے اور نجی شعبہ معیشت میں سرگرم ہونا شروع ہوگیا ۔شاؤپنگ کو سوشلٹ نظریے اور مارکیٹ اکانومی کے ادغام کا بھی معمار بھی کہا جاتا ہے۔

اس نے چین کو بیرونی سرمایہ کاری کے  لیے کھول دیا اور یوں چین تیزی سے ترقی کرتی معیشتوں میں شامل ہوتا گیا ۔ جس سے عوام کا معیار زندگی بھی بڑھا ۔جہاں اس پر 1989 کے تیامن مظاہروں کو سختی سے دبانے کا الزام لگا وہاں یہ بھی اسی کا کر یڈٹ ہے کہ ہانگ کانگ 1997 میں چین کو پر امن طور پر واپس مل گیا ۔شاؤپنگ نے چین کی سماجی جدیدیت میں بھی تاریخ ساز کردار ادا کیا ۔مگر دوسرے چینی رہنماؤں کی مانند وہ بھی شخصیت پرستی کے خبط میں مبتلا نظر آیا ۔شاؤپنگ کے اقوال نے کہ اب ہمیں عملیت پسند ہونا ہوگا ۔امیر ہونے میں ہی عظمت ہے۔اور جب مقصد چوہے پکڑنا ہو تو یہ مت سوچو کہ بلی کا رنگ کیا ہونا چاہیے ،اپنے اثرات چینی سماج پرمرتب کیے۔

اس کے بعد جیانگ زیمن کے دور 1993 تا 2003 میں چین میں سرمایہ کاری روز افزوں رہی اور ملک میں معیشت کو شاندار ترقی ملی۔ یوں چین کا عالمی کردار اجاگر ہونا شروع ہوگیا جبکہ ذاتی ملکیت کا تصور بھی عروج پر پہنچ گیا ۔ اس کے دور میں ہی ہانگ کانگ اور مکاؤ چین کی عمل داری میں آ گئے۔ اس کے بعد 2003  تا 2013 کے دور صدر ہوجن تاؤ نے بھی ایک ہم آ ہنگ سوشلسٹ سماج کے قیام کے  لیے قابل قدر خدمات انجام دیں۔

اس دور میں چین کا عالمی و معاشی اثر افریقہ اور لاطینی امریکہ تک پہنچ گیا۔ جبکہ معاشی بڑھوتری ہونے کے ساتھ ساتھ ہوجن تاؤ نے سماجی معاشی مساوات کے  لیے بھی کام کیا ۔اب قیادت کا بار شی جن پنگ کے سر ہے جو کہ کامل یکسوئی اور بصیرت سے چین کو نئی بلندیوں تک پہنچانے کے  لیے کوشاں ہے ۔یقیناٰ 32 صوبوں اور 282 میو نسپلٹیوں پر مشتمل اس وسیع و عریض ملک میں 60 کروڑ لوگوں کو خطہ غربت سے اٹھانا یقینا ان عظیم لیڈروں اور عظیم قوم کا ایسا کریڈٹ ہے جس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی ۔تاہم مغربی اور جنوبی چین ابھی تک سینٹرل اور شمالی چین سے ترقی کی دوڑ میں پیچھے ہیں لیکن اب ون بیلٹ اور ون روڈ کے تحت چین ان پسماندہ رہ جانے والے علاقوں کو بھی اٹھا رہا ہے تاکہ یہاں بھی لوگوں کا معیار زندگی بہتر ہوسکے۔

یہی وجہ ہے کہ شی جن پنگ نے ون بیلٹ ون روڈ کو پراجیکٹ آف سنچری قرار دیا ہے ۔آج چین ایک روایتی اشترا کی چین سے جدید چینی خصوصیات رکھنے والے سوشلٹ چین تک ایک طویل سفر طے کر چکا ہے۔ جس کی معیشت کارپوریٹ رنگ میں ڈھل کر جدیدیت کی جانب گامزن ہے اور جو بلاشبہ دنیا کا معاشی اور گروتھ انجن کہلاتا ہے ۔اور جس کی عظیم فوج پیپلز لبریشن آرمی 2050 تک ایک جدید اور سریع الحرکت فوج بننے کے عمل میں قدم رکھ چکی ہے۔ جبکہ شی جن پنگ 2020 تک ایک ایسے خوشحال سماج کی تشکیل کرنے میں مصروف عمل ہیں جو ڈیڑھ ارب عوام کے معیار زندگی کوتیز رفتار معاشی ترقی کے ذریعے ایک نئی جہت عطا کرے گا ۔ شی جن پنگ نے قوم سے خطاب میں بالکل بجا کہا ہے کہ’’ آج ہم ایک ارب چینی خوشی اور عظمت کے ساتھ رہ رہے ہیں ۔ہماری سرمین جوش سے دمک رہی ہے ہماری چینی تہذیب انمٹ وقار سے مہک رہی ہے ‘‘۔

About حسین جاوید افروز 84 Articles
حسین جاوید افروز جیو نیوز سے وابستہ صحافی ہیں۔